پوسٹ ماڈرنزم، ایک متبادل مہابیانیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے کا سارا پوسٹ ماڈرنزم، مذہبی اخلاق اور مارکسزم کے خلاف سامراج کا متبادل بیانیہ ہے بایں ہمہ عہدِ عاضر کے ادیبوں، دانشوروں اور ماہرین ِ جدلیات کے منہ میں دھرا ہوا ہے۔ جب آئن سٹائن جو یہودی تھا امریکہ میں مستقل پناہ حاصل کرلیتاہے تو اپنے وقت کی جدید فزکس بھی نازی فاشزم کے خلاف دلائل دینے سے باز نہیں آتی۔ آئن سٹائن نے جب فزکس کا یہ قانون معلوم کرلیا کہ
’’کائنات میں کوئی شئے مطلق نہیں اور ہر شئے دوسری شئے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے‘‘
تو اُس نے اس سے اگلا نتیجہ یوں اخذکیا،
’’چونکہ کائنات میں کوئی شئے مطلق نہیں اور ہرشئے دوسری شئے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے چنانچہ کائنات میں کوئی شئے اہم نہیں۔ نہ کوئی فرد، نہ کوئی قوم اور نہ ہی کوئی ملک‘‘
بنظرغائر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ آئن سٹائن کو خود تسلیم نہیں تھا۔ بطورنسل پرست یہودی وہ خود بھی تو ایک طرح سے فاشسٹ ہی تھا۔ لیکن اِس کے باوجود نازی ہٹلر کو نیچا دکھانے کی اُس کی شدید آرزُو ایسے نتائج کی طرف اُس کی رہنمائی کررہی تھی۔ حالانکہ فزکس کا قانون سادہ تھا اور اس سے دو بیانات اخذ ہوتے ہیں۔ گویا فزکس کی یہ آیت متشابہہ آیت تھی اور اس کے ایک سے زیادہ یعنی دو معنی نکل رہے تھے۔ مثلاً دوسرا معنیٰ یہ بھی تو ہوسکتا تھا،
’’چونکہ کائنات کی کوئی شئے مطلق نہیں اور ہر شئے دوسری شئے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے اس لیے کائنات کی ہرشئے اہم ہے۔ کسی ایک ذرّے کا بھی جو اپنا ذاتی زمان و مکاں ہے وہ کسی دوسرے ذرّے کا نہیں ہے فلہذا ہر فرد، ہر قوم اور ہر ملک نہایت اہم ہے‘‘
لیکن اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں ہم ایک نظر یہ دیکھ لیں کہ متبادل بیانیہ کیا ہے؟ مثلاً گریوٹی یعنی کششِ ثقل ایک مظہرِ قدرت ہے۔ ہم بغیر سائنس پڑھے جانتے ہیں کہ چیزیں زمین پر گِرتی ہیں۔ نیوٹن نے اس مظہرِ قدرت کو ٹھیک ٹھیک ریاضی کے ذریعے متعدد طریقوں سے دیکھا، پرکھا، جانچا ، بے شمار اُصول وضع کیے، کئی قوانین دریافت کیے اور جدید میکانیات کی بنیاد رکھی جو آج تک قائم دائم ہے۔ نیوٹن کے تمام قوانین اور کشش ثقل آج تک آپس میں انہی اُصولوں کے پابند ہیں جو فطرت میں موجود تھے اور نیوٹن نے دریافت کرکے اپنی قوتِ بیان کے ذریعے انسانوں کو بتائے۔ نیوٹن نے جو کچھ بتایا تھا وہ نیوٹن کا بیان تھا۔ اُسی گریوٹی کو جب آئن سٹائن بیان کرتاہے تو قوانین سب وہی کے وہی رہتے ہیں، سائنس تمام کی تمام وہی رہتی ہے جبکہ کششِ ثقل سے متعلق بیان بالکل بدل جاتاہے۔ نیوٹن نے کہا تھا کہ زمین چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ آئن سٹائن کی سپسٹائم فیبرک سے پتہ چلا کہ آسمان چیزوں کو نیچے کی طرف دھکیلتاہے۔ قوانین وہی رہے بیان بدل گیا۔ آئن سٹائن نے گویا کششِ ثقل کا متبادل بیانیہ پیش کیا نہ کہ کوئی نیا بیان۔
جب حقیقت وہی رہے اور بیان بدل جائے تو اس سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں؟ دیکھاجائے تو بظاہر کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ مثلا اُوپر دی گئی دونوں مثالوں کو نمبروار دیکھیں، آپ کو کوئی خاص فرق نظر نہیں آئےگا،
مثال نمبر۱ کی صورت نمبر ایک،
’’چونکہ کائنات میں کوئی شئے مطلق نہیں اور ہرشئے دوسری شئے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے چنانچہ کائنات میں کوئی شئے اہم نہیں۔ نہ کوئی فرد، نہ کوئی قوم اور نہ ہی کوئی ملک‘‘
مثال نمبر۱ کی صورت نمبردو،
’’چونکہ کائنات کی کوئی شئے مطلق نہیں اور ہر شئے دوسری شئے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے اس لیے کائنات کی ہرشئے اہم ہے۔ کسی ایک ذرّے کا بھی جو اپنا ذاتی زمان و مکاں ہے وہ کسی دوسرے ذرّے کا نہیں ہے فلہذا ہر فرد، ہر قوم اور ہر ملک نہایت اہم ہے‘‘
مثال نمبر۲ کی صورت نمبر۱
’’زمین چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے‘‘
مثال نمبر۲ کی صورت نمبر۲
’’آسمان چیزوں کو نیچے کی طرف دکھیلتاہے‘‘
ان مثالوں میں صاف نظر آرہاہے کہ یہ دراصل کان کو الٹے ہاتھ سے پکڑنے والی بات ہے۔ یعنی بات الٹا کرکےکی جائے تو اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اب انہی مثالوں کے اثرات کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں۔
پہلی مثال میں آئن سٹائن نے جب فرد بایں ہمہ قوم کی اہمیت کو ختم کردیا تو یکایک پوری دنیائے علوم پر مایوسی کی ایک لہر چھا گئی۔ کچھ بھی تو اہم نہیں ہے۔ انسان نہ اس کی زندگی۔ قوم کے لیے جان دینا بھی اہم نہیں۔ کسی بڑے مقصد کا روگ پالنا بھی اہم نہیں۔ کچھ بھی اہم نہیں۔ یہ ایک مایوس اندازِ نگاہ ہے۔ اس کے برعکس متبادل بیانیے میں جو فی الاصل علامہ اقبال نے تشکیل میں اختیار کیا، ایک اُمید ہے۔ چونکہ ہرشئے اہم ہے سو ہر قوم اہم ہے اور ہر قوم اہم ہے تو ہر ملک اہم ہے۔ یہ ایک جیتی جاگتی دنیا کی طرف لے جانے والا اندازِ نگاہ ہے۔ اول الذکر نتیجہ فرد کو تنہا، مایوس اور اداس کردینے والا اور ثانی الذکر نتیجہ فرد کو اجتماع کی لڑی میں پرو دینے والا بیانیہ ہے۔ اب اگر ہم گزشتہ صدی کی تاریخ پر نظر کریں تو ہم نے دیکھا کہ آئن سٹائن کے نتیجہ نے جو کہ فقط ایک بیانیہ تھا دنیا کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ پوری کی پوری پوسٹ ماڈرن فکر اسی بیان کا بیانیہ ہے اور مارکسزم کا متبادل بیانیہ۔
دوسری مثال کے تاریخی اثرات بھی ایسے ہی ہیں۔ نیوٹن کی کششِ ثقل کا متبادل بیانیہ پیش کرنے کے نیتجے میں مادیت کا بُت تو ٹوٹ گیا لیکن توانائی کا بت کھڑا ہوگیا۔ مادے کی مطلقیت توانائی کی مطلقیت میں بدل گئی۔ یہ وہی فرق ہے جو جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا فرق ہے۔ مادہ تو ٹھوس تھا یا مائع تھا یا گیس تھا لیکن توانائی کا کچھ پتہ نہیں کہ یہ فی الحقیقت کیا ہے۔ کیا یہ پارٹکل ہے یا یہ موج ہے؟ یہ دراصل دونوں ہے۔ توانائی دونوں شکلوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ بیک وقت پارٹیکل بھی ہے اور موج بھی۔ سو نتیجہ یہ نکلا کہ کہ ’’کے اوس‘‘ ہے۔ حتمیت کا کوئی وجود نہیں۔ کسی بات، کسی شئے، کسی جوہر کو حتمی کہنا ناممکن ہے۔
حالانکہ آئن سٹائن کی کششِ ثقل، نیوٹن کی کششِ ثقل کے متبادل بیانیے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر نیوٹن کی سائنس میں کچھ اضافے ہوئے ہیں تو وہ آئن سٹائن سے پہلے وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ آئن سٹائن نے فقط بہت سے لوگوں کے نتائج کو لے کر فلسفیانہ تفکر اور تکشف فرمایا ہے۔ وہی، سیف والی بات کہ، سیف اندازِ بیاں بات بدل دیتاہے۔ مثلاً اگر علامہ اقبال کا متبادل بیانیہ قبول کیا گیا ہوتا اور آئن سٹائن کا رد کردیا گیا ہوتا تو منظر کیا ہوسکتاتھا،
’’چونکہ کائنات کی کوئی شئے مطلق نہیں اور ہر شئے دوسری شئے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے اس لیے کائنات کی ہرشئے اہم ہے۔ کسی ایک ذرّے کا بھی جو اپنا ذاتی زمان و مکاں ہے وہ کسی دوسرے ذرّے کا نہیں ہے فلہذا ہر فرد، ہر قوم اور ہر ملک نہایت اہم ہے‘‘
مجھے پتہ ہے علامہ اقبال کا نام آگیا ہے۔ اتنا کافی ہے۔ اب بعض لوگ اِس مضمون کی منطق کو نظر انداز کرکے اِس ساری کی ساری فکری عمارت کے خلاف ایسی تیسی پھیر دینگے۔ خدارا متن کی طرف توجہ رکھیے! علامہ اقبال نے اضافیت سے جو نتیجہ اخذ کیا وہ گزشتہ صدی کی تیس کی دہائی کا واقعہ ہے اور اس لیے ایسا کہنا قطعاً بعید از خیال نہیں کہ اقبال یا اگر کسی اور نے بھی ایسا متبادل بیان دیا تھا تو اس کا بیان فی الاصل انسانیت کے حق میں زیادہ مفید ہوتا۔ ممکن ہے دوسری جنگِ عظیم نہ ہوئی ہوتی۔ اور اگر ہوئی ہوتی تو ممکن ہے کم نقصان ہوا ہوتا۔ دوسری جنگِ عظیم میں چھ کروڑ انسان ہلاک ہوئے۔ اتنا بڑا سارے کا سارا نقصان کیا فقط اس مِس اِنٹرپریٹیشن کی وجہ سے نہیں ہوا کہ،
’’چونکہ کائنات میں کوئی شئے مطلق نہیں اور ہرشئے دوسری شئے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے چنانچہ کائنات میں کوئی شئے اہم نہیں۔ نہ کوئی فرد، نہ کوئی قوم اور نہ ہی کوئی ملک‘‘
اور رونا تو یہ ہے کہ اس نتیجہ کو دنیا کے اکیڈمیا کی منطقی آنکھوں پر بطور عینک چڑھانے والی ہستی یعنی آئن سٹائن خود اصل کا لاتی مناتی یعنی فاشسٹ تھا اور آخر دم تک نسل پرست یہودی رہا۔
الغرض میں نے جو شروع میں کہا کہ سارے کا سارا پوسٹ ماڈرنزم، مارکسزم کے خلاف سامراج کا متبادل بیانیہ ہے تو میرا ایسا ہی کچھ مدعا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہیگل کے ڈائلیکٹکس بنیادی طور پر دو متخالف اجزأ یا عناصر کے ایک ساتھ مشاہدہ کا نام ہیں۔ رات کے مقابلے میں دن۔ روشنی کے مقابلے میں اندھیرا۔ تپش کے مقابلے میں ٹھنڈک۔ یہ سب ہیگل کے متضاد عناصر ہیں۔ یہ سب تھیسز اور اینٹی تھیسز ہیں۔ ہمیشہ کسی شئے کو دیکھنے کے لیے اسے دو متخالف حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا جانا چاہیے۔ یہ ہے ہیگل کی منطق۔ ہیگل نے اس منطق سے ایک نتیجہ اخذ کیا۔ وہ نتیجہ یہ تھا کہ کائنات پر جس حقیقت کا غلبہ ہے وہ محض تصور یعنی آئیڈیا کی شکل میں موجود ہوسکتی ہے۔ ہیگل کے بعد ہیگل کے ہی ڈائیلکٹس کا استعمال کرتے ہوئے کارل مارکس نے اس کے برعکس نتیجہ اخذکیا اور کہا کہ کائنات پر جس حقیقت کا غلبہ ہے وہ خالص مادی ہے۔ یعنی مارکس کا بیان ایک لحاظ سے ہیگل کا متبادل بیانیہ تھا۔ پوسٹ ماڈرنزم کے پاس بھی ہتھیار وہی پرانا ہے۔ یعنی جدلیات کا استعمال کرنا اور نتائج اخذ کرنا لیکن پوسٹ ماڈرنزم کے نتائج مارکس کی طرح کے اشتراکیت پسند نہیں ہیں۔ پوسٹ ماڈرنزم کے نتائج پوری طرح کیپٹالسٹ طرزِ فکر کے نمائندہ ہیں۔ یعنی یہ بھی فقط متبادل بیانیہ ہے۔ اب وہی ماہر ِ جدلیات سامراج کی زبان بول سکتاہے جو کبھی اپنی جدلیات کا ساتھ دیتے ہوئے مارکسسٹ ہوجایا کرتاتھا۔ جدلیات بہت جابر اور مضبوط قسم کا ہتھیار ہے۔ اکیڈمیا کے نزدیک ہمیشہ اُسی منطق کی اہمیت ہوتی ہے جو اپنے عہد کی تمام منطقوں پر عقلی لحاظ سے برتر ہو۔ پوسٹ ماڈرنزم سامراجی قوتوں کی جانب سے اُنڈیلا گیا ایسا مشروب ہے جسے پینے کے بعد ماہرین ِ جدلیات ایسے ایسے اجزائے کائنات کو متضاد شکلوں میں دیکھنے لگ جاتے ہیں جو کبھی متضاد تھے ہی نہیں۔
کیا عورت اور مرد ایک دوسرے کے متضاد عناصر ہیں؟
قطعاً نہیں۔
لیکن پوسٹ ماڈرن ماہرین ِ جدلیات نے ان دونوں عناصر کو ایک دوسرے کے متضاد رکھ کر لاکھوں نتائج اخذ کیے ہیں۔ عورت کی آزادی کی بات بھی ہوگئی اور سامراجی قوتوں کو مسائل کا سامنا بھی نہ کرنا پڑا۔ یہاں آپ کو اشتراکیت کا شائبہ تک نظر نہ آئے گا۔ یعنی سارے کا سارا کھیل متبادل بیانیوں کا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
بہت مشہور بات ہے کہ پوسٹ ماڈرنزم نے مہابیانیے کا خاتمہ کردیا۔ مہابیانیہ قران اور بائیبل جیسی کتابوں کو ہی نہیں کہتے تمام پرانی قدریں، اصول، دنیا کو چلانے کے طریقے اور ڈھنگ، سب کے سب کا خاتمہ مہابیانیے کا ہی خاتمہ کہلاتاہے۔ آپ پکاسُو کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے پینٹگنز بنائیں تو کہا جائیگا کہ یہ کلیشے شکار ہے۔کلیشے کا خاتمہ۔ ٹیبوز کا خاتمہ۔ یہ ایک طرح سے جدید طرز کی بُت شکنی ہے۔ یعنی پوسٹ ماڈرنزم نے بت توڑ دیے ہیں۔ اقبال تک ہم سمجھتے تھے کہ اشتراکیت بُت شکن ہے۔ لیکن سب سے بڑا بت شکن تو پوسٹ ماڈرنزم نکلا۔ اس نے سب بُت توڑ کررکھ دیے۔ مذاہب کے بت، عقائد کے بت، بزرگوں کی اقدار، خاندان کے نام نہاد اُصول، قومیں، نسلیں، مستقل تصورات، سب کچھ ختم۔
کیونکہ پوسٹ ماڈرنزم کے بقول سچائی اِن میں سے کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ شر کا وجود ہے نہ خیر کا۔ مہابیانیے کے خاتمے کے ساتھ ہی خیروشرکےتمام تصورات کا خاتمہ ہوجانا بھی لازمی امر تھا۔ چنانچہ یہی ہوا۔پوسٹ ماڈرنزم کی شمشیر نے جن جن بُتوں کو توڑا میں اُن میں ’’تصورِ خیروشر‘‘ سرفہرست ہے۔ پوسٹ ماڈرن دنیا نے یہ نیا خیال قبول کرلیا کہ نیکی اور بدی کی تعریف ممکن نہیں۔ اچھائی اور برائی کا کوئی پیمانہ نہیں۔کوئی عمل اچھا یا بُرا نہیں ہوتا۔ اخلاقیات کی ہزارہاسالہ ، عظیم عمارت جو اَب بُری طرح بوسیدہ ہوچکی تھی پوسٹ ماڈرنزم کی ضرب نہ سہہ سکی اور مشرق و مغرب اپنے آباؤاجداد کی اقدار کو خیرباد کہہ کرعقلِ جدید کی سب سے خوبصورت جنت یعنی جدلیات کے نتائج پر لبیک کہنے کے لیے بے تاب ہوگئے۔پوسٹ ماڈرن افکار نے اکیڈمیا سے یہ تسلیم کروالیا کہ عقل تضادات کے درمیان فرق کرنے کی ماہر ہے۔ دو متخالف عناصر کےدرمیان فیصلہ ریاضیاتی بزرگی کا حامل ہے۔مثلاً اگر پوسٹ ماڈرنزم نے کہا کہ عورت اور مرد میں بطور انسان کچھ فرق نہیں تو کیا غلط کہا؟ ایک بُت ہی تو توڑا۔ لیکن یہ بت توڑنے کے لیے پوسٹ ماڈرنزم کو عورت اور مرد دو مخالف طبقوں کے طور پر تصور کرنا پڑے۔ اگر عورت اور مرد کو دو متخالف طبقات سمجھا جائے تو کیا یہ فیصلہ ریاضیاتی صداقت کا حامل نہیں؟ عورت اور مرد دو متخالف عناصر ہیں اور تاریخِ انسانی کے دو خاموش مخالف دھڑے۔ چنانچہ یہ طبقاتی فرق ختم ہونا چاہیے۔ ایسے متضاد اجزأ کی موجودگی میں نتیجہ اخذ کرنا کونسا مشکل ہے کہ عورت اور مرد دونوں بطور انسان برابر ہیں؟ دونوں باشعورانسان ہیں۔ ایک ہی طریقے سے سے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک ہی طریقے سے بڑے ہوتے ہیں۔ ایک ہی طریقے سے مرتے ہیں۔ ایک جیسی غذائیں کھاتے ہیں۔ مل کر بچے پیدا کرتے ہیں۔ ایسی کون سی منطق ہے جو عورت اور مرد کے مابین فرق پیدا کرنے میں عقلِ جدید کو قائل کرسکے؟
لیکن پوسٹ ماڈرن فکر نے روزِ اوّل سےعورت اور مرد کو دو متخالف ہستیاں شمار ہی کیوں کیا؟ دو ایسے متضاد عناصر جن کے درمیان جدال کی صورت پیدا کرکے نتائج حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ ایسا فرق ہی کیوں کیاگیا؟ تاریخی اعتبار سے عورت اور مرد کو دو متخالف دھڑے کہہ کر ان کے درمیان فرضی دشمنی کا جو منظر تصور کیا گیا اس کی شہادت کہاں ہے؟ غرض پوسٹ ماڈرن طرزِفکر میں جو سب سے بڑی قباحت موجود ہے وہ اس بات کا تعین نہ کرسکنے کی نااہلی کہ آیا دو متضاد عناصر فی الواقعہ ایک دوسرے کے متضاد ہیں؟ البتہ بعض تصورات جہاں بظاہر بجا معلوم ہوتا ہے کہ پوسٹ ماڈرنزم کا طرزِ فکر درست ہے ، و ہ ہے، ’’مسئلہ خیروشر‘‘۔ایک تو خیروشر ایک دوسرے کے عین متخالف واقع ہیں ، دوسرے خیروشر کے مختلف تصورات کی موجودگی میں پوسٹ ماڈرنزم کی طرزِ فکر کا مقبول ہوجانا قدرتی امر تھا۔چنانچہ پوسٹ ماڈرنزم نے تصورخیروشر کو بیخ وبن سے ہلا کررکھ دیا۔ آج اگر دنیا کے کئی ممالک میں ’’گے میرج‘‘ یعنی مردوں کی مردوں سے شادی کا عمل یا ’’لِزبیَن میرج‘‘ یعنی عورتوں کی عورتوں سے شادی کا عمل رواج پارہاہے تو اس کے بنیادی اسباب میں پوسٹ ماڈرن طرزِ فکر کا دخل ہے۔ یہاں بھی مردوزن کی متخالف تفریق اس نئی طرز کی عائلی اخلاقیات کا باعث بنی ہے۔
ہیگل کی جدلیات کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہمارا ذہن اس وقت تک کسی بھی شئے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا جب تک اس شئے کا مکمل طور پر متضاد سامنے موجود نہ ہو۔جب تک اسےدو متضاد قطبین کی صورت تقسیم نہ کیا جاسکے کسی شئے کے بارے میں رائے دینا ناممکن ہے۔اگر تھیسز حرارت ہے تو اینٹی تھیسز ٹھنڈک ہے۔ہیگل کے مطابق حرارت کا کوئی تصور نہیں جب تک ٹھنڈک کا تصور نہ ہو۔ چنانچہ پوسٹ ماڈرنزم نے جدلیات کے اِس طریقہ کار کو اکیڈمیا کی پسندیدہ منطق شمار کرتے ہوئے ہرکہیں اختیار کرنا شروع کردیا۔ لیکن چالاکی یہ دکھائی کہ بعض ایسے اجزأ کو بھی، جو ایک دوسرے کے فی الحقیقت متخالف نہیں تھے، متضاد اور متخالف کرکے پیش کردیا۔ جب کوئی سے بھی دو اجزأ کو پہلے ہی سے متضاد تسلیم کرلیا جائے گا تو ان کے مابین بھی ہزارہا پہلو ایسے ہونگے جو خود بخود اجاگر ہوکر یہ ثابت کرنے لگیں گے کہ فی الواقعہ یہ اجزأ ایک دوسرے سے متصادم تھے۔
سچائی یہ ہے کہ تمام کا تمام مسئلہ باقاعدہ ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ ایک کانفلکٹ پیدا کیاجاسکےجو کبھی حل کرنا ممکن نہ ہو یہاں تک کہ کوئی طاقت جب تک بیچ میں نہ پڑے کانفلکٹ حل نہ کیا جاسکے۔ ابارشن کا مسئلہ، گے میرج کا مسئلہ، اوزون کا مسئلہ، میڈیا کا مسئلہ، یہ سب کانفلکٹس ہیں اور فی الاصل مصنوعی تضادات ہیں تاکہ سنتھسز کی گنجائش ہمیشہ باقی رہے۔
مضمون لمبے سے لمباہوتاجارہاہے، خیر! پوسٹ ماڈرنزم ایک ایسی مبہم اصطلاح ہے جس کی تشریح کو یونہی گلی میں پھینک دیا گیا ہے تاکہ جس کا جی چاہےجو مرضی معانی نکالتا رہے۔ پوسٹ ماڈرنزم کی اصطلاح کبھی کسی پر پوری طرح کھل نہیں پاتی۔اصل میں پوسٹ ماڈرنزم کسی فلسفے کا نام تو ہے نہیں ، یہ فقط ایک طریقِ کار ہے۔ ایک اندازِ نظر۔ چیزوں کو دیکھنے کا ایک خاص سلیقہ۔ بنیادی طور پر پوسٹ ماڈرنزم ’’ماڈرنزم کی تنقید‘‘ جو فی الاصل ’’سٹرکچر پر تنقید ‘‘ ہے، پہلے سے بنے ہوئے پر تنقید ہے اوراسی لیے اِسے پوسٹ سٹرکچرلزم بھی کہتے ہیں۔
اس سے بھی آسان الفاظ میں کہا جائے تو ’’پوسٹ ماڈرنزم ایک طرزِ فکر ہے جو ہراُس عنصر کا تنقیدی جائزہ لیتاہےجسے حقیقی سمجھ لیا گیاہو‘‘۔ لیکن پھر ہم غور کریں تو یہی وظیفہ خود فلسفہ کا بھی رہا ہے۔پوسٹ ماڈرنزم اس نظریہ کا مبلغ ہے کہ،
’’کہیں کوئی مطلق سچائی نہیں ہے‘‘
“There is no absolute truth anywhere”
اور وہ بنیادی ڈھانچے جن پر ہم نے تہذیب و تمدّن کی عمارتیں کھڑی کررکھی ہیں، فقط سماجی تعاملات کے نتائج ہیں۔ان سماجی تعمیرات میں طاقت، جینڈر، طبقات جیسی تمام قوتوں کا کردار ہوتاہے۔پوسٹ ماڈرنزم ان بنیادوں کی نہ صرف چھان بین کرتاہے بلکہ ان کی بُنتر اور بناوٹ کو لخت لخت کرتا اور دعویٰ کرتاہے کہ یہ تمام اجزأ نہ صرف یہ کہ سچ نہیں بلکہ فی الحقیقت بھانت بھانت کے جھوٹ ہیں۔یعنی ہم نے کلچر اور سوسائٹی کے نام سے جو کچھ بھی جمع کررکھاہے اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ اس کی بنیاد مذہب میں ہے اور نہ ہی مٹی میں۔ ثقافت ایک ارتقائی عمل ہے اور غور پر کرنے معلوم ہوتاہے کہ ثقافت کی تدوین میں ہمیشہ، مذہب، معاشرت، سماجی روابط اور تعلقات کے علاوہ طاقت اور طبقات نے بے پناہ کردار ادا کیا ہے۔
خیر! تو آمدم برسرمطلب کہ پوسٹ ماڈرنزم خیروشر کے تصور کو بھی تباہ کردیتاہے۔ پوسٹ ماڈرنزم کے مدلولات میں ’’خیروشر‘‘کا تصور بنیادی حیثیت رکھتاہے۔اچھائی برائی کیا ہے؟ اچھائی اور برائی سماج جال کے بنیادی تانے بانے ہیں۔ یہ دراصل ایک ری ایکشن تھا۔ ہائپر ریشنلزم اور ماڈرینٹی کے خلاف۔ یہ وہ زمانہ ہے جب لوگ اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ بعض سائنسی یا یہاں تک کہ مذہبی نظریات یا اصول ایسے ہوسکتے ہیں جو ہر بات کی وضاحت کرنے کے اہل ہوں۔اسی طرح ماڈرنزم کا خیال تھا کہ کوئی شئے بھی مکمل طور پر معروضی نہیں ہوتی۔ بہرحال جو کوئی بھی ، جس طرف سے بھی آرہا تھا وہ سب ایک بات پر متفق تھے کہ ان کے دامن میں جو کچھ ہے یہ سب کا سب ان کے کلچر کا صدقہ ہے۔مختصر یہ کہ ہر وہ تصور جو اقدار کو چیلنج کرتاہے پوسٹ ماڈرن تصور کہلاتاہے۔اور اس اندازِ فکر میں جو طریقہ سب سے نمایاں رہتاہے وہ ہے بائنری کے سٹرکچر کو ختم کرنا یعنی جدلیات کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے علقیت پر قدغن لگانا اور طے شدہ اُصولوں کی بیخ کنی کرنا۔فلہذا پوسٹ ماڈرنزم چیلنج ہے مخصوص سٹرکچرز کے لیے۔چونکہ پوسٹ ماڈرنزم کو الگ کرکے دیکھنے کا کوئی طے شدہ اُصول نہیں، اس لیے ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم باہر نکلیں، تعمیرات کو دیکھیں، تحریروں کو پڑھیں یہاں تک کہ میوزک کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوجائیگا کہ کہاں کہاں اقدار سے بغاوت کی گئی ہے اورہر وہ تعمیر یا تحریر یا تقریر پوسٹ ماڈرن ہے جس میں اقدار کے خلاف بغاوت موجود ہے۔
پوسٹ ماڈرنزم چونکہ پوسٹ ہے، اس لیے یقیناً یہ ماڈرنزم کے بعد وارد ہوتاہے اور اس لیے ایک لمحے کو رک کر یہ دیکھنا ضروری ہوجاتاہے کہ ماڈرنزم کیا ہے؟ ماڈرنزم تاریخ معاشرت میں سائنسی انقلاب کے دور کو کہا جاتاہے۔جب نیا دور آیا تو وہ دور کب آیا؟ نیا دور کب سے شروع ہوتاہے۔ بابائے مادیات نیوٹن کے اکتشافات کے بعد سے سائنسی ایجادات کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے بارے میں انسان کے سوچنے کے انداز کو بہت بری طرح سے بدلنا شروع کردیا تھا بالفاظ دگر ماڈرن کرنا شروع کردیا تھا۔ اس تبدیلی کی زد میں سب سے زیادہ مذہب آیا۔اسی دور میں عقلیت بھی عروج پر تھی چنانچہ سائنٹفک میتھڈ کے آتے ہی عقلیت اور تجربیت کے درمیان ایک جنگ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔اسی جنگ نے ابتدائی پوسٹ ماڈرنزم کو جنم دیا۔
قصہ کوتاہ! اب اگر غور سے دیکھا جائے تو پوسٹ ماڈرن طرزِ فکر خود ایک کلیشے کی صورت اختیار کرچکاہے۔ مہابیانیوں کا خاتمہ کرنے والا پوسٹ ماڈرنزم خود ایک مہابیانیہ بن چکاہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ سامراج کی طرف سے عطا کی گئی زبان کو چھوڑ کر کوئی اور بولی بول سکے۔ سب کے منہ میں ’’فرانسیسی‘‘ زبان ہے اور ہم کہنے کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پوسٹ ماڈرنزم فقط نیا مہابیانیہ ہی نہیں بلکہ سامراج کی ’’فرینچ کِس‘‘ ہے جبکہ سامراج کی ’’زبان‘‘ دنیا بھر کے لکھاریوں کے منہ میں ہے۔
…………….
نوٹ: اگرکبھی کوئی سکالر مندرجہ ذیل مضمون پر تھیسز کرے تو مجھے بڑی خوشی ہوگی۔
"Deconstruction of the political narratives of Einstein"
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