عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب ، شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، دانش ور ، محقق، ماہرِ لسانیات، ماہرِ تعلیم، سیرت نگار، ہجرت نامہ نگار اور پنجابی زبان و ادب کے عظیم رجحان ساز تخلیق کار پروفیسر غلام رسول شوق ، علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کا وہ آفتابِ جہاں تاب جو 21نومبر 1938ء کو موضع کوٹ رام چند، تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور (ہندوستان) میں چودھری عزیز الدین سوڈھی کے گھر طلوع ہوا اور پوری دُنیا کو اپنی ضیا پاشیوں سے منور کرنے کے بعد 6فروری 2005اتوار کے روز فجر کی نماز کے وقت بٹالہ کالونی، فیصل آباد (پاکستان) میں حرکتِ قلب بند ہو جانے کے باعث ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ محلہ شریف پورہ فیصل آباد کی زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ اتنے بڑے ادیب کا دُنیا سے اُٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کی رحلت پر بزمِ ادب برسوں تک سوگوار رہے گی۔
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
ان کی وفات سے پنجابی زبان و ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے گزشتہ پانچ عشروں میں پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھی جائیں گی۔
پروفیسر غلام رسول شوق ایک رجحان ساز تخلیق کار تھے جنھوں نے اپنے انفرادی اسلوب کے اعجاز سے اپنی تخلیقات کو قلب و روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین کیا۔ ادب اور فنونِ لطیفہ کے فروغ کے لیے اُن کی خدمات کو دُنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
پروفیسر غلام رسول شوق کی وفات سے شعر و ادب کا ایک باب بند ہو گیا۔ پنجابی شاعری کا ایک عہد ختم ہو گیا ۔ سیرت و کالم نگاری کا ایک سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
پروفیسر غلام رسول شوق دس کتابوں کے مصنف تھے جن میں ’’گھر دا بوہا‘‘(شاعری)، ’’چھلتراں‘‘ (کہانیاں)، ’’دیس دا پاندھی‘‘(ہجرت نامہ)، ’’بریتے‘‘ (کہانیاں)، ’’مشال‘‘(شاعری)، ’’دُھواں دُھخے‘‘ (شاعری)، ’’سٹنٹد سولز‘‘(دیس کا پاندھی کا انگریزی ترجمہ)، ’’آدابِ رسولؐ‘‘(سیرتِ رسولؐ، سوانح حیات)، ’’حرفِ شوق‘‘(کالم نگاری) شامل ہیں۔ ان کی ان کتابوں میں سے اکثر کو انعامات مل چکے ہیں۔ ان کی پانچ کتابیں زیرِ طبع تھیں جن میں ’’فقر‘‘، ’’حبیبی یا رسول اﷲؐ‘‘(پنجابی نعتیں)، ’’دوپہرے شاماں‘‘ (افسانے)، ’’سانجھی بُکل‘‘ (تنقیدی مضامین) شامل تھیں۔
مختلف کالجز کے ’’المعاش‘‘، ’’روشنی‘‘، ’’القمر ‘‘ میگزین کے پنجابی حصوں کے انچارج بھی رہے ہیں۔ ’’کنٹھا‘‘ ان کا ڈرامہ پی ٹی وی پر نشر ہو چکا ہے۔ ڈرامہ’’ علامہ اقبال عدالت کے کٹہرے میں‘‘ تحریر کر کے سٹیج کر چکے ہیں۔ پروفیسر غلام رسول شوق مختلف النوع ہمہ جہت موصوف شخصیت تھے۔ وہ اردو اور پنجابی شاعری کالم، مضمون اور سیرت نگاری میں نابغۂ روزگار عصر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے افسانے ، ڈرامے ، ناول جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد (پاکستان) کے ایم اے پنجابی کے نصاب میں شامل کیے گئے ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق بی ایس سی کے بعد ایم اے پنجابی کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ کالج سمن آباد ، فیصل آباد اور گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آباد پاکستان میں پنجابی زبان و ادبیات کے طویل عرصہ تک پروفیسر رہے۔ اس سے پہلے فزیکل ایجوکیشن کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔
6فروری 2005ء کی فجر کی نماز کے بعد وہ اپنے حجرہ میں حسبِ عادت درود و وظیفہ اور یادِ الٰہی میں مشغول تھے کہ مصلیٰ پر ہی رُوح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
کوئی لمحہ بھی کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا
پروفیسر غلام رسول شوق انتہائی مرنجاں مرنج ، ملنسار ، پُرخلوص ، شفیق اور مخلص انسان تھے ۔ ہمیشہ فروغ ادب میں کوشاں رہے ۔ نعتیہ مشاعروں میں پڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اکثر پنجابی مباحثوں کے منصفِ اعلیٰ بنائے جاتے رہے۔ وہ بیس سال تک ڈسٹرکٹ باکسنگ ایسوسی ایشنزکے سیکرٹری رہے۔ پنجاب باکسنگ کا جج ریفری، ایمپائر، صفی پبلی کیشنز کے سرپرست اعلیٰ، انجمن مغلیہ کے صدر، پاکستان رائٹرز گلڈ، حلقہ ارباب ذوق کے ممبر اور ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے کمپیئر بھی رہے ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق نے ایف ایس سی میں سرٹیفکیٹ آف میرٹ حاصل کیا تھا۔ بعد ازاں بی ایس سی میں سپورٹس رول آف آنر جیتا۔باکسنگ میں ڈپلومہ ، ایچ پی ای میں پنجاب میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انھوں نے پنجابی زبان و ادبیات میں ایم اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور پنجاب بھر میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔
پروفیسر غلام رسول شوق اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ان کے والدین زمیندارہ کرتے تھے اور وہ اپنے علاقے کے سرپنچ مانے جاتے تھے۔ گھر میں بہت ساری سہولتیں میسر تھیں۔ ان کی چار کنال کی حویلی تھی ۔شوق صاحب ساری ساری رات داستانِ یوسف زلیخا، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال پڑھا کرتے تھے ۔ اس وقت یہ شاعر نہیں بنے تھے۔ انھیں وہیں سے شاعری کا شوق پیدا ہوا تھا۔(۱)
پروفیسر غلام رسول شوق کی شادی 1968ء میں ہوئی تھی۔ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔ ایک بیٹا ایم ایس سی سوشیالوجی ، دوسرے دونوں ایم اے کر کے اپنا کاروبار کر رہے ہیں ۔
پروفیسر غلام رسول شوق نے 1979ء میں محمد یوسف زاہد علیم اﷲ صفی کے ہاتھ پر سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت کی تھی۔(۲)
انھی سے وہ اردو ، پنجابی اور فارسی شاعری میں اصلاح لیا کرتے تھے ۔ غلام رسول شوق ادیبوں میں پنجابی شاعری کے میدان میں شریف کنجاہی ، انشائیہ میں ارشد میر، افسانہ میں انور علی ، نعت میں حفیظ تائب، اردو نظم میں ڈاکٹر وحیدقریشی اور فلسفہ میں واصف علی واصف کو بہت پسند کرتے تھے۔ واصف علی واصف کی محافل میں انھیں بیٹھنے کے متعدد مواقع میسر ہوئے پہلی بار واصف علی واصف سے ان کی ملاقات 1972ء میں ہوئی تھی۔
پروفیسر غلام رسول شوق نے تخلیق فن کے لمحوں میں اپنے خیالات، احساسات اور جذبات کو نہایت مؤثر انداز میں پیرائیہ اظہارمیں بیان کیا ہے۔ وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنے فکر و فن کی اساس بناتے تھے اور اس آب و گل کی وسعت میں وہ اپنی دور بین نگاہوں سے آنے والے دور کی ہلکی سی تصویر دیکھ لیتے تھے۔پروفیسر غلام رسول شوق کی زندگی قناعت ، صبر ورضا، استقامت، توکل ، ایثار، انسانی ہمدردی اور خلوص و دردمندی کی اعلیٰ مثال تھی۔ وہ بڑے ہی ملنسار ، شفیق ، پُرخلوص ، پیکر عجزو انکسار اور درویش صفت ولیٔ کامل تھے۔ وہ چار سلاسل طریقت سے بیعت یافتہ اور خلعت خلافت یافتہ تھے۔وہ ہر حال میں راضی بہ رضا نظر آتے تھے اورنامساعد حالا ت میں بھی کبھی صرف شکایت لب پر نہ لاتے تھے۔ وہ اپنی ذہنی تسکین اور روحانی مسرت کے لیے نفس پر توجہ دیتے تھے اور وہ لائحہ عمل اختیار کرتے جو عملی زندگی میں قابلِ عمل ہو اور اس کی راحت و سکون کی توقع بھی ہو۔ کالم نگاری کے میدان میں انھوں نے بہت تعداد میں کالم لکھے جو شہر کی متعدد اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ ان کے کالم بڑی دل چسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ ان کے کالم معاشرتی زندگی کے جملہ معاملات اور مسائل کا بھرپور احاطہ کرتے تھے۔ ان کی دور بین نگاہ سماجی زندگی تک پہنچ جاتی تھی جو عام آدمی کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق کی ایک پنجابی نظم ’’بدلیاں رُتاں‘‘ جس میں بدلتی قدروں کا نوحہ بیان کیا گیا ہے۔ وہ جس مشاعرے میں بھی جاتے، لوگ فرمائش کر کے بار بار سنتے اور واہ واہ کی صدائیں اُس وقت تک آتی رہتی جب تک شوق صاحب اپنی مسند پر آ کر نہ بیٹھ جاتے ۔ قارئین کی نذر نظم ’’بدلیاں رُتاں‘‘ ۔
نہ اوہ رہے زمانے منج دے
نہ ہن دسن دھوتیاں کنج دے
نہ بنیاں تے کاں ہن بولے
نہ سَردل تے گھئیو کوئی ڈولھے
نہ چرخا ، نہ تکلا رہیا
نہ مکھن نہ ٹُکر بہیا
نہ چاٹی نہ رہی مدھانی
نہ ٹِنڈاں وِچ چھلکے پانی
نہ بھٹھیارن جوں ہن بھنے
نہ چھوری کوئی دھوناں گھنے
نہ کوئی دَھیاں مَل مَل نہاوے
نہ کوئی روہ وچ لسی پاوے
نہ گاٹی نہ ہوٹے رہے
نہ پھلیاں تے جٹی بہے
نہ کھاڑے نہ گھبرو گجن
ہوئے پروہنے بیلی سجن
نہ سانجھاں دی رہی پٹاری
نہ سکھاں دی بنے نہاری
نہ مجھاں نہ رہے لویرے
گھر گھر وچوں گئے سویرے
نہ رینی تے دُدھ ہن کڑھدا
نہ بابو کوئی کھارے چڑھدا
تھڑے رہے نہ تھڑیاں والے
نہ رہے کھرے گھراں دے چالے
اڈو، اڈ رسوئیاں ، ہوئیاں
وکھرے چلھے ، وکھریاں ڈھوئیاں
اکھ دا پانی مر مُک گیا
ڈنڈی رہی نہ سانجھا پئیا
ہل پنجالی تھک ہنب ہاری
گڑدا گاگر بھرے نہ ڈاری
مُک چُک گئیاں سکھیاں سئیاں
خالی چھابے سکھنیاں بئیاں
پگ چُنی وی ہوئی پروہنی
لچ پُنے دی ہووے بوہنی
کیبل آن ڈُھکی وچ گھر دے
شرم و حیا دے لہہ گئے پردے
سجناں دی سجنائی مُک گئی
کھری نرول کمائی مُک گئی
مُک گیا جی آیاں نُوں کہنا
مُک گیا ڈھڈوں رَل مِل بہنا
