تحریر ۔ 2
نیوکلیائی ہتھیار، بجلی گھر و تنصیبات ، حیاتیات اور تابکار آلودگی
( Nuclear Weapons, Power Plants & Installations, Life and Radioactive Pollution )
انسان نے جب جوہر (Atom) کی ماہیت کو سمجھ لیا اور آئن سٹائن کی تھیوری E=mC^2 سامنے آئی تو وہ جوہری توانائی کا جن بوتل میں بند کرنے کی تگ و دو میں لگ گیا ؛ تجربات میں کتنا جانی و مالی نقصان ہوا اس کا قصہ الگ ہے ۔ جوہری توانائی کے یہ جن سب سے پہلے امریکیوں نے قابو کیے اور انہیں ’ لٹل بوائے‘ اور ’ فیٹ مین‘ کے نام دے کر دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے شہروں ' ہیروشیما ' اور ' ناگا ساکی ' پر برسائے ۔ ان کے پھٹنے سے ہر طرح کی حیاتیات کو کتنا نقصان پہنچا اور اب تک پہنچ رہا ہے اس کا احوال جاپانیوں ، بالخصوص ہیروشیما ، ناگا ساکی اور ان شہروں کے گردو نواح میں رہنے والوں سے بہتر اور کون جان سکتا ہے ۔ بہرحال ، رپورٹ کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ، ہیروشیما میں 6 ، اگست 1945 ء کو گرائے جانے والے ’ لٹل بوائے‘ نے لگ بھگ بیس ہزار جاپانی فوجی اور لگ بھگ ایک لاکھ شہری براہ راست مارے جبکہ اسی سال 9 ، اگست کو ’ فیٹ مین ‘ نے لگ بھگ ایک لاکھ انسانوں کو براہ راست لقمہ اجل بنایا ۔ بلا واسطہ اور بعد میں ہونے والی ہلاکتیں ان کے علاوہ ہیں ۔ مالی نقصان کا اندازہ لگانے کے لئے یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ جاپان نے فوراً ہتھیار ڈال دئیے تھے ۔ یہاں یہ بات کرنا بھی اہم ہے کہ ان دونوں بموں میں موجود نیوکلیائی ایندھن کا بڑا حصہ’ فِشن ‘ ( Fission ) کے عمل سے گزرا ہی نہ تھا لہذٰا اتنے تابکار ذرات پیدا ہی نہیں ہوئے جتنے کہ پیدا ہوسکتے تھے ۔ اب آپ اندازہ کر لیں کہ’ لٹل بوائے‘اور ’ فیٹ مین‘ کے نیوکلیائی ایندھن کے جزوی طور پر جلنے سے اتنی جانیں گئیں اگر پورا نیوکلیائی ایندھن جلتا تو اس کا اثر کتنا بھیانک ہوتا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا تو ہیروشیما ، ناگاساکی اور ان کے گرد و نواح کے علاقے صدیوں تک کسی طرح کی حیاتی رہائش ( Habitat ) کے قابل نہ رہتے ۔
اس وقت دنیا بھر میں لگ بھگ 450 نیوکلئیر ری ایکٹر موجود ہیں جن سے بجلی کی عالمی پیداوار کا صرف 11 فیصد حاصل کیا جاتا ہے؛ یہ ری ایکٹر تیس ممالک بشمعول پاکستان میں موجود ہیں ۔ پاکستان میں یہ کراچی میں ایک اور چشمہ کے مقام پر چار ہیں جو پاکستان کی کل بجلی کا فقط 4 % حصہ پیدا کرتے ہیں ؛ کراچی میں 2 جبکہ چشمہ کے مقام پر 1 مزید زیر تعمیر ہیں ۔ دنیا بھر میں بھی لگ بھگ 60 ری ایکٹر مزید بن رہے ہیں ۔ نیوکلیائی ہتھیار ، آب دوزیں اور جوہری توانائی سے چلنے والی دیگرتنصیبات ان کے علاوہ ہیں ۔ یہ تمام مراکز انسانوں نے بنائے ہیں جو اگر بگڑ جائیں یا بگاڑ دئیے جائیں تو یہ کسی بھی بڑی قدرتی آفت سے کم خطرناک ثابت نہیں ہوں گے۔
