پوشیدہ جنگل ، گمشدہ پرندے اور ' آخری وادی '
( جون برکلے پِک ' John Barclay PicK ‘ پر ایک نوٹ )
قیصر نذیر خاورؔ
والٹر سکاٹ ، چار خانی سکرٹ اور ’ بیگ پائپ ‘ ساز کی شناخت رکھنے والا سکاٹ لینڈ ، برطانیہ کے ایک تہائی حصے پر مشتمل ہے ۔ قرون وسطیٰ کے اوائل تک یہ ایک آزاد مملکت تھی لیکن جب 1603ء میں وراثت کے باعث جیمز ہشتم ، جو سکاٹ لینڈ کا بادشاہ تھا ، انگلستان اور آئر لینڈ کا بھی سربراہ ٹہرا تو ان تین مملکتوں کے اتحاد کی بنیاد پڑی ۔ عوام کی شیدید مخالفت کے باوجود ، 1707 ء کا ’ یونین ایکٹ ‘ بنا دیا گیا ۔ سکاٹش لوگوں کی سیاسی تاریخ سلطنت روم کے زمانے سے کشت و خون سے بھری ہوئی ہے ، اس میں انگلستان کے خلاف سکاٹش آزادی کی جنگیں کچھ زیاد ہ پرانی نہیں ، یہ 13 ویں اور 14 ویں صدی میں متعدد بار لڑی گئی تھیں ۔ تین صدیوں نے بہت کچھ بدلا ۔ 2016 ء کے آتے آتے حالات یہاں تک بدلے ہیں کہ 2014ء میں ہوئے ریفرینڈم میں سکاٹش عوام علیحدٰہ مملکت کے قیام کے خلاف ووٹ دے چکے ہیں اور انہوں نے 2016 ء کے ریفرینڈم میں ’ گریٹ برطانیہ‘ کی یورپین یونین سے علیحدٰگی کی بھی مخالفت کی ہے ۔
سکاٹ لینڈ کا ادب بھی زمانے کے سرد اور گرم کے مطابق بدلتا رہا ہے ۔ کبھی یہ ’ Brythonicc ‘ زبان میں تھا پھر لاطینی ، مقامی بولیوں اور قدیم انگریزی کے علاوہ فرانسیسی میں بھی لکھا گیا ۔ اس زمانے کی ایک یادگارسکاٹش تحریر ’ جان باربر‘ کی رزمیہ ’ بروس‘ (Bruce) ہے جو 14 ویں صدی کے اوائل میں لکھی گئی تھی ۔ جیمز ہشتم کے بادشاہ بننے کے بعد گو سکاٹ لینڈ میں مقامی زبان کو کچھ زیادہ اہمیت نہ دی گئی لیکن 18 ویں صدی میں جیمز میکفرسن جیسے ادیبوں نے اسے پھر سے رواج دیا ۔ 19 ویں صدی کے والٹر سکاٹ کا نام اوپر لیا ہی جا چکا ہے جس کے ’ Waverley ‘ ناولوں نے سکاٹش شناخت کو مزید منفرد کیا ۔ وکٹورین عہد کے خاتمے تک بہت سے سکاٹش ادیب انگریزی میں بھی لکھ کر نام کمانے لگے تھے جن میں ’ Treasure Island ‘ لکھنے والا رابرٹ لوئی سٹیونسن ، ’شرلک ہومز ‘ کی کہانیاں لکھنے والا ’ آرتھر کونان ڈوئل ‘ ، ’ پیٹر پین ‘ کا خالق ’ جے ایم بیری‘ اور ’ دی پرنسس انیڈ دی گوبلنگ ‘ کا خالق جارج میکڈونلڈ اہم ہیں ۔ بیسویں صدی ’ سکاٹش ‘ ادب کی نشاةالثانیہ کی صدی تھی ۔ یہ نشاةالثانیہ ابھی تک جاری ہے جس کی عمدہ مثال گلاسکو کی ’ کیرول این ڈفی‘ (پیدائش ؛ دسمبر1955ء ) ہے جو 2009ء میں ’ گریٹ برطانیہ ‘ کی ’Poet Laureate ‘ بنائی گئی ۔