کھوہ دیاں ٹنڈاں تھک ٹٹ گئیاں
کِتے نہ دِسن پینگاں پئیاں
بڈھڑی دا کوئی کھونڈ نہیں پھڑدا
رحمت دا نہیں بدل ورھدا
سُنّے پنڈ دے دارے لگن
بابے گھراں چ بھارے لگن
سکھاں دا نہیں وسدا ساون
دُھپاں تلخیاں ودھدیاں جاون
ودھدے جاون سڑی سیاپے
بندہ بندیاں جہیا نہ جاپے
واہ وا اساں ترقی کیتی
اُدھڑی اساں توں گئی نہ سیتی
چارے کھونجاں رو رو تھکیاں
مرزے مار دے نیں بکیاں
سانجھاں راہ وچ رہ گئیاں نیں
جپھیاں گہنے پے گئیاں نیں
ٹُر گئے سجن میٹ مکا کے
باہئیاں دی تھاں سیرو پا کے
کنج کلیاں کوئی بچیاں پاوے
کنج کلیاں کوئی ٹل بناوے
کِنج گٹیاں وچ دھوناں دئیے
کِنج وسیے کِنج جگ تے رہیے
بُجھ چلیا اے چلھا گھر دا
کیہ بنو گا ایس نگر دا
سُنے سکھنے پئے نیں بیلے
وسدے پئے نیں سب کمیلے
کنج اکواسی روٹی تھلاں
کنج لکوواں دل دیاں چھلاں
پتنوں لنگھیا جل نہیں مڑدا
موچھے لنگھیاں ایہ تن نہیں جڑدا
شوقؔ کیہ لوکیں پیار ہنڈاون
دو ڈنگھ جھال نہیں جھلدی داون
پروفیسر غلام رسول شوق ایک وسیع المطالعہ ادیب تھے ، تدریسِ ادب میں انھوں نے اس قدر مہارت حاصل کی کہ ہزاروں تشنگانِ علم اس سرچشمہ علم سے سیراب ہوئے۔ دُنیا بھر میں اُن کے شاگردان موجود ہیں جن کو اس نابغہ ٔ روزگار معلم کی رہنمائی میں ذرے سے آفتاب بننے کے مواقع نصیب ہوئے اور ان شاہین بچوں نے کُندن بن کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1998ء میں اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو گئے تھے۔ اس کے بعد بھی انھوں نے درس و تدریس سے ناطہ ختم نہ کیا بلکہ چند نجی تعلیمی اداروں میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا لوہا منواتے رہے۔ وہ جس بھی نجی کالج میں پڑھانا شروع کرتے تو راقم (اظہار احمد گلزار) کو اُس کالج میں اپنی آمد کا بتانا نہ بھولتے اور رابطے کی تاکید کرتے اور مسلسل اپنے احباب سے رابطہ میں رہتے۔
پروفیسر غلام رسول شوق کو اُن کی بے مثال ادبی خدمات کے اعتراف میں ساندل بار ایوارڈ ، شاہ لطیف ایوارڈ ، شاہ حسین کلچرل ایوارڈ، بابا فرید گنج شکر ایوارڈ، بری نظامی ایوارڈ، صائم چشتی ایوارڈ، فیصل آباد بورڈ ایوارڈز کے علاوہ بے شمار تعریفی اسناد اور کیش پرائز شامل ہیں۔
پروفیسر غلام رسول شوق کی تصانیف
۱۔گھر دا بوہا(پنجابی شاعری)
پروفیسر غلام رسول شوق کا اولین پنجابی شعری مجموعہ ہے جو 15دسمبر1979ء کو منصہ شہود پر آیا۔ ’’مڈھلی گل‘‘ میں شوق صاحب رقم طراز ہیں:
’’گھر دا بوہا‘‘ میرا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ جس میں پچھلے پندراں سالوں کی منتخب غزلیں شامل ہیں۔‘‘(۴)
’’گھر دا بوہا‘‘ میں اپنی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میری شاعری میں سے کوئی ایک منظر کسی ایک سوچ پر پڑھنے والے غور کر لیں تو میں سمجھوں گا کہ میری سوچ کارگر ثابت ہوئی۔ میری محنت بار آور ہوئی۔‘‘(۵)
’’گھر دا بوہا‘‘ ایک علامتی نظم ہے جس کی تشبیہ انھوں نے باپ سے دی ہے۔ اپنے باپ سے ، کسی بھی باپ سے ، کسی بھی سرپرست سے، ہر اس باپ پر یہ نظم صادق آتی ہے جو ساری حیاتی زمانے کی تند و تیز تلخیوں اور دُھوپ بھری زندگی میں محنت اور مشقت کر کے اپنے بچوں کو پالتا ہے ۔ ان کی نگہداشت کرتا ہے۔ اُن کو پروان چڑھاتا ہے۔ ان کے دُکھ سُکھ کا خیال اپنی جان سے زیادہ کرتا ہے۔ جیسے دروازہ ساری زندگی گھر کی حفاظت ، چوکیداری اور نگہداشت کرتا کرتا آخر ایک دن تمام قبضے، کیل ڈھیلے اور لکڑی میں تریڑیں پڑ جانے سے اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے اور پھر کسی روز اچانک دھڑام سے زمین پر آ گرتا ہے ۔۔۔۔بعین ہی گھر کا سرپرست ، گھر کا نگہبان باپ بھی حالات کی تلخ اور سخت دوپہروں اور سرد راتوں کا مقابلہ کرتے کرتے تھک کر زندگی سے ایک دن ہار مان جاتا ہے۔ یہ نظم غلام رسول شوق کی شہکار نظموں میں شمار ہوتی ہے۔
پروفیسر غلام رسول شوق 1985ء میں جب اُستاد کی حیثیت سے جی سی یونیورسٹی پہلی بار ہماری کلاس میں آئے تھے تو اُن کے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی قمر بھی تھے جو ان کا تعارف کروانے کے لیے ہماری کلاس میں تشریف لائے تھے۔ رسمی تعارف کے بعد شوق صاحب سے اُن کا کلام سننے کی فرمائش کی گئی تو محترم غلام رسول شوق صاحب نے یہ نظم بڑے خوب صورت انداز میں ترجمہ اور شرح کے ساتھ سنائی تھی۔۔۔۔پھر اگرچہ ہم کالج سے فارغ التحصیل ہو کر اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات میں اُلجھ گئے۔پروفیسر غلام رسول شوق سے جب بھی اور جہاں بھی ملاقات ہوتی تو میرے کئی دوست فرمائش کر کے اسی نظم کو سننا پسند کرتے ۔ موصوف کا اندازِ بیان بڑا مؤثر اور دل کش ہوتا تھا۔ بسا اوقات وہ یہی نظم پڑھتے پڑھتے آبدیدہ ہو جاتے اور آنسو ان کی آنکھوں میں چمکنے لگتے ۔ یہ نظم ہر اس نیک طینت فرمانبردار اولاد کے لیے ہے جو اپنے والد سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہے۔ ان کے مقام اور مرتبے کو پہچانتا اور سمجھتا ہے۔
راقم (اظہار احمد گلزار) نے ریڈیو پر بطور براڈ کاسٹر اپنے متعدد پروگراموں میں یہ نظم متعدد بار پوری پوری پڑھ کر سنائی ہے۔ میں جب بھی یہ نظم سناتا تو سامعین بذریعہ فیس بک پیچ SMSکر کے دوبارہ سننے کی فرمائش کرتے۔ کبھی کبھار ان کا کوئی شاگرد بھی Onlineآ کر بتاتا کہ میں بھی شوق صاحب کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوں ۔ نظم ’’گھر دا بوہا‘‘ نذرِ قارئین:
اِک سی میرے گھر دا بُوہا
چِٹے پٹ تے متھا سُوہا
ڈُھکدا کھُلدا چیں چیں کردا
دُھپے کھاندا سِی نہ کردا
مہینہ پھانڈے وچ پجھدا رہندا
شِکر دوپہرے رِجھدا رہندا
لوآں دُھپاں نُوں اوہ روکے
اگل واہنڈی سب توں ہو کے
چور اُچکے توں نہ ٹٹ دا
چوتھی پکی سکے رُکھ دا
قبضے کُنڈے سنے چوگاٹھے
بھخدا وانگر گبھرو کاٹھے
ہر کوئی اوتھوں نیوں کے لنگھدا
7نیویاں اکھیاں سنگ دا سنگ دا
7کجھ ورھیاں توں بعد میں تکیا
-تکیا تے پر جَر نہ سکیا
)لکڑ سُک تریڑاں پئیاں
-ہر ریشہ کر وکھرا گئیاں
5اِک اِک پیچ ہویا فِر ڈِھلا
+ہلنا جُلنا ہویا جھِلا
;جھُکھڑاں دی اوہ مار کی سیہندا
3ہر پَٹ اُس دا ہِلدا رہندا
7واج سی اُس دی کھڑ کھڑ کر دی
3فِر وی راکھی گھر دی کر دی
1اِک دِن کُنڈا ہویا نِکّا
-سنے چوگاٹھے ویڑے ڈِگّا
-چھڈ گیا سب کندھاں کولے
)مُک مکا گیا سبھ رولے
1کر گیا لُگا سارے گھر نوں
5سارے گھر دے اِک اِک در نوں
1شوقؔ سبھے ہُن کڑیاں ڈولن
9کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ کِڑ بولن
اِس نظم کے بارے میں اُن کے اُستاد اور مرشد پروفیسر یوسف زاہد علیم اﷲ صفی کتاب کے ابتدا میں ’’تعارف اور وچار‘‘ کے عنوان میں رقم طراز ہیں:
’’غلام رسول شوق کی نظم ’’گھر دا بوہا‘‘ سننے کا موقع بھی ملا اور پڑھنے کا بھی ۔ سچی بات ہے کہ اس نظم کے عنوان اور علامتی انداز نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ یہ نظم سن کر شوق صاحب کے اندر سے مجھے ایک گہرے دُکھ دردوں کی خوشبو آئی۔ وہ دُکھ جو لوہے کو کُندن بنا دیتے ہیں ۔جب میں اس کے قہقہوں کے اندر جھانکا تو مجھے اُس کے دل اور زندگی پر غموں کے آرے چلتے دکھائی دیے ۔ وہ عشق کا نور جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے ۔ اس نظم میں علامت کے اندر بہت ہی وسعت اور گہرائی ہے۔‘‘(۷)
’’گھر دا بوہا‘‘ ان کی طویل نظموں کا شعری مجموعہ ہے ۔ ہر نظم کی اپنی تاثیر اور جاذبیت ہے۔ اگر ایک نظم پڑھنا شروع کر دیں تو پوری کیے بغیر آپ آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ’’گھر دا بوہا‘‘ سمیت دیگر نظمیں ’’پنجابی زبان‘‘ ،’’مرشد‘‘، ’’سچے اکھر‘‘، ’’سپ دی اکھ‘‘، ’’شکوہ‘‘، ’’ماٹی نال کیہ کرنا پیار‘‘، ’’گُجھے دُکھ‘‘ ،’’پریت‘‘، ’’وچھوڑا‘‘، ’’پورنے‘‘، ’’ممتا‘‘،’’میری جنت‘‘، گُڈی‘‘، ’’عشق اولڑا‘‘،’’ہاڑے‘‘،’’پینگ‘‘، ’’اُڈیک‘‘،’’مُکھڑا‘‘،’’پھُٹی‘‘،’’بڑھاپا‘‘،’’نوکر مُنڈا‘‘،’’اج دے سجن‘‘، ’’ڈکو ڈولے‘‘،’’حُقے دی نڑی‘‘،’’اِک جوان‘‘،’’قائد اعظم‘‘،’’سانجھی کندھ‘‘،’’علامہ اقبال تے مینارِ پاکستان‘‘،’’پوِتر رُکھ۔۔۔پاکستان‘‘،’’راکھے‘‘، ’’انقلاب‘‘، ’’دیس میرے دا حال‘‘، ’’وساکھی دا میلہ‘‘وغیرہ ان تمام نظموں میں شوق صاحب کا قلم منہ چڑھ کر بولتا دکھائی دے رہا ہے۔
پروفیسر یوسف زاہد علیم اﷲ صفی ، شوق صاحب کی نظموں کے حوالے سے ’’گھر دا بوہا‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’غلام رسول شوق کی نظموں میں اپنے دیس پنجاب کی معاشرت اور تہذیب و تمدن کی خوب صورت اور جاندا ر تصویریں عام نظر آ رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے دیس کے ان پڑھ اور سادہ لوح لوگوں کے اندر داخل ہو کر دیکھا ہے۔ لوگوں کی معصوم خواہشوں اور سادہ سوچوں کو بڑے پیارے اور منفرد انداز سے شعر کا رنگ دے کر امر کر دیا ہے۔ ان کی نظمیں ’’ممتا‘‘، ’’گُڈی‘‘، ’’اُڈیک‘‘، ’’پھُٹی‘‘، ’’حُقے دی نڑی‘‘ پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ ہم کائنات کے کتنے دیدہ زیب اور حسیں خطے کے لوگوں کے درمیان پہنچ گئے ہیں۔ جہاں آج بھی زندگی اپنے ماضی کی خوب صورتی اور قدرتی حسن لیے پھرتی ہے۔ جہاں نئی تہذیب کا زہر ابھی نہیں پہنچا۔ یہ پنجاب کی سرزمین کی تصویریں اور اس کے صاف دِلوں پر پیار کرنے والے انسانوں کی چلتی پھرتی ، سانس لیتی تصویریں ہیں۔‘‘(۸)
