پریٹی وومن اینڈ اگلی وومن
۔
پریٹی وومن ایک ایسی فلم ہے جو میرے جیسے جذباتی لوگوں کو اب بھی یاد ہوگی۔ اور اسکا وہ سین بھی جب ویویانؔ (جولیا رابرٹس) ایڈورڈؔ ( رچرڈ گئیر ) سے کہتی ہے کہ مجھے پیسہ نہیں پریوں والی کہانی چاہیے۔ ۔ ۔ جن کے لیے وہ فلم بہت پرانی ہے، وہ اتنا ہی جان لیں کہ ایک امیر کاروباری ایک کال گرل کو چند راتوں کی قیمت دیتا ہے مگر اس کو کال گرل سمجھنے کی بجائے ایک باعزت ساتھ دیتا ہے، تو وہ کال گرل واپس ایک عورت بن جاتی ہے اور اس امیرزادے کی ساری دولت ٹھکرا کر اسکی محبت میں بک جاتی ہے۔
برسوں گذر گئے مگر میرے ذہن سے انسانی جذبوں کا وہ ٹوئسٹ نہ نکل سکا۔ جو ایک عورت کے کردار میں اس فلم کی کہانی میں فلمایا گیا۔ کہانی کی انتہا اس دنیا کی وہ اخلاقی اور انسانی بلندی تھی، کہ جہاں محبت اور عزت کے سامنے سارے دنیاوی لالچ ماند پڑ جاتے ہیں۔ ہر انسان کی طرح کال گرل کو بھی عزت دی جائے تو اسکے اندر کا انسان جاگ جاتا ہے۔
ریحام خان جب عمران سے ملی تو اسکا پروفائل بھی کچھ اچھا نہیں تھا۔ میں اپنے الفاظ کو اس حد تک آلودہ نہیں کرنا چاہتا مگر ریحام جیسے شب و روز گذار رہی تھی وہ جاوید چوہدری جیسے صحافی لکھ چکے ہیں۔ ایسے میں پریٹی وومن کی طرز پر ایک کہانی پھر سے دہرائی گئی۔ اس مرتبہ امیر کاروباری کی بجائے ایک ایسا شخص تھا دولت اور شہرت جس کے پیچھے بھاگتی تھیں۔ اس نے ریحام خان کو عزت والا وہ رشتہ دیا، جس کے وہ لائق نہ تھی (یہ عمران خان کے علاوہ ہر ایک کا اندازہ تھا شروع دن سے)۔
مگر ریحام خان پریٹی وومن کی ویویان نہ بن سکی۔ وہ عزت اور پیسے (شہرت و حکمرانی) میں عزت کو نہ چن سکی۔ وہ محبت کو بھی نہ چن سکی جو "امیرزادہ" اسکو دینا چاہتا تھا۔ وہ ویویان کی طرح اندر سے ایک عورت نہیں تھی کہ جس کو پریوں کی کہانی چاہیے تھی۔ بلکہ وہ ویرانوں میں بھٹکتی خون آشام چڑیل تھی کہ جس کو اپنے مقاصد کے لیے کسی مناسب زندہ انسان کا خون چاہیے ہوتا ہے۔ ریحام کو اپنے مقاصد کے پورا کرنے کے لیے ایک سیڑھی چاہیے تھی۔ عمران خان کی شکل میں اسکو عزت و محبت تو حاصل ہوئی مگر جس لالچ میں وہ "سودا" کر کے عمران خان کی زندگی میں آئی تھی، وہ پورا نہ ہوسکا۔ یہیں سے کہانی پریٹی وومن سے اگلی وومن میں بدل گئی۔
اب ریحام خان ایک اگلی (کریہہ) وومن ہے جو اپنے شکار کے ہاتھ سے نکل جانے پر ویرانے میں چیختی اس چڑیل کی طرح چلا رہی ہے کہ جس کا بس نہیں چلتا وہ جنگل کو آگ لگا دے، وہ جھاڑیوں کو اکھیڑتی ہے، بال نوچتی ہے، اسکی چیخوں سے جنگل کی ویرانی گونجتی ہے۔ اندھیری رات میں دور پیڑوں پر بیٹھے پرندے بھی جانتے ہیں کہ چڑیل غصے میں ہے اور شکار نکل چکا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“