اسی’ سکاٹش ‘ ادب کی نشاةالثانیہ کا ایک نمائندہ ’ جون برکلے پِک ‘ (John Barclay Pickk ) بھی تھا ۔ وہ 26 دسمبر 1921 ء کو ’ لیچیسٹر ‘ میں ’ سڈنی ‘ نامی ایک جولاہے کے گھر پیدا ہوا جو خاندانی طور پر ’ نٹ وئیر ‘ بنانے کا کام کرتا تھا ۔ اس نے اپنا بچپن سکاٹ لینڈ کے پہاڑوں میں گزارا تھا ۔ یہ یاد اس کی تحریروں میں جا بجا ملتی ہے ۔ اس نے سمر سیٹ کے سِڈکوٹ سکول ، جو جارج فوکس کی مسیحی مذہبی تنظیم’ RSF ‘ کی نگرانی میں چلتا تھا ، میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ، کیمیرج یونیورسٹی میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل ہوا لیکن دوسری جنگ عظیم شروع ہونے کے کارن یونیورسٹی چھوڑ کر ’ RSF ‘ کے ’ ایمبولینس یونٹ ‘ میں شامل ہو گیا اور جب لندن جرمن بمباری کی زد میں آیا تو وہ ہسپتالوں میں بطور رضاکار کام کرنے لگا ۔ 1943 ء میں اس نے ' جینی ' نامی عورت سے شادی کی جس سے اس کے دو بیٹے پیدا ہوئے ۔ جنگ کے آخری سالوں میں اس نے کانکنوں کی آبادیوں میں بھی رفاہی کاموں میں حصہ لیا جو جنگ سے خاصی متاثر ہوئی تھیں ۔ انسانیت کی بھلائی کا داعی ’ جون‘ جلد ہی برطانیہ کے ادبی و دانشور حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا اور اس کی دوستی ہر طرح مکتبہ فکر کے لوگوں سے ہو گئی ، جیسے’ ایڈورڈ کارپینٹر‘ ( اگست 1844ء تا جون 1929ء ) سوشلسٹ تھا ، ’ جان کوپر پاویز ‘ ( اکتوبر 1872ء تا جون 1963ء ) کی تحریریں متنازع تھیں اور ’ہربرٹ ریڈ ‘ (دسمبر1893ءتا جون 1968ء) آرٹ کا مورخ تھا ۔ خیالات کے اعتبار سے جون انسان دوست اور ’ انارکسٹ‘ ہوتا گیا ۔ جنگ کے بعد اس نے’ Gangrel ‘ نامی ایک رسالہ نکالا جس میں جارج اوویل اور ہنری مِلر کی تحریریں بھی چھپا کرتی تھیں ۔ یہ رسالہ زیادہ دیر نہ چل سکا ۔ وہ کچھ عرصے کے لئے سکاٹ لینڈ کے بلندی پر واقع ’ کرومرٹی‘ کے گاﺅں ’ اولاپول‘ میں منتقل ہوا جہاں اس کی دوستی ’ نیل گن ‘ (نومبر 1891 ء تا جنوری 1973ء ) سے ہوئی ۔ اسی زمانے میں اس کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’ Under the Crust ‘ شائع ہوا ۔ اس شاعری میں اس نے اپنے اس تجربے کو قلم بند کیا ہے جو اس نے کانکنوں کے درمیان رہنے کے دوران حاصل کیا تھا ۔ اس نے گھر واپسی کی اور کچھ عرصہ خاندانی کاروبار میں وقت گزارا بعد ازاں وہ ’ کرکڈبرائٹ شائر، گیلو وے ‘ میں منتقل ہوا اور صحافت کے علاوہ شاعری ، فکشن و نان فکشن بھی لکھتا رہا ۔ اس نے ’ سکاٹش ‘ ادب کی نشاةالثانیہ کے اہم ادیب ’ نیل مِلر گن‘ (Neil Miller Gunn) کی سوانح حیات پر دو کتابیں بھی لکھیں ، اس کے خطوط کو اکٹھا کیا اور تدوین کرکے شائع کروایا ۔ اس نے اپنے ہم عصر’ ڈیوڈ لنڈسے‘ (David Lindsay) پر بھی دو دیگر ادیبوں کے ساتھ مل کر ’The Strange Genius of David Lindsay: An Appreciation‘ نامی کتاب تصنیف کی ۔ ’ ڈیوڈ لنڈسے‘ اس کے ساتھ کچھ کتابوں کا ’ Co-Author ‘ بھی تھا ۔ اس نے درجنوں کہانیوں ، نان فکشن مضامین اور شاعری کے علاوہ ناول بھی لکھے جن میں Lonely Aren't Alone‘ اور ' Out of the Pit کے علاوہ ’ The Last Valley ‘ اہم ہیں ۔ اس کا آخری ناول ’ A Land Fit for Eros‘ تھا جو اس نے ’ جان ایٹکنز‘ کے ساتھ مل کر لکھا تھا ۔ اس کے مضامین کا مجموعہ ’ The Great Shadow House‘ سکاٹ لینڈ میں’میٹا فزکس‘ کی تاریخ اورروایت کی کھوج کرتا ، 19 ویں صدی میں اس کی دوبارہ تخلیق سے ہوتا بیسویں صدی کی’ سکاٹش ‘ ادب کی نشاةالثانیہ میں اس کے اثرات دکھاتا ہے ۔ نئے لکھنے والوں کو پڑھاتے ہوئے وہ شاعرانہ انداز میں کچھ یوں کہتا ہے؛
