فلمی دُنیا میں چند ہی گنی چنی ہستیاں ایسی ہوئی ہیں، جنہوںنے اپنی زندگی میں کچھ ایسے کام کئے ہیں، جن کی وجہ سے وہ فلمی دُنیا کی تاریخ میں امر ہو گئے ہیں۔ چاہے وہ تکنیکی اعتبار سے کوئی اہم کام ہو، یا کسی یادگار کردار ادا کرنے کا کام ہو۔ اُن لوگوں میں دادا صاحب پھالکے کا نام سرفہرست ہے، جنہوںنے ہندوستان میں فلموں کی بنیاد ڈالی۔ اِسی لئے اُن کو ہندوستانی فلموں کا جنم داتا کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح محبوب خان، سہراب مودی، کے۔ آصف، کمال امروہوی، بلراج ساہنی، اشوک کمار، محمد رفیع، لتا منگیشکر اور دلیپ کمار وغیرہ کچھ نام ایسے ہیں جن کو ہندوستانی فلموں کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
ایسے ہی چند ناموں میں ایک درخشاں نام مرحوم پرتھوی راجکپور کا بھی ہے جنہوںنے نہ صرف خود اپنی زندگی فلموں کے لئے وقف کر دی، بلکہ ایک پورا فلمی خاندان ہندوستانی فلموں کو عطا کیا۔ آج اُن کے بیٹے اور پوتے تک اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ راجکپور ہیروشپ میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ایک کامیاب ہدایتکار اور فلمساز بنے۔ شمی کپور کریکٹر آرٹسٹ ہو گئے، ششی کپور بھی ایک بہترین فلمساز کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پرتھوی راجکپور کے پوتوں کی بھی ایک کافی بڑی جماعت ہے جو پورے طور پر فلموں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں رندھیر کپور، رشی کپور، راجیو کپور اور کنال کپور کافی اہم ہیں۔ ان کی دو پڑپوتیوں (رندھیر کپور کی بیٹیوں)، کرشمہ کپور اور قرینہ کپور نے بھی خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔
پرتھوی راج کا جنم ۳؍نومبر ۱۹۰۶ء کو پشاور کے ایک متمول کپور خاندان میں پولیس انسپکٹر بشیشرناتھ کپور کی پہلی بیوی کی اکلوتی اولادکے طور پر ہوا تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم سمندری اور لائل پور میں ہوئی اور بعدمیں پشاور کے کالج سے گریجویشن کیا۔ اُن دنوں وہ ایک وجیہ، خوبصورت شکل وصورت کے چھ فٹ سے کچھ نکلتے ہوئے گبرو نوجوان تھے۔۱۰؍دسمبر ۱۹۲۳ء کو ان کی شادی رمادیوی سے ہوئی اور اس کے بعد وہ قانون کی پڑھائی کے لیے لاہور چلے گئے۔ لاہور گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل میں ایک دن پرتھوی راجکپور کو اپنی بیوی رمادیوی کا ہندی میں لکھا ہوا خط ملا۔ کیونکہ وہ ہندی نہیں جانتے تھے، اس لیے انہوںنے اپنے روم پارٹنر پورن سنگھ سے ایک دن میں کام چلائو ہندی پڑھنا سیکھا اور اپنی بیوی کا خط خود پڑھ کر اس کا جواب بھی ہندی میں ہی لکھ کر بھیجا۔
