(بوسۂ نم کے حوالے سے)
پروفیسر لطف الرحمن کی ہمہ گیر ادبی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ 2/فروری 1941ء کو موضع بنیاپور، ضلع چھپرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن موضع ریونڈھا، ضلع دربھنگہ، بہار ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم سے لے کر گریجویشن تک کی تعلیم دربھنگہ میں ہوئی۔ بعدازاں وہ پٹنہ یونیورسٹی سے ڈبل ایم-اے (یعنی ایم-اے ان اردو اور ایم-ان فارسی) اور پی-ایچ-ڈی کرکے بھاگلپور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں تدریس کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ پروفیسر لطف الرحمن نے اپنے طویل علمی و ادبی سفر کے دوران اپنی متنوع تخلیقات اور تصنیفات و تالیفات کے ذریعے گراں قدر علمی و ادبی سرمایہ پیش کیا ہے اور اردو علم وادب کی دنیا میں گہرا اور یادگار اثر چھوڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو دنیا میں ان کی شناخت ایک منفرد و ممتاز ناقد اور قدآور ادیب کی حیثیت سے مسلم ہے۔ ان کی شخصیت علمی و ادبی اعتبار سے متعدد خصوصیات کی حامل ہے۔ سنجیدگی و متانت، مطالعہ کی وسعت، فکرونظر کی گہرائی و گیرائی، حق گوئی و بے باکی، جرأت اظہار، عالمانہ، فاضلانہ اور استدلالی انداز، ان کی شخصیت اور اسالیب اظہار کے نمایاں اوصاف ہیں۔ ان خوبیوں نے مل کر ان کی علمی و ادبی شخصیت کو "کرشمہ دامن دل می کشد کہ جااینجاست" کے مصداق بے پناہ پرکشش حیثیت کا مالک بنا دیا ہے۔ مولانا ولی رحمانی صاحب نے پروفیسر لطف الرحمن کی شخصیت کا خاکہ اپنے لفظوں میں اس طرح کھینچا ہے:
"پروفیسر لطف الرحمن صاحب آج کی تہذیب کے "مردآگاہ" ہونے کے باوجود عجلت کا شکار نہیں، نہ سطحیت کا مرض ان کے قریب سے گذرا ہے۔ وہ گہرےمطالعے، ڈوب کر پڑھنے، غوروفکر، تحلیل و تجزیہ اور نقد و نظر کا مزاج رکھتے ہیں۔ قدرت نے انہیں عقل کے وافر حصہ کے ساتھ عمدہ حافظہ سے نوازا ہے، جس کا وہ بہترین ایجابی مصرف لیتے ہیں۔ مرحلہ تحریر کا ہو یا تقریر کا، وہ کھرے اترتے ہیں اور پڑھنے اور سننے والوں پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ عام زندگی سے لےکر فکر و تحقیق کے مرحلوں تک ان میں جو بڑا وصف نظر آتا ہے، وہ قوت گفتار کے ساتھ جرأت اظہار بھی ہے جس سے ان کے جملے گوہر آبدار بن جاتے ہیں"۔ ( 1)
پروفیسر لطف الرحمن اردو کے ایسے ادیب ہیں جو اردو ادب میں کئی پہلوؤں سے اپنی ممتاز شناخت رکھتے ہیں۔ وہ ایک منفرد و ممتاز شاعر کی حیثیت سے معروف ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک اچھے اور صاحب نظر ناقد و محقق کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں وہ صحافی کی حیثیت سے بھی کام کرچکے اور اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ ان کی خطوط نگاری بھی علمی اعتبار سے خاصے کی چیز ہے۔ اس طرح ان کی شخصیت کے چھوٹے بڑے کئی پہلو ہیں۔ ان کی تخلیقات اور تصنیفات و تالیفات میں "تازگئ برگ نوا", "بوسۂ نم" (غزلوں کے مجموعے), "صنم آشنا", "راگ بیراگ", (نظموں کے مجموعے), "نقدنگاہ", "تنقیدی مکالمے", "تعبیر و تنقید", "جدیدیت کی جمالیات", "نثر کی شعریات", (تنقیدی مضامین کے مجموعے), "تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو", (خطوط کا مجموعہ), "راسخ عظیم آبادی", (مونوگراف), "بہاری" (ترجمہ) وغیرہ شامل ہیں۔