اس سے پہلے کہ میں بات کو مزید آگے بڑھاﺅں یہ بات کر لی جائے تو بہتر ہو گا ۔ بجلی پیدا کرنے والے یہ ری ایکٹر 1950 ء کی دہائی کے آغاز سے 2016 ء تک 100 سے زائد بار حادثات کا شکار ہو چکے ہیں اور حادثات کی سب سے بڑی تعداد خود امریکہ میں پیش آئی ؛ امریکہ جس نے جوہری ’ جنوں ‘ کو سب سے پہلے قابو کیا تھا ۔ ان کے علاوہ کچھ حادثے ایسے بھی ہیں جن کا ، نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہونے کے اعتبار سے ، یہاں ذکر کرنا ضروری ہے۔
21 مارچ 1962ء میں میکسیکو شہر میں ایک دس سالہ بچہ ایک ایسے مادے کو کھلونا سمجھ کر گھر لے آیا جو تابکار تھا ؛ اس سے نکلنے والی تابکاری سے چار افراد ہلاک ہو گئے ، بچہ 38 دن بعد مرگیا ، اس کی ماں 10 جولائی کو ہلاک ہوئی ، اس کی دو سالہ بہن 18 اگست جبکہ اس کی دادی 15 اکتوبر کو چل بسی ۔ ان کے علاوہ اس کے باپ سمیت پانچ اور افراد بھی شدید تابکاری کا شکار ہوئے جو دیر تک زیر علاج رہے ۔
مارچ 1984 ء میں مراکش میں ’ اریڈیم ۔ 192 ‘ کے ذریعے کی جانے والی ریڈیو تھراپی میں زیادہ دیر شعاعوں کا سامنا کرائے جانے سے 8 افراد جان بحق اور کئی زخمی ہوئے جن کو علاج کے لئے پیرس لے جانا پڑا ۔
13ستمبر 1987ء کو برازیل کے شہر ’ گوئنیا ‘ ( Goiania) میں ایک نیوکلیائی حادثہ پیش آیا ؛ اس وجہ وہ تابکار مادہ بنا جو ایک ہسپتال میں ریڈیو تھراپی کے لیے برتا جاتا تھا اور پھر اسے ناکارہ جان کر پھینک دیا گیا تھا ؛ یہ کئی لوگوں کے ہاتھوں میں گیا ۔ جن میں سے 4 فوراً موت کے منہ میں گئے جبکہ لگ بھگ 250 افراد میں تابکار مادے کی مقدار خطرناک حد تک پائی گئی ۔
10 تا 20 دسمبر 1990ء کے دوران زاراگوزا ( Zaragoza) ، سپین کے ایک کلینک میں کینسر کے لگ بھگ 30 مریضوں کو جو ریڈیو تھراپی کروا رہے تھے ، زیادہ شعاعیں ملنے کی وجہ سے زخمی ہوئے جن میں سے 11 جان سے گئے ۔
1996ء میں کوسٹا ریکا میں ’ کوبالٹ ۔ 60 کو استعمال کرتے ہوئے ’ ریڈیو تھراپی ‘ کے دوران 100 سے زائد مریضوں کو زیادہ مقدار میں شعاعوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے 13 جان سے گئے تھے ۔
دہلی ، انڈیا کا مغربی علاقہ ’ مایا پوری‘ اپریل 2010 ء میں نیوکلیائی حادثے کا شکار ہوا ؛ ہوا یوں کہ دہلی یونیورسٹی نے ایک ’ گیماسیل ۔ 220 ( Gammacell 220) ناکارہ جان کر 26 فروری 2010ء کو نیلامی میں مایاپوری میں دھاتوں کا کاروبار کرنے والے کو بیچ دیا ۔ مایا پوری میں جب اسے توڑا گیا تو اس میں موجود ’ کوبالٹ ۔60 ‘ کے کور ( core ) کے گیارہ ٹکڑے ہو گئے ؛ یہ ٹکڑے مختلف ہاتھوں میں گئے ؛ تابکاری سے آٹھ لوگ شدید متاثر ہوئے جن میں سے ایک مر بھی گیا ۔ مایا پوری حادثہ 4 درجے کا حادثہ گردانا جاتا ہے ۔
پاکستان میں ’ کنوپ (KANUPP) ، کراچی بھی 18 ، اکتوبر 2011 ء کو ایک حادثے کا شکار ہو ا ؛ اس کا بھاری پانی (Hydronium) فیڈر پائپ سے رِس کر ری ایکٹر میں داخل ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں ’ ایمرجنسی ‘ نافذ کرنا پڑی تھی ؛ مزید تفصیلات ’ کلاسیفائیڈ ‘ رہیں ۔ جولائی 2016 ء میں مشی گن ، امریکہ میں’ ڈونلڈ سی کُک نیوکلیائی پلانٹ ‘ کے پونٹ نمبر 2 کی ٹربائن بلڈنگ میں بھاری مقدار میں بھاپ خارج ہوئی تھی ؛ یہ کتنی خطرناک تھی اور اس سے کتنا جانی و مالی نقصان ہوا تھا ؟ اس پر کوئی اعداد و شمار میسّر نہیں ہیں ۔
تجربہ گاہوں ، نیوکلیائی ری ایکٹروں ، ہتھیاروں اورتنصیبات کے حوالے سے حاثادت کی فہرست بہت لمبی ہے ۔ اس کا آغاز مینہیٹن پراجیکٹ (Manhattan Project)جو ’ لٹل بوائے ‘ اور’ فیٹ مین‘ تیار کر رہا تھا سے ہی ہو جاتا ہے ۔ مینہیٹن پراجیکٹ پر کام کرنے والے دو سائنس دان پہلے شکار ہیں جن کے بارے میں معلومات عام کی گئیں ؛ 21 اگست 1945ء کو امریکی ’ لوس الاموس نیشنل لیبارٹری ‘حادثے کا شکار ہوئی تو ماہر طبعیات ہیری ڈگہلین شدید تابکاری کا شکار ہوا اور 24 سال کی عمر میں 15 ستمبر 1945ء کو مر گیا ؛ اسی لیبارٹری میں 21 مئی 1946ء کو دوبارہ حادثہ پیش آیا اور اس میں ’ لوئیس سٹولن ‘ نامی کنیڈین ماہر طبعیات و کیمیا بھی شدید تاکاری کا شکار ہوا اور 35 برس کی عمر میں 30 مئی کو فوت ہو گیا ۔
نیوکلیائی ری ایکٹروں میں ہوئے حاثادت کے حوالے سے ہوئے جانی و مالی نقصان کے بارے میں کوئی بھی رپورٹ ، چاہے متعلقہ ملک کی ہو ، ’ IAEA ‘ ( عالمی نیوکلیائی توانائی ایجنسی ) کی ہو یا ’ WNA ‘ ( عالمی نیوکلیائی ایسوسی ایشن ) کی سب یا تو خاموش نظر آتی ہیں یا پھر وہی اعداد و شمار بتاتی ہیں جو متعلقہ ملک کی نیوکلیائی صنعت کے آگوﺅں نے ریلیز کیے ہوتے ہیں ؛ اگر یہ صنعت ریاست کے کنڑول میں ہے تو اعداد و شمار اور بھی مشکوک ہو جاتے ہیں ۔
دنیا بھر میں ہوئے ان سینکڑوں حادثات میں چار ایسے ہیں جو سب سے زیادہ اہم ہیں ؛
1 ۔ SL-1 حادثہ ( 1961 ء)
2 ۔ Three Mile Island accident حادثہ ( 1979 ء )
3 ۔ Chernobyl حادثہ (1986 ء )
4 ۔ Fukushima Daiichi حادثہ (2011 ء )
ایس ایل ۔ 1 حادثہ امریکہ میں’ ایڈاہو‘ آبشار کے مغرب میں لگ بھگ 65 کلومیٹر کے فاصلے پر 3 ، جنوری 1961 ء کوپیش آیا تھا ؛ یہ ایک فوجی تجرباتی نیوکلیائی پاور ری ایکٹر تھا ۔ حادثے کے بعد اسے بند کر دیا گیا اور تابکاری سے متاثرہ ہر طرح کے مواد کو گہری زمین میں دفنا دیا گیا ۔ علاقے کی تابکاری سے صفائی و تابکار مادے کو دفنانے کا یہ عمل 2000 ء تک جاری رہا جسے بعد ازاں 2003 ء میں امریکی ماحولیاتی تحفظ کے ادارے ’ EPA ‘ نے محفوظ قرار دیا ۔ اس میں 3 جانوں اور 22 ملین ڈالر کا نقصان رپورٹ کیا گیا تھا ۔