۱۹۲۹ء کے شروعاتی مہینوں میں ہی وہ کالج کے لڑکوں اور مغرور قسم کے پروفیسروں سے اکتا گئے اور ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ وہ اداکاری کے فن میں ہی زیادہ ذہنی سکون حاصل کر سکیںگے۔ دل میں یہ خیال آتے ہی انہوںنے کالج اور پڑھائی چھوڑی اور بیوی اور بڑے بیٹے کو پشاور میں ہی الوداع کہہ کر بمبئی آگئے۔ گِرگائوں میں آردیشر ایرانی کی ’’امپیریل فلم کمپنی‘‘ تھی۔ وہاں پرتھوی راج کو ایکسٹرا اداکار کے بطور پہلی بار فلم ’’چیلنج‘‘ میں ایک کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ اُن دِنوں وہ فارس روڈ جیسے بدنام علاقے کی ایک گلی کی بلڈنگ میں کرایے کا کمرہ لے کر رہنے لگے۔
پرتھوی راج کو جلد ہی ان کی پُروقار شخصیت کی وجہ سے آردیشر ایرانی نے اپنی اگلی فلم ’’سنیما گرل‘‘ میں ہیرو بنا دیا اورایکسٹرا کا لیبل اُن کے نام سے ہٹ گیا۔ اس فلم میں اِیرملین ان کی ہیروئن تھیں۔ ہدایتکار بی۔ پی۔ مشرا کی فلم ’’طوفان‘‘ میں بھی اسی جوڑی کو دہرایا گیا۔ اس کے بعد مشرا جی کی فلم ’’دروپدی‘‘ میں پرتھوی راج نے ارجن کا کردار ادا کیا۔ فلم ’’وجے کمار‘‘ اور ’’بینڈ فار دی تھرون‘‘ میں وہ جِلّوبائی کے ساتھ ہیرو بنے اور ’’نورانی موتی، لاہور کی بیٹی‘‘ اور فلم ’’دھرتی ماتا‘‘ میں ان کی ہیروئن زہرہ بنیں۔ اس کے علاوہ ’’نمک حرام کون؟‘‘ اور ’’پریم کا دائو‘‘ پرتھوی راج کی کچھ ایسی خاموش فلمیں تھیں جو ۱۹۳۱ء تک نمائش کے لیے پیش کی جا چکی تھیں۔
۱۴؍مارچ ۱۹۳۱ء کو ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ایک زبردست انقلاب آیا اور اُس دن ہندوستان کی پہلی بولتی فلم ’’عالم آرا‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ فلمساز ہدایتکار آردیشر ایرانی کی اس فلم میں پرتھوی راج کپور نے عالم آرا (زبیدہ) کے باپ کا کردار ادا کیا تھا جو بادشاہ کی فوج کا سپہ سالار بھی تھا۔ ملک کے اس ناچتے گاتے اور بولتے ہوئے کرشمے نے لوگوں پر جادو جیسا اثر کیا۔ حالانکہ اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اخبار کے صحافی نے پرتھوی راج کی اداکاری اور خاص طور پر ان کی آواز کی سخت الفاظ میں تنقید کی اور لکھا کہ ان کی آواز فلموں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد میں متکلم فلموں کے لیے ان کی یہی آواز ان کی اور فلم کی کامیابی کی ضمانت بن گئی۔
یہ وہی زمانہ تھا جب پرتھوی راج کا تھیئٹر کی طرف رجحان بڑھنے لگاتھا۔ بمبئی کے اوپرا ہائوس میں انہوںنے ’’گرینڈ انڈین نیشنل تھیئٹر‘‘ نام کے ایک گروپ کے ساتھ کام شروع کر دیا، مگر جلد ہی چار سو پچاس روپے ماہانہ تنخواہ پر کلکتہ کے ’’نیو تھیئٹرس‘‘ کے ساتھ کام کرنے لگے۔ بمبئی میں انہوںنے ۱۹۳۲ء میں ’’امپیریل فلم کمپنی‘‘ کی ’’دغاباز عاشق‘‘ میں زہرہ کے ساتھ کام کیا تھا اور ۱۹۳۳ء سے لے کر ۱۹۳۹ء تک پرتھوی راج نے کلکتہ کے نیو تھیئٹرس کی تقریباً دس فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کے علاوہ تقریباً چھ فلمیں نیو تھیئٹرس سے باہر کی بھی کیں۔