پروفیسر لطف الرحمن نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا لیکن آگے چل کر خاصی غزلیں کہنے کے بعد انھیں تنگنائے غزل کا احساس ہوا اور وسعت بیاں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مرزا غالب کو بھی تنگنائے غزل کا احساس ہوا تھا:
بہ قدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لئے
مرزا غالب نے احساس تنگنائے غزل کے اظہار پر ہی اکتفا کیا۔ انھوں نے نظموں کو وسیلۂ اظہار کے طور پر نہیں اپنایا لیکن پروفیسر لطف الرحمن وسعت بیاں کے لئے نظم خصوصا نثری نظم کی طرف متوجہ ہوئے۔ نتیجتا "صنم آشنا" اور "راگ بیراگ" کی شکلوں میں ان کی نظموں کے مجموعے شائع ہوئے۔ یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ پروفیسر لطف الرحمن نے بھلے ہی نظم کو تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنایا اور خوبصورت و موثر نظمیں بھی لکھیں، لیکن اس کے باوجود ان کی بنیادی اور اہم شناخت ایک غزل گو شاعر کی ہے۔ ان کی غزلوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ایک "تازگی برگ نوا"۔ اس کی اشاعت 1977ء میں عمل میں آئی۔ دوسرا "بوسۂ نم"۔ یہ مجموعہ 2007ء میں شائع ہوا۔ میرے پیش نگاہ ان کا یہی دوسرا مجموعہ ہے۔
یہ مجموعہ یعنی "بوسۂ نم" 258/صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ڈیڑھ سو سے زائد غزلیں شامل ہیں۔ ان غزلوں کے مطالعے سے جو تاثر قائم ہوتا ہے، وہ یہ کہ پروفیسر لطف الرحمن اپنے عہد کے منفرد طرز کے ممتاز غزل گو شاعر ہیں۔
پروفیسر لطف الرحمن کا شمار 1960ء کے بعد کے جدید غزل گو شعراء میں ہوتا ہے۔ جدید شاعری پر ہمیشہ سے یہ اعتراضات کئے جاتے رہے ہیں کہ جدید شاعری یعنی 1960ء کے بعد کی شاعری تنہائی، اداسی، افسردگی، ویرانی، ذات کا خلا، زندگی کی لغویت و مہملیت، بے سمتیت اور بے معنویت جیسے چند موضوعات تک محدود ہوگئی تھی اور نامانوس علامتوں و استعاروں میں گھر کر غیرضروری ابہام کا شکار ہوگئی تھی۔ یہی وہ عہد ہے جب کچھ شعراء نے فیشن زدہ جدیدیت کو اپنایا اور اپنی شاعری کو معمہ اور چیستاں بنادیا، لیکن پروفیسر لطف الرحمن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کو نام نہاد جدیدیت کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیا۔ دراصل پروفیسر لطف الرحمن تخلیق کار کی حیثیت سے آزاد اور کھلے ذہن کے حامی تھے۔ وہ سکہ بند جدیدیت کے مطلق قائل نہیں تھے۔ زندگی کو ایک خاص عینک سے دیکھنا اور اپنی شاعری کو چند مخصوص موضوعات و اسالیب تک محدود رکھنا انہیں قطعی گوارا نہیں تھا۔ انھوں نے ایک جینوئن تخلیقی فنکار کی نظر سے زندگی کو دیکھا اور ہر پہلو، ہر زاویہ سے اس پر غوروفکر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری کے موضوعات و اسالیب میں وہ فکری و فنی تنوع پایا جاتا ہے جو انہیں اپنے ہم عصروں میں انفراد و اختصاص عطا کرتا ہے۔
