(Last Updated On: )
ادیب زندگی کو ایک خاص نظر سے دیکھتا ہے اور اُس کے ظاہری و باطنی اعمال و افعال ، حرکات و سکنات کو اپنے مطالعے اور مشاہدے کے توسط سے پیش کرتا ہے۔ وہ زندگی کی نبض کو ٹٹولتا ہے۔ تاریخی حقائق پر نظر رکھتا ہے۔ تغیر پذیر معاشرے اور تبدیل ہوتی ہوئی قدروں کا جائزہ لیتا ہے اور اپنی تخلیقی فطانت کو بروئے کار لاکر ان کا فنّی رویّہ خلق کرتا ہے۔
پریم چند بڑے فن کار ہیں۔ اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ قلم کے سہارے انسانی خط و خال بنانے اور زندگی کی تہہ بہ تہہ حقیقتوں کو اُجاگر کرنے میں صرف ہوا ہے۔ نثر کے میدان میں وہ پہلے ایسے ادیب ہیں جنھوں نے بھر پور انداز میں ہندوستانی تہذیب و تمدن کی تصویر کشی کی ہے۔ ملک کی اقتصادی، سیاسی اور سماجی صورتِ حال اور اُن سے پیدا شدہ نتائج کو بیان کیا ہے۔ محنت کش طبقے کو مرکزیت دیتے ہوئے اُن کی پستی کے اسباب کی نشاندہی کی ہے۔
ایک ہزار صفحات پر مشتمل ناول ’’چوگان ہستی‘‘ میں بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کا ہندوستان جلوہ گر ہے۔ اس کا مرکزی کردار ’’سور داس‘‘ ہے۔ وہ بنارس کے قریب کسانوں اور مزدوروں کی ایک بستی پانڈے پور میں رہتا ہے۔ ورثے میں اُسے زمین کا ایک چھوٹا سا قطعہ ملا ہے جو گاؤں کے مویشیوں کی چراگاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سور داس اپنے مشہور ہم نام کی طرح آنکھوں کی دولت سے محروم ہے تاہم وہ اپنی نیکی، شرافت،محبت اور سوجھ بوجھ کی وجہ سے گاؤں بھر میں مشہور ہے۔ سبھی چھوٹے بڑے اُس کی عزت کرتے ہیں اور وہ سب کے دُکھ سُکھ میں شریک رہتا ہے۔ اچانک شہر کا ایک رئیس جان سیوک پانڈے پور کی پُر سکون زندگی میں زہر گھول دیتا ہے جس سے سور داس بُری طرح مضطرب ہوتا ہے۔ جان سیوک سور داس کی زمین پر سگریٹ بنانے کا کار خانہ کھولنا چاہتا ہے لیکن سور داس اپنے پُرکھوں کی نشانی کو بیچنے پر رضا مند نہیں ہوتا ہے۔ اُسے خدشہ ہے کہ کارخانے کے قیام سے گاؤں کا امن و سکون ختم ہو جائے گا۔ لوگوں کا اخلاق بگڑے گا۔ بھولی بھالی لڑکیوں کو چھیڑا جائے گا۔ اُن کے ساتھ نازیبا حرکتیں ہوں گی۔ زمین دے کر وہ اتنی بڑی تباہی کا ذمہ دار بننا نہیں چاہتا۔ اُس کی انسانی ہمدردی اور قدروں سے وابستگی اس بات کو گوارا نہیں کرتی کہ اپنے بھلے کی خاطر سماج کو تاریکی میں ڈھکیل دے۔ قسمت پر اُسے زبردست اعتقاد اور حق پر اٹل یقین ہے۔ خدا سے ڈرتا ہے اوراس کی مخلوق کو عزیز رکھتا ہے۔ حق و انصاف کی بات کہنے سے ذرا بھی نہیں جھجھکتا ہے۔ اس نیک صفت انسان کے بر عکس جان سیوک انتہائی خود غرض اور ہوشیار سا ہوکار ہے۔ وہ لوگوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا خاص ہُنر رکھتا ہے۔ اپنے شر اور مکر و فریب سے سور داس کو پریشان کرتا ہے۔ لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے اور اُن کو سور داس کے خلاف ورغلاتا ہے، عجیب و غریب افواہیں پھیلاتا ہے۔ جھوٹے مقدمات درج کرواتا ہے جبکہ سو ر داس اپنے آدرشوں کا پالن کرتا ہے۔ اُس کے نزدیک قدیم تہذیبی روایات اور اخلاقی معیار بہت بلند ہیں جنھیں وہ عزیز رکھتا ہے اور اُن کے تحفظ کے لیے جی جان کی بازی لگاتا ہے۔ کار خانے کی تعمیر کے سلسلے میں بڑی دلیری اور صفائی سے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’محلہ کی رونق ضرور بڑھے گی۔ روز گار سے لوگوں کو فائدہ بھی خوب ہوگا لیکن جہاں یہ رونق ہوگی وہاں تاڑی شراب کا بھی تو پرچار بڑھ جائے گا۔ کسبیاں بھی تو آکر بس جائیں گی۔ دیہات کے کسان اپنا کام چھوڑ کر مجوری کے لالچ سے دوڑیں گے۔ یہاں بُری باتیں سیکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیہاتیوں کی بیٹیاں بہوئیں مجوری کرنے آئیں گی اور یہاں پیسہ کے لوبھ میں اپنا دھرم بگاڑیں گی۔‘‘ (ص۔۱۴۵)
پریم چند ملک کے تمام بڑے قومی رہنماؤں سے متاثر تھے مگر مذکورہ ناول کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ مہاتما گاندھی کو اپنا محبوب ترین قومی رہنما تسلیم کرتے تھے، اُن کے عقائد و افکار کی قدر کرتے تھے، اُن کی تحریکات میں شامل ہوتے تھے اور اپنے آپ کو اُن کا سچا بھگت کہتے تھے۔ ان کے نقشِ پا کی پیروی سور داس کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اس کردار میں گاندھی جی کی اٹل شخصیت، عدم تشدّد، عدمِ تعاون، سول نافرمانی، ستیہ گرہ آندولن، معافی، در گذر اور سیوا بھاؤ کے تمام اوصاف نظر آتے ہیں جو گاندھی جی کے آہنی عزم سے پریم چند کی ذہنی وابستگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
سور داس ایک آدرش وادی کردار ہے۔ یہ نمائندگی کرتا ہے اُن بھولے بھالے انسانوں کی جو کمر توڑ محنت اور بے لوث خدمت کرتے ہیں۔ روایتوں پر جان دیتے ہیں اور مصیبتوں پر مسکراتے ہیں۔ پریم چند نے اِس کردارکے سہارے عہد غلامی کے اُس متلاطم دور کا خاکہ پیش کیا ہے جہاں ایک طرف ملک میں جاگیر دارانہ نظام شکست و ریخت سے دوچار تھا اور سرمایہ دارانہ نظام محنت کش طبقے پر اپنے خونی پنجوں کو جمانے کی فکر میں مبتلا تھا تو دوسری طرف محنت کشوں میں بیداری کا احساس بھی پیدا ہو چلا تھا۔ اُن کی منتشر قوت ایک نئی طاقت اور نئی تنظیم کے ساتھ اُبھر رہی تھی۔ مزدور و کسان ستیہ گرہ کی پُر امن لڑائی سے آشنا ہو چکے تھے۔ اُن میں حکمرانوں، زمین داروں اور سیٹھ ساہوکاروں کے مظالم کا مقابلہ کرنے کی جرأت پیدا ہو رہی تھی۔
قصہ، پلاٹ اور کردار کے مضبوط ربط اور پیش کش کے موثر انداز نے ناول کو جلا بخشی ہے۔ پریم چند نے نا بینا کردار کوایک کھلاڑی کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے جو زندگی کو محض ایک کھیل اور دنیا کو کھیل کا میدان سمجھتا ہے۔اسی لیے زندگی کی آخری سانسوں تک انجام سے بے نیاز، ہنسی خوشی کھیلتا ہے۔ اس کا یقین ہے کہ ہم صرف کھیلنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ جیت ہار، نفع نقصان سب اُوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ جو کچھ تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے وہ پورا ہوکر رہے گا۔ چونکہ وہ بینائی سے محروم ہے اس لیے دنیاوی آنکھوں سے یہ نہیں دیکھتا کہ حریف بے ایمانی، دھاندلی اور دھوکا دھڑی سے کام لیتے ہوئے فتح یاب ہو رہا ہے تاہم اُس کی ’تیسری آنکھ‘ وہ سب کچھ دیکھ رہی ہے جس سے دیدہ ور محروم ہیں۔ اسی لیے وہ کہتا ہے:
’’ہماری بھول یہی ہے کہ کھیل کو کھیل کی طرح نہیں کھیلتے۔ کھیل میں دھاندلی کرکے کوئی جیت ہی جائے تو کیا ہاتھ آئے گا۔ کھیلنا تو اس طرح چاہیے کہ نگاہ جیت پر رہے مگر ہار سے گھبرائے نہیں۔ ایمان کو نہ چھوڑے۔ جیت کر اتنا نہ اترائے کہ اب کبھی ہار ہوگی ہی نہیں۔ یہ ہار جیت تو زندگی کے ساتھ ہے۔‘‘