کلکتہ جانے سے پہلے انہوںنے اپنی شدید خواہش کے مطابق رنجیت اسٹوڈیو کی فلموں میں کام کرنے کے لئے اسٹوڈیو کے مالک چندو لال شاہ ملے۔ مگر چندو لال شاہ نے ان کے ڈیل ڈول کو دیکھنتے ہوئے انہیں اسٹنٹ فلموں میں کام کرنے کا مشورہ دے کر ٹال دیا۔ تب پرتھوی راج یہ کہتے ہوئے اُن کے دفتر سے باہر آگئے کہ آپ ہندوستان کے ایک بہت بڑے اداکار کو رجیکٹ کر رہے ہیں۔
۱۹۳۹ء میں پرتھوی راج واپس بمبئی آگئے اور ایک ہزار روپے ماہوار پر سیٹھ چندو لال شاہ کے رنجیت مووی ٹون سے وابستہ ہو گئے۔ حالانکہ انہوںنے اب تک کافی شہرت، عزت اور پیسہ حاصل کر لیاتھا، مگر وہ ہمیشہ ایک سادہ سی زندگی گزارنے کے قائل رہے۔ ماٹنگا کے ان کے فلیٹ میں ہمیشہ مہمان بھرے رہتے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت جب جگہ جگہ ہندو مسلم فساد ہو رہے تھے تو پنجاب سے ان کے کئی رشتہ دار خاندان بمبئی آکر ان کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔
رنجیت موویٹون کے ساتھ پرتھوی راج کی سب سے پہلی فلم ۱۹۳۹ء میں ’’ادھوری کہانی‘‘ کی نمائش ہوئی، جس کی ہیروئن دُرگا کھوٹے تھیں۔ اس کے بعد انہوںنے رنجیت موویٹون کی ’’آج کا ہندوستان‘‘ اور ’’پاگل‘‘ (۱۹۴۰ء)، ’’گوری‘‘ اور ’’وش کنیا‘‘ (۱۹۴۳ء) فلموں میں کام کیا، جن میں ستارہ دیوی، مادھوری، شمیم اور سادھنا بوس ان کی ہیروئنیں تھیں۔ اس درمیان پرتھوی راج نے ’چنگاری، دیپک، سجنی‘ (۱۹۴۰ء)، ’راج نرتکی، سکندر‘ (۱۹۴۱ء)، ’ایک رات، اُجالا‘ (۱۹۴۲ء)، ’آنکھوں کی شرم، بھلائی، اشارہ‘ (۱۹۴۳ء) فلمیں بھی کیں۔ ان میں ’سکندر‘ اور ’راج نرتکی‘ اُس زمانے کی کامیاب فلمیں تھیں۔ فلم ’’پُکار‘‘ کی بے پناہ کامیابی سے متاثر ہوکر فلمساز سہراب مودی نے فلم ’’سکندر‘‘ کو اور زیادہ عالیشان بنانے کی کوشش کی تھی۔ سکندر کے کردار میں پرتھوی راج کپور، پورس کے کردار میں خود سہراب مودی اور رُخسانہ کے کردار میں وَنمالا نے پورے ہندوستان میں دھوم مچا دی۔ اِن دونوں فلموں نے پرتھوی راج کو شہرت کے نئے آسمان پر پہنچا دیا۔ اس کے بعد پرتھوی راج کی مذہبی، دیومالائی اور تاریخی فلموں کی ایک لمبی فہرست ہے، مگر ۱۹۴۴ء میں وی۔شانتارام کی فلم ’’شکنتلم‘‘ میں انہیں کام نہیں ملا، اور وہ ایک تھیئٹر گروپ بنانے کی بات اپنے دل میں ٹھان بیٹھے۔
دوبارہ بمبئی لوٹنے کے بعد پرتھوی راج نے اسٹوڈیو کی ملازمت اختیار کرنے کے بجائے فری لانسنگ سسٹم شروع کیا۔ یہی ایک طرح سے اسٹار سسٹم کی بھی ابتداء تھی۔ اس سے قبل فلم اداکار اسٹوڈیو یا فلم کمپنی کا تنخواہ دار ہوا کرتے تھے۔ انہوںنے کسی ایک اسٹوڈیو میں نوکری کرنے کے بجائے الگ الگ کمپنیوں کی فلمیں سائن کیں۔ لہٰذا پرتھوی راج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فری لانسنگ سسٹم کو دورسرے اداکروں نے بھی اپنایا۔
۱۹۴۵ء میں اسٹیج کی مقبول اداکارہ عذرا ممتاز کے ساتھ ’’شکنتلا‘‘ ڈرامہ کرکے انہوںنے ’’پرتھوی تھیئٹر گروپ‘‘ کی بنیاد ڈالی اور آئندہ آنے والے پندرہ برسوں تک ’’پرتھوی تھیئٹر گروپ‘‘ لگاتار اپنے شوز کرتا رہا۔ ۱۹۶۰ء تک سولہ برس کے وقفے میں پرتھوی راج کپور نے تقریباً ایک سو پچاس اداکاروں، ادیب شاعروں، موسیقاروں اور تکنیکی لوگوں کی منڈلی کے ساتھ پورے ملک کا دورہ کیا اور تھیئٹر کی طاقت کا احساس عوام کو کرایا۔ اپنے ایک تھیئٹر کاقیام اب اُن کا سب سے بڑا خواب بن چکا تھا۔ وہ ہر شو کے بعد ناظرین سے اپنے ایک تھیئٹر کے قیام میں تعاون کرنے کی اپیل کرتے تھے اور بعد میں تھیئٹر کے باہر چندہ اکٹھا کرنے کے لیے دامن پھیلاکر کھڑے ہو جاتے تھے۔ حالانکہ ان کا یہ خواب اُن کے انتقال کے بعد شرمندۂ تعبیرہوا۔ ان کی موت کے بعد ’’پرتھوی راجکپور میموریل ٹرسٹ‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور پھر ۱۹۷۸ء میں ان کی یاد میں اس ٹرسٹ نے ایک تھیئٹر کی تعمیر کرائی۔
ملک بھر میں اسٹیج شوز کرنے کے ساتھ ہی اپنی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انہوںنے بہت سی فلموں میں بھی کام کیا۔ جن میں خاص طور پر ’’آزادی کی راہ پر (۱۹۴۸ء)، دہیز ، ہندوستان ہمارا (۱۹۵۰ء)، آوارہ، دیپک (۱۹۵۱ء)، آنند مٹھ، انسان (۱۹۵۲ء) آگ کا دریا (۱۹۵۳ء)، احسان (۱۹۵۴ء)، پردیسی، پیسہ (۱۹۵۷ء)، لاجونتی (۱۹۵۸ء)‘‘ اور ’’مغل اعظم‘‘ (۱۹۶۰ء) خاص طور پر مقبول اور کامیاب فلمیں ثابت ہوئیں۔ ۱۹۵۷ء میں انہوںنے پرتھوی تھیئٹر بند کرکے اسے فلمسازی کے ادارے میں تبدیل کردیا تھا اور اس کے بینر سے انہوںنے اپنے ہی ایک مقبول ناٹک ’’پیسہ‘‘ پر فلم بنائی جس کی ہدایتکاری خود پرتھوی راج نے کی۔ اس فلم میں پرتھوی تھیئٹر کے خاص خاص اداکاروں کے ساتھ ہی انہوںنے اپنی پہلی خاموش فلم ’’سنیماگرل‘‘کی ہیروئن اِیرملین کو بھی موقع دیا، مگر یہ فلم بُری طرح ناکام ہو گئی اور پرتھوی راج نے پھر کبھی فلمسازی یا ہدایتکاری کاحوصلہ نہیں کیا۔
پرتھوی راجکپور نے اسٹیج سے فلم تک ایک کافی لمبا سفر طے کیا تھا اور اداکاری اُن کے رگ وپے میں رچ بس گئی تھی۔ تھیئٹر سے ان کا پیار اور لگائو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ انہوںنے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی کمایا، اس کا زیادہ حصہ تھیئٹر میں لگا دیا اور جہاں تک ہو سکا، تھیئٹر کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ جب ان کی آمدنی محدود ہو گئی تو مجبوراً ان کو تھیئٹر بند کرنا پڑا۔ پھر بھی وہ اپنی جگہ مطمئن تھے کہ انہوںنے تھیئٹر کے ذریعہ ہماری فلمی دنیا کو کئی بڑے اچھے فنکار دیئے جن میں راجکپور، شمی کپور، ششی کپور، پریم ناتھ، سجن، حسرتؔ جے پوری، شنکر اور جے کشن، رامانند ساگر اور اندراج آنند کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ سارے لوگ ہی پرتھوی راجکپور جی کے ساتھ تھیئٹر سے جڑے ہوئے تھے۔ تھیئٹر میں بہت زیادہ کام کرنے کی وجہ سے ان کی آواز خراب ہو گئی تھی، تب فلم ’’تین بہورانیاں‘‘ میں اُن کی آواز ڈب کرنی پڑی۔ بعد میں اپنی آواز کی خرابی کو بھی انہوںنے خوبی میں بدل دیا اور جہاں اُن کی آواز ساتھ نہیں دیتی تھی تو وہ ہاتھوں سے کام لیتے تھے اور سین میں جان ڈال دیتے تھے۔
فلمساز کے۔ آصف کی فلم ’’مغل اعظم‘‘ پرتھوی راج کپور کی اداکارانہ صلاحیتوں کی انتہا ہے۔ اس فلم کے کئی منظر ایسے ہیں جن میں پرتھوی راج کی اکبر اعظم کے کردار میں اداکارانہ فنکاری پر تفصیل سے بات ہو سکتی ہے۔ یاد کیجئے شیش محل میں انارکلی کا بیباک ہوکر اکبراعظم کے سامنے رقص اور گانا… ’’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا…‘‘ کے اختتام پر غصہ سے سُرخ ہو جانا اور سانس روک کر آنکھوں اور چہرے، گلے کی نسوں کا پھلاکر غصے کا اظہار کرنا، پوری فلم میں ان کی مخصوص چال اور اپنے لاڈلے بیٹے سلیم سے یہ کہنا… ’’سلیم! تجھے بدلنا ہوگا!‘‘ ایک سین میں جب وہ انتہائی مجبوری میں انارکلی کے سرپر ملکۂ ہندوستان کا تاج اپنے ہاتھوں سے رکھتے ہیں تو ان کے ہاتھ کانپتے ہیں اور چہرے پر مجبوری، حقارت اور غصے کے تاثرات ایک ساتھ اُبھر آتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ دیوان خاص میں اپنے درباریوں کی موجودگی میں اپنے باغی بیٹے شہزادہ سلیم کی بغاوت کا اعلان سنتے ہیں تو ان کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک منظر میں جب بہار اکبراعظم کو سلیم انارکلی کی ملاقات کی جانکاری دیتی ہے اور وہ خود شاہی باغ میں جاکر دیکھتے ہیں اور انارکلی خوف کے مارے بیہوش ہو جاتی ہے تو انتہائی غصے کے عالم میں بھی اُن کے چہرے پر حقارت سے دیکھنے کے تاثرات سے سین میں روح پھونک دیتے ہیں۔ اس طرح کی کئی مثالیں صرف اسی ایک فلم سے دی جا سکتی ہیں۔
فلم ’’مغل اعظم‘‘ (۱۹۶۰ء) نے پرتھوی راجکپورکو لازوال بنادیاتھا مگر اس کے بعد ہی وہ سخت علیل ہو گئے اور کئی برسوں تک انہیں کئی سطحی فلموں میں بھی کام کرنا پڑا۔ ’’لٹیرا، ڈاکو منگل سنگھ، لال بنگلہ، لَو اینڈ مرڈر، نئی زندگی، بانکے لال‘‘ وغیرہ چند ایسی ہی فلمیں ہیں۔ حالانکہ ۱۹۶۳ء کے بعد ان کی بہترین اداکاری کی مثال کچھ کامیاب فلمیں بھی بنی، جن میں ’’پیار کیا توڈرنا کیا، غزل، راجکمار، زندگی، جانور، یہ رات پھر نہ آئے گی، تین بہورانیاں، انصاف کا مندر، ایک ننھی سی لڑکی تھی، گناہ اور قانون‘‘ اور ’’کل، آج اور کل‘‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ایک فلم ’’بامبے بائے نائٹ‘‘ان کے انتقال کے چار سال بعد ریلیز ہوئی۔