پروفیسر غلام رسول شوق کی نظموں کے الفاظ ، صرف الفاط نہیں بلکہ ہر اُس دل کی آواز ہے جو دکھوں، دردوں کے گھیرے میں مقید ہو۔ الفاظ مُنہ سے بولتے نظر آ رہے ہیں۔ دُنیا جہان میں حوصلہ دینے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن کسی کے دُکھ پر رویا نہیں جاتا۔ رونے والی آنکھ ایک ہی ہوتی ہے جس نے ان دکھوں ، پریشانیوں سے تاحیات نبرد آزما ہونا ہوتا ہے ۔ اُن کی ایک مختصر نظم ’’آخری سفر‘‘ میں اِسی نفسا نفسی کی نشاندہی کی گئی ہے:
کچے ڈھیر تے پت جھڑ وانگوں
خلقت دا اِک ٹھٹھ سی
ہنجواں دے پرنالے سن
پر روندی ’’اِکو‘‘ اکھ سی
زندگی ، سوچ اور فکر کے انداز بدلنے سے انسانی زندگی اور خود انسان کے بارے میں معیار بدل جاتے ہیں اور اسی انداز سے انسانوں کے اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ تعلقات، روابط اور طرزِ عمل میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان کی عظمت ، اُس کی بڑائی اور عزت و احترام کا معیار اُس کا علم و فضل ، اُس کا نیک سیرتی کردار، اُس کا برتاؤ اور عمل خیال کیا جاتا تھا۔ آدمی جس قدر پڑھا لکھا ، سلجھا ہوا، شائستہ اور مہذب ہوتا ، اُسی قدر وہ قابلِ عزت سمجھا جاتا تھاکہ لوگ اُس کے علم و فضل اور عزت و احترام کی بنا پر عقیدت اور محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔یہ روحانی اقدار کا دور تھا مگر جب مادی قدروں کو پذیرائی ملی تو آدمی کی عزت و عظمت ، بزرگی اور بڑائی کا معیار اُس کی دولت اور مادی آسائشات ٹھہریں۔ پروفیسر غلام رسول شوق کو اس بات کا بڑا قلق رہتا تھا کہ انسان کی قدریں بدل گئیں ہیں، خُون کے رشتے خونی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ شوق صاحب اس بات کا اکثر اظہار کرتے رہتے تھے کہ لوگ مادی پیمانوں سے عزت کا تعین کرتے ہیں۔ کئی بار تو شوق صاحب بات کرتے کرتے آبدیدہ ہو جاتے تھے کہ پیار محبت اور عقیدت و احترام کے رشتے قصۂ پارینہ ہو کر رہ گئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آبادی کی اِس بھیڑ میں صحیح معنوں میں انسان کی تلاش بڑا مشکل ہو گیا ہے۔ ہر کوئی اپنے مزاج اور مذاق کا مالک ہے۔بقول اقبال:
مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے
کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ کو
زندگی کی بنیادی قدروں میں تغیر آ چکا ہے۔ جینے کا معیار اس قدر بلند کر دیا گیا ہے کہ زندگی کہیں پاتال میں منہ دیکھتی رہ گئی ہے۔ آج کا انسان جس طرزِ زندگی کا عادی ہو چکا ہے۔ آج سے پہلے انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔نظم ’’سپ دی اکھ‘‘ میں اسی کرب کو محسوس کیا جا سکتا ہے:
ساری عمر گزاری بھلیا سوچاں دے نال متھا لا کے
سجنا متراں نوں ازمایا سدھے گھل گھل آپوں جا کے
کوئی وی ساڈے نال نہ ٹریا ، موڈھا جوڑ کے موڈھے نال
چیتے ورگیاں جسماں اوڑک سپ دی اکھ دکھائی آ کے
۲۔مشال(پنجابی شاعری)
پروفیسر غلام رسول شوق کا یہ دوسرا پنجابی شعری مجموعہ ہے جو 20نومبر1995ء کو ہم خیال پبلشرز فیصل آباد (پاکستان) کے زیرِ اہتمام منصہ شہود پر آیا تھا۔ اس کا انتساب انھوں نے اپنے استاد اور مرشدی پروفیسر محمد یوسف زاہد علیم اﷲ صفی کے نام کیا ہے۔ اس میں مجموعی طور پر 105کے قریب نظمیں، سی حرفی ، حمد، نعت، منقبت، مدح، غزل، گیت، دوہڑے، قطعہ، چو مصرعہ موجود ہیں۔
’’مشال‘‘ کے پیش لفظ میں شوق صاحب رقم طراز ہیں:
’’مشال‘‘ میں وطن کے رہنے والے انسانوں کے دُکھوں ، سُکھوں کو شعروں میں پرونے کی کوشش کی ہے جو مرنے تک اُن کی روح اور وجود کو اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں۔ اس کے اندر عشق کی مقناطیسیت ، ہجر و فراق کی چوٹیں ، وڈیروں کے استحصالی نظام اور مزدوروں کی ہمت و استقلال کے جذبے اور دیس کی خوشبو کے رنگ نمایاں ہیں۔‘‘(۱۰)
آ شوقی تینوں عشقے دا اج پہلا سبق پڑھاواں
جس بوہے دی چوکھٹ ملئیے اوسے دے ہو جائیے
اِس دنیا کا تمام نظام خدا ہی کے اختیار و قدرت میں ہے۔ وہی ایک ذات ہے جس نے کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی ایک مخصوص انداز میں ایک خود کار نظام وضع کر دیا اور کائنات کی تمام اشیا اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہو گئیں۔ اس نظام کی نگرانی تنہا اُسی کو سزاوار ہے ۔ اُس کا علم اور قدرت اس قدر وسیع ہے کہ دُنیا میں کسی وقت ، کہیں بھی ، کسی طرح ، کسی درخت سے گرنے والا ایک پتا بھی اُس کے علم میں ہے۔ یہ سب کچھ اُس کی بے انتہا قدرتوں اور قوتوں کی زبردست دلیل ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ خُدا کی ہستی اپنا ادراک و اعتراف اپنی ذات کے حوالے سے اور اپنی صفات کے حوالے سے کراتی ہے۔ دُنیا کا یہ زبردست نظم و ضبط اُس کی ذات پر گواہ ہے۔ پروفیسر غلام رسول شوق ایک ولی اﷲ اور درویش صفت انسان تھے۔انھوں نے اپنی لکھی حمدوں میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت اور توحید کو جس خوب صورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ پڑھ کر اُن کی شخصیت کا ایک ایک پہلو ہمارے سامنے آ جاتا ہے ۔ اُن کی حمدوں میں بڑی شان اور آن بان ہے۔ اُن کی قادر الکلامی اور بدیہہ گوئی نے اپنے پرائے سب سے لوہا منوایا ہے۔ بلاشبہ اُن کی اپنی شخصیت پُرجوش تھی چنانچہ جوش اور ولولہ کی کیفیت ان کی شاعری میں نظر آتی ہے۔جس میں ایک شعلہ نوا خطیب کا آہنگ ملتا ہے۔