وقت کے تھپیڑے یا تو شخصیت کو چرمرا دیتے ہیں یا پھر اُن سے جوجھنے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں، جو مقابلہ کرتے ہیں اُن میں آ ہنی عزم پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ ایک نصب العین کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ناول کے مرکزی کردار میں بھی لا شعوری طور پر زندگی کا ایک نقطۂ نظر اُبھرتا ہے اور وہ اسی کے سہارے آگے قدم بڑھاتا ہے۔ اُسے عملی زندگی میں ناکامی ملتی ہے، دھوکا بھی دیا جاتا ہے لیکن اُس کے پاؤں کہیں بھی نہیں ڈگمگاتے ہیں اور نہ ہی چہرے پر شکن نمودار ہوتی ہے جب کہ اُسے اپنی بے بسی کا احساس ہے اور اس بات کا بھی علم ہے کہ حریف عیاری اور مکاری کے ساتھ غلط داؤں پیچ استعمال کر رہا ہے۔ وہ اپنی عارضی شکست پر بڑے صبر و تحمل کے ساتھ تبصرہ کرتا ہے:
’’تمہارے ہاتھ میں بل ہے، تم ہمیں مار سکتے ہو۔ ہمارے ہاتھ میں بل ہوتا ہم بھی تمھیں مارتے۔۔۔۔۔۔۔ اب تم جیتے اور میں ہارا۔ یہ باجی تمہارے ہاتھ رہی۔ مجھ سے کھیلتے نہیں بنا۔ تم مانے ہوئے کھلاڑی ہو۔ دم نہیں اُکھڑتا۔ کھلاڑیوں کو ملا کر کھیلتے ہو اور تمہیں حوصلہ بھی اچھا ہے۔ ہمارا دم اُکھڑ جاتا ہے۔ ہم ہانپنے لگتے ہیں۔ ہم کھلاڑیوں کو مِلا کر نہیں کھیلتے۔‘‘
سور داس اپنی شکست تسلیم کرتا ہے لیکن عارضی طور پر، یہ سوچتے ہوئے کہ پھر نئے دم خم سے اُٹھیں گے ، پھر مقابلہ کریں گے اور جب تک بے انصافی، ظلم و جبر ختم نہ ہوجائے گا،خاموش نہ بیٹھیں گے۔ فتح پر اُسے کامل یقین ہے اور یہی اُس کے کردار کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ رجائی نقطۂ نظر کی بدولت وہ زندگی کے فلسفہ کو سمجھ سکا ہے اور موت کے آخری لمحات تک سر گرم عمل رہتا ہے:
’’ہم ہارے تو کیا، میدان سے بھاگے تو نہیں۔ روئے تونہیں۔ دھاندلی تو نہیں کی۔ پھر کھیلیں گے۔ جرا دم تو لے لینے دو۔ ایک نہ ایک دن ہماری جیت ہوگی، جرور ہوگی۔‘‘
موٹا جھوٹا کھانے اور پھٹے پُرانے کپڑے پہننے والے اِس نا بینا فقیر میں معصومیت اور پاکیزگی ہے۔ اپنی سوچ کے اعتبار سے بظاہر وہ حقیقت کی دُنیا سے دُور، بہت دُور، دیوتاؤں کی دنیا کا باشندہ نظر آتا ہے حالانکہ وہ کوئی بزرگ نہیں، دیوتا نہیں، اوتار نہیں، ایک سچا محب وطن ہندوستانی ہے جس کے کردار میں بیشتر درویشانہ صفات موجود ہیں۔ وہ محبت، بے نفسی اور قربانی کا جیتا جاگتا مجسّمہ ہے۔ اُس کی فطرت میں جو سادگی، پاکیزگی اور بے لوثی ہے وہ عام انسانوں سے کہیں زیادہ فرشتوں سے قریب ہے:
’’وہ دیوتا نہ تھا۔ فرشتہ نہ تھا۔ ایک حقیر اور کمزور انسان تھا وصف صرف ایک تھا حق پرستی، انصاف پسندی، ایثار نفسی یا ہمدردی یا اس کا اور جو نام چاہیے رکھ لیجئے۔ نا انصافی دیکھ کر اس سے رہا نہ جاتا۔‘‘
سُور داس عام انسان ہے، اِس لیے اُس میں انسانی کمزوریاں بھی ہیں۔ اُس سے کچھ لغزشیں بھی ہوتی ہیں۔ وہ کوئی راہب، صوفی یا سنیاسی نہیں بلکہ دنیا دار انسان ہے جس کے اپنے جذبات اور احساسات ہیں۔ دھڑکتے دل میں آرزوئیں بھی پیدا ہوتی ہیں اور اُمنگیں بھی انگڑائیاں لیتی ہیں لیکن اُسے اپنے نفس پر قابو ہے۔ خیالات میں پاکیزگی اور رفعت ہے۔ خود کہتا ہے:
