ساز و سامان ہندوستان ہی میں چھوڑ دیا، بس کتابیں ساتھ لے آئے بچپن میں تخیلاتی کلاس کو پڑھایا کرتا تھا، سی آئی ڈی اہل کارڈھونڈتے ہوئے گھر پہنچ گئے تھے
ممتاز شاعر، نقاد اور استاد، پروفیسر سحر انصاری کی کہانی
اقبال خورشید
عکاسی: محمد مہدی
وہ ایک خاموش، دھول زدہ سہ پہر تھی۔
سردیں رخصت ہوچکی تھیں۔ کراچی آرٹس کونسل اپنی معمول کی گہماگہمی کی اُوردھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔ وہیں، اس عمارت کے ایک شانت کمرے میں ہم اُن کے روبرو تھے۔وہ جو کراچی کی ادبی تاریخ ہیں، جن کی باتوں سے وہ زمانہ جھلکتا ہے، جب فٹ پاتھ پر سستی کتابوں کے اسٹال لگا کرتے تھے۔ ایلفی اسٹریٹ پر حمید کاشمیری کے کیبن کے پاس ایک ایرانی ہوٹل میں ادیب اور شاعر اکٹھے ہوتے۔ قمر جمیل، سلیم احمد اور احمد ہمدانی کے گھر محفل جمتی۔انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقہ
¿ ارباب ذوق کی نشستیں ہواکرتیں۔ جوش، فیض اور رئیس امرہووی جیسے شعرا مشاعروں کی صدارت کرتے۔
پروفیسر سحر انصاری ایک فرد نہیں، ادارہ ہیں۔ پانچ عشرے تدریس کے شعبے کو دیے۔ شعری سفر اُس سے بھی طویل۔شہرکے ادبی منظر پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ایک سمت جہاں شاعر اور نقاد کی حیثیت سے قابل احترام ٹھہرے، وہیں ادبی اداروں کی تشکیل و تنظیم میں پیش پیش رہے۔ اس شہر کی روشنیوں کو اندھیروں میں بدلتے ہوئے بھی دیکھا۔ جب جب یہ موقع آیا، علم کی شمع جلائی۔
خوش لباس آدمی ہیں۔ عام طور سے سوٹ میں دکھائی دیتے ہیں۔ شلوار قمیص پہنتے ہیں، تو انتخاب سے نفاست جھلکتی ہے۔ اس موضوع پر بات نکلی، تو بولے،”مجھے یہ خیال رہتا ہے کہ اگر آپ Presentable نہیں ، تو کسی کو بھلا کیا ضرورت ہے کہ آپ کا سواگت کرے ۔“ شخصیت کا ایک پہلو دراز گیسو بھی ہیں۔ بال شانوں تک آتے ہیں۔یہ انداز پراناہے۔ کہتے ہیں،”کچھ تو ہمیں خود بھی لمبے بال پسند تھے، کچھ لوگوں نے بھی اس ہیراسٹائل کی تعریف کی۔ تو انسان من بھاتا بھی پہنتا ہے، دوسروں کی پسند بھی پیش نظر رکھتا ہے۔اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ۔“
یہ عام خیال ہے کہ ادبی اور تنظیمی سرگرمیوں کی وجہ سے اُن کی تخلیقی کاوشیں متاثر ہوئیں۔ البتہ وہ اس سے متفق نہیں۔کہتے ہیں،”ٹائم مینجمنٹ کا عادی ہوں۔ ہر کام کے لیے وقت مقرر کر رکھا ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ اپنے مفاد کو عزیز نہ جانا۔اوروں کے لیے بھاگ دوڑ کی ۔“
ادب کے مانند فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں میں بھی دلچسپی ہے۔موسیقی اور مصوری کے پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔ اِن شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی پروفیسر صاحب سے بڑے احترام سے پیش آتی ہیں۔ اِس ضمن میں ممتاز ستار نواز، استاد رئیس خان، ان کی بیگم بلقیس خانم اورستار نواز، استاد نفیس احمد کا تذکرہ کرتے ہیں۔اس بات کے قائل ہیں کہ فنون لطیفہ کی تمام اصناف کو ایک چھت تلے ہونا چاہیے۔ یہ مناسب نہیں کہ موسیقار ادب سے دُور ہو، ادیب ستار نہ سنے۔
یہاں کچھ دیر ٹھہر کر اُن کے حالات زندگی کا جائزہ لے لیا جائے:
جنھیں ہم سحر انصاری کے نام سے جانتے ہیں، ان کا اصل نام انور مقبول انصاری ہے۔ وہ277 دسمبر 1941کواورنگ آباد، دکن میں پیداہوئے۔ اُن کے والد، مقبول احمد چشتی ریاست میں مہتمم خزانہ تھے۔ شفیق آدمی تھے۔ شعر و ادب میں دلچسپی رکھتے تھے۔ بہن بھائیوں میں سحر صاحب کا نمبر چوتھا ۔ بچپن کی یادوں میں سب سے گہرا نقش سقوط حیدرآباد نے چھوڑا۔ اسی واقعے نے شعر کہنے پر اکسایا۔سقوط کے بعد کچھ عرصے خاندان بمبئی میں رہا۔ پھر کراچی چلا آیا۔یہاں جیکب لائن میں رہائش اختیار کی۔
مستقبل اردوادب سے جڑاتھا، مگر اوائل میںان کا مضمون سائنس رہا۔گورنمنٹ کالج، ناظم آباد نے زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، جو اس زمانے میں نیا نیا تھا۔ گریجویشن ادھر سے کیا۔ 65ءمیں جامعہ کراچی سے انگریزی، 68ءمیں اردو میں ایم اے کیا۔طلبا سیاست میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا حصہ تھے۔ حسین نقی، معراج محمد خاں اور فتح یاب علی خاں جیسے طلبا رہنماﺅں سے تعلق رہا۔ احتجاجی مظاہروں میں آگے آگے رہتے۔ ایک روزسی آئی ڈی اہل کارڈھونڈتے ہوئے گھر پہنچ گئے تھے۔خوش قسمتی سے گھر پر نہیں تھے۔ یوں گرفتاری سے محفوظ رہے۔
ہفتہ وار پرچے ”نئی جمہوریت“ کے 1755 روپے ماہوار پر ایڈیٹر ہوئے، تو عملی سفر شروع ہوا۔ تدریسی سفر کا آغاز 72ءمیں بلوچستان یونیورسٹی سے کیا۔یہ واقعہ ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ کہتے ہیں،”میں بچپن میں ایک تخیلاتی کلاس کو پڑھایا کرتا تھا۔ چار پانچ سال کا تھا۔ سامنے خالی کرسیاں لگا لیتا۔دروازوں پر چاک سے لکھا کرتا۔ گویااستاد بننا میرا آئیڈیل تھا، اور بلوچستان یونیورسٹی کی پیش کش زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔“اس زمانے میں کئی جید اساتذہ اس یونیورسٹی کا حصہ تھے۔ پروفیسر کرار حسین وائس چانسلر، پروفیسر مجتبیٰ حسین شعبہ
¿ اردو کے صدر تھے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی نے شعبہ
¿ انگریزی سنبھال رکھا تھا۔ جن طلبا کو اس زمانے میں پڑھایا، اُن سے آج بھی رابطہ ہے۔ ماضی کے کوئٹہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، ”وہ اچھا زمانہ تھا۔ اب تو لگتا ہے کہ تعمیر کے نام پر اُسے ادھیڑ دیا گیا ہے۔ پرسکون ماحول تھا۔ بلاخوف انسان کہیں بھی چلا جاتا ۔ اب وہ فضا نہیں رہی۔ تخریب کاری، مسلکی اور لسانی تقسیم نے اس شہر کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔“
74ءمیں جامعہ کراچی کا حصہ بن گئے۔ آنے والے برسوں میں کورنیل یونیورسٹی (امریکا)، دائتوبنکا یونیورسٹی (جاپان)، جناح یونیورسٹی برائے خواتین (کراچی) اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں ذمے داریاں نبھائیں۔ اس وقت کراچی یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کا حصہ ہیں۔ تدریس کے ساتھ تنظیمی سطح پر بھی سرگرم رہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان سے تعلق پرانا ۔ادھرادبی کمیٹی کے چیئرمین اور نائب صدر
رہے۔اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے لائف فیلو ہیں۔ادبی ماہ نامے ”افکار“ سے وابستگی رہی۔ اردو ڈکشنری بورڈ، کراچی کے مدیرِ اعلیٰ رہے۔ سہ ماہی تمثال، کراچی کی ادارت سنبھالی ۔دو برس انجمن ترقی اردو پاکستان کے نائب معتمد برائے ادبی امور رہے۔
اب ذراادبی سفر پر بات ہوجائے:
کچھ توگھر کا ماحول تھا، کچھ مطالعے کا اثر ،شعر کہنے کا سودا سمایا۔اس میدان میں جالب مراد آبادی کی شاگردی اختیار کی، جوجگر کے ہم عصر تھے۔ناظم آباد میں ”بزم خیال“ کے تحت ہونے والے ایک طرحی مشاعرے سے وہ سفر شروع ہوا، جو انھیں اپنے عہد کی ممتاز شخصیت بنانے والاتھا۔ آنے والے برسوں میں کئی جید شعرا کی صحبت میسر آئی۔ 76ءکے آس پاس پہلا مجموعہ ”نمود“ شایع ہوا۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ دوسرا مجموعہ ”خدا سے بات کرتے ہیں“ 2010 میں منصہ شہود پر آیا۔جو تنقید لکھی، اسے بھی کتاب میں ڈھالا۔ عنوان رکھا: ”تنقیدی افق“ ۔ فیض کی شخصیت اورفن توجہ کا موضوع بنا، تو اُسے ”فیض کے آس پاس“ کے زیر عنوانی کتابی شکل دی۔اس کتاب کو سندھی روپ بھی دیا گیا۔ جوش پر خاصا کام کیا۔جو کتابیں شایع ہوئیں، وہ تو اہم ہیں ہی، جو زیرترتیب ہیں، وہ بھی قارئین کو چونکاتی ہیں۔عنوانات دیکھیے:”پردہ سخن کا“، ”تعارف لسانیات“، ”چند جدید شعرائے اردو“، ”چند جدید افسانہ نگار“، ”اردو تنقید اور عصری رویے“، ”پاکستانی معاشرہ اور اردو ناول“۔انھیں کئی نشان سپاس پیش کیے گئے۔ دو نمایاں۔2005 میں حکومت پاکستان نے تمغہ
¿ امتیاز سے نوازا۔ 2011 میں ایک بینک اور اخبار کے اشتراک سے شروع ہونے والا ایکسی لینس ایوارڈ ملا۔
اس خیال سے وہ متفق نہیں کہ اردو کی معیشت کمزور ہے، اور اس مضمون کے طلبا کو ملازمتیں نہیں ملتیں۔ انھوں نے تودیگر مضامین کے مقابلے میں اردو پڑھنے والوں کو کم بے روزگار پایا کہ یہ زبان روزگار سے جڑی ہے۔ درس گاہوں میں اردو کا مضمون لازمی،میڈیا کی زبان اردو، تراجم اور تدوین کے میدان میں اردو والوں کی کھپت۔
مشاعروں کے گھٹتے کلچر کا اُنھیں دُکھ ہے۔ کہنا ہے؛ استاد اور شاگرد کا ادارہ پہلے جیسا موثر نہیں رہا۔ اوراب سیکھنے کا رواج نہیں رہا۔ صاحبِ دیوان شعرا کے ہاں بھی وزن اور بحر کی غلطیاں نظر آتی ہیں۔اردو فکشن کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، جہاںنئے موضوعات پرلکھا جا رہا ہے۔کلاسک میں قرة العین حیدرکے معترف ۔ ”آگ کا دریا“ کی ادبی حیثیت کے قائل ۔
اوروں کے برعکس وہ صنف غزل کی بابت کسی اندیشے کا شکار نہیں۔ کہتے ہیں، اس کی روایت قدیم ۔ ہماری شاعرانہ ذہانت کا سب سے زیادہ اظہار غزل ہی کی صورت ہوا ہے۔تمام بڑے شعرا نے غزل کہی۔ ہاں، ایک زمانے میں اِس کی مخالفت کی گئی۔ مولانا حالی نے اصلاحی تجاویز پیش کیں۔ لوگ نظم نگاری کی جانب متوجہ ہوئے، مگر یہ صنف عصری تقاضوں کا بوجھ اٹھانے میں کبھی پیچھے نہیں رہی۔اس نے تصوف کا احاطہ کیا۔ سماجی و سیاسی مسائل عروج پر آئے، تو انھیں موضوع بنایا۔جیسے میر کے ہاں دلی کا نوحہ ملتا ہے۔
