چنیں کُشتۂ حسرتِ کیستَم من؟
کہ چوں آتش از سوختن زیستَم من
–مرزا عبدالقادر بیدل
میں کس کی حسرت کا کشتہ ہوں کہ آگ کے شعلوں کی طرح جلنا ہی میری زندگی ہے۔
وہ آزادی اور سحر نو کی امید لے کر آیا تھا .
اس نے قلم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا .
جوتے پھٹے ہوئے . لباس میں دو ایک مقام پر پیوند لگے ہوئے اور شکن آلودہ . چہرے پر بادشاہوں سے بھی زیادہ حیران کر دینے والی مسکراہٹ .
یہ وہ شخص ہے ، جو ہندوستان کا میکسم گورکی نہیں ، بلکہ یہ وہ شخص ہے ، کہ ایک زمانے میں فکشن کی سلطنت اس کے پاس تھی . اور حقیقت یہ کہ آج بھی فکشن کی سلطنت کا وہی بے تاج بادشاہ ہے . اس کی کھردری انگلیوں سے نور کی شعائیں نکلتی تھیں . اس کے پاس چار آنکھیں تھیں .. دو آنکھوں سے وہ ہندوستان کو دیکھتا تھا ، باقی دو آنکھوں سے پر اسرار کائنات اور عالمی سیاست کا جائزہ لیتا تھا . وہ گاندھی نہیں تھا . مگر گاندھی سے کم بھی نہیں تھا . اس نے چرخے سے سوت کاٹے . مزدوروں اور کسانوں کی تحریک میں شامل اور جب ترقی پسند تحریک کا پہلا اجلاس ہوا ، اس نے سوچا …
میرے پاس ڈھنگ کے لباس بھی نہیں . وہ لوگ مجھے صدارت دینا چاہتے ہیں .
پھر کیا کروں ؟
وہ ہنسا .. گدڑی کا لعل . جانا تو پڑیگا . اس نے جیب میں پیسے گنے . اسٹیشن پہچا . منزل مقصود پر پہچ کر تانگے کی سواری لی . سجاد ظہیر کے آستانے پر اترا تو وہ غش گئے . ہندوستانی تاریخ کا اور کسی انجمن کا وہ پہلا صدر تھا ، جو اپنے خرچ پر آیا تھا . اور وہی دو جوڑے کپڑوں میں .
اور جب اس نے جلسے میں تقریر کی ، تو سب کے چہرے پر فتح کی مسکراہٹ تھی . وہ اس وقت میر تقی میر بن گیا ، جو لکھنؤ کے مشاعرے میں پہچے تو میر پر کسی نے توجہ نہ دی . پھر میر نے وہ غزل پڑھی جو تاریخ کا حصّہ ہے .. کیا بود و پاش پوچھو ہو پورب کے ساکنو ..
اس نے بھی یہی الفاظ اپنے رنگ میں دہرائے اور کہا ، حسن کی تعریف کو ادب میں تبدیل کرنا ہوگا ..
وہ بستر مرگ پر تھا . بیوی سے کہا ، کچھ سناؤ .. بیوی نے پاس پڑے ہوئے رسالہ سے کچھ سنانا شروع کیا ..وہ رو رہا تھا .اسے مرنے کی تکلیف نہیں تھی …گھٹن اس بات کی تھی کہ معاشرہ نہیں بدلا ..
وہ ایک ایسا مصور تھا ، جس کی نگاہوں نے ہندوستان کے کسی بھی پہلو کو ان چھوا نہیں رہنے دیا .غربت ہو ، کسان ہوں ، جہیز پرتھا ہو ، بال وواہ ہو ، بیواؤں پر ظلم ہو ، مزدوروں کا استحصال ہو ، ستی پرتھا ہو ، وہ مصور تھا ، سائنس دان تھا ، تاریخ دان تھا ، سیاست داں تھا ، غرض وہ کیا نہیں تھا . اس کے جوہر بولتے نہیں ، آگ کے شعلوں کی طرح چیختے تھے . اس نے بتایا کہ افسانہ کیا ہوتا ہے ؟ زندگی کی جنگ صرف اپنے لئے نہیں لڑی جاتی .اس نے کائنات کے راز بتائے .پانچ پھول جیسا وردان بچوں کو دیا . اس کی ہر کہانی خواب سے نکلتی اور حقیقت کے جلتے ریگستان میں سما جاتی ..
