پروفیسر علی نقی خان کی علمی ،ادبی ،تحقیقی اور تنقیدی کامرانیوں کی پوری دنیا میں دھاک بیٹھ گئی ہے۔ انھوں نے ناول، افسانے، شاعری، سوانح اور تنقید وتحقیق کے موضوعات پر بیس کتب لکھ کر اپنی تخلیقی فعالیت کا لو ہا منوایا ہے۔ انسان کا نفس اُسے کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتا۔ نفس کی یہی سر کشی اس ناول کا موضوع ہے۔ نفس امارہ کی اسی کشا کشامیں روز و شب بسر ہوتے ہیں مگر انسان کو پتا تک نہیں چلتاکہ وہ پیہم خسارے میں جارہاہے ۔تاریخی حقائق سے معلوم ہوتاہے کہ انکار سے مقامات بلند کھودینے کے بعد ابلیس نے روزِ ازل سے انسان کو سرکشی اختیار کرنے کا تہیہ کر رکھاہے ۔ مرزا اسداللہ خان غالب ؔ نے نفس امارہ کی اسی نوعیت کی سر کشی کو اس شعرکے قالب میں ڈھالا ہے :
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کُفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
تخلیق ادب پروفیسر علی نقی خان کی زندگی کا نمایاں وصف اور اہم ترین مقصد ہے ۔ اردو فکشن میں پروفیسر علی نقی خان کا اسلوب محدب عدسے کے مانند منفرد ہے ۔اس زیرک اور معاملہ فہم ادیب کی نگاہ سے معاشرتی زندگی کی کوئی بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ اپنے معتمد ساتھیوں اور قریبی احباب کے ساتھ معتبر ربط ،توقعات ،خواہشات ،اُمنگیں اور تمنائیں وابستہ رکھنا انسانی فطرت ہے ۔جب یہی جذبات دِل کو زور بے قرار کرتے ہیں تو تزکیہ نفس کی خاطرقلم و قرطاس کا سہار لیا جاتا ہے ۔دلِ خوش فہم کے ارمان اور جذباتی ہیجان جب الفاظ کے قالب میں ڈھل کر کاغذکے صفحے پر منتقل ہوتے ہیں تو ان کی اثر افرینی قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے اور سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پروفیسر علی نقی خان کے ناول اور افسانے اسی قسم کے جذبات سے مزین تحریروں کے امین ہوتے ہیں ۔یہ ناول جب معاملہ فہم قاری تک پہنچتے ہیںتو طلسم ہوش رُبا کی صورت میں روح اور قلب کو ملاکر اس طرح اپنا رنگ جماتے ہیں کہ قاری ششدر رہ جاتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ناول نگار کے مافی الضمیر کے آئینہ دار جذبات جو کاغذ کے ایک بے جان سے ٹکڑوں پر لکھے ہوتے ہیں قارئین کو مصاحبت اور پر جوش معانقے کی مروّت کا احساس دلاتے ہیں ۔ اپنے ناولوں میں کارِ جہاں کی عکاسی کرتے وقت پروفیسر علی نقی خان نے اپنے تجربات ،مشاہدات اور قلبی کیفیات کو جس حقیقت پسندانہ انداز میں پیرایۂ اظہار عطا کیا وہ ان کی جرأتِ اظہار کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ناول نگار اپنے ذہن و ذکاوت،بصیرت اور ذوق سلیم کو بروئے کار لا کر نہایت اعتماد اور راز داری سے کام لے کر قارئین کو اپنے حالِ دِل سے آ گاہ کرتے وقت یدِ بیضا کا معجزہ دِکھاتا ہے ۔ ناول کے پلاٹ ،کردار اور تکلم کے سلسلوںکے مطالعہ سے پروفیسر علی نقی خان کی علم دوستی ،ادب پروری اور جذبۂ انسانیت نوازی کے تمام پہلو کُھل کر سامنے آ جاتے ہیں ۔اچھے ناول کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ان میں اپنا ئیت اور بے تکلفی کی فراوانی ہوتی ہے۔ ابد آشنا اسلوب سے مزین ناول میں سنی سنائی بے سرو پا باتوں، حِزم وحِجاب اور تصنع کا کہیں شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ پروفیسر علی نقی خان کے ناول معاشرتی زندگی کی حقیقت پسندانہ ترجمانی اور کرداروں سے ادھوری ملاقاتوں کے آئینہ دار ہوتے ہیں جن میںخلوص و مروّت کی نگاہیں ،پیار و ایثار کی پناہیں ،واردات ِقلبی کی گھاتیں ،تنہائی میں بیتنے والی راتیں ،پرانے آ شنا چہروں کی باتیں ،ایام گزشتہ کی یادیں ،برادرانِ یوسف کے ستم اور الم نصیبوں کی فریادیںاس انداز میںجلوہ گر ہوتی ہیں کہ لوحِ دِل پر ان کے انمٹ نقوش مرتب ہوتے ہیں ۔ فنی اعتبار سے ناول نگاری کو بالعموم دوہری مسرت و انبساط کی امین تخلیقی فعالیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس معرکہ آراناول کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت اس تخلیقی فعالیت کی حقیقت کُھل کر سامنے آ تی ہے پہلی مرتبہ یہ لمحۂ موجود کے بارے میں ایک گونہ بے خودی ،نشاط اور سرشاری کو مہمیز کرتی ہے ۔ا س کے ساتھ ہی زندگی کی مسحور کن یادوں ،ایام ِگزشتہ کی کتاب کے اوراق اور لوحِ دِل پر نقش پیمانِ وفا کا انسلاک بھی ناول میں موجودسرکش عناصرکے کردار کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ جس وقت جانگسل تنہائیوں اور سمے کے سم کا ثمر زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دے تو ایسے لمحے میں وفا شعار احباب کے آئینہ ٔ ایام کی یہ ادا طلوع ِ صبحِ بہاراں کی نوید لیے افق ِ خیال پر طلوع ہوتے ہیں جن کی عطر بیزیاں قارئین کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتی ہیں۔پروفیسر علی نقی خان کے اس ناول میں ایک جہاں دیدہ ادیب نے معاشرتی زندگی میںآلامِ روزگار کے پاٹوں میں پِسنے والے کے مجبور و مظلوم انسانوں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ قابلِ توجہ ہے ۔ پروفیسر علی نقی خان کی دُور بین نگاہوں نے اس تلخ حقیقت کو دیکھ کر دلی کرب کا اظہار کیا ہے کہ تخلیق ادب میں ہامری بے توفیقی نے زندگی کے تلخ و تُند حقائق سے شِپرانہ چشم پوشی کووتیرہ بنا رکھاہے ۔ضعفِ بصار ت کے موجودہ دور میں ہیولے ،بگولے اور گرد باد کو گھنگھور گھٹا کہنے والے بھاڑ جھوکنے والے مسخروں نے لُٹیا ہی ڈبو دی ہے ۔اس ناول کے ایک ایک لفظ سے پروفیسر علی نقی خان کی آ نکھوں میں پائی جانے والی دردمندی اور خلوص کے احساس کی نمی جھلکتی ہے ۔میں یہ ناول پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھاکہ پروفیسر علی نقی خان جیسے فطین ناول نگار کو مابعد الطبیعات اور پیرا سائیکالوجی پر بھی کامل دستر س حاصل ہے ۔اس ناول کے الفاظ کا مرہم کس قدر کارگر ہے وہ اس میں درج جملوں سے عیاں ہے ۔اسناول میں بے لوث محبت کی چاشنی ،بے باک صداقت کی تمازت اور حریت فکر کی عطر بیزی اس ناول کو حیران کن ادب پارے کا درجہ عطا کرتی ہے ۔ پروفیسر علی نقی خان نے ہمیشہ ادب کے مجھ جیسے معمولی گوشہ نشیں طالب علم کی بر جستہ اور ارتجالاً لکھی گئی تحریرو ں کی غیر معمولی پزیرائی کی۔ در اصل یہ ایک کہنہ مشق ادیب کی ایسی حوصلہ افزائی،سعادت مندی اور انکسار ہے جس کے لیے دِل سے دعا نکلتی ہے ۔سپاس گزاری ،حوصلہ افزائی ، بر محل ستائش و تحسین اور تشریح و توضیح کا یہ ارفع معیار میر ے احبا ب کو ورطۂ حیرت میںڈال دیتا ہے۔ پروفیسر علی نقی خان نے ایک ملاقات میں اردو ادب میں صحت مند تنقید کے فقدان کی جانب اشارہ کیا ہے ۔شاید اسی وجہ سے پروفیسر کلیم الدین احمد نے اردو میں تنقید کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتھا اور اپنی کتاب ’’ اردو تنقید پر ایک نظر ‘‘میں لکھا تھا:
مشکل ہے کہ اِک بندہ ٔ حق بِین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دماوند
’’ اُردو میں تنقید کا وجود محض فرضی ہے ۔یہ اقلید س کا خیالی نقطہ ہے یا معشوق کی موہوم کمر ۔‘‘ ( کلیم الدین احمد : اردو تنقید پر ایک نظر ،لکھنو 1957،صفحہ 10)
صنم کہتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے ؟کس طرف کو ہے؟ کدھر ہے؟
ہمارے معاشرے میں ادیب کی زندگی میں اس کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرنے کے سلسلے میں جس اذیت ناک بُخل اور افسوس ناک بے حسی کامظاہرہ کیاجاتا ہے وہ قومی وقار اور ملی تشخص کے لیے بہت بُرا شگون ہے ۔ اردو کے عظیم مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے کی جانب متوجہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’ ’ اگر کوئی اُردو نقادکسی مصنف کی تعریف کرے تو جان لو کہ دونوں میں سے ایک وفا ت پا چکا ہے ۔‘‘ ( زر گزشت )
پروفیسر علی نقی خان نے جب مجھے اپنی تصانیف کا سیٹ پیش کیا تو ممنونیت کے جذبات سے میری آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں ۔بے لوث محبت ،ہمدردانہ روّیے ،اصلاح کے جذبے ،ایثار و دردمندی اور غم گساری کی تڑپ کا احساس دلانے والی ایک آ ہ بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ اسے ہر حال میں احاطہ ٔ تحریر میں لایا جائے اور اس کیفیت کو تزکیہ ٔ نفس کی خاطر کسی محرم راز تک پہنچایا جائے ۔اس طرح آنے والی نسلیں اِن وقیع تصانیف کا مطالعہ کر کے اس کی تحسین کر سکیں گی ۔فنون لطیفہ کی مہکار ،طائرانِ خوش نوا کی چہکار ،قلبی کیفیات کا اظہار ،تخیل کی جولانی ،تخلیقی فعالیت کی پیہم روانی ،فہم و فراست کی فراوانی ،زندگی کا ساز ،بے تکلفی کا انداز اورپیمانِ وفا کا رازسب کچھ پروفیسر علی نقی خان کی تصانیف اور اُن کے دِل گداز اسلوب کے معدن میں پنہاں ہے ۔یہ ناول انسان کی فہم و فراست اور تدبر کی حقیقی کیفیت کو سامنے لاتا ہے اور نفس کی سرکشی کے سامنے سد سکندر ی بن کر حائل ہونے پر مائل کرتاہے ۔ایک فر د کی آ پ بیتی کے ناول بھی دِل پر اُترنے والے سب موسموں کی کیفیات کا دل کش منظر پیش کرتے ہیں ۔اپنے جذبات ،احساسات ،خیالات اور تاثرات کو پوری دیانت اور صداقت کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھالنا ایک مسحور کن اور چونکا دینے والا تخلیقی عمل ہے ۔ پروفیسر علی نقی خان کی ناول نگاری کو ایک ایساتخلیقی پارس سمجھنا چاہیے جو مِسِ خام کو کندن بنانے کی صلاحیت سے متمتع ہے ۔ جب انسان کی کشتیٔ جاں آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں اور طوفان ِ حوادث کی زد میں آتی ہے تو ہجوم غم میں اس کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور یاس و ہراس کے پیدا کردہ اضطراب کے باعث اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ ایسے لرزہ خیز اور اعصاب شکن لمحات میں جب بہ زبان و قلم سے ناول کی صورت میں تکلم کے سلسلوں کا آغاز ہوتاہے تو غم کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور ہجر میں بھی وصال کی راحت کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔
اپنے اس ناول میں پروفیسر علی نقی خان نے انسانی مزاج ،جذبات ،جبلت، احساس اور فطرت کی جس موثر انداز میں ترجمانی کی ہے وہ لائق تحسین ہے ۔ انھوں نے تحقیق و تنقید کو قلزمِ ادب کی غواصی کی ایک مستحسن صورت میں بدل دیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے غواص تو ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہ مِل سکیں گے۔جدید دور میں زندگی کی برق رفتاریوںنے عمیق مطالعہ کے مواقع معدوم کر دئیے ہیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ کریم اس فلسفی ادیب کو سلامت رکھے اور وہ اسی جوش اور ولولے کے ساتھ اصلاحی کاموں میں مصروف ر ہے ۔