۱۹۶۶ء میں کارلوویری کے پندرہویں عالمی فلمی میلہ میں ان کی اداکاری والی فلم ’’آسمان محل‘‘ (۱۹۶۵ء) کی نمائش کے سلسلے میں پراگ (چکوسلوواکیہ) کی موسیقی اکیڈمی کی طرف سے پرتھوی راجکپور کو ہندوستانی فلم اور ڈرامہ کے ارتقاء میں تخلیقی تعاون دینے کے لیے خاص طور پر اعزاز سے نوازا گیا۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۰ء تک لگاتار پرتھوی راج پارلیامنٹ کی راجیہ سبھاکے ممبر نامزد کئے گئے۔ ۱۹۶۳ء میں حکومت ہند کی طرف سے انہیں ’’پدم بھوشن‘‘ کے اعزاز سے نوازاگیا، اور ۱۹۷۲ء میں پرتھوی راجکپور کو بعد ازمرگ ۱۹۷۱ء کے ’’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘‘ سے سرفراز کیا گیا۔
پرتھوی راجکپور کو لوگ پیار میں اور احتراماً ’’پاپاجی‘‘ کہا کرتے تھے اور ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کو ’’پاپاجی، پاپاجی‘‘ کہتے نہیں تھکتے تھے۔ پاپاجی کے پاس ایک بہت پُرانی اوپل اور اسٹینڈرڈ گاڑی تھی۔ اسٹینڈرڈ گاڑی تو بڑی عجیب تھی۔ اس میں بیٹھ کر پاپاجی گاڑی سے بڑے دکھائی دیتے تھے۔ لوگ ہنستے بھی تھے مگر پرتھوی راج جی اُسی میں بیٹھ کر گھومتے تھے اور خود ہی اُسے چلایا کرتے تھے۔ جب پرتھوی راج جی صبح کو اس گاڑی میں نکلتے تو گلی کے بچوں کو اکٹھا کرکے کہتے۔ ’’چلو بچو! پاپاجی کی گاڑی کو دھکا لگائو۔‘‘ بچے دھکا لگاتے اور گاڑی چل پڑتی۔ اگر کہیں راستے میں رک گئی تو راہ چلتے لوگوں کو بلا لیتے اور لوگ بھی پاپاجی کی گاڑی کو دھکا لگاکر خوش ہوتے تھے۔
ان کی زندگی بڑی سادہ اور بااصول تھی۔ ایک بار راجکپور نے ان کے لئے ایک بڑی گاڑی خریدنی چاہی، مگر انہوںنے یہ کہہ کر گاڑی خریدنے سے اِنکار کر دیا کہ ’’پرتھوی راجکپور اتنی بڑی گاڑی افورڈ نہیں کر سکتا۔‘‘
پرتھوی راجکپور میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کی بڑی لگن تھی۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ ہر انسان میںایک طالب علم ہوتا ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر کے طالب علم کو کبھی مرنے نہ دے۔ جب تک زندہ رہو، کچھ نہ کچھ سیکھتے رہو۔ زندگی کا ہر دن کچھ نہ کچھ سیکھنے کے لئے ہوتا ہے۔ انہوںنے خود کئی زبانیں سیکھیں، تلگو اور کنڑ فلموں میں بھی کام کیا۔ انہیں موسیقی سے بے پناہ لگائو تھا۔ کوئی بھی اچھا فنکار مل جاتا تو وہ اس کو لے کر بیٹھ جاتے۔ کبھی خود ستار بجانے لگتے، کبھی باجا۔ موسیقی ہی نہیں، وہ اپنے بھاری بھرکم جسم کے باوجود ناچ بھی سیکھتے تھے۔ اسی طرح مذہبی کتابیں پڑھنے کا بھی ان کو بڑا شوق تھا۔ گیتا، قرآن اور بائبل نہ صرف پڑھتے تھے بلکہ لوگوں کو ان کتابوں کے حوالے دے کر انسانیت کے صحیح راستے پر چلنے کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔ دنیا کے ہر مذہب کے لئے ان کے دل میں احترام کا جذبہ تھا اور تنگ نظری ان کو چھو کر بھی نہ گئی تھی۔ وہ قدیم ہندوستان کی تہذیب کے علمبردار تھے مگر نئی تہذیب کی بھی مخالفت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی پر اپنے خیالات تھوپنے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوںنے زندگی کے آخری دور تک اپنی فلموں کا اسکرپٹ اردو میں ہی لیا۔ و ہ اردو زبان کے دلدادہ تھے۔
راجکپور جب فلموںمیں آئے، اُس وقت پرتھوی راج کا عروج کا زمانہ تھا اور وہ فلم والوں اور فلم بینوں سے اپنے فن کا لوہا منوا چکے تھے۔ مگر اتنی حیثیت کا مالک ہونے کے باجود انہوںنے راجکپور کے لئے کسی سے کوئی سفارش نہیں کی۔ انہوںنے صاف الفاظ میں راجکپور سے کہا کہ ’’اگر تم اس لائن میں آنا چاہتے ہو تو بڑے شوق سے آئو، مگر یہ مت سمجھنا کہ تم اداکار پرتھوی راج کے بیٹے ہو۔ اپنا راستہ خود تلاش کرو۔ تمہاری محنت، لگن اور ایمانداری خود تمہاری پہچان بنا دے گی۔ میرا آشیروارد ہی تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب راجکپور نے فلم لائن میں داخلہ لیا تو بمبئی ٹاکیز میں کلیپر بوائے کی حیثیت سے کام شروع کیا اور بعد میں وہ ہندوستان کا ایک بڑا اداکار، فلمساز اور ہدایتکار بن کر لوگوں کے سامنے اُبھرا اور غیرممالک میں بھی غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ جیمنی والوں کی فلم ’’زندگی‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ جیمنی اسٹوڈیو میں ہدایتکار واسن صاحب نے پرتھوی راج کے مکان کا بہت بڑا سیٹ لگا رکھا تھا جو ایک بہت بڑے رئیس اور جاگیردار کا کردار اس فلم میں ادا کر رہے تھے۔ بہت بڑا ہال تھا، ہال کو پار کرکے سیڑھیاں تھیں اور سیڑھیاں چڑھ کر راجندر کمار کا بیڈروم تھا جو اس فلم میں پرتھوی راج کے اکلوتے نوجوان بیٹے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ سین یہ تھا کہ راجندر کمار کا اکسیڈینٹ ہو چکا ہے اور وہ بیہوشی کی حالت میں پڑا ہے۔ پاپاجی اس کو پاگلوں کی طرح تلاش کرتے ہیں اور جب وہ مل جاتا ہے تو اس کو گود میں اُٹھاکر ہال میں سے ہوتے ہوئے، سیڑھیاں چڑھ کر اس کے کمرے تک لے جاتے ہیں۔ اُن دِنوں پرتھوی جی کے پیر میں کچھ تکلیف بھی تھی۔ ہدایتکار واسن نے کہا۔ ’’پاپاجی، یہ شاٹ بہت لمبا ہے اور تکلیف دہ بھی اور آپ کے پائوں میں تکلیف بھی ہے، لہٰذا میں یہ شاٹ کسی ڈپلی کیٹ سے کرائے لیتا ہوں۔‘‘
پرتھوی راج نے صاف انکار کر دیا، بولے… ’’نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ بیٹا میرا ہے، لہٰذا میں ہی اسے گود میں لے کر اوپر جائوںگا۔ اگر ایسا نہیں کر سکا تو اس کے بعد کے سین میں باپ کا جذبہ کہاں سے لائوںگا۔‘‘ اور پھر یہ لمبا اور تکلیف دہ شاٹ انہوں نے خود ہی کیا۔ یہ تھی ان کی کام کے سلسلے میں لگن، محنت اور ایمانداری کی ایک مثال۔
