سکول ، کالج ،یونیورسٹی میں بے شمار اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ سب کی اپنی اپنی خوبیاں تھیں لیکن علمیت میں پروفیسر رشید الزماں کو برتر پایا۔
آج پروفیسر رشید الزماں کی بارہویں برسی ہے۔
وہ یکم اگست 1935 کو پیدا ہوئے اور 3 فروری 2004 کو وفات پائی۔
پروفیسر رشید الزماں اردو کے استاد تھے لیکن تاریخ والوں سے زیادہ تاریخ ، انگریزی والوں سے زیادہ انگریزی اور فلسفے والوں سے زیادہ فلسفہ جانتے تھے۔ یہی نہیں سائینس بھی۔
کچھہ اساتذہ کا ٹی کلب کالج میگزین کے دفتر سے ملحق تھا، جس کا میں مدیر تھا ،اساتذہ مجھے بھی چائے میں شریک کر لیتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے زوالوجی میں گولڈ میڈلسٹ ایک نوجوان لیکچرر ایس ای کالج میں آئے۔ ٹی کلب میں ان سے پروفیسر رشید الزماں کی گفتگو سننے کا موقع ملا۔ رشید صاحب نے ان سے جینیٹک انجنئیرنگ کو حوالے سے کچھہ سوال کئے۔ ان لیکچرر صاحب نےکہا کہ انہیں lattest معلومات نہیں، لاہور جائیں گے تو اساتذہ سے معلوم کر کے بتائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ1972 کی بات ہے۔ جب انٹر نیٹ وغیرہ جیسے وسائل نہیں تھے۔ اس کے باوجود بہاولپور میں رہتے ہوئے بھی رشید صاحب update تھے۔ وہ پی ایچ ڈی کیلئے رہنمائی کی قابلیت رکھتے تھے لیکن خود
پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی
لاہور کےایک دوست نے پروفیسر رشید الزماں سے لکھہ کر ایک سوال کیا۔ انہوں نے اتنا جامع تفصیلی تحریری جواب بھیجا کہ اس دوست نے( اپنے نام سے) کتاب چھپوالی۔
خود پروفیسر رشید الزماں کے مضامین کا بھی ایک مجموعہ پنجابی میں ’’نروار‘‘ کے نام سے چھپا۔ اردو نظمیں بھی لکھیں ۔ آخری عمر میں انگریزی شاعری اتنی کی کہ کتاب چھپوانے کا سوچ رہے تھے لیکن زندگی نے مہلت نہ دی۔ اب یہ ان کی اولاد پر ہے کہ وہ سب کچھہ جمع کرکے محفوظ کریں۔
پروفیسر رشید الزماں نےبے شمار نوجوانوں کے ذہن روشن کئے( بالخصوص بہاولنگر اور بہاولپور کے) ۔ ایک دوست جو آج کل جیو ٹی وی کے 7 بجے کے پروگرام میں خاصی عقل کی باتیں کرتے ہیں، میرے علم کے مطابق انہیں بھی جاگ پروفیسر رشید الزماں نے ہی لگائی۔ لیکن حیرت ہے کہ انہوں نے ایک انٹرویو میں اپنےبعض دوسرے اساتذہ کا ذکر تو کیا لیکن پروفیسر رشید الزماں کو بھول گئے۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=464196767303526&id=100011396218109
“