لیکچررشپ کی تیاری میں محو تھا کہ اتنے میں دل گرفتہ خبر آئی:
”ڈاکٹر شبیر احمد قادری صاحب وسط جولائی میں عہدے سے سبکدوش ہورہے ہیں۔“
وجود پہ ہلدی سی چھانے لگی اور جی یاد کے شبستان میں اوبنے لگا۔ افسوس اتنے بڑے صاحب کمال ہم سے رخصت ہو رہے ہیں اور ہم یہاں وبا سے گھبرا کر تخلیہ کر بیٹھے ہیں۔ پچھلے دنوں تو لاریاں اسی واسطے بند رہیں۔ مگر اب جی ہے کہ چل کھڑا ہوں اور استاد محترم کی تقریب عہد برآئی میں ہو آؤں۔ مگر اب ویسے دن کہاں۔ گو یونیورسٹی سے آنر کیے سال ہو گیا ہے۔ مگر شعبے کے اساتذہ سے یوں وابستگی ہے کہ رابطہ بھی نہیں اور دل ان کی یادوں کی کھرچن سمیٹنے کو بے کل ہورہا ہے۔
قادری صاحب ہی کو دیکھ لیجیے۔ لگ بھگ کوئی پانچ برس ادھر انھیں اول اول دیکھا تھا، تب وہ دبلے بدن کے آدمی تھے۔ آنکھوں پہ چشمہ، یہ لمبا گویا سروقد، دھیمی رفتار سے چل رہے ہیں۔ ان دنوں ان کا دفتر بالائی منزل پہ وہاں تھا جہاں دیگر اساتذہ ادب براجمان تھے۔ میں جب پہلی بار ان کی طرف چلا تو یہ سوچے جاتا تھا، کہ ان سے کیا بات کروں گا اورکس موضوع پہ بات کروں گا۔ کتنی دیر بیٹھوں گا، کب چل دوں گا۔ اوہ ان دنوں کوئی کتاب تو دیکھی نہیں ہاں اپنی کتاب بغل میں دبائے جاتا ہوں، سو وہی دبائے میں چلا۔
قادری صاحب میز پہ جھکے کچھ خامہ فرسائی کر رہے تھے۔ تحقیق و تنقید اور تخلیق سے متعلقہ کتابیں میز پہ دھری تھی۔ میں بیٹھا اوروہاں پڑے عبداللہ حسین نمبر کی ورق گردانی کرتا چلا گیا۔ تازہ بہ تازہ کتابیں، ایک دم تازہ رسائل و جرائد کا انبوہ تھا۔ فرصت ملی تو عبداللہ حسین کی چربہ سازی پہ بات چل نکلی، دم تحریر یہ تو معلوم نہیں کہ اس مکالمے کا کیا حاصل ہوا مگر یادوں کی کھرچن سمیٹتے، ان کا وہ مشفق چہرہ آنکھوں تلے پھر رہا ہے جو انھیں اپنی کتاب پیش کرتے سمے میسر آیا۔ واہ کیا طور تھا استاد محترم کا، مرقع کھینچے دیتا ہوں :
میں :سر یہ کتاب آپ کے لیے لایا ہوں۔ ”
قادری صاحب: ”واہ، کیا موضوع ہے۔“
میں : ”بچوں کا ادب“
(اسی اثنا عینک دوبارہ اٹھا کر چڑھاتے ہیں۔ کتاب الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں۔ پھر رکھتے ہیں۔ جی نہیں بھرتا تو پھر اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ میں اسی اثنا انھیں پھردریائے حیرت میں غوطہ زن ہوکے دیکھے جاتا ہوں۔ پھر یک لخت ان کے بشرے سے شاباشی کے پھول جھڑتے ہیں )
قادری صاحب: ”واہ! بہت خوب“
میں ”(ایک بے زباں مسکراہٹ) سر کچھ پڑھیے گا۔“
قادری صاحب:۔ ”بہت اچھا صدیقی صاحب!“
میں صاحب کا لقب پا کر یوں پلٹا جیسے استاد صاحب مجھے کوئی مہمان یا مہان قسم کا ادیب سمجھے ہیں۔ طالب علم بالکل نہیں سمجھے۔ اب بیس سال کیا عمر ہے۔ وہ اگلے زمانے کا ذوق تھا جو انیس کے سن میں قصیدہ کہہ کر خاقانی ہند کا خطاب لے اڑا۔ مگر فی زمانہ ایسے علوم کا کہاں گزر۔ بہر کیف اس فکر میں کہاں تک گھلتا کہ جلد ہی یہ کھلا کہ چھوٹا ہوا ہو یا بڑا، ادنی ٰ ہو کہ اعلیٰ ہرکس و ناکس کی تعظیم ان کے مزاج کا خاصا تھی۔