اسلام سے محبت ان کی رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی اور سرکارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کا عشق اُن کی روح پر چھایا ہوا تھا۔ چنانچہ انھوں نے حمد، نعت کے میدان میں نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ پروفیسر غلام رسول شوق فرمایا کرتے تھے کہ ڈھونڈنے والوں کو خُدا ان کے دل میں ہی ملتا ہے ۔ انسان تو سراپا گنہ گاری ہے۔ ذات خُدا وندی سراپا رحمت و عفووکرم ہے۔ وہی بنجر زمینوں کو ذرخیزی عطا کرتا ہے اور وہی دلوں کے تاریک پردوں میں نور کی روشنی پھیلاتا ہے۔
رب سوہنے دی کراں تعریف پل پل جیہدی ذات دیاں کدے نہیں چھاواں ڈھلیاں
اوہدی ذات جہاناں دا بن دائرہ عرش فرش دیاں کندھاں نیں آن ولیاں
صفتاں اپنیاں نُوں کُن آکھیا جاں وکھرے وکھرے اوہ روپاں وچ آن کھلیاں
شوق اوہدا نہیں کوئی شریک جگ تے اوہدے باجھوں مصیبتاں کدوں ٹلیاں
٭
پہلاں کراں تعریف خُدا دی میں جیہڑا سکیاں نُوں کردا ہری جاوے
چھُری عشق دی تے دھرتی کانیاں دی بندہ لکھی جاوے اتے گھڑی جاوے
کالا بدل پہاڑاں توں چڑھے ایسا رحمت نال اوہدی تھاں تھاں ورھی جاوے
اوہدی ذات ہے بڑی رحیم رازق ، بندہ نعمتاں دا شکر کری جاوے
٭
اﷲ تعالیٰ نے ستار و غفاری اپنی صفات بتائی ہیں۔ انسان خطاؤں کا پُتلا ہے ۔ کوتاہیاں سرزد ہو جانا اُس کی فطرت کی کمزوری ہے۔ دُنیا کے معاملات میں اُلجھ کر ہم سے بہت سی کوتاہیاں اور لغزشیں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے گناہ کا صدور نہ ہو اور جو اپنی کوشش و ریاضت سے معصیتوں اور کوتاہیوں سے مامون رہ سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں خُدا کی ذات سراپا مغفرت ہی مغفرت ہے۔ انسان اس کائنات میں خُدا کا خلیفہ و نائب ہے۔ مقصد اس کائنات کی تخلیق اور انسان کی پیدائش کا یہ تھا کہ اس دُنیا میں خدا کے احکام کا نفاذ ہو ۔ انسان کائنات کی تمام تر قوتوں پر معصرف ہو۔ کائنات کی تسخیر کے بعد وہ اطاعت و عبادات کے اعلیٰ ترین مدارج پر فائز ہو کر خُدا کی خلافت اور نیابت کا حق ادا کرے لیکن اس دنیا میں آنے کے بعد وہ اپنے اصل مقصد سے عموماً غافل ہو جاتا ہے۔ دُنیا کی مادی الذائذ اور دلفربیاں اُسے اصل مقصد سے بھٹکا کر لمحاتی فوائد کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ ایسی صورت میں خُدا کی رحمت ، شفقت دوبارہ اسے اپنی پناہ میں لے لیتی ہے۔ انسان بالطبع نیک ہے۔ اپنی برائی پر اصرار نہ کرنے والا اور فوری طور پر خُدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر اظہار ندامت کرنے والا ایک بار پھر خدا کی رحمتوں ،شفقتوں اور نوازشوں کا سزاوار ہو جاتا ہے۔ پروفیسر غلام رسول شوق نے اپنے شعری مجموعہ ’’مشال‘‘ میں ایسی کئی نظموں میں انسان کے باغیانہ رویہ اور اس کا راستے سے بھٹکنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کی نظموں کے الفاظ انسان کے ضمیر اور قلب و روح کو جنجھوڑرہے ہیں کہ اے انسان! دُنیا کی ہر چیز بے حقیقت، عارضی اور جھوٹی ہے ، وہی سچ ، حق اور ہمیشہ رہنے والی ذات ہے۔
کائنات کا ذرہ ذرہ اُس کے وجود کی گواہی دے رہا ہے۔ اس لیے سب برائیاں چھوڑ کر اُس کی طرف رجوع ہو جا۔ شوق صاحب ’’مشال‘‘ کی ایک نظم ’’سچے اکھر‘‘ میں واقعی انمول نگینے تراش رہے ہیں۔
سُن اوہ بندیا! رب دیا بندیا! گل تینوں سمجھاواں
دین دی روح دا مقصد کیہ اے ایہ تیرے کنیں پاواں
لوکاں نُوں پتیاون خاطر پیا توں متھے ٹیکیں
کھڑ کے وچ دربار الٰہی اپنا آپ نہ ویکھیں
گند نال بھریا اندر تیرا خالی نہیں کوئی تھاں
تیرے شر توں خالی نہیں اج کوئی وی گھر دی لاں
سچی لگن بناں نہیں ہونا حل تیرا کوئی جھیہڑا
ہر دے دکھ وچ سانجھی ہونا مومناں کم اے تیرا
ایہ تیری ایہ بلڈنگ اُچی ایہ تیرا پہناوا
ایہ تیرا ایہ جھُگا چولا کالا پِیلا ساوا
رہ جانا اِس دُنیا اُتے خالی ہتھ توں جانا
خورے تیرے حِصے وچ نہیں دو گز بھوں وی آنا
