…..خسرو ؔ شناسی کے حوالے سے۔۔۔۔۔۔۔
مجموعی طور پر اردو تنقید پر نظردوڑایں تواردوتنقید کا معتدبہ حصہ تبصراتی ‘تشریحی‘ توصیفی یاتنقیحی نوعیت کا خاکہ معلوم ہوتا ہے‘اور بہت کم ناقدین کی تحریرات میں تفکیری اور تجزیاتی فکر و پرکھ کا تکنیکی مکالمہ نظر آتا ہے‘جن میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی بھی شامل ہیں ‘کیونکہ موصوف کسی بھی شعری متن پر گفتگو کرنے کے دوران تنقیدی اسالیب کے پیش نظرتجزیہ و تحلیل کے ماہرانہ عمل (Skilful Performace)کاثبوت جگہ جگہ فراہم کرتے ہیں جو ان کی تصنیف ’’شاعری کی تنقید‘‘کے بیشتر مضامین سے ظاہر ہوتاہے۔
دراصل کسی بھی تخلیقی متن کے تجزیاتی عمل کے دوران تخلیق کار کے زمانی ماحول کے برعکس تخلیق کے متنی ماحول پر ارتکاز کرنا تنقیدی بصیرت کہلاتا ہے تاہم دوران تجزیہ اگر کہیں کہیں پر متن‘ تخلیق کار کے زمانی یا ثقافتی ماحول کی بھی عکاسی کرتا ہے اور یہ معاملہ اکثر شعر وفکشن میں سامنے آتا رہتا ہے تو بھی تنقیدی نقطہ نگاہ سے متن (Text) اور بین المتن(Inter text) میں پوشیدہ لسانی ‘صوتی‘ ہیئتی ‘ موضوعی‘اسلوبیاتی‘ ساختیاتی اور جمالیاتی وغیرہ جیسے فنی اور تکنیکی عوامل کے زیر نظر ہی توضیحی امکانات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔کیونکہ متن میں الفاظ کے ذریعہ ہی معنیاتی فضا بندی قائم ہوتی ہے جو بقول سوسیئر’’صوتی طور پر’ معنی نما‘ (Signifier) اور تصور یا مفہوم کے طور پر ’معنی‘(Signified)‘‘کے ساختیاتی نظام پر استوار ہوتا ہے۔
اب اس تمہید کے پیش نظر زیر مطالعہ کتاب میں شامل تنقیدی مباحث پر غور کریں تو اس میں قدیم وجدید تخلیقی متون کا تجزیہ …لسانی‘ ہیئتی ‘صوتی‘ساختیاتی ‘نفسیاتی‘ جمالیاتی ‘معنیاتی اور ماحولیاتی نظام کے اندر معنی خیز انداز سے کیا گیا ہے۔ان میں روایتی انداز کی معنیاتی تشریح کے برعکس تخلیق کی توضیح میں اپنا خیال بھی شامل کیا
گیا ہے جو کہ تخلیقی تنقید کی دلچسپ غمازی کرتا ہے.بہرحال سر دست کتاب میں شامل مضمون ’’خسرو ؔ کی غزلیہ شاعری کی حرکیات‘‘پر ہی بات کرنا مطلوب ہے تواس مضمون میں امیر خسرو ؔ کے غزلیہ کلام کی شعریات کے لسانی‘صوتی اور استعارتی نظام کے حرکیاتی (Dynamical) رنگ و آہنگ کا معنی خیز اور دلچسپ تجزیہ پیش ہوا ہے۔ مضمون کی شروعات میں خسرو ؔ شناسی کے مطالعہ کے بارے میں کہاگیا ہے کہ ’’…تاہم یہ مطالعے بھی خسروؔ کے فکری رویّے کی طرف بعض اشاروں سے آگے نہیں بڑھتے ‘اور خسرو کے پیرایۂ بیان اور شعری طریقِ کار کی تفہیم میں ہماری کوئی مدد نہیں کرتے۔‘‘(ص.۳)
اور اس کے بعد خسرو کی غزلیات کے تنقیدی عمل اور اپنی ترجیحات کا احاطہ یوں کیا گیا ہے:
’’اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی شاعری کے بارے میں خسرو ؔ
کے بیانات اور تنقیدی آرا کو درمیان میں حائل کئے بغیر ان کی غزلوں
کے متن کا براہ راست سامنا کیا جائے اور اس متن کے وسیلے سے خسرو ؔ
کے شعری طریقِ کا کو سمجھا جائے۔‘‘
(ص:۴)
خسروؔ کی غزل کے امتیازی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’’ان کی غزل اپنے پیرایۂ اظہار کے اعتبار سے فعالیت‘حرکت اور محرک قوتوں کی کشمکش کا ایسا تاثر قائم کرتی ہے جس کی تشکیل میں استعارہ سازی ‘پیکر تراشی اور قول محال (Paradox) کی موجودگی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔‘‘(ص:۵)
خسروؔ کی غزل میں متحرک استعاراتی نظام کا جائزہ لیتے ہوئے ایک اہم نکتہ اجاگر کیا گیا ہے کہ خسروؔ سرو کے استعارے کو تو اپنی روایت سے قبول کرلیتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی کسی نہ کسی صفت کا اضافہ بھی کردیتے ہیں اور یہ صفت ایسی ہوتی ہے جو حرکت کو بھی قبول کرتی ہے اور نقل مکانی کوبھی۔ اپنی دلیل میں وزن پیدا کرنے کے لئے قاسمی صاحب چند اشعار بھی پیش کرتے ہیں ‘مثلاََ درجہ ذیل شعر دیکھیں:
باقدش نسبت نہ دارد قامتِ رفت
راست می گوئم و بر ما نیست ایں کس را گرفت
…(اس) شعر کے پہلے مصرعے میں صرف تقابل وتوازن کا انداز پیدا نہیں کیا بلکہ دوسرے مصرعے میں راست اور گرفت کے الفاظ استعمال کرکے ان لفظوں کا رشتہ پہلے مصرعے کے تقریباََ سارے الفاظ قدش‘ نسبت‘قامت‘سروبلند وغیرہ سے اس طرح قائم کیا گیا ہے کہ اس شعر میں لفظی ‘معنوی اور استعاراتی طور پر حرکیات کا ایک نظام سا قائم ہوگیا ہے۔(ص:۶.۷)
خسرو ؔ کی غزل میں مستعمل استعارے کا روایتی استعمال معنوی یا تکرار کے طور پر کلیشہ نہیں بلکہ متحرک بن کر معنی آفرینی کے کئی در وا کرتا ہے تو خسروؔ کی استعارہ سازی کے حرکیاتی عمل کا مدلل احاطہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ’’خسرو ؔ کی شاعری میں جب استعارہ سازی کا عمل ‘معنی آفرینی کے ذریعہ پیدا کئے گئے تنوع سے دوچار ہوتا ہے تو لغوی معنی ‘استعاراتی معنی اور مستعارمنہ اور مستعار لہ کے مابین جو محرک قوتیں کارفرما نظر آتی ہیں‘ دراصل وہی ‘خسروؔ کے استعاروں کی حرکیات کاتعین کرتی ہیں.‘‘جیسے منتخبہ اشعار میں پہلے شعر کا تجزیہ دیکھیں:
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ برکف
بہ امید آں کہ روزی بہ شکار خواہی آمد
’’(یہ) شعر ظاہری معنی کے اعتبار سے شکار ہونے کی خواہش اور شکار کرنے کے عمل پر مبنی معلوم ہوتا ہے مگر غور کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ اشتیاق ملاقات کی شدید کیفیت ‘ اس شعر میں خود سپردگی ہی نہیں بلکہ شوقِ شہادت کی حدوں کو پہنچی ہوئی ہے۔چنانچہ اس شعر کی محرک قوت شوقِ ملاقات بن جاتی ہے۔‘‘(ص:۷)
اس طرح کا تجزیہ نہ صرف شعر کی معنوی جہت کا ایک نیا پہلو سامنے لاتا ہے بلکہ قرات کو بھی نئی لطافت سے نوازتا ہے۔
خسرو ؔ کی شعری کائنات میں اسلوب شعرکے متنوع پہلو نظر آتے ہیں جو فکری و فنی بنیاد پرسوچ وفکر کے کئی دروا کرتے رہتے ہیں۔ ان میں قولِ محال (Paradox)
کی اصطلاح خاص طور پر شاعرانہ تدبیر کاری (Poetic Devices) میں اہم رول ادا کرتی ہے۔خسروؔ کے غزلیہ کلام پر ارتکاز کرتے ہوئے ان کی غزل میں قول محال کی فنی استعمال کو ’’اجتماع النقیضین ‘‘یا’ ’تضاد کی حرکیات ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’خسروؔ ‘ قول محال کی تخلیق کرنے اور تضادات کو ابھارنے کی غرض سے ایک سے زیادہ شاعرانہ تدبیر کاری(Poetic Devices)کو روبہ عمل لاتے ہیں۔ کبھی وہ لفظی تضاد کو ابھارتے ہیں ‘کبھی لغوی اور استعاراتی معنی کے تضاد کو نمایاں کرتے ہیں۔کبھی صورتحال کے تضاد سے قول محال کا تناؤ پیدا کرتے ہیں اور کبھی ایک سے زیادہ پیکروں کے درمیان پائے جانے والے تناقضآکو آمنے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کے قول محال یا (Paradox)کی تمام صورتوں میں جو چیزیں ہمیں مشترک دکھائی دیتی ہیں ‘اس کو ’’تضاد کی حرکیات‘‘کے علاوہ کوئی اورنام نہیں دیا جاسکتا۔‘‘
اس کے بعد اپنی بات کو اعتبار بخشنے کے لئے درجہ ذیل اشعار کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔:
آباد شداں سینہ کہ از عشق خراب است
آزادی آں دل کہ دراں زلف بتابست
سیہ شد روی ما از تو کہ رویت
زوال روزِ مارا آفتابست
زخمِ شب می نہ خُسپم باشدآں روز/کہ بخت خویش را بیدار بینم
شکریں لعلِ تاکان نمک است/گرچہ شکر نہ مکانِ نمک است
’’ان اشعار میں بالترتیب لفظی تضاد‘صورتحال کے تضاد ‘پیکر کے تضاد اور لغوی معنی اور ممکنہ استعاراتی معنی کے تضاد سے Paradoxکی کیفیت ابھاری گئی ہے۔تضاد کی بنیاد پر قائم ہونے والی تقابلی حرکیات کی ان مثالوں میں استعارہ‘ حسنِ تعلیل اور پیکر تراشی کا کوئی نہ کوئی شائبہ اس مخصوص فنی طریقِ کار میں بعض ایسی جہات کا اضافہ کرتا ہے جو خسرو کی غزل کی محرک قوت سے مخصوص ہے۔‘‘
(ص:۱۲۔۱۱)
مجموعی طور پر دیکھیں تواس مقالے میں امیر خسروؔ کی غزل کی حرکیات کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے خسروؔ کی شاعرانہ تدبیر کاری‘ڈکشن‘ امیج سازی‘پیکر تراشی‘استعارہ سازی وغیرہ پر فکرانگیز مکالمہ باندھا گیا ہے ‘جو نہ صرف خسرو ؔ شناسی کے باب میں ایک اہم اضافہ قرار دیاجاسکتا ہے بلکہ خسرو ؔ کے کلام کی فکری اور معنوی جہات کی تفہیم و تعبیر کے نئے اکتشافات کے لئے دعوت فکر بھی دیتاہے‘کیونکہ بقول قاسمی صاحب:
’’خسروؔ کی غزل کی یہی حرکیات(Dynamics)فارسی شاعروں کی بھیڑ میں ان کی امتیازکی ضمانت ہے‘اور خسرو ؔ کی یہی افتاد طبع صوفی ہونے کے باوجود انہیں وحدۃالوجودی انفعالیت سے دور رکھتی ہے اور اپنے ہم مشرب صوفیوں سے اس نوع کے تخاطب کا حوصلہ عطا کرتی ہے:
اے صوفیانِ مست یکے رقص عاشقاں
تا ایں کبودِ کہنہ بساط شما کنیم‘‘
(ص:۱۲)