میں جوں جوں شعبے کے ماحول سے شناسا ہوتا گیا، اتنا مجھ پہ واضح ہوگیا کہ اگر اس شعبے میں کوئی دبے قدموں کام کرنا جانتے تھے تو وہ قادری صاحب تھے۔ کب آئے کب گئے کچھ پتا وتا نہیں مگر کب کام نبٹا ڈالا اس کا اندازہ جلد ہوگیا۔ قادری صاحب کا مزاج تو یہ کہ وہ خاموش طبع اور کم گو تھے۔ مطالعاتی نشست سے بھر پور انصاف رکھتے تھے۔ ادھر ہماری متروک نشست ایسی ترک ہوئی کہ جماتے نہیں جمتی مگر قادری صاحب ہیں کہ جب دیکھو کسی پرچے کی ورق گردانی میں مگن ہیں۔ یا تو کتاب پڑھ رہے ہیں یا مجلہ زبان و ادب کی نوک پلک سنوار رہے ہیں۔ زمانے میں ایسے اساتذہ کے ٹھٹ دیکھے ہیں کہ ادھر عہدہ ملا، ادھر سالہا سال نوٹسوں سے کام چلانے لگے۔ دوبارہ مطالعے کی نشست سے جڑت رکھنا کار زیاں سمجھنے لگے۔ مگر ادھر قادری صاحب کا میلان مختلف ہے۔ ان کے مطالعے کی تازگی کا یہ عالم کہ بیسوں کتابوں کو صرف سونگھ کر بتا سکتے ہیں کہ وہ کس نوع کی ہیں۔ ان کے مطالعے میں ویسے تو ہرطرح کی کتابیں رہتی ہیں مگر ایک صنف سخن نعت سے حد درجہ دلچسپی ہے۔ نعت گویا ان کا مرغوب موضوع سخن ہے۔ جب دیکھو، میز پہ تازہ نعتیہ جریدے اور نعت پہ مبنی کتابیں دراشن کراتی ہیں۔ نعت سے متعلقہ سیکڑوں تحقیقی، تحقیدی اور تنقیدی نوعیت کے مقالات انھوں نے تحقیقی مجلات میں لکھ رکھے ہیں۔ نعتیہ رسائل و دیگر ادبی اور صحافتی پرچوں کی ادارت کا رمز رکھتے ہیں۔ میں نے انھیں نعت کہتے تو کبھی نہیں دیکھا مگر خیال ہوتا ہے کہ وہ ضرور کہتے ہوں گے۔
قادری صاحب کی افتاد طبع کا یہ نقشہ کہ فطری ٹھہراؤ ان کی طبعیت کا خاصا تھا۔ وہ ایک ایک لفظ نپا تلا اور جس قدر محتاط انداز میں استعمال کرتے تھے، اس کا اندازہ ایک عامی کو نہیں ہو سکتا ۔ جامعہ کی بہتوں مجالس میں مجھے ان کی نقابت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ قادری صاحب کی علمی مرتبت سے کہاں مفر ہے مگر مجھے ذاتی حیثیت میں ان کی جو شے محبوب تھی وہ ان کی نقابت تھی۔
میرے اورچند دوستوں کا تو یہ طور تھا کہ جب کبھی ایسی مجالس کے مواقع میسر آئے اور یہ یقین ہو چلا کہ قادری صاحب ہی نقابت کریں گے تو سر پٹ دوڑے۔ ان کی نقابت کا یہ اسلوب کہ وہ ان نقبا سے یکسر مختلف تھے، کہ جو منہ میں آیا کہتے چلے۔ ہزل گوئی، پھکڑ پن یا لطائف کا سہارا لے کر سامعین کو متوجہ کیا۔ ان کا ایک خاص مزاج تھا اور وہی دل کو لگتا تھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے کہ قادری صاحب کی تعریف میں رطب اللساں ضرور ہوں مگر مجھے تو بسا اوقات ان کی نقابت بھی عبادت معلوم پڑتی تھی۔
اب صرف نقابت ہی پہ کیا موقوف ہے۔ وہ ادارے سے پچیس برس وابستہ رہنے کے بعد عہد برآ ہو رہے ہیں۔ اور کس دھج سے عہدہ برآ ہورہے ہیں۔ زندگی میں ایسے ایسوں سے بھی پالا پڑا کہ جو جبرا گھر بجھوا دیے گئے۔ مگر قادری صاحب کی عہدہ برآہی کی خبر سنی تو یقین ہی نہیں آیا۔ حالت یہ کہ دم تحریر ان کی رخصتی پہ کچھ لکھنا دریا باندھنا لگ رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے عہدے کے زیر بار ہونے کا وقت آن پہنچا۔ پنجاب یونیورسٹی یا گورنمنٹ کالج لاہور جیسے ادارے میں ہوتے تو اعزازی استاد مقرر کیے جاتے مگر یہ بھی تو اطمینان ہے کہ قادری صاحب طمانیت سے عہدہ بر آہورہے ہیں۔
خدا لگتی کہتا ہوں۔ ان کے جانے سے جتنا نقصان اس شعبے کو پہنچے گا۔ اس کا شاید ابھی ہمیں اندازہ نہیں۔ بڑے آدمیوں کا خلا بڑے آدمیوں کا خلا ہوتا ہے۔ وہ کبھی نہیں بھرتا بس بے کلی کا عالم ہے آنکھیں خشک ہیں۔ گریہ گلو گیر ہے۔ دفتر کا مرقع آنکھوں تلے پھر رہا ہے۔ جانے آسامی پہ اب کون سے استاد صاحب تشریف لائیں گے۔۔۔ اگر کوئی نہ لائے تو خالی کرسی کا غائب غلم کرتے کب تک ڈاکٹر سعید احمد سے پوچھا کروں گا کہ
”قادری صاحب کب تک لوٹیں گے۔“
مجھے قادری صاحب سے باقاعدہ پڑھنے کا کبھی اتفاق نہ ہوا۔ مگر اس حقیقت سے کسے انکار ہے کہ وہ شعبے کی آبرو تھے۔ وہ شعبے میں تھے تو گھر میں کسی بزرگ کے سمان تھے۔ قادری صاحب کی ولادت ساٹھ کی دہائی میں لائل پور میں ہوئی، گورنمنٹ کالج لائل پور سے اردو میں ماسٹر ہوئے، اسی کے وسط میں لیکچرر اردو جڑانوالہ تقرر ہوا۔ نوے کے وسط میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے۔ تخلیقی و تحقیقی مساعیوں کا مرقع کھینچنے کایہ موقع نہیں مگر سنیں کہ ان کی دو کتابیں بعنوان ”درد جام حیات“ اور ”نعت رنگ اہل علم کی نظر میں” منظرعام پہ آئیں۔
اول الذکر ساحر قدوائی کے فکرو فن پہ لکھے جانے والے مضامین کا انتخاب کلام کا مجموعہ ہے جبکہ موخر الذکر نعت کے موضوع پر ہے۔ قادری صاحب کی تحریرات کا وہ انبوہ ہے کہ جنھیں ترتیب دے کر کتابی شکل دی جائے تو کئی کتابیں بنیں، مگر نہ معلوم قادری صاحب نے کتب کی اشاعت میں کیوں دلچسپی نہ دکھائی۔ شاید وہ کچھ زیادہ نمود و نمائش اور نام نمود کے خواہش مند نہ تھے۔ انھوں نے دو جگہ دنیا بسا رکھی تھی۔ ایک فیس بک پہ اور دوسرا اشعبہ اردو میں۔ فیس بک پہ ان کا یہ شغل تھا کہ تازہ بہ تازہ کتابوں اور رسائل کے وہ تعارف پیش کرتے تھے۔ کتابیں سینت سینت کر رکھنے کی بجائے پڑھنے والے طلباء کو نوازتے۔
قادری صاحب کا شمار عہد اور روایت ساز اساتذہ میں تھا۔ وہ اپنے مضمون سے بے حد مخلص اور طالب علم کے لیے ان معنوں میں روحانی باپ تھے جن کا واسطہ بہ مخلص باب علم سے تھا۔ وہ ادارے میں تھے تو ہر طرح سے طلباء کے لیے فیض رساں تھے۔ سکالر کا موضوع کسی بھی تخلیقی تحقیق و تنقید پہ مبنی ہو وہ بھر پور انداز میں اس کی رہنمائی کرتے تھے۔
ان کی نگرانی کا یہ طور کہ پورا مقالہ پڑھے بغیر دستخط کرنا سوء تحقیق سمجھتے تھے۔ انھیں صر ف و نحو پہ ایک خاص ملکہ حاصل تھا۔ ایک ایک لفظ پر جرح کرتے۔ عبارت درست کراتے۔ تحقیقی مضمون میں افسانوی انداز تحریر پہ بگڑتے۔ کہیں جاکر مطمئن ہوتے تو دستخط کردیتے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مقالہ نگار کا تعارف نگران مقالہ ہوتا ہے۔ مقالہ جس صورت میں سفر کرے گا اپنا تعارف پیدا کرتا چلا جائے گا۔ ان کا حافظہ بلا کا تھا۔ ان کی دیگر غیر مقبول اصناف سخن پہ بھی گہری نظر تھی۔ مثلاً ایک زمانے میں جب میں آنر کی سطح کا مقالہ لکھنے کو پر تول رہا تھا توانھی دنوں مجھے اتفاقیہ استاد موصوف سے مکالمے کا شرف حاصل ہوا۔
مقالہ ادب اطفال سے وابستہ ادبا کی آپ بیتیوں پہ تھا۔ لحظہ بھر کی گفتگو میں انھوں نے اطفال ادب سے وابستہ بیسوں ادبیوں کے کام یوں گنوائے کہ ان کی تبحر علمی کے سحر میں بھیگتا ہوا نکلا اور سیدھا نگران مقالہ ڈاکٹر افضل حمید کے یہاں پہنچا:۔
میں : ”کیا ڈاکٹر صاحب کی قاموسی علمیت پہ کوئی شک ہے۔“
بولے: ”رتی برابر بھی نہیں۔ قادری صاحب ایسے صاحب علم اور صحیح معنوں میں استاد اب خال خال ہیں۔ شعبہ اردو میں جتنے بھی اساتذہ ہیں۔ ان کی علمی مرتبت اپنی جگہ مگر قادری صاحب کے ہم پلہ کوئی نہیں۔“
واقعی کوئی ان کی گرد کو نہیں پہنچتا تھا۔ شعبے میں جتنے بھی اساتذہ تھے ایک دو کے علاوہ سب استاد موصوف کے شاگرد تھے۔ مجھے ملک بھر کی جامعات میں جہاں بھی جانے کا اتفاق ہوا قادری صاحب کی علمی قد وقامت کا ڈنکا بجتا ہوا ملا۔
جاتی رت کا ذکر ہے۔ ایک روز مجھے ان کے ہم نام محمد شبیر مل گئے۔ کمیونٹی کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پہ فائز ہیں اور ایک زمانے سے ان سے یاد اللہ چلی آتی ہے۔ استاد موصوف کا مکمل مرقع کھینچنے کو خوبیاں پوچھیں تو کہ اٹھے :۔ ”استاد موصوف کی باقی خوبیاں تو جہاں رہیں۔ ایک خوبی جو انھیں ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ جو ان کا کوئی شاگرد استاد ہو جائے تو باتوں ہی باتوں اس طور تربیت کرتے ہیں کہ معلوم ہی نہیں پڑتا۔ وہ اکثر کہا کرتے ہیں۔ اب آپ ہمارے برابر آ گئے ہیں۔ پڑھنا شروع کردیں۔“
اے دوستو! قادری صاحب کے خانگی حالات مجھے معلوم نہیں، مگر ان کی خوش لباسی، ان کی وضع قطع مرفع الحالی کی چغلی کھاتی تھی۔ سچی بات ہے ان کی شخصیت کی طرح ان کی چال ڈھال بھی جدا تھی۔ وہ نستعلیق مزاج کے حامل وہ بے پناہ آدمی کہ بس اپنی مثال آپ تھے۔ کچھ لوگ جلد ہی کھل جاتے ہیں مگر قادری صاحب جلد یا بدیر کھلنے والوں میں سے نہ تھے لیکن جنھیں ناک کابال سمجھتے تھے۔ ان سے کاروبار زندگی کا سانجھ رکھتے تھے۔ کچھ لوگ انھیں کھڑتل مزاج کا سمجھتے تھے مگر وہ ایسے نہ تھے۔
وہ ہمیشہ غلط بات پہ بگڑتے تھے۔ اکثر جامعات میں بعد ازمقالہ دفاعی امتحان کے ممتحنین کو روٹیاں کھلانا جامعات پہ واجب الادا ہے۔ مگر کہیں بہت بھیڑے رواج مروج ہوگئے۔ مثلاً ادھر مقالہ نگار دفاعی امتحان میں کامیاب ٹھہرا، ادھر اس سے روٹیوں کی مد میں ہزاروں روپے بٹور لیے گئے۔ قادری صاحب اس قسم کی روٹیوں سے بدکتے اور احتجاجاً شریک نہ ہوتے تھے۔ مجھے بھی ایک روز ناظم تحقیق شعبہ اردو نے ایسی ہی روٹیوں پہ کھینچ بلایا مگر خدا جھوٹ نہ بلوائے مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ یہ دستر خوان سکالر کے استحصال سے جما تھا۔
قادری صاحب کو عہدے و مراتب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان میں اکھاڑ پچھاڑ کا مادہ بھی نہ رہا تھا۔ وہ دوسروں کو لتاڑ کر ترقی کرنا کسر شان سمجھتے تھے۔ برتری کے معاملے میں وہ خدا معلوم کیوں سست رہے۔ ایک بار سربراہ شعبہ کے تقرر کے لیے مصاحبے ہونا تھا۔ ان مصاحبوں میں ان صاحب کی شرکت بھی یقینی تھی جو ایک بار شعبے کی سربراہی کا دانا چکھ کر کسی اور جامعہ میں بطور سربراہ شعبہ گئے تھے۔ جب وہ صاحب لوٹے تو پھر انتخاب کا معاملہ درپیش ہوا۔ قادری صاحب اس انتخاب میں دوسرے لیکن کس قدر مضبوط امیدوار تھے مگر وہ پیش ہی نہ ہوئے۔
انھوں نے ملازمت جس دھج سے گزاری وہ انھی کا خاصہ تھا۔ اختلاف رائے میں کمال جگرا تھا۔ ان کے مزاج کی تصویر کچھ ایسی سخت بھی نہیں جو مجھ سے کھنچ گئی۔ طلبہ بتاتے ہیں وہ تحقیقی مزاج کے باوصف شعرو سخن سے ایک گونہ لگاؤ رکھتے تھے۔ ان کے سینوں میں سیکڑوں لطائف الادب جگہ پاتے ہیں۔ اچھے جملہ باز تو ہیں ہی مگر حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور نکتہ آفرینی میں ان کا کوئی مقابل نہ تھا۔
ایک روز میں قادری صاحب کے ہاں بیٹھا تھا۔ ایک صاحب تشریف لائے۔ آتے ہی سلام کیا۔ ادھر کرسی کھینچی اور ڈھیلے پڑ گئے۔ کوئی دیر دونوں میں بات چیت ہوئی۔ لحظہ بھر بعد قادری صاحب کو ان کی مدارت درپیش ہوئی۔ جیب سے بٹوہ نکال باہر کیا۔ بزعم خود کہ مجھے کہیں گے دو چائے لاؤ، پر ایسا نہ ہوا: بولے ”اردلی کو بلاؤ۔“
اٹھا، ادھر ادھر دیکھا، مگر حسب معمول اسے غائب پاتے ہی پہنچا اور گمشدگی کا ذکر کرتے ہی کہا: لائیے مجھے روپے دیجیے۔ میں لائے دیتا ہوں۔ ”مگر وہ بہت شکریہ کہ کر ڈگ بھرتے ہوئے نکلے اور آن کی آن میں سامان ضیافت سمیت واپس ہوئے۔
استاد موصوف کی اس سے زیادہ باتیں لکھنے کو من تو بہت ہے مگر ان کی رخصت کی خبر ہے کہ چھلنی کیے جاتی ہے۔ سال بھر قبل انھیں آخری مرتبہ شعبے کی راہ داری میں خراماں خراماں چلتے دیکھا تھا۔ گال سوج رہے تھے۔ مرض معلوم کیا تو خبر ہوئی گردوں کے عارضے نے آن دبوچا ہے۔ عارضے سے وجود سوج رہا تھا۔ قادری صاحب کب بھلے چنگے ہوئے اور کب ان کا شعبے سے رخصت کا وقت آن پہنچا۔ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ خبر آئی بھی تو اتنی:۔ ”ڈاکٹر شبیر احمد قادری صاحب وسط جولائی میں عہدے سے سبکدوش ہورہے ہیں۔“