پرتھوی راج کی فلموں میں سب سے اہم فلم تھی کے۔ آصف مرحوم کی ’’مغل اعظم‘‘۔ دراصل دیکھا جائے تو یہ فلم ہی پرتھوی راجکپور کی تھی۔ اس فلم کے لئے انہوںنے جتنی محنت کی ہے، شاید ہی کسی فلم کے لئے کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے اکبراعظم کے کردار کو پردۂ سیمیں پر زندۂ جاوید کر دیا ہے اور اب تک کوئی بھی اداکار اکبراعظم کے کردار کی اُس امیج کو توڑ نہیں پایا ہے۔
ملک کی آزادی کے بعد بھڑکے ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات پورے ملک میںپھیل گئے۔ پرتھوی راج کے تھیئٹر میں کئی مسلم اداکار بھی کام کرتے تھے۔ فسادیوں نے ایک دن پرتھوی تھیئٹر کو گھیر لیا اور ان سے مانگ کی کہ مسلم اداکاروں کو ان کے حوالے کر دیا جائے۔ تب پرتھوی راج بے دھڑک فسادیوں کے سامنے آگئے اور اپنی گھن گرج والی آواز میں کہا کہ ہندو ہو یا مسلمان، میرے ساتھ کام کرنے والا ہر شخص پہلے انسان ہے اور میری اولاد کی طرح ہے۔ ان میں سے کسی تک پہنچنے کے لیے تمہیں پہلے مجھے قتل کرنا ہوگا۔ پرتھوی راج کی باتیں سن کر وہ لوگ ان کے پیر چھوکر واپس چلے گئے۔
پرتھوی راج انسانی ہمدردی اور اخلاقی قدروں میں بہت زیادہ یقین رکھتے تھے۔ ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران انکو فلم کی ہیروئن کا ہاتھ چومنا تھا۔ وہ بڑے تذبذب میں تھے۔ پھر اچانک انہوںنے اداکارانہ طور پر کمرے کی طرف پشت کرکے اپنا ہی ہاتھ چوم لیا۔ ناظرین کو بالکل ایسا ہی لگا جیسے انہوںنے ہیروئن کا ہاتھ چوما ہے۔
فلم ’’آوارہ‘‘ میں انہوںنے اپنے بڑے بیٹے راجکپور کے باپ کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے بعد اُن کے کریکٹر ایکٹر کے کرداروں کا دور شروع ہو گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ۱۹۴۳ء میں فلم ’’اشارہ‘‘ میں ان کی ہیروئن ثریا بنی تھیں اور ثریا کی عمر اس وقت صرف تیرہ برس تھی۔ اس فلم میں پرتھوی راج کا ایک ڈائیلاگ… ’’جیو چھمیا…‘‘ بہت مقبول ہوا تھا اور فلم کی کامیابی کا حصہ بنا تھا۔ بعد میں ثریا نے راجکپور کے ساتھ بھی ہیروئن کے بطور کام کیا۔
پرتھوی راجکپور اپنے آپ میں ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ محفلوں میں ان کا اپنا ہی الگ رنگ ہوتا تھا۔ ادب، موسیقی، ڈرامہ، مذہب، شاعری، غرض ہر موضوع میں ان کی دلچسپی تھی۔ ڈاکٹر علامہ اقبالؔ کا ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ اُن کو از بر تھا۔
۲۹؍مئی ۱۹۷۲ء کو پرتھوی راجکپور کا انتقال بمبئی میں ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد اُن کی زندگی بھر کی فلمی خدمات کے لئے اُن کو حکومت ہند کی طرف سے ۱۹۷۱ء کے ’’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘‘ سے سرفراز کیا گیا، جو اُن کے بڑے بیٹے راجکپور نے حاصل کیا۔ بعد از مرگ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پرتھوی راجکپور پہلے ہندوستانی اداکار تھے۔
“