پروفیسر لطف الرحمن کی غزلیہ شاعری میں روایت کا احترام، کلاسیکی رچاؤ، عصری حسیت، جدت و ندرت، معنویت و تہ داری، فکری گہرائی و گیرائی، سلاست و روانی، تہذیب و شائستگی، اظہار بیان کی پاکیزگی و سادگی، یہ تمام عناصر موجود ہیں جو ان کے لہجے کو وقار عطا کرتے ہیں اور انہیں ایک معتبر و ممتاز غزل گو شاعر کی حیثیت سے روشناس کراتے ہیں۔
پروفیسر لطف الرحمن 1960ء کے بعد کے اہم شاعروں میں ہیں۔ اس عہد کی سماجی زندگی کے تمام نشیب و فراز ان کی شعری فکر کے مرکز و محور رہے ہیں۔
پروفیسر لطف الرحمن کی غزلیہ شاعری کا امتیاز یہ ہے کہ ان کی شاعری میں سماجی مسائل نے بڑی خوبصورتی سے جگہ پائی ہے۔ عہد حاضر کا اضطراب و انتشار، اخلاقی اور مذہبی قدروں کازوال، رشتوں کا انہدام، انسانیت کا قتل عام، اس پر انسانی سماج کی مجرمانہ خاموشی، اجتماعی بے حسی و بے ضمیری، مصنوعی اور مشینی زندگی، غیر حقیقی سطح پر جینے کی مجبوری، باطل کی غیرمعمولی فتح، حق کی شکست، ظلم و ناانصافی، عدم مساوات و نابرابری، انسانیت کے خلاف بربریت و بہیمیت، یہ وہ سنگین سماجی مسائل ہیں جس نے شاعر لطف الرحمن کے دل کو زخمی کرکے انھیں شدید دکھ پہنچایا ہے۔ شاعر لطف الرحمن نے اپنی غزلوں میں اسی درد و کرب کا اظہار اپنے مخصوص اسلوب یعنی بوسۂ نم کے اسلوب میں کیا ہے۔
پروفیسر لطف الرحمن نے اپنے غزلیہ مجموعہ "بوسۂ نم" کی غزلوں کے حوالے سے ایک جگہ لکھا ہے:
"میری غزلیں میری باطنی خودکلامی کی صدائے بازگشت اور میرے تلخ و شیریں تجربات کی پردۂ سخن ہیں۔ میں نے اس صدی میں اپنی آواز کی تہذیب و تحسین کا بارگراں اٹھایا جو کامیو کے لفظوں میں مکروہ ترین انسانی جرائم کے ارتکاب کی صدی ہے۔ تشدد، انتشار، بے انصافی اور انسانی جرائم کے جو ڈرامے مسلسل کھیلے جارہے ہیں، انھوں نے میرے باطن کو مسلسل عذاب میں رکھا ہے۔ اس لئے میری غزلوں میں دکھ اور انتشار کا احساس زیادہ نمایاں اور گہرا ہے۔ میرے دکھوں کی نوعیتیں مختلف رہی ہیں، کچھ بے حد ذاتی دکھ جو مجھے بے حد عزیز رہے ہیں۔ کچھ انسانیت کے انتشار کا دکھ، اخلاقی اور مذہبی قدروں کے زوال کا دکھ، کچھ ضمیر حاضر کی موت کا دکھ، باطل کی فتح اور حق کی شکست کا دکھ، کردار کی کرائسس کا دکھ، چیز اور شئے کی سطح پر جینے والے اس پورے عہد کا دکھ جو مجھے بے جان مشین کا ایک بے جان پرزہ بنانے کی مسلسل کوشش کرتا رہا ہے۔ لمحہ لمحہ ٹوٹتے بکھرتے رشتوں اور ناطوں کے اس عہد میں حقیقی سطح پر جینے کی کوشش، ہر پل صلیب کو چومنے کا دکھ، تقلید اور پروکسی (Proxy) میں جینے والوں کی اس بے پناہ بھیڑ میں لہولہان ذائقوں کے ساتھ غیر حقیقی سطح پر جینے سے انکار اور اس کی مشکلوں سے مسلسل نبردآزمائی اور اس کے دردناک نتائج کا زخمی احساس- یہ سب کچھ اور سارا کچھ- غرض یہ کہ تلخ و شیریں تجربات کا ایک امتزاج ہے میری آواز، کہ میں نے ہر چیلینج کو قبول کیا ہے اور مثبت سطح پر اپنے منفرد ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے جس نے مجھے روحانی مسرت و بصیرت عطا کی ہے"۔ (2)
پروفیسر لطف الرحمن کے اس طویل اقتباس کو نقل کرنے کا مقصد ان کی غزلیہ شاعری کے فکری ابعاد کو دکھانا ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری کا شعری تانابانا جدید عصری حسیت سے بنا گیا ہے اور اس کا خمیر عہد حاضر کی ویران، زخمی اور جھلسی ہوئی انسانی زندگی سے تیار ہوا ہے۔
پروفیسر لطف الرحمن نے اپنی غزلیہ شاعری میں عہد حاضر کی انسانی زندگی کے گوناگوں پہلوؤں کی ترجمانی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری ہمیں سماجی زندگی سے فرار نہیں سکھاتی، بلکہ عہد حاضر کی معاشرتی زندگی اور اس کی قدروں سے روبرو کراتی ہے۔ دیکھئے ان کی غزلیہ شاعری سماج کی تلخ حقیقتوں کو کس موثر پیرائے میں بیان کرتی ہے۔ ہمارے سماج میں بظاہر انسان، انسان سے قریب نظر آتا ہے لیکن حقیقتاً وہ بہت دور ہے۔ انسان، انسان کی محبت و قربت کے لئے ترس گیا ہے۔ اب انسانی تعلقات میں پہلے جیسی استواری اور گرمجوشی نہیں رہی۔ دیکھئے شاعر لطف الرحمن نے اس تلخ حقیقت اور درد وکسک کا اظہار کس خوبصورت اور موثر غزلیہ پیرائے میں کیا ہے۔
اب اتنی محبت بھی غنیمت کی طرح ہے
ہر ایک ملاقات، عنایت کی طرح ہے
وہ بھی تو اسی شہر میں رہتا ہے رفیقو!
لیکن یہ تعلق جو مسافت کی طرح ہے
آج انسانی زندگی سے اپنائیت ختم ہوگئی ہے۔ اس کی جگہ بیگانگی نے لے لی ہے۔ شاعر لطف الرحمن کے یہاں طنز کی آمیزش کے ساتھ اس پہلو کا اظہار ملاحظہ ہو:
اتنی بے گانہ وشی کس سے ہے لطف الرحمن
آشنا لوگ وہی شہر کا منظر ہے وہی
آج کی مصنوعی، میکانکی اور مشینی زندگی نے انسان کو غیر حقیقی سطح پر جینے پر مجبور کردیا ہے۔ انسان اس طرح بھیڑ کا حصہ بن گیا ہے کہ اس کی اپنی کوئی ذات، کوئی ہستی نظر نہیں آتی۔ اس کرداری بحران کی اذیت پروفیسر لطف الرحمن کے غزلیہ پیرائے میں ملاحظہ فرمائیں:
اپنی آواز بھی اب لوٹ کے آتی کب ہے
ہم سا اس شہر میں بے نام و نشاں کیا ہوگا
ہمارے معاشرے کا اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ اس میں بے ضمیری و بے حسی عام ہوگئی ہے۔ مکاری و عیاری کو مقبولیت و محبوبیت حاصل ہے۔ وفاداری جو عظیم انسانی قدروں میں ہے، خسارہ کا سامان بن گئی ہے۔ دیکھئے پروفیسر لطف الرحمن نے اس المناک سماجی پہلو کو کس طرح غزل کا پیرہن عطا کیا ہے۔
لوٹا کے بھی لے جاؤں کہاں جنس وفا کو
مایوس خریدار ہوں، رہزن مجھے دینا
باطل طاقتیں ہمیشہ سے حق و صداقت سے برسرپیکار رہی ہیں۔ آج بھی ہمارے سماج میں باطل طاقتوں کا اس قدر بول بالا ہے اور وہ حق و صداقت کو اس طرح کچلنے میں مصروف ہیں کہ ارباب علم و دانش انگشت بدنداں ہیں۔ باطل کے حق سے برسرپیکار ہونے کے نتیجہ میں کرب و بلا کا معرکہ آج بھی جاری ہے۔
پھر وہی معرکۂ کرب و بلا ہے کہ جو تھا
سینۂ حق ہے وہی، ظلم کا خنجر ہے وہی
دست قاتل بھی پشیماں، سرمقتل بھی نگوں
نوک نیزہ وہی، سج دھج وہی، تیور ہے وہی