" تیز نگاہ سے دیکھو ، گہرائی سے دیکھو اور تساہل سے کام مت لو ۔
کم الفاظ اور چھوٹے جملے استعمال کرو ، وہی کہو جو جانتے ہو ، جب کہہ چکو توچلے جاﺅ ۔
جیسے ایپیک نے کہا تھا اور چلا گیا تھا ۔ "
عمر کے آخری سالوں میں وہ قدیم سکاٹش فن پاروں پر تحقیق کرتا اور ان کے ’ ری ۔ پرنٹ ‘ شائع کرواتا ۔ اس کا وطیرہ تھا کہ ہر سال کرسمس کے موقع پر وہ اپنے دوستوں اور شاگردوں کو بیتے برس میں اپنی لکھی نظموں اور چند لفظی مقولوں پر مبنی ایک کتابچہ بھیجا کرتا تھا ۔ اس کا ایک شعر ہے؛
” یہ پوشیدہ جنگل ہے ۔
جس میں تمام گمشدہ پرندے چہچہاتے ہیں ۔ “
وہ 93 برس کی عمر میں’ کرکڈبرائٹ شائر،گیلو وے ‘ میں 25 جنوری 2015 ء کو فوت ہوا۔
گو وقت نے اسے بھلا دیا ہے لیکن بہت سے جدیدیت پسند (Modernistt) سکاٹش ادیبوں کو متعارف کرانے میں جون برکلے پِک کا بڑا ہاتھ رہا ہے جن میں ’ نین شیپرڈ‘ (فروری1893ء تا فروری1981ء ) اور ’ جیسی کیسن‘ (اکتوبر1916ءتا ستمبر 1994ء) کے نام نمایاں ہیں ۔ ' آخری وادی ' (The Last Velley ) نامی ناول نے البتہ اسے زندہ رکھا ہوا ہے وہ بھی شاید اس لئے کہ یہ 1970 ء میں فلمایا بھی گیا تھا ۔
یہ ناول برطانیہ میں پہلی بار ’ The Fat Valley‘ کے نام سے شائع ہوا تھا جبکہ اس کا 19599ء کا ایڈیشن ’ دی لاسٹ ویلی‘ کے نام سے بوسٹن اور ٹورنٹو سے شائع ہوا ۔ پونے دو سو صفحات پر مبنی یہ ناول دو کرداروں کے گرد گھومتا ہے جن میں سے ایک دانشور ہے جبکہ دوسرا ایسا فوجی ہے جس کا کوئی مذہب ، عقیدہ یا فرقہ نہیں ، جس کی وفاداری صرف اپنی ذات اور ذاتی فائدے کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ جون برکلے پِک نے اپنے ان دونوں کرداروں کو 17 ویں صدی کے اس وسطی یورپ ( آج کے جرمنی ) میں دکھایا ہے جب وہاں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے درمیان * ’ تیس سالہ جنگ ‘ (1618 ء تا 1648ء ) ہوئی تھی ۔
ناول کا آغاز ’ووگل ‘ نامی ایک فاقہ زدہ دانشور کے اس فرار سے ہوتا ہے جو اس جنگ کی وجہ سے جلائے گئے اور طاعون زدہ دیہاتوں سے بھاگتا ہوا کئی دنوں کے سفر کے بعد جنوبی جرمنی کے پہاڑوں میں ایک ایسی وادی میں پہنچتا ہے جس میں واقع گاﺅں خالی پڑا ہے ، وہاں انسان ہیں نہ جانور ۔ یہ موسم سرما کی آمد سے پہلے کا وقت ہے اور ہر طرف ہریالی ہے ۔ وہ ایک خالی گھر میں سو جاتا ہے ۔ گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سن کر وہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دو سپاہی اسے پکڑ کر اپنے لیڈر ، جو’ کپتان‘ کہلاتا ہے ، کے پاس لے جاتے ہیں ۔ یہ ایسے سپاہیوں کا ایسا جتھہ ہے جو کسی متحارب فوج کے ساتھ نہیں ہے اور اس کا کام جنگ کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار کرنا ہے اور اس کا ہی ساتھ دینا ہے جس کا پلڑا جنگ میں بھاری نظر آتا ہو ۔ ناول میں دکھایا گیا ہے کہ جس وقت ’ کپتان‘ اور اس کا جتھہ وادی کے اس گاﺅں میں پہنچتے ہیں تو’ کپتان‘ کا مقصد گاﺅں کو جلانا ، قتل و غارت کرکے مال غنیمت اکٹھا کرنا اور اسے لے کر پروٹسٹنٹ شہزادے برناڈ سے جا ملنا ہوتا ہے کیونکہ اس وقت جنگ میں اس کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔ ووگل یہ بھانپ لیتا ہے کہ کپتان مارا ماری سے تھکا ہوا ہے ۔ گاﺅں کو بچانے کے لئے ، ووگل اسے مشورہ دیتا ہے کہ وہ گاﺅں کو مت لوٹے بلکہ اس کی حفاظت کرے تاکہ باہر سے اس پر کوئی حملہ آور نہ ہو اور وہ موسم سرما میں یہیں آرام کرے ۔ کپتان کو ووگل کی بات میں وزن دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنے جھتے میں ’ کورسکی‘ نامی ساتھی ، جو کپتان کی جگہ لینے کا خواہاں ہے ، اور اس کے ساتھیوں کو قتل کرکے اپنے باقی ساتھیوں کو اپنے بدلے ہوئے ارادے سے آگاہ کرتا ہے ۔ گاﺅں کے باسی یہ سمجھ کر کہ حملہ آور سپاہی جا چکے ہیں اپنی کمین گاہوں سے گھروں کو لوٹ آتے ہیں ۔ کپتان ووگل کو ان کے ایک بڑے ’ گروبر‘ کے پاس مذاکرات کے لئے بھیجتا ہے جس میں یہ طے ہو جاتا ہے کہ گاﺅں کے باسی سپاہیوں کی رہائش و خوراک کا بندوبست کریں گے جبکہ کپتان اور اس کے سپاہی گاﺅں اور وادی کی حفاظت کریں گے۔ اس پر اعتراض ہوتا ہے تو صرف گاﺅں کے پادری ’ فادر وینڈ ‘ کوجو کیتھولک ہے ۔ اسے اپنی حیثیت کمتر ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت زیادہ خراب ہوتا ہے جب کپتان اور ووگل یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ مریم کی زیارت کو گاﺅں کے گرجے سے ہٹا کرجنگل میں منتقل کر دیا جائے تاکہ وادی میں باہرسے آنے والوں کی آمد ختم کی جا سکے ۔ پادری وینڈ اس کی سخت مخالفت کرتا ہے ، گاﺅں کے لوگ اور کپتان کے کیتھولک سپاہی بھی اس حق میں نہیں ہوتے لیکن کپتان ، اس کا معتمد خاص ’ گراف‘ اور ووگل اگلے روز زیارت کو گاﺅں سے ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ ووگل گاﺅں والوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرتا ہے اسے ایسا کرنے کے لئے خواب میں بشارت ہوئی تھی ۔ کورسکی کا ایک حامی کپتان کو ہلاک کرنے کی سازش کرتا ہے لیکن گولی کپتان کی بجائے پادری وینڈ کو لگ جاتی ہے اور وہ مر جاتا ہے ۔ گاﺅں کے بڑے ’ گروبر‘ کو خیال ہوتا ہے کہ پادری کو ووگل نے قتل کیا ہے ۔ وہ ایسا موحول پیدا کر دیتا ہے کہ ووگل کو وادی چھوڑ نی پڑتی ہے ۔ ایسے میں اسے ایک پادری ملتا ہے جس کا اپنا گاﺅں اور گرجا جنگ میں تباہ ہو چکا ہوتا ہے ۔ ووگل اسے ساتھ لئے گاﺅں واپس لوٹنا چاہتا ہے کہ گاﺅں کو ایک پادری مل جائے ۔ راستے میں انہیں شاہی فوج کے ’ کروٹ ‘ دستے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ووگل پادری کو کروٹ دستے کے پاس بھیجتا ہے تاکہ وہ وادی سے دور رہیں اور گاﺅں کو نقصان نہ پہنچائیں ۔ کپتان کے گشت پر مامورسپاہی ووگل کو گاﺅں واپس لے آتے ہیں ۔ ادھر پادری کروٹ دستے کو گاﺅں پر حملہ کرنے سے روک نہیں پاتا اور وہ گاﺅں آ پہنچتے ہیں ۔ ووگل کپتان کے ساتھ مل کر ان کا صفایا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ کپتان ووگل کے مشورے پر گاﺅں کے کچھ لوگوں کو بھی فوجی تربیت دیتا ہے کیونکہ اس کے اپنے کچھ سپاہی اس کا ساتھ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ گاﺅں کی فضا میں عدم اعتمادی پھیلتی ہے جس کی وجہ کچھ تو کپتان کے سپاہی ہیں جبکہ اِنجی ، جو گاﺅں کے ایک دوسرے’ بڑے‘ کی بیٹی ہے ، بھی تنازع کی وجہ بنتی ہے ۔ انجی ووگل سے محبت کرتی ہے جبکہ کپتان کا ایک سپاہی اس سے زنا الجبر کرنا چاہتا ہے جس سے ووگل اسے بچاتا ہے ۔ کپتان کو چھوڑ کر گئے سپاہی گاﺅں پر ہلہ بولتے ہیں ، وہ ناکام تو ہو جاتے ہیں لیکن کپتان کے ساتھیوں میں سے کئی مارے جاتے ہیں جبکہ کچھ زخمی بھی ہوتے ہیں ۔ گاﺅں میں وقتی طور پر امن لوٹ آتا ہے ، کپتان کے سپاہی اور دیہاتی گھل مل جاتے ہیں ۔ نیا پادری فرقہ بازی سے پرے رہ کر دیہاتیوں کو عبادت کرواتا ہے ۔ جبکہ ووگل کپتان کے ایماں پر گاﺅں کا قاضی بن جاتا ہے ۔ گشت پر مامور اپنے سپاہیوں کے ذریعے کپتان کو پتہ چلتا ہے شہزادہ برناڈ کی فوج ’ رائن‘ کے مقام پر پہنچ گئی ہے ۔ ایسے میں گروبر کے مشورے پر کپتان اپنے ساتھیوں اور تربیت یافتہ دیہاتیوں سمیت برناڈ کی فوج میں پھر سے شامل ہونے کے لئے نکل پڑتا ہے تاکہ شاہی فوج کے سپاہی وادی سے دور رہیں ۔ وہ ووگل کے پاس دو سپاہی گاﺅں کی حفاظت کے لئے چھوڑ جاتا ہے ۔ اصل میں یہ گروبر کی چال ہوتی ہے ۔ وہ گاﺅں میں موجود دونوں سپاہیوں کو قتل کروا کر ووگل کو قید کر دیتا ہے اوریہ خبر پا کر کہ’ رائن فیلڈن‘ کے مقام پر پروٹسٹنٹوں کی جیت ہوئی ہے ، گھات لگائے منتظر رہتا ہے کہ کپتان واپس آئے تو اس پر شب خون مارے ۔ نئے پادری کے توسط سے ووگل کو گروبر کے منصوبے کا پتہ چل جاتا ہے اور وہ اس کی قید سے فرار ہو کر اس راستے کی طرف بڑھتا ہے جس پر کپتان نے واپس آنا ہوتا ہے ۔ گروبر کے آدمی اس کا پیچھا کرتے ہیں ۔ ان کی گولی سے ووگل بری طرح زخمی ہو جاتا ہے ۔ ادھر زخمی کپتان بھی گھوڑے پر وہاں پہنچتا ہے اور ووگل کے پاس ہی گر پڑتا ہے ۔ وہ ووگل کو بتاتا ہے کہ اس نے غلطی سے برناڈ کی فوج کے ساتھ اپنا جتھہ شامل نہیں کیا تھا بلکہ وہ دوسری طرف شامل ہو گیا تھا ۔ یوں اس کے سارے ساتھی مارے گئے تھے اورزخمی حالت میں اس کے ساتھ پڑا ہے ۔ اکھڑتی سانسوں کے ساتھ وہ جنگ کی مضحکہ خیز صورت حال پر بات چیت کرتے ہیں جس میں مسیحی سپاہی کبھی ایک طرف سے اور کبھی دوسری طرف سے آپس میں نبرد آزما تھے ۔