تین میل جزیرہ حادثہ ، ’ ہیرس برگ‘ ، پینیسولوانیہ ، امریکہ میں نیوکلیائی سٹیشن کے ری ایکٹر نمبر 2 کے جزوی پگھلاﺅ کی وجہ سے 28 ، مارچ 1979 ء کو پیش آیا تھا ۔ اس کی وجہ سے تابکار گیسوں کے ساتھ ساتھ تابکار آیوڈین نے بھی فضا کو آلودہ کیا تھا ۔ اس یونٹ کو بند کر دیا گیا اور اس علاقے کی صفائی کا پہلا مرحلہ 1990ء تک جاری رکھا گیا جس کے بعد مزید کام یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ تابکاری مادے کو اپنی موت خود مرنے دیا جائے ۔ اس حادثے نے امریکہ میں ’ انٹی ۔ نیوکلیائی ‘ تحریک کو ہوا دی اور بہت سے ’ انٹی ۔ نیوکلیائی ‘ گروپ وجود میں آئے ۔ اس حادثے میں 2400 ملین ڈالر کے نقصان کو ظاہر کیا گیا جبکہ جانی نقصان کا عدد صفر (0) بتایا گیا ۔
فوکوشیما ، جاپان حادثہ 11 مارچ 2011 ء کو اس وقت پیش آیا جب سونامی کے پانی نے اس کے پانچوں ری ایکٹروں کو جا لیا اور انہیں نقصان پہنچایا ۔ اس کا چھ نمبر ری ایکٹر اس وقت بند تھا ۔ یہاں موجود ری ایکٹروں میں’ کور‘ ( Core ) پگھل گیا تھا ۔ اس حادثے کی وجہ سے نہ صرف بڑی تعداد میں انسانوں سمیت حیاتیات کا ایک بڑا انخلاء دیکھنے میں آیا بلکہ اس کی تابکاری کے اثرات مشرقی بحر اوقیانوس میں بھی پھیلے ۔ اس حادثے میں لگ بھگ 2000 ملین ڈالر کا مالی نقصان اور 3 افراد کی ہلاکتیں رپورٹ کی گئیں ۔
چرنوبل ، پریپیات ، شمالی یوکرائن ، سوویت یونین کا حادثہ 26 ، اپریل 1986 ء کو پیش آیا تھا ۔ اس میں چرنوبل نیوکلیائی پاور پلانٹ کا یونٹ نمبر 4 کا ’ کور‘ ( Core ) پگھل گیا تھا جس کے باعث پہلے تو بھاپ کا ایک تباہ کن دھماکہ ہوا اور پھر اس کا کور کھلی فضا میں جلنے لگا ۔ اس حادثے کے حوالے سے جو اعداد و شمار ریلیز کئے گئے ان کے مطابق 6,700 ملین ڈالر کا مالی نقصان ہوا جبکہ ابتدائی طور پر سوویت یونین نے جانی نقصان کا جو نمبر دیا تھا وہ فقط 31 تھا ۔ البتہ UNSCEAR ( ایٹمی تابکاری پر قائم اقوام متحدہ کی کمیٹی ) کی رپورٹ 2008 ء کے مطابق براہ راست ہلاکتیں 28 ، بلاواسطہ 19 اور 15 بچے ہیں جو تھائیورائڈ کینسر کی وجہ سے جان سے گئے ۔ یہ عالمی نیوکلیائی اِیونٹ سکیل ( INES ) پر 7ویں درجے ( سب سے زیادہ مہلک ) کا حادثہ تھا ، اس کے بعد اس درجے کا دوسرا حادثہ ’ فوکو شیما ' ، جاپان کا مانا جاتا ہے۔) 6 ویں درجے کا بھی ایک حادثہ یعنی تیسرا مہلک حادثہ ہے جو ’ کشٹیم سانحہ ‘ ( Kyshtym disaster) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ سوویت یونین میں مایاک ( Mayak) کے مقام پر 29 ستمبر 1957ء کو پیش آیا تھا جہاں ’ پلوٹونیم ‘ کی افزودگی کا پلانٹ تھا ۔ اس میں باون ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ تابکاری سے متاثر ہوا تھا جس میں لگ بھگ تین لاکھ لوگ آباد تھے جن کا انخلاء دھماکے ( جو لگ بھگ 100 ٹن ٹی این ٹی کے برابر تھا ) کی نوعیت سے آگاہ گئے بغیر سات دنوں کے بعد شروع کیا گیا ؛ انخلاء کا یہ عمل دو سال تک جاری رہا ، اس حادثے میں انسانی جانوں کے اصل نقصان کو خفیہ رکھا گیا تھا بس یہ کہا گیا تھا کہ 66 افراد شدید تابکاری کا شکار ہوئے ۔ بعدازاں یہ تعداد 200 کر دی گئی تھی ۔
برطانیہ کی نیوکلیائی حادثوں کی تاریخ میں بھی ایک حادثہ ایسا ہے جو 5 درجے کا حادثہ ہے ۔ یہ ’ وِنڈ سکیل آگ ‘ ( Windscale fire ) کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ 10 اکتوبر 1957 ء کو شمال مغربی ساحل پر ’ کمبرلینڈ ‘ میں پیش آیا تھا ؛ یہاں گریفائٹ سے کنٹرول کئے گئے دو ری ایکٹر تھے جو برطانیہ نے اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بنا رکھے تھے ؛ ان میں آگ لگ گئی تھی جس نے سارے برطانیہ اور یورپ میں فضا کو تابکاری سے آلودہ کر دیا تھا ۔ آبادی کا نخلاء تو نہ کیا گیا البتہ یہ اندازہ لگایا گیا کہ تابکاری سے دودھ ضرورمتاثر ہوگا ؛ ایک ماہ کے لئے 500 مربع کلو میٹر کے علاقے میں اسے تلف کیا جاتا رہا اور 2010 ء تک اس حادثے سے پیدا ہونے والی تابکاری پر نظر رکھی گئی ۔ اس حادثے میں انسانی اموات کو بھی خفیہ رکھا گیا البتہ بچت کی بات یہ تھی کہ اس حادثے سے فضا میں جو عمومی تابکاری پھیلی وہ ’ آیوڈین ۔ 131 ‘ کی تھی جس کی ’ ہاف لائف‘ لگ بھگ آٹھ دن ہوتی ہے ۔ ’ آیوڈین ۔ 131 ‘ والی فضا میں سانس لینے سے تھائیورائڈ کا کینسر ہونے کا احتمال ہوتا ہے ؛ بعد میں کتنے لوگ اس کے ہاتھوں مرے ، کوئی تعداد سامنے نہیں لائی گئی ۔
اگر آپ نیوکلیائی بجلی گھروں میں رونما ہونے والے حادثات کی تفصیل میں جائیں تو آپ یہ اندازہ بخوبی لگا لیں گے کہ ان میں جانی نقصان کو کم سے کم دکھانے کی شعوری کوشش موجود ہے ؛ حادثات کی اکثریت میں یہ صفر (0) ہے اور جن میں جانی نقصان کے بارے میں کوئی اعداد وشمار دئیے بھی گئے ہیں تو ان کا نمبر 100 تک بھی نہیں پہنچ پاتا ۔
نیوکلیائی بجلی گھروں میں ہوئے حادثات کے علاوہ دیگر تنصیبات کے حوالے سے اب تک سینکڑوں حادثات ہو چکے ہیں جن کی تاریخ 1940 کی دہائی سے شروع ہو کر اکیسویں صدی کی موجودہ دہائی تک آ پہنچتی ہے ۔
تاریخ میں ایسے بہت سے انسان بھی گزرے ہیں جن کو ان سے پوچھے بغیر اور ان کی مرضی جانے بِنا ، اس صنعت کے آگوﺅں نے ’ پلوٹونیم ‘ کے ٹیکے لگائے کہ انسانی جسم پر تابکاری کے اثرات کا جائزہ لیا جائے ۔ ان میں سے اکثر دوسال
بھی زندہ نہ رہ پائے ۔ البرٹ سٹیون ایسا ہی ایک شخص تھا جو مئی 1945 ءمیں ’ نیوکلیائی ریپ ‘ ( Nuclear Rape ) کا شکار ہوا تھا ، اسے مریض ’ CAL-1 ‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا ، اسے’ پلوٹونیم ‘ کی سب سے زیادہ مقدارکا ٹیکہ لگایا گیا تھا ؛ اس کے ساتھ 4 سال سے لے کر 69 سال کی عمر کے اٹھارہ لوگ اور بھی تھے جن میں سے کئی تو انجکشن لگنے کے چھ دن بعد ہی مر گئے تھے ۔ یہ کام مینہیٹن پراجیکٹ (Manhattan Project) جو ’ لٹل بوائے ‘اور’ فیٹ مین‘ تیار کر رہا تھا سے ہی شروع ہو چکا تھا ، اس میں ’روچیسٹر ‘،’ شکاگو‘ اور ’اوک رِج‘ سے تعلق رکھنے والے لوگوں ( رپورٹوں میں انہیں ایسے مریض کہا گیا ہے جوایسے عارضوں میں مبتلا تھے جن سے انہوں نے ویسے ہی مر جانا تھا ) کو ’ پلوٹونیم ‘ کے ٹیکے لگائے گئے تھے ۔
نیوکلیائی عالمی صنعت کی’ سیفٹی ‘کا بڑا انحصار جھوٹ پر مبنی ہے اور یہ اب کی بات نہیں ہے ؛ فروری 1950ء میں ایک امریکی’ کونوئیر B-36B ‘ شمالی ’ برٹش کولمبیا ‘ میں گر کر تباہ ہوا ، اس میں پائلٹ اور جہاز کا عملہ جان سے گیا تھا ؛ اس وقت امریکہ سوویت یونین پر حملے کی مشقیں کر رہا تھا ۔ یہ طیارہ ’ مارک ۔ IV ‘ نامی ایٹم بم سے لدا ہوا تھا ۔ یہ بم یورنیم کی ایک بڑی مقدار کے ساتھ پانچ ہزار پاﺅنڈ روایتی دھماکہ خیز مواد بھی لیے ہوئے تھا ۔ یاد رہے کہ برٹش کولمبیا ، کینیڈا کا ایک صوبہ ہے ۔ امریکی حکومت نے کینیڈین حکومت کو اس بات سے آگا نہیں کیا کہ B-36B طیارے پر نیوکلیائی ہتھیار لدا ہوا تھا ۔ کینیڈین حکومت کو اس بات کا چار سال بعد پتہ چلاجب اس جہاز کا ملبہ اور بم ملا ۔
کیرئیر ( Carrier ) کے حوالے فضا کی بات ہوئی ہے تو کچھ بات نیوکلیائی توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کی بھی ہو جائے ۔ کے ۔ 19 ( K-19) وہ پہلی سوویت آبدوز تھی جو نہ صرف نیوکلیائی ایندھن سے چلتی تھی بلکہ اس میں ’ R-13 SLBM ‘ نامی نیوکلیائی بلسٹک میزائل بھی موجود تھے ۔ یہ جولائی 1961 ء میں سمندر میں اتاری گئی تھی اور اگلے دو سالوں میں یہ بار بار حادثوں کا شکار ہوئی جن میں عملے کے 22 افراد جان سے گئے تھے ۔ بعد میں بھی کئی بار اس میں آگ لگی اور یہ امریکی ’USS Gato (SSN-615) ‘ نامی آبدوز سے ٹکرائی بھی ۔ اس کو بار بار ’ اپ گریڈ ‘ کیا گیا اور اپریل 1990ء تک استعمال میں رکھا گیا ۔ سوویت یونین کی مزید پانچ آبدوزیں ’ K-11‘ ، ’ K-27‘ ، ’ K-140‘ ، ’ K-429‘ ، ’ K-222‘ اور ’ K-431 ‘ بھی حادثات کا شکار ہوئیں یہ حادثات بالتریتب ’ 1965‘ ، ’ 1968‘ ، ’1970‘ ، ’1980‘ اور ’1985‘ میں پیش آئے ۔ ان آبدوزوں میں ’K-222‘ سوویت یونین کی تیز ترین آبدوز تھی جسے نیٹو( NATO ) والے ’ پاپا ‘ کہتے تھے جبکہ سوویت یونین میں یہ ’ گولڈ فِش ‘ کہلاتی تھی ۔ ان حادثات میں اربوں روبلز کے مالی نقصانات کے علاوہ کئی جانیں بھی گئیں ؛ جانوں کی بتائی گئی تعداد کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا گیا ہے ۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ دنیا بھر میں موجود نیوکلیائی بجلی گھروں کی صنعت ، نیوکلیائی تنصیبا ت بشمعول ریڈیو تھراپی کے مراکز اور نیوکلیائی ہتھیاروں کے ذخائر بشمعول آبدوزیں و فضائی و زمینی کیرئیر ( carrier ) کیا واقعی اتنے محفوظ ہیں جتنا کہ رپورٹ کیے جاتے ہیں یا ان کا دارومدار جھوٹ کے پلندوں پر ہے اور جھوٹ بھی ایسے جس کی قیمت عام انسانوں کو ہی ادا کرنا پڑتی ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...