یہ نظم غلام رسول شوق کی فکر و مجاہدے کی منہ بولتی تصویر ہے۔ ایک ایک شعر میں انھوں نے دُنیا کی بے ثباتی کو دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔پروفیسر غلام رسول شوق نے دُنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی کو جس احسن انداز میں بیان کیا ہے وہ صد آفرین و لائق تحسین ہے۔ ان کی سوچوں کا محور ہے کہ ناپائیداری اور فنا، اس کائنات کی ہر شے کا مقدر ہے۔ اگر بہ نظرحقیقت دیکھیں تو اس کائنات کا حُسن ، اس کی فنا پذیری اور ناپائیداری ہی میں ہے۔ دُنیا میں کیسے کیسے خوب صورت لوگ آئے ۔ تاریخ نے بہت سے ایسے چاند چہروں کو اپنے صفحات میں محفوظ کر کے زندہ و جاوید کر دیا مگر کیا وہ مرنے کے بعد دوبارہ کسی کے سامنے آئے ؟ یقیناًاس کا جواب نفی ہے۔غالب نے تو پھولوں کی خوب صورتی انھی ماہ رو چہروں کی وجہ سے قرار دی ہے ، فرماتے ہیں:
سب کہاں ، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ تخلیقِ خداوندی کے شہکار ، خوبصورت چہروں کا یوں پردۂ خاک میں چھُپ جانا بہت غیر معمولی امر ہے ۔ اقبالؒ فرماتے ہیں:
ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کیا حاصل
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی
لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ حسن وجمال اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوصف ایک دن خاک کا رزق ہو جانا ہے۔ موت کے فلسفے کو ہمارے ہاں کلاسیکی اور جدید شعرا نے اپنی شاعری میں کھُل کر بیان کیا ہے۔
نور محمد نور کپور تھلوی اسی مضمون کو یوں بیان کرتے ہیں:
دُنیا کس کی یار ہوئی ہے
دُنیا کا دم بھر دیکھا ہے
٭
حقیقت ہے یہ اور سب کو خبر ہے
کہ دُنیا کی ہر شے فریبِ نظر ہے
رسول کریم صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم سے محبت و عقیدت ایمان کا جزو ہے۔ محمد۔ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم حضورِ پُرنور صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کا اسمِ ذات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے حضور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم تمام مخلوق سے افضل تمام رسولوں کے تاجدار اور سردار ہیں۔ اسی طرح آپ کا نام مقدس بھی تمام نبیوں کے بلکہ تمام مخلوق کے ناموں کا سردار ہے۔۔۔۔محمد صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کا نام بہت بلند ہے۔ پانچوں وقت اذانوں میں نام محمد صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی منادی ہوتی ہے۔ یہ مبارک نام ایک تحریک ہے۔ عالمِ اسلام کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلے جائیے ۔ہر جگہ ہر مقام پر یہ مبارک نام ایک قدر مشترک نظر آئے گا۔ دُنیا بھر میں کسی بھی ملک کسی بھی خطۂ ارض میں بسنے والے مسلمان خواہ وہ یورپ کے سفید فام ہوں ، افریقہ کے سیاہ فام ، برصغیر ہندو پاک کے گندم گوں یا چین و جاپان کے زرد چہرہ مسلم ، سب کے سب اسی ایک نام سے وابستہ ہیں۔ قوم ، رنگ و نسل کے گونا گوں اختلافات کے باوجود یہ سب اگر کسی بات پر متفق و متحد ہیں تو وہ نام محمد صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم ہے۔محمد صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم ایک حرفِ شوق ہے۔ اس کو زبان سے ادا کیجیے تو لب پیوستہ ہوئے جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے شیرینی کام و دہن میں رچی جا رہی ہے ۔۔۔۔وہ ذاتِ اقدس جس پر رب کریم بھی درودوں کے گجرے بھیجے ، اُس کے فرشتے بھی درودوں کے تحفے بھیجیں وہ ذات کتنی عظیم ، ارفعیٰ اور اعلیٰ ہو گی ۔ سبحان اﷲ۔۔۔۔!
پروفیسر غلام رسول شوق ۔۔۔۔بلاشبہ اسم بامسمٰی تھے۔ ساری زندگی غلامِ ۔۔۔۔رسول بن کر گزاری۔ عاجزی و انکساری اور سراپا خلوص و وفا کا یہ پیکر جب بھی ملتا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ادنیٰ غلام کی طرح ۔۔۔۔غلامیٔ رسول کی مہک ان کے پورے وجود سے فضا میں رچ بس جاتی۔بلاشبہ کسی بھی صاحبِ ایمان کے لیے اس سے بڑا اعزاز اور کوئی نہیں کہ اُسے غلامانِ رسول صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم اور ثنا خوان محمد صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم میں شامل کر لیا جائے۔۔۔۔خوش بخت ہیں وہ لوگ جن کے دلوں کے آنگن میں غلامیٔ رسول صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم اور عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کے پھول کھلے ہیں اور ان کی خوشبو ان کے رگ و پے میں بس گئی ہے وہ بڑے نصیبوں والے لوگ ہیں۔ اس سے بڑی دولت پوری کائنات میں نہیں۔ بقول شاعر:
سرکارِ دو عالم کی محبت ہے جو دل میں
اس زینے سے ہر دل میں اُتر جائیں گے ہم لوگ