آج یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہمارے عالمی سماج میں بے انصافی عام ہوگئی ہے اور اس قدر سنگین رخ اختیار کرگئی ہے کہ لفظ انصاف، خود انصاف کی بھیک مانگتا ہوا نظر آرہا ہے۔ دنیا کی عدالتوں میں عدل و انصاف کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ اس دردناک صورت حال کی تصویرکشی پروفیسر لطف الرحمن کے غزلیہ اشعار میں ملاحظہ فرمائیں۔
اب کج کلاہیوں کو بھی روئیں گے حرف حق
اب ہر ہوس پرست ہوا صاحب کلاہ
دیکھ ایوان عدالت کی سیہ پوشی بھی دیکھ
جرم کی بنیاد تھی دستور میں ڈالی ہوئی
آج ہم اس تلخ سچائی سے بھی آنکھیں نہیں چراسکتے کہ آج کے عالمی معاشرے میں کئی وجوہ سے انسانی زندگی غیرمحفوظ نظر آتی ہے۔ ہر جگہ اور ہر سماج میں تشدد پسند عناصر کا غلبہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے انسانی معاشرہ میں فتنہ و فساد کا ایسا سیلاب آتا ہے کہ شہر کے شہر کو تباہ و برباد کرکے اس کی تہذیب کو بھی ملیامیٹ کردیتا ہے۔ اس تباہی و تاراجی کے منظر کو دیکھنے اور اس پر رونے کے لئے اب انسان کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں بچے ہیں۔ اس صورت حال کی مرقع کشی شاعر لطف الرحمن کے درج ذیل غزلیہ اشعار میں ملاحظہ ہو۔
کیا کیا نہ میرے شہر سے سیلاب لے گیا
تہذیب لے گیا، مرے آداب لے گیا
آنکھوں کو ایک عمر سے آنسو نہ مل سکے
ان پتھروں کے رخ سے کوئی آب لے گیا
آج انسانی زندگی کی نوعیت و حقیقت کیا ہے؟ انسان کس طرح اور کن اذیتوں کے ساتھ زندگی سہنے پر مجبور ہے؟ اس کی دلچسپ مصوری پروفیسر لطف الرحمن کے درج ذیل غزلیہ اشعار میں ملاحظہ ہو۔
کردہ ناکردہ گناہوں کی سزا ہو جیسے
زندگی قرض کی صورت میں ادا ہو جیسے
اتنے تاراج نہ تھے آنکھ کے منظر پہلے
یہ شب درد، مرا شہر وفا ہو جیسے
مجھ سے ہرگام پہ سجدوں کی طلب کرتے ہیں
تیری دنیا میں ہراک شخص خدا ہو جیسے
پروفیسر لطف الرحمن کے یہاں غم اور دکھ پر مبنی اشعار کے پہلو بہ پہلو حسین رومانی اشعار بھی ملتے ہیں جن میں زندگی کی خوبصورت ادائیں نظر آتی ہیں۔
جو کچھ ہے اس عارض و گیسو کا عکس ہے
جو دل کشی جو حسن مری داستاں میں ہے
سوجائے گا دل پھر تری یادوں سے لپٹ کر
بام و در و دیوار پہ تنہائی رہے گی
پروفیسر لطف الرحمن کے یہاں کچھ ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جو آج کے سماجی سیاق میں بے حد تازہ اور معنی خیز نظر آتے ہیں۔
خلق پر جانے کیا گذر جاتی
وہ اگر واقعی خدا ہوتا
ہم کہ سادہ دل سہی لیکن سمجھتے خوب ہیں
اس نے کس عنوان کس پہلو سے کب دھوکا دیا
پروفیسر لطف الرحمن کی غزلیہ شاعری کے مطالعہ سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ان کی شاعری کا مرکزی تصور، انسانی تباہی کے خوف کا احساس ہے۔ پروفیسر لطف الرحمن بہ حیثیت شاعر انسانیت کی مثبت سرشت کے قائل ہیں۔ اس لئے وہ اپنی شاعری میں انسانیت کو گھن لگانے والے عناصر کی نشاندہی کرکے، بڑی طاقتوں کی لائی ہوئی بیماریوں کے علاج کے لئے بڑی سنجیدگی سے فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ اسی بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بقائے انسانیت ان کے شعری فن کا بنیادی مسئلہ ہے۔