پریم چند کے بعد کوئی پریم چند نہیں ہوا . پریم چند کے بعد کوئی پریم چند پیدا نہیں ہوگا ..
اور اس نے ایک غریب کسان کے گھر رات گزاری . اس سے زندگی کے فلسفے قبول کیے . اور اس نے کہا ، میری انگلیاں جل گیی ہیں ..
اور اس نے کہا ، گاندھی صحیح ہیں مگر گاندھی کو کچھ اور بھی سوچنا ہوگا .
اور اس نے کہا ، ادیب کا کام صرف قلم چلانا نہیں ، وقت آئے تو اسے ھل بھی چلانا ہوگا ..
اس نے ایسا بہت کچھ کہا ، کہ وہی کہ سکتا تھا ، اور وہ انسانیت کے اس منصب پر فائز تھا ، جہاں عام انسان کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں .
وہ بیحد خاص تھا .
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو وقت کے دائرے یا فریم میں کبھی قیدنہیں ہوتے ۔ ایک مکمل عہد ان کے نام سے منسوب ہوتا ہے ۔ آن والے عہد میں بھی ان کے نقوش بدستورقائم رہتے ہیں۔ یہ بات پریم چند کے لئے آسانی سے کہی جاسکتی ہے ۔اپنے عہد میں وہ ایک رول ماڈل یا مثال بن چکے تھے ۔ ایک ایسا رول ماڈل جو مسلسل غریب کسان اور مزدوروں کی فکر کرتا رہتا ہو۔ اس تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ سیاست میں ایک گاﺅں مہاتما گاندھی نے تلاش کیا۔ملک کو آزاد کرانے کا ایک راستہ اسی گاﺅںسے ہوکر جاتا تھا۔ پریم چند نے اس گاﺅں کو قریب سے دیکھا۔پھر گاﺅں، دیہات کے ہر طرح کے کردار ان کی کہانیوں میں آبادہوتے چلے گئے ۔تاریخ کی کتابوں میں کہاگیا ہے کہ ملک برطانیہ میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔
یہ بات مہارانی کوئین وکٹوریہ کی شان میں کہی گئی ۔عالمی نقشے پرپہلی بار برطانیہ کاچہرہ سفاک اور ظالم حکمراں کی شکل میں ابھرا۔سازش اور سیاست کے تحت کبھی نہ ڈوبنے والے ملک کے حکمرانوں نے اپنے ظلم سے ہندوستانی سورج پر ایسا سیاہ پردہ ڈال دیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان میں امیدوں کا سورج ڈوب گیااور اس کے بعد ظلم وستم کی ناقابل فراموش داستان نے جنم لیا جس کے ایک راوی پریم چند بھی تھے۔
پریم چند کی کہانیوں کو سمجھنا آسان نہیں ہے ۔ پہلی قرات میں ایک خوبصورت کہانی کے تانے بانے سامنے آتے ہیں ۔لیکن ان تانے بانوں کے پیچھے ایک ایسی سچائی اور حقیقت کو دخل ہوتا ہے ، جس کو لکھنا آسان نہیں ۔اس لئے اردو کے عظیم نقادوں کی طرف سے یہ بیانات بھی آئے کہ پریم چند کو سمجھنا ہو تو پریم چند کے عہد کو سمجھنا ہوگا۔غور کریں تو اس بیان کے دو پہلو ہیں۔ پریم چند کے عہد کو پڑھنا ہو تو پریم چند کی تخلیقات کا سہارالیناہوگا۔اور اگر پریم چند کی کہانیوں کامطالعہ کرنا ہے توپریم چند کے عہد کو سامنے رکھنا ہوگا۔ پریم چند کو 56برس کی زندگی ملی۔ لیکن ان 56برسوں مین پریم چند اردو اور فکشن کا ایک ایسا نام بن گئے ،جن کے بغیر اردو اور ہندی کہانیوں پر کوئی بھی مکالمہ یا گفتگوممکن نہیں ہے ۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ایک روشن کردار مصنف ،ایک ترقی پسند ادیب ،ایک حقیقت نگار، کو موت نے اس وقت دبوچا جب 1936میں ترقی پسند مصنفین کی شمع روشن کی گئی۔پریم چند بھی شامل ہوئے لیکن اسی برس ان کی زندگی کا سورج غروب ہوگیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر پریم چند کو گیارہ بارہ برس کی زندگی اور ملی ہوتی یعنی1947،جب ملک ہندوستان کو آزادی ملی تھی تو وہ اپنے تجربوں ،اپنی محسوسات سے ایسا ادب تخلیق کرنے میں کامیاب ہوتے ،جو نہ صرفہ ہر اعتبارسے نیا ہوتا بلکہ اس میں ہندوستان کے مستقبل کی صدائیں بھی آباد ہوتیں اور یہ کام صرف پریم چند ہی کرسکتے تھے۔
پریم چند کی پیدائش 31جولائی 1880کو بنارس کے نزدیک لمہی گاﺅں میں ہوئی۔ ان کی ماں کا نام آنندی دیوی تھا۔اور والد کانام منشی عجائب رائے تھا۔منشی عجائب رائے لمہی گاﺅں میں ڈاک منشی تھے ۔پریم چند کی ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی میں ہوئی ۔بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ۔محض تیرہ سال کی عمر میں طلسم ہوشربا کامطالعہ کرڈالا ۔اس کے بعد رتن ناتھ سرشار،مرزاہادی محمد رسواءاور ،مولاناعبدالحلیم شررکے ناولوں کی طرف رجوع کیا ۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستان پرفرنگیوں کی حکومت تھی ۔ ملک غلام تھا ۔صدیوں کی غلامی نے پریم چند کے ذہن پر اثر ڈالا تھا ۔ ہندوستان کی عام زندگی فرنگیوں کے ظلم سے متاثر ہوکر مسلسل گھٹن کی شکار تھی ۔ ہندوستان میں، برطانوی اقتدار نے ہندوستانی معاشرے میں سیاسی ،معاشرتی، تہذیبی تبدیلیوں کو پیدا کیا تھا۔ یہ وہ تبدیلیاں تھیں جنہوں نے قدیم روایتوں کو مسمار کردیا تھا۔ نئے چلینج آگئے تھے ۔ اور دوسری طرف ہندوستان کاغلام طبقہ تھا، جو فرنگی زنجیروں کو توڑ دینا چاہتا تھا ۔ معاشرے کا سماجی اور معاشی ڈھانچہ ہندوستان کی قدیم بنیادوں پر ایستادہ تھا ۔ انگریز لگاتار نئے فرمان و احکام لے کر ہندوستانیوں پر ظلم کی بارش کررہے تھے ۔
اس نے تصور کیا ..ہندوستان کو آزاد ہونا ہے ..
اس نے خیال کیا کہ فکشن کو شہروں کی جگہ دیہات اور مٹی کی پگڈنڈیوں پر لے جانا ہے .
اس میں شک نہیں کہ سترہویں صدی کے بعد عالمی صورت حال بہت حد تک بدل چکی تھی ۔ یوروپ کے کئی ممالک سونے کی چڑیا کہے جانے والے ملک ہندستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد شاہی اور جاگیردارانہ نظام معاشرت کا زوال سامنے تھا ۔چالاکی ،ہوشیاری اور سازش کے تحت انگریز ہندوستان پر حکمرانی سنبھال چکے تھے ۔ پلاسی کی جنگ سے قبل ہی یہ اشارہ مل چکا تھا کہ ہندوستانی تہذیب و تمدن کا کا سورج غروب ہونے کو ہے ۔نظام حکومت بدلا تو بہت کچھ بدل گیا۔شان سے جینے والے ہندوستانی اب کتّوں سے بد تر تھے ۔ اس وقت ہندستان کے ہوٹلوں اور کلبوں میں لکھا ہوتا تھا۔کتّے اور ہندوستانیوں کاداخلہ ممنوع ہے ۔یہ تو رہی فرنگیوں کی بات ،لیکن ایک الگ نفسیات بھی بغاوت کاسبب بن رہی تھی ۔ آہستہ آہستہ ملک میں سماجی اور مذہبی بغاوت بھی سر اٹھارہی تھی ۔ یہ وہ دور تھا جب کسانوں کا برا حال تھا ۔استحصال کی ہزاروں کہانیاں سامنے تھی ۔ کسانوں سے کھیت ان کی مجبوریوں کے تحت چھین لئے جاتے تھے ۔ ان کی عورتوں کے ساتھ براسلوک ہوتا تھا ۔ اس کے علاوہ مذہبی غلبہ بھی عورتوں کو نقصان پہنچاتا تھا ۔ ستی کی پرتھا نے عورتوں کو توڑ ڈالاتھا ۔ شوہر کے مرجانے کے بعد عورتوں کو زندہ آگ میں جلادیا جاتا تھا ۔ ان پرتھاﺅں کے خلاف بولنے والا کوئی نہیں تھا۔ کوئی آواز اٹھانے والا نہیں تھا ۔ اس لئے کہ یہ پرتھائیں جاگیردارانہ نظام کے تحت صدیوں سے چلی آرہی تھیں۔شوہر کے مرجانے کے بعد ودوھوااور بیوا عورتوں کیلئے سماج اور معاشرے میں کوئی جگہ نہیں تھی ۔ اگر کسی عورت کا شوہر عین جوانی میں مرجاتا تو اس وقت کا معاشرہ اس کا حقہ پانی تک بند کردیتا تھا۔ عورت کو بال منڈوانے پڑتے تھے ۔ ساری زندگی اچھوت کی طرح نرک بھوگنا پڑتا تھا ۔ ان پرتھاﺅں سے الگ ایک ایسا سماج ہندوستان کے گاﺅں اور سماج میں زندہ تھا ، جہاں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ماں باپ لڑکیوں کا پڑھانا ممنوع سمجھتے تھے ۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ایک ایسا دور سامنے تھا جہاں حکمراں طبقہ سے لیکر عدلیہ تک عام ہندوستانیوں کے خلاف تھی ۔ اس لئے اگر پریم چند اور ان کے ادب کو سمجھنا ہے تو اس وقت کی تحریکوں کو جاننا ضروری ہے ۔ اس وقت کے سماجی اورسیاسی حالات اور ان کے محرکات کا تفصیلی مطالعہ ناگزیر ہے ۔
پریم چند نے ہوش سنبھالا تو غدر کی یادیں زندہ تھیں۔ غدر کی آگ ابھی بھی بجھی نہیں تھی۔ لیکن تبدیلیاں آرہی تھیں۔ پریم چند نے فکشن یاافسانہ نگاری کو آواز دی تویہ آواز اردواور ہندی کیلئے نئی نہیں تھی۔ اسلئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پریم چند وہ پہلے افسانہ نگار تھے، جو ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں کہانیوں کاپہلا تحفہ لے کر آئے۔ مغرب میں افسانے لکھے جارہے تھے ۔ ان کی گونج ہندوستان میں بھی ہورہی تھیں۔ جان گالسواردی ، چیخوف ،مپاساں ،روسی افسانہ نگاروں کی کہانیاں ہندوستان پہنچ چکی تھیں۔ایڈگر ایلن پوکی کہانیوں نے اولین ہندستانی افسانہ نگاروں پر اپنے نقوش چھوڑے تھے۔ پریم چند شرر ،ہادی محمد رسواجیسے لوگوں کو پڑھ چکے تھے ۔ روسی افسانہ نگاروں نے ان کے ذہن ودل کو متاثر کیاتھا ۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ افسانہ نگاری محض فیشن یا شوق نہیں ہے ۔ وہ اپنے وقت کے حالات سے واقف تھے ۔ مشہورتھنکر روسوکا تاریخی جملہ انہیں یاد آرہا تھا ۔ انسان ایک سماجی جانور ہے ۔سماج اور معاشرہ زندگی کا آئینہ ہوتا ہے ۔ ضرورت سماج اور معاشرے کو بیدار کرنے کی ہوتی ہے ۔ انفرادی آواز سے زیادہ اجتماعی آواز کا ابھرنا ضروری ہے ۔ یہ باتیں وہ مختلف روسی افسانوں اور ناولوں میں پڑھ چکے تھے ۔ اس وقت معاشرے میں جو برائیاں تھیں ،وہ اس کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتے تھے ۔
لندن میں کچھ دوستوں نے مل کر ترقی پسند تحریک کی بنیاد ڈالی اور پھر سجاد ظہیر ہندوستان آگئے ۔ ہندوستان میں پہلے ہی دن جہاز سے اترنے کے بعد گھنٹوں ان کے سامان کی تلاشی لی گئی۔ تحریک کے آغاز میں رشید جہاں اور ان کے شوہر محمود الظفر نے تحریک میں جان پھوکنے کا کام کیا۔ ہم خیال ادیبوں کو یکجاکرنا کوئی آسان کام نہ تھا مگر یہ کام اس وقت کے حالات کے پیش نظر آسان ہوتا گیا۔ پہلی کانفرنس میں صدارت کے لئے پریم چند نے پہلے انکار کیا۔ پھر وہ تاریخی خطبہ پڑھا جس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے ۔ پہلی کانفرنس میں ہی فیض احمد فیض ،حسرت موہانی جیسے تمام بڑے ادیبوں کا ساتھ مل گیا۔ ان سب کے باوجود یہ سفر آسان نہیں تھا۔ 1936سے 1937تک کے درمیان ہونے والی کانفرنس میں جواہر لعل نہرو ، سروجنی نائیڈو جیسے سیاستدانوں کی حمایت بھی ملی۔ پریم چند نے بیماری کے باوجود اپنے رسالہ ہنس میں کانفرنس کی رپورٹ شائع کی لیکن پہلی کانفرنس کے کچھ ماہ بعد ہی طویل بیماری کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔
روشنائی سے کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں، اس سے ترقی پسند تحریک کو سمجھنے میں سہولت ہوگی ۔ترقی پسند تحریک کا ساتھ ملاتو احتجاج اور بغاوت کی الگ الگ آوازوں کو ایک بڑا پلیٹ فارم مل گیا۔ سجاد ظہیر اس بات سے خوش تھے کہ اگر کچھ لوگوں کو چھوڑدیا جائے تو تحریک کو پورے ہندوستان نے ہاتھوں ہاتھ لیاہے۔ ہاں ،کچھ لوگ اب بھی ایسے تھے جو ادیب تو تھے لیکن سلطنت انگلیشیا کے خاموش مداحوں میں تھے۔ ایسے لوگ ہر دور میں ہوتے ہیں۔ اور یہ بات سجاد ظہیر بھی جانتے تھے۔ پریم چند کے ادب کے بارے میں انہوں نے سن رکھا تھا ۔ پڑھا بھی تھا۔ یہ بھی جانتے تھے کہ پریم چند کی تحریروں نے ہندوستانی عوام کا دل جیت لیا ہے ۔ کسان اور مزدور بھی ان کی تحریروں کو پسند کرتے ہیں۔ اس لئے سجا دظہیر سو چتے تھے کہ اگر پریم چند کا ساتھ شروع میں مل گیا تو تحریک کو بلندی پر لے جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ پریم چند کے ساتھ ہونے سے ایک بڑی حمایت ان کے حصے میں آجائے گی۔ پریم چند میں نہ کہیں غرور تھا نہ کوئی اکڑ۔ سادگی پسند پریم چند نے عوام کی محبت کو ہی اپنی زندگی کا مقصد جانا تھا۔ اور اسی لئے وہ اپنی تحریروں میں زیادہ سے زیادہ عوام ، کسان اور مزدوروں کی باتیں کیا کرتے تھے۔
سجاد ظہیر نے پریم چند سے اپنی ملاقات کا حال دلچسپ پیرائے میں بیان کیاہے۔ سب سے پہلے انہوں نے فراق گو رکھپوری کوڈھونڈا ۔ وہ سوچ رہے تھے کہ پریم چند جیسا بڑا آدمی تو بڑے لوگوں کے پاس ہی ملے گا۔ صوفے اور گدّوں پر بڑے بڑے بیٹھے تھے ۔ سجاد ظہیر نے سوچا اس وقت پر یم چند سے بڑا کون ہے ۔ مگر پریم چند نظر نہیں آئے تو بہ حالت مجبوری فراق سے پوچھا کہ بھئی پریم چند کہاں ہیں ۔
فراق صاحب حسب دستور ایک جگہ کنارے پر بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے۔ کنارے پر وہ لوگ تھے جو کم اہم تصور کئے جاتے تھے اور معمولی سی لکڑی کی میزوں کے گرد ، بید کی چھوٹی چھوٹی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ بیچ میں ایک طرف کو ہٹ کر صوفوں اور گدّے دار کرسیوں پر بیٹھنے والے ”اہم“لوگ تھے۔ یعنی کمشنر ڈپٹی کمشنر،وائس چانسلر، ہائی کورٹ کے جج ،بڑے بڑے وکلااور رﺅسا اور چند جغادری قسم کے پروفیسر ،پنڈت اور مولانا وغیرہتاکہ حاکموں اور بڑے آدمیوں کے درمیان کچھ ادبی اور علمی رنگ بھی رہے ۔ باقی لوگ ادھر ادھر تھے ۔ کل ملاکر وہاں کوئی دو ڈھائی سو آدمی موجود ہوں گے۔ پریم چند سے بڑا ادیب وہاں کون تھا؟اس لے سجاد ظہیر نے سمجھا کہ وہ بھی کہیں صوفے پر بیٹھے ہوں گے۔ فراق سے انہوں نے کہا ۔ کہ ”بھئی پریم چند سے مجھے ملا دو .
یہ پریم چند کی انکساری تھی کہ وہ خود کو کسی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ زندگی کی آخری سانس تک پریم چند خود کو زمین کا ادیب سمجھتے رہے ۔ ایسا ادیب جو مشکل میں زندگی گزارتا ہے ۔ کسانوں اور مزدوروں سے پیار کرتا ہے۔ عوام کے دکھ درد کو سمجھتا ہے ۔ اپنے ملک سے پیار کرتا ہے ۔ ایک ایسا شخص جس میں طمع نہیں ۔ حرص نہیں۔ دکھاوہ نہیں ۔ نمائش نہیں۔ پریم چند زندگی بھر مفلس کی زندگی گزارتے رہے ۔ لیکن کبھی غربت کو ضمیر پر حاوی نہیں کیا۔ وہ با ضمیر انسان تھے جسے جھکنا گوارہ نہیں تھا۔ اگر آپ پریم چند کی تحریروں کو پڑھیںتو پریم چند کے غریب کرداروں میں بھی یہ انا کا تصور مل جائے گا۔ چوگان ہستی ناول میں ایک کسان کا ذکر ہے ، جس کے پاس کافی زمینیں ہیں۔ لیکن اس کی انا اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ زمین جہاں اس کے گاﺅں والے مل بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں، وہ فروخت کردے ۔ گزارے کیلئے وہ شان سے بھیک مانگتا ہے ۔ لیکن انا کا سودا اسے منظور نہیں۔ پریم چند زندگی بھر غریبوں کے درد کو اپنی تحریروں میں جگہ دیتے رہے مگر اپنے درد کو کبھی نمائش نہیں بنایا۔ یہ ان کا بڑپّن تھا۔ پریم چند کی یہی سادگی ، یہی نرالا انداز ان کی کہانیوں میں بھی نظر آتا ہے ۔ سجاد ظہیر کی تحریر سے پریم چند کی شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے ۔ ایسا کم ہوتا ہے جب ایک بڑے سمینار میں بلاوے کے باوجود پریم چند جیسے قدکا ادیب خود اپنے پیسے سے آجائے اور ٹانگہ کرکے ا سٹیشن سے خود ہی ملنے چلاآئے ۔ سجاد ظہیر کی کتاب سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
”باہر سے آنے والے لوگوں کا ریلوے اسٹیشن پر استقبال بھی ہم نہ کرسکتے تھے تین چار آدمی آخر کیاکیا کرتے !تاہم اپنے صدر منشی پریم چند کو اسٹیشن پر لینے جانے کا تہیہ کیا ۔ محمود کسی اور کام میں لگے ہوئے تھے۔ اس لئے رشیدہ اور میں نے طے کیا کہ ہم دونوں اسٹیشن جائیںگے ۔ کہیں سے تھوڑی دیر کے لئے ہم نے ایک موٹر بھی حاصل کرلی تھی۔ صبح کا وقت تھا گاڑی نوبجے کے قریب آنے والی تھی ۔ ہم نے سوچا کہ ساڑھے آٹھ بجے گھر سے روانہ ہوںگے ۔ ہم آٹھ بجے کے قریب بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ گھر میں ایک تانگے کے داخل ہونے کی آواز آئی اور ساتھ ہی نوکر نے آکر مجھے اطلاع دی کہ کوئی صاحب آپ کو بلارہے ہیں۔ میں باہر نکلا تو کیا دیکھا کہ پریم چند جی اور ان کے ساتھ ایک اور صاحب ہمارے مکان کے برآ مد میں کھڑے ہوئے ہیں۔ مجھ پر حیرت اور شرمندگی سے تھوڑی دیر کے لئے سکتہ چھاگیا ۔ لیکن قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں پریم چند نے ہنستے ہوئے کہا”بھئی تمہارا گھر بڑی مشکل سے ملا ہے بڑی دیر سے ادھر ادھر چکر لگارہے ہیں۔“اتنے میں رشیدہ بھی باہر نکل آئیں اور ہم دونوں اپنی صفائی اور معذرت پیش کرنے لگے۔ معلوم ہوا کہ ہمیں ٹرین کے وقت کی غلط اطلاع تھی۔ اس کے آنے کا وقت ایک گھنٹہ پہلے کا تھا۔ پہلی اپریل سے وقت بدل گیاتھا۔ لیکن اب الٹے پریم چند جی نے معذرت شروع کردی ۔ ”ہاں مجھے چاہئے تھا کہ چلنے سے پہلے تم لوگوں کو تاردے دیتا۔ لیکن میں نے سوچا کہ کیا ضرورت ہے اگر اسٹیشن پر کوئی نہ بھی ملا تو تانگہ کرکے سیدھا تمہارے یہاں چلاآﺅں گا۔“
یہ تھے پریم چند .. اور ایسی ایک دو نہیں ہزار کہانیاں پریم چند سے منسوب ہیں ..
وہ وقت کا رفوگر تھا . معاشرے کو آئینہ دکھاتا تھا . لہو کے چراغ روشن کرتا ہے ..
سوچتا ہوں ، کیا پریم چند مر گئے ؟ کیا پریم چند کو نقادوں نے ریجیکٹ کر دیا ؟
جب کوہ ظلمت سے شرر کی بارش ہوگی ، وہ ہمارے درمیان ہو گا
جب کسان پیسے ہوں گے ، وہ ہمارے درمیان ہوگا
جب ایک بھی آدمی مریگا ، وہ ہمارے درمیان ہو گا .
جب مزدور ہجرت کرینگے ، وہ ہمارے درمیان ہوگا
وہ مر کیسے سکتا ہے ..وہ ابھی بھی ہے اور کہہ رہا ہے ، میری کہانیاں پڑھو ، ناولوں کو پڑھو .انگریز چلے گئے .انگریز کے سپاہ سالار آ گئے . فسطائی تھذیب پر ہل چلا دو .
وہ خوابوں میں آیا . میں نے پھر دریافت کیا ، فکشن کے بادشاہ ، اب کیا کہتے ہو ؟
اس نے پھر وہی کہا — حسن کے معیار کو بدلنا ہوگا ..
اب فسطائی آ گئے ہیں ..پہلے انگریز تھے اب اپنے ..
اس نے اپنی بات دہرائی .. حسن کے معیار کو بدلنا ہوگا ..اور غائب ہو گیا .
نہ شادم، نہ محزوں، نہ خاکم، نہ گردوں
نہ لفظَم، نہ مضموں، چہ معنیستم من؟
— بیدل
نہ شاد ہوں نہ محزوں ہوں، نہ خاک ہوں نہ گردوں ہوں، نہ لفظ ہوں، نہ مضموں ہوں، پھر میں کون ہوں ؟
میں آھستہ سے کہتا ہوں پریم چند .. جو اب بھی ہمارے ساتھ ہے ..