میرے اُستادِ گرامی! محترم غلام رسول شوق انھی بیدار بخت لوگوں میں سے تھے۔سچ پوچھیے تو ہجر رسول صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم میں عمر بھر روتی ہوئی محروم وصال آنکھوں ، چشمِ عقیدت سے بہتے ہوئے آنسوؤں ، تڑپتے ہوئے دلوں میں مچلتے ہوئے جذبوں کی قسم ، عقیدت ان ہاتھوں کو چومنا چاہتی ہے۔ جو محبوبِ انس و جاں صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی مدحت کے ہار پروتے ہیں۔ محبت اس پیشانی پہ بوسہ دینا چاہتی ہے۔ عشق مصطفٰیؐ جس کی سوچ کا محور ہو۔۔۔۔نگاہ اس رخِ روشن کا طواف چاہتی ہے۔۔۔۔لیکن راقم (اظہار احمد گلزار) کو یہ تمام مواقع نصیب ہوئے۔ میں نے اُس غلامِ ۔۔۔۔رسول کا بارہا طواف کیا۔۔۔۔بارہا اُس ہجرِ رسول میں تڑپتی آنکھوں کی زیارت کی۔۔۔۔ اور مدحت توصیف رسولؐ میں مصروف ہاتھوں کو بوسہ دیا۔۔۔۔یہ میرے لیے کسی انعام اور اعجاز سے کم نہ تھیں۔ زندگی کے آخری سالوں میں اُن کی طبیعت میں حلیمی، بُردباری ، عجزو انکساری ، سراپا خلوص اور پیار مزید بڑھ گیا تھا۔ جب بھی ملتے تو کھُلے بازوؤں اور گرم جوشی سے معانقہ کرتے ایسے محسوس ہوتا کہ روحانیت کا ایک لطیف جھونکا قلب و روح میں سرایت کر گیا ہے ۔ دل نہال ہو جاتا اور روح کو سکون میسر ہو جاتا۔۔۔۔
’’مشال‘‘ میں نعت کے ان اشعار میں غلام ۔۔۔۔رسول کا عقیدت بھرا انداز ملاحظہ ہو۔
درُوداں سلاماں خدا جس تے گھلّے
مکاں لامکاں اوہدے پیراں دے تھلّے
اوہ ہے جیہڑا سارے جہاناں دا مولا
سبھے راز اوہدے نیں کملی دے پلّے
اوہ رحمت دا ساون وسیندا اے تھاں تھاں
اوہدے کرماں نے میرے دُکھڑے نیں ٹھلّے
اوہ صورت نبی پاک دی اﷲ اﷲ
کہ اﷲ وی جس نوں کہوے بلّے بلّے
ملے جے زبان مینوں جبریلؑ دی تے
میں دَساں محمد دے کیہ نیں تجلّے
محمدؐ دا ناں عاشقاں دی عبادت
فدا اوس توں سارے دانے تے جھلّے
نبی غوث ابدال تفصیل اس دی
اوہدے نور دا دیوا تھاں تھاں تے جلّے
٭
میم محمد مُڑ مُڑ چُماں چُم اکھیاں نال لاں
ایہو وِرد وظیفہ میرا ایس تو جاں قربان
دُنیا کی یہ زندگی عارضی اور چند روزہ ہے۔۔۔۔فنا کا عالمگیر اصول کائنات کی ہر چیز پر لاگو ہے۔ انسانی زندگی واقعی بہت مختصر ہے۔ شاعروں نے اس عرصہ زندگی کو کلی کیمسکان اور چنگاری کی چمک کہا ہے۔ اہلِ نظر اور اصحابِ تصوف اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اس لیے یہاں جس قدر وقت ہمیں میسر ہو جائے اسے غنیمت سمجھنا چاہیے۔ بقول شاعر:
دید وا دید جو ہو جائے ، غنیمت سمجھو
جوں شرر ، ورنہ اہلِ نظر ، جاتے ہیں
غلام رسول شوق ۔۔۔۔ایک عملی صوفی تھے۔ چار سلاسل سے خلعت اور بیعت یافتہ تھے۔ اس لیے دُنیا کی حقیقت ان پر آگاہ تھی۔ اس زندگی کی ناپائیداری اور فنا پذیری سے وہ واقف تھے۔ ان کے ساتھ نشست کرتے ہوئے جو مضمون خاص اہمیت کا حامل ہوتا تھا وہ فلسفہ موت ہی ہوتا تھا۔ اپنی ایک پنجابی نظم ’’جد اگلے گھر توں جانا ایں‘‘ میں بیٹی کو سمجھانے کے انداز میں وہ عام آدمی سے مخاطب ہیں۔ ہمارے صوفی شاعروں نے اپنی شاعری میں سمجھانے کا انداز اپناتے ہوئے عورتوں کو مخاطب کیا ہے۔ پنجابی کے صوفی شاعر شاہ حسین نے ایک چرخے کے گرد عورت کو بٹھا کر پوری زندگی کا فلسفہ بیان کر دیا ہے۔شاہ حسینؒ اور بلھے شاہؒ نے تو اپنی کافیوں میں چرخے کے ذریعے معرفت کے رموز سمجھادیے ہیں۔ ’’اگلے گھر‘‘ سے مراد بیٹی کا سسرال گھر ہوتا ہے جہاں جا کر اُسے خود تمام معاملات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے ۔ اس لیے اس گھر یعنی اپنے پیکے (والدین) کے گھر میں رہ کر کوئی اچھے کسب سیکھ لے تاکہ کل سُسرال میں وہ تیرے کام آ سکیں۔۔۔۔مراد یہ ہے کہ دُنیا سے رُخصت ہونے کے بعد آخرت کے لیے ایسی تیاری کر لی جائے جس سے ندامت نہ ہو ۔ شوق صاحب نے اس نظم میں صوفیانہ رنگ اپناتے ہوئے نظم کو لافانی بنادیا ہے۔
ایہ ٹوٹا چھٹ پکا دِھیئے
لے گُڑ دی چاس بنا دِھیئے
سبھ ایتھے سکھ سِکھا دِھیئے
ایہ کم تیرے سبھ آنا ایں
جد اگلے گھر تُوں جانا ایں
سبھ گوں بھناوے جوں کُڑئیے
نہ وانگ ایانیاں بھوں کُڑئیے
وکھ ہو سی ماس توں نونۂ کُڑئیے
توں اوڑک پچھوتانا ایں
جد اگلے گھر تُوں جانا ایں
اِک روز ہنیری جھُل ویسی
ایہ جوبن کملیئے رُل ویسی
مُڑ ہسنا کھیڈنا بھُل ویسی
کھُس جانا تانا بانا ایں
جد اگلے گھر توں جانا ایں
گل ماں دی بنھ لے پلّے نی
جد سوہریاں پانے چھلّے نی
ایہ پندھ توں کرنا کلّے نی
تینوں کسے نہ توڑ پچانا ایں
جد اگلے گھر توں جانا ایں
چھڈ انکھ انا دی بُو کڑئیے
ایہ ہے بیگانی جُوہ کڑئیے
سبھ کر لے چاک رفُو کڑئیے
توں اپنا ٹانکیا پانا ایں
جد اگلے گھر تُوں جانا ایں
اُن کی دیگر نظمیں بھی اپنے صوتی انگ اور منفرد اسلوب کی وجہ سے اعلیٰ درجہ کمال تک پہنچی ہوئی ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی اور اس زندگی کے گونا گوں تجربات و مشاہدات کو کچھ اس طرح اپنی شاعری میں سمویا ہے کہ ان کے کلام می”