پروفیسر لطف الرحمن کی غزلیہ شاعری میں اخلاقی قدروں کا احترام ایک ایسی روشن لکیر ہے جس کی شکست و ریخت حقیقتا انسان کی تباہی و بربادی ہے۔ انہوں نے اپنی غزلیہ شاعری کے ذریعے اسی احساس کو جگانے اور انسان، انسانیت اور دنیا کی سالمیت کے خطرات کو آئینہ دکھا کر ذی ہوش اور دانش مند بنانے کا مشکل کام سرانجام دیا ہے۔
پروفیسر لطف الرحمن کی غزلیہ شاعری عصر حاضر کی میکانکی زندگی اور منتشر معاشرے میں مثبت اقدار حیات کی نایابی کی نوحہ خواں اور ان کی ازسر نو بازیافت اور ترویج و توسیع کی نغمہ گر ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری جدید عصری حسیت سے لبریز ہے جو معاشرتی و تہذیبی تغیرات کی نشاندہی کرتے ہوئے قاری کو سماجی قدروں اور سماجی مسائل سے روبرو کراتی ہے۔
فنی اعتبار سے پروفیسر لطف الرحمن کی غزلیہ شاعری جداگانہ انداز و اسلوب کی حامل ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری کا اسلوب، فطری پن اور بے ساختہ طرز اظہار سے عبارت ہے جس میں تصنع و تکلف کا کوئی گذر نہیں۔ سادگی، اظہار و بیان کی پاکیزگی اور سلاست و روانی ان کے اسلوب کے نمایاں اوصاف ہیں۔ ان کا لہجہ سنجیدہ ہے جو دھیما اور مدھم ضرور ہے مگر گمبھیر کیفیت کا حامل ہے۔ ان کے اسلوب میں سلگنے کی کیفیت ہے جو دھیرے دھیرے فکر کو آنچ دے کر سلگاتی اور منور و تاباں بناتی ہے۔
جدید غزل گو شعراء میں پروفیسر لطف الرحمن کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نئے شعری تلازموں، نئی علامتوں اور استعاروں کا استعمال کرکے اظہار وبیان کے نئے امکانات کو روشن کیا اور اردو شعر و ادب کو فکر واحساس کی نئی منزلوں اور نئی وادیوں سے روشناس کرایا۔ ان کا شاعرانہ امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سماجی سیاق کا ایک دلچسپ حوالہ ہے۔
پروفیسر لطف الرحمن کی غزلیہ شاعری میں فکر و نظر کی وسعت، انسان دوستی کا خمیر، تعمیر و ترقی کا آفاقی اور عالمگیر احساس، تعصب و تنگ نظری اور نفرت و حقارت کی تردید، یہ تمام ایسے عناصر ہیں جن سے ان کی شاعری مفکرانہ شان کی حامل نظر آتی ہے۔
پروفیسر لطف الرحمن کی غزلیہ شاعری کے مطالعہ سے یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری میں فنی لطافت و دلکشی بھی ہے اور فکری توانائی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری فکری و فنی دونوں اعتبار سے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب ہے اور یہی ان کی غزلیہ شاعری کی کامیابی بھی ہے اور اس کا امتیاز بھی۔ پروفیسر لطف الرحمن کی غزلیہ شاعری، انفرادی و امتیازی شان کی حامل ہے جو انھیں جدید غزل گو شعراء میں ایک اہم اور معتبر غزل گو شاعر ثابت کرتی ہے۔
حوالے:
(1) مولانا محمد ولی رحمانی، حرفے چند، مشمولہ، نقد نگاہ، از پروفیسر لطف الرحمن، تخلیق کار پبلشرز، نئی دہلی، 2006ء، ص: 12،13۔
(2) پروفیسر لطف الرحمن، دیباچہ، بعنوان: "حرف اور حکایت کے درمیان"، مشمولہ، بوسۂ نم، ناشر: حافظ محمد امتیاز رحمانی، اشرف نگر، مونگیر، 2007ء، ص:11، 12۔