ادبی نظریات بھی زیر بحث آئے۔ ترقی پسند ہیں، اوراس خیال سے متفق نہیں کہ یہ تحریک اپنا کردارا دا کر کے ختم ہوچکی ہے۔ کہنا ہے، ہمارے ہاں آج بھی ترقی پسند ادب قائم ہے۔ جب تک ہمارے سماجی حالات بہتر نہیں ہوتے، وہ معاشرہ قائم نہیں ہوجاتا، جو سماجی انصاف کی بنیاد پر کھڑا ہو، یہ فلسفہ باقی رہے گا۔ ” ترقی پسندوں پر اعتراض کیا جاتا تھا کہ وہ پارٹی لائن کے پابند ہیں، مگر اب یہ دور ہے کہ دائیں بائیں کو بھول جائیے،جس کا ضمیر زندہ ہے، وہ ترقی پسند ہے۔دیکھیں،معلوم ادب کی عمر پانچ ہزار برس ہے۔ اگر اس کا مشترک نکلیں، تو یہی باتیں سامنے آئیں گی کہ خیر ہونی چاہیے، رواداری، اخلاص،انسان دوستی، بہادری ہونی چاہیے۔یہی دنیا کے ادب میں پانچ ہزار برس سے لکھا جارہا ہے۔اسلوب کی تبدیلی ضرور آئی ہے، رجحان بدلاہے، مگر موضوع کی تبدیلی نہیں آئی۔“جدیدیت کو انسانی ذہن کو مسائل سے ہٹانے کا ایجنڈا قرار دیتے ہیں۔کہنا ہے، شمس الرحمان فاروقی اور گوپی چند نارنگ جیسے جدیدیت کے علم برداروں نے بھی اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہے۔“
موسیقی سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔سہگل، مہدی حسن، نور جہاںاور لتا کی آواز اچھی لگی۔ نرگس، مدھو بالا اور شبنم کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ناولز پر بننے والی فلمیں پسند ہیں۔ سردیوں کا موسم اچھا لگتا ہے۔ یخنی پلاﺅ سے رغبت ہے۔ 66ءمیں شادی ہوئی۔ خود تو علمی و ادبی محاذ پر مصروف رہے، گھریلو معاملات بیگم نے سنبھالے۔ اُن کی بیٹی، ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر ادبی حلقوں میں جانا مانا نام ہیں۔ شاعری ان کا بنیادی حوالہ۔ٹی وی میزبان کی حیثیت سے بھی شناخت رکھتی ہیں۔ ادبی جریدے”اسالیب“ کی مدیرہ ہیں۔
بکس آئٹم:
٭ اردو ہندوستان میں خطرات سے دو چار ہے؟
ہندوستانی ادیبوں سے مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ اس تناظرمیں پوچھا، کیا ادھر اردو کو مشکلات درپیش ہیں؟ بولے، وہاں والوں کو اندازہ ہے کہ صرف شاعری اور افسانے لکھنے سے زبان زندہ نہیں رہتی، اُس میں علمی کام ہونا ضروری ہے۔ ان کے ہاں تحقیق اور علمی کام ہوتے ہیں،اس کے برعکس پاکستان میں تحقیق پر کم توجہ دی گئی۔ کچھ قصور اساتذہ کا بھی رہا، جن کامقصد فقط پی ایچ ڈی کرکے الاﺅنس لینے ہوتا ہے۔اردو کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کا چلن زیر بحث آیا، تو کہنے لگے، اب اس کے منفی اثرات سامنے آنے لگے ہیں، دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے پاکستانیوںاور ہندوستانیوں کی نئی نسل اردو رسم الخط سے دُور ہوگئی ہے۔
٭ بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب، یہی ہے شاعری!
ولیم ورڈز ورتھ کے اس خیال سے متفق ہیں کہ شاعری بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب ہے۔ آتش کابھی حوالہ آیا، جس نے کہا تھا: شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا!اس تناظر میں نثر ی نظم کی دقتوں کا تذکرہ کرتے ہیںکہ جب بحر، ردیف، قافیہ چھین لیے جائےں، تو فقط خیال اور احساس سے شاعرانہ آہنگ پیدا کرنا مشکل ہے۔ہاں، ترجمے کے میدان میں نثری نظم کی صنف کو مفید پایا۔بہ قول ان کے،” بیرونی شاعری کے جو پابند تراجم ہوئے، وہ اپنی اصل کی فضا کے اتنے قریب نہیں پہنچ پاتے، جتنے نثری نظم کی صورت ہونے والے ترجمے پہنچ جاتے ہیں۔“
٭ ادیب رائے عامہ کا نمائندہ نہیں رہا!
ادیبوں کو ہرسال حکومتی تمغوں سے نوازا جاتا ہے، کتابیں چھپتی ہیں، کانفرنسیں ہوتی ہیں، مگر یوں لگتاہے، ادیب اب غیر اہم ہوگیا ہے؟ اس ضمن میں کہتے ہیں، ”یہ تکلفاً ایک خانہ بنارکھاہے کہ جہاں زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو اعزازات دیے جارہے ہیں، تو ان ادیبوں کو بھی دے دیے جائیں۔“پہلے فیض اور جالب رائے عامہ کے نمائندے تھے، ایسا کیا واقعہ ہوا کہ یہ منصب ادیبوں سے چھن گیا؟ بولے،”ادبی ادارے ختم ہوگئے ۔ پہلے کالج اور یونیورسٹیوں میں بزم ادب ہوتی تھی۔ اسٹوڈنٹ یونینز ہوتی تھیں۔ ادبی شخصیات کو درس گاہوں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ اسی روش کومیڈیا بھی اختیار کیا کرتا۔ مگر جب یہ سب بند کردیا گیا، تو پبلک اس سے دور ہوگئی۔“
٭ ادیبوں کی بیٹھکیں کس نے چھین لیں؟
اب یہ ماضی والا کراچی نہیں رہا، جہاں ادبی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ ہاں، ادبی میلے اور کانفرنسوں کا چلن ہوگیا ہے۔ کیا ان سرگرمیوںنے نشستوں کی کمی کو پورا کیا؟ کہنے لگے،”ادبی میلے اور کانفرنسیں ادب کا جمعہ بازار ہیں۔ ٹھیک ہے، لوگ آجاتے ہیں، کچھ وقت گزر جاتا ہے، کچھ کتابیں بک جاتی ہیں، مگر زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ کبھی ادیب اور شاعرہوٹل، کیفے اور ریسٹورنٹ میں اکٹھے ہوتے تھے۔ عبداللہ ہارون کے وسط میں شیزان ہوٹل تھا۔صدر کے علاقے میں کافی ہاﺅس تھا۔ ریگل میں کیفے جارج تھا۔زیلنس کارنرمیں ریڈیو والے جمع ہوتے تھے۔ ادیبوں کی یہ بیٹھکیں اُس وقت چھن گئیں، جب ایوب دور میں اجتماعی مقامات پر سیاسی گفتگو ممنوع قرار پائی، سات بجے بازار بند کرنے کا حکم صادر ہوگیا۔ یوں ہوٹل اور کیفے کی جگہ شاپنگ پلازا بن گئے۔پھروہ لوگ بھی رخصت ہوگئے۔ اب توہم گفتگو اور مکالمے کو ترس گئے ہیںکہ کس سے گفتگو کریں، لوگوں نے پڑھنا چھوڑ دیا، سوچنا چھوڑ دیا۔“ سوشل میڈیا کے اثرات کا بھی ذکر کیا۔ بہ قول اُن کے، اس کی حیثیت معاون صحبت کی تھی، مگر اسے مرکزی حیثیت دے دی گئی، اسے کتاب کا نعم البدل ٹھہرا دیا گیا۔ وہاں ہونے والی شاعری دیکھ کر سوچتے ہیں، اس سے کمتر درجے کی شاعری کرنا ممکن نہیں۔
٭ لائبریری کراچی کو تحفتاً دینا چاہتا ہوں، مگر کوئی وصول کرنے والا ہی نہیںہے!
پروفیسر صاحب کی لائبریری علم و ادب کا خزانہ ہے۔ عشروں کی جدوجہد ہے۔ یہ شوق بڑے بھائی، اخلاق احمد انصاری سے منتقل ہوا۔ پاکستان آتے ہوئے ساز و سامان توہندوستان ہی میں چھوڑ دیا۔ بس، کتابیں ساتھ لے آئے۔ شہر کے فٹ پاتھوں سے کتابیں اکٹھی کرنے لگے۔ مشاہیرکی قربت نے اس شوق کو مہمیز کیا۔ناظم آباد کے مکان میں جگہ کم پڑنے لگی، تو ایک اور جگہ کرایے پر لے لی۔کچھ عرصے قبل شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لائبریری میں آگ لگ گئی تھی۔ کتنی ہی کتابیں ضایع ہوئیں، اس کے باوجود بھی تعداد 45 ہزار کے قریب ہے۔
ان کتابوں کا مستقبل زیر بحث آیا، تو مکالمے پر اداسی کی اوس پڑی لگی۔ وہ اس بابت فکر مند ہیں۔ کہتے ہیں، زندگی گزر گئی، اب کوئی اندیشہ نہیں، بس، اپنی کتابوں کی فکرہے۔ اس ضمن میں صدر ، گورنر اور دیگر سیاسی شخصیات سے رابطہ کیا، درخواست کی کہ حکومت کوئی عمارت دے، کوئی ٹرسٹ قائم کر دے، جو ان کتابوں کو سنبھال سکے، مگر کوئی جواب نہیں آیا۔”میں اپنی لائبریری کراچی کو تحفتاً دینا چاہتا ہوں، مگر کوئی وصول کرنے والا ہی نہیں ہے۔ یوں لگتاہے کہ یہ ضایع ہوجائیں گی۔“
ان کا یہ اندیشہ غلط نہیں۔ عام مشاہدہ ہے، مشاہیر کے انتقال کے بعد جب اُن کے کتب خانے جامعات کو عطیہ کیے گئے، توادھر کتابیں مدتوں تک بوریوں میں بند پڑی رہیں۔ اُنھوں نے اپنا تجربہ بھی بانٹا۔ کہا،”وہاں بھی کوئی پرسان حال نہیں، بلکہ وہاں کام کرنے والوں کو ناگوار گزرتا ہے۔ کہتے ہیں،لو بھئی، آگیا مُردوں کا مال۔یہ الفاظ میں نے خود سنے ہیں۔یہ کرب ناک ہے۔ ان کتابوں کو جمع کرنے پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔مارے مارے پھرتے ہیں، مگر ہمارے بعد اُن کا کوئی وارث نہیں۔“
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