’’سنسار اسی مایا موہ کا نام ہے۔ دنیا میں کون ہے جو کہے میں گنگا جل ہوں۔ جب بڑے بڑے سادھو سنیاسی موہ میں پھنسے ہوئے ہیں تو ہماری کیا بات ہے۔‘‘
اُسے اپنے گھر، اپنی جائیداد سے رغبت اور سبھاگی سے محبت ہے اور یہ خواہش کہ ایک خدمت گذار اور خوب چاہنے والی، سبھاگی جیسی عورت ہو جس سے وہ اپنا گھر بسا سکے۔ مایا کا موہ ہے۔ اس لیے پانچ سو روپیے کا سرمایہ بھی جمع کرتا ہے مگر جب حق و انصاف کا مسئلہ آتا ہے تو وہ مایا جال کے سارے بندھن توڑ دیتا ہے۔ اُس کا مایا موہ عام انسانوں سے مختلف ہے۔ ایک ایک پیسے کی جوڑی ہوئی کمائی پر جب بھیرو ڈاکہ ڈالتا ہے تو وہ اُس کے خلاف کوئی سخت قدم اُٹھانے کے بجائے، وہ تین سو روپیہ بھی دے دیتا ہے جو سیوا سمیتی کے کارکن چندہ کرکے اُسے دیتے ہیں۔
سورداس بظاہر ایک حقیر، ناتواں اور نا بینا شخص ہے لیکن رفتہ رفتہ ناول کے کینوس پر وہ زبردست قوتِ ارادی کا مالک، نڈر اور بے باک انسان بن کر چھا جاتا ہے۔ وہ نہ تو جھوٹے مقدمات سے گھبراتا ہے، نہ عدالتوں کی بے انصافیوں کے خلاف احتجاج بلند کرنے سے اور نہ ہی گولیوں کی بوچھار سے۔ اُس کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی جاتی ہیں۔ بد چلنی کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ گھر اسباب نذرِ آتش کیا جاتا ہے لیکن وہ ظلم و جبر کے آگے سر نہیں جُھکاتا ہے۔
اردو کے افسانوی ادب میں پریم چند کو امتیازی حیثیت اس لیے حاصل ہے کہ انھوں نے ایک ہندوستانی ادیب کے طور پر ملک کے مسائل کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ عام انسانوں کے دُکھ درد کو قریب سے دیکھا ہے اور اُن کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے قلم کا سارا زور صرف کیا ہے۔ بدلتے ہوئے نظام اور اُن کی قدروں سے متعارف کرایا ہے۔ سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے زیر و بم کو اُجاگر کیا ہے۔ فرسودہ عقائد اور زنگ آلود رسم و رواج پر نشتر زنی کی ہے لیکن یہ بات کچھ عجیب ہے کہ پریم چند سور داس کو اُس کے باغیانہ تیور اور انقلابی رُجحان کے باوجود محض ایک مثالی کردار کے سوا کچھ نہ بنا سکے۔ کسانوں کو اُن کی زمین سے بے دخلی کے معاملہ میں مورچہ قائم کرنے والا نڈر نا بینا کیا نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ بن پایا ہے؟ یہ تذبذب میں مبتلا کرنے والا سوال ہے۔ وہ پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد گاؤں والوں کے لیے تو امر ہو جاتا ہے، اُس کا مجسمہ بھی اُسی کی زمین پر نصب کروا دیا جاتا ہے مگر کیا وہ گاندھی جی یا اُن کے توابع کی طرح قاری کے ذہن پر ایک مصلح اور انقلابی کا بھر پور نقش بنا پایا ہے؟ شائد نہیں۔
سور داس عدم تشدّد پر یقین رکھتا ہے، ظلم سہتا ہے اور صبر و قناعت کا ثبوت دیتا ہے۔ اپنی محبت و مروت کے سہارے بدی کی پروردہ قوتوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اُس کی ہمت اور جرأت یقینا قابلِ داد ہے مگر وہ استعماری قوتوں اور فرعونی چالوں کی کاٹ نہیں رکھتا ہے اور نہ اُن کے داؤں پیچ سے پوری واقفیت— اس کے باوجود عفو و محبت کا یہ مجسمہ پریم چند کا ایک زندہ کردار اور عدم تشدّد کا ترجمان بن کر اُبھرتا ہے، یہی پریم چند کا فنّی کمال ہے۔