کپتان کہتا ہے؛ ” تم اسے ایسے دیکھ سکتے ہو کہ ہم نے بوکھلاہٹ میں غلط فوج کا ساتھ دیا ۔“
ووگل جواباً کہتا ہے؛ ” نہیں ، تم اسے ایسے دیکھ سکتے ہو کہ انسان تذبذب کے عالم میں ہمیشہ غلط فوج کا ساتھ دیتا ہے ۔“
اگلی صبح ، گھات میں بیٹھے گروبر کے آدمی ان دونوں کو مردہ پاتے ہیں ۔
اس ناول کو آسٹریلین نژاد برطانوی اور بعد میں امریکہ میں شہریت اخیتار کرنے والے ناول نگار ، سکرین رائٹر اور ہدایت کار جیمز کلیویل (James Clavell ، اکتوبر 1921 ء تا ستمبر1994ء ) نے 1970ء میں سکرپٹ میں ڈھالا اور اپنی ہدایت کاری میں اس پر فلم بنا ڈالی ۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں بنی فلم ’ دی گریٹ ایسکیپ‘ (The Great Escape ، 1963 ) کے سکرین پلے اور فلم ’ ٹو سر وِد لوو‘ ( To Sir, with Love، 1967ء ) کے سکرین پلے اور ہدایت کاری کے لئے بھی مشہور ہے ۔ ’ دی لاسٹ ویلی‘ بھی اس کی ایک اہم فلم ہے ۔ اس میں ووگل کا کردارمصری عمر شریف (اپریل 1932ء تا جولائی 2015 ء ) جبکہ کپتان کا کردار برطانوی مائیکل کین ( پیدائش؛ مارچ 1933ء) نے ادا کیا ۔ جیمز کلیویل سکرین پلے لکھتے وقت ویسے تو ناول کے ساتھ خاصا مخلص رہا ہے لیکن اس نے اس میں ناول کے ایک کردار ’ کلارا آرنلڈ‘ ، جو کپتان کے گھر کا کام کاج کرتی ہے ، کو کردار’ اریکا ‘ میں بدل ڈالا ، جو کپتان کی عورت ہے اور کالا علم (Witchcraft) کرتی دکھائی گئی ہے جسے پادری کے حکم پر آگ میں زندہ جلا دیا جانا ہوتا ہے لیکن ووگل اسے آگ کے سپرد کئے جانے سے پہلے ہی چاقو کے وار سے موت کی نیند سلا دیتا ہے تاکہ وہ جلنے کی اذیت سے بچ سکے ۔ فلم میں ’ اریکا ‘ کا کردار برازیلین اداکارہ ’ فلورنڈا بولکن ( پیدائش؛ فروری 1941ء ) نے ادا کیا ہے ۔ جیمز کلیویل نے جنگ کی تباہ کاریوں کے حوالے سے سکرپٹ کو مزید جنگ مخالف اورجاندار بنانے کے لئے کپتان کے ایک سپاہی کو پادری کو بھی اسی آگ میں دھکیلتے ہوئے دکھایا ہے ۔ ( جیمز کلیویل نے یہ اضافہ شاید اس لئے کیا تھا کہ تاریخی طور وچ ۔ ہنٹگ (Witch-hunting) اس جنگ کا ایک خصوصی’ سماجی نفسیاتی‘ رد عمل بھی تھا جس نے وسطی یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ ناول میں اریکا کا کردار نہیں ہے ۔ فلم کا اختتام بھی کچھ مختلف ہے ۔ ناول میں ووگل اور کپتان دونوں مر جاتے ہیں جبکہ فلم میں صرف کپتان زخموں کی تاب نہ لا کر مرتا ہے جبکہ ووگل ، اس بات پر مطمئن کہ اس نے وادی کو جنگ سے بچا لیا ، اسے اور انجی کو گاﺅں میں ہی چھوڑ کر اورآگے نکل جاتا ہے ۔ دو گھنٹے سے زائد دورانیے کی اس فلم میں اداکاروں کی اداکاری عمدہ ہے ۔ اس فلم کا میوزک بھی اہم ہے جسے جان بیری ( نومبر 1933ءتا جنوری2011ء ) نے کمپوز کیا تھا ۔ یاد رہے کہ جان بیری نے پانچ آسکر حاصل کئے تھے ۔ جس کسی نے بھی جیمز بانڈ کے کردار پر مبنی ابتدائی گیارہ فلمیں دیکھی ہیں تو انہیں ان کی ٹائیٹل دھنیں بھی یاد ہوں گی ۔ یہ بھی جان بیری کی ترتیب دی ہوئی ہیں ۔ گو فلم دی لاسٹ ویلی باکس آفس پر بری طرح ناکام رہی تھی لیکن یہ ایک عمدہ تاریخی فلم ہے جس کو بنانے میں پوری ٹیم نے یک جان ہو کر محنت کی تھی ۔ یہ مسیحیوں کے دو فرقوں کے درمیان ہوئی تیس سالہ جنگ پر شاید واحد فلم بھی ہے ۔ اس سے قبل 1933 ء میں سویڈن کی ملکہ کرسٹینا پر اس زمانے کے پس منظر میں ایک فلم بنی تھی جو اس کی کیتھولک ہسپانوی سفارت کار سے محبت کے بارے میں تھی ۔
جون برکلے پِک کا یہ ناول جہاں مذہبی جنونیت کے خلاف ہے بلکہ جنگ مخالف بھی ہے ۔ یہ اس المیے کی داستان ہے جس میں پرامن لوگ بھی جنگ کی تباہ کاریوں سے خود کو محفوظ نہیں رکھ پاتے ۔ اس کا پلاٹ بہت نپا تُلا اور کساﺅ کے ساتھ بُنا گیا ہے اور اس میں ایک لفظ بھی اضافی محسوس نہیں ہوتا ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جون برکلے پِک نے کپتان کا نام رکھنے سے بھی گریز کیا ہے اور کئی کرداروں کے نام بھی کئی صفحے پڑھنے کے بعد معلوم ہوتے ہیں ۔ حقیقت پسندی کی انتہا یہ ہے کہ پڑھتے ہوئے آپ خود کو اس وادی میں پائیں گے جس میں ووگل ، کپتان اور ناول کے دیگر کردار آپ کے گرد جیتے جاگتے گھوم رہے ہوں گے ۔ ناول گھروں سے اکھڑے فوجیوں اور دھرتی سے جڑے کسانوں کے درمیان فطری عداوت کو بھی باریکی سے دکھاتا ہے ۔ جب جیمز کلیویل اس ناول کو فلم میں ڈھال رہا تھا تو کسی نے اس سے پوچھا تھا کہ اس نے اس ناول کا انتخاب کیوں کیا ؟ اس کا جواب تھا؛
”گو ’ جون ‘ نے اسے ’ تیس سالہ‘ ایک قدیم جنگ کے پس منظر میں لکھا ہے لیکن یہ ناول کسی مخصوص جنگ اور جگہ پر نہیں ہے۔ یہ اُس انسانی واردات پر ہے جو اس وقت بھی موجود تھی اور اب بھی ایسا ہی کچھ ہے ۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ’ تیس سالہ جنگ ‘ (1618 ء تا 16488ء ) ’ یورپی مذہبی جنگوں ‘ میں سب سے بھیانک جنگ تصور کی جاتی ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق اسی لاکھ سے زائد اموات ہوئی تھیں ۔ متحارب طاقتوں کا دیوالیہ ہونا ، قحط ، طاعون ، ہیضہ جیسی بیماریاں اس سے الگ تھیں ۔ اس جنگ میں خشک سالی اور قحط نے ہسٹیریا جیسی نفسیاتی بیماری کو بھی پھیلایا تھا اور وچ ۔ ہنٹگ (Witch-hunting) کو بھی بڑھاوا دیا تھا ۔ اس جنگ میں وسطی یورپ کے لاکھوں لوگ بے گھر بھی ہوئے تھے اور اس کا سیاسی نقشہ بھی بدلا تھا ، جیسے ڈچ قوم ہسپانوی تسلط سے آزاد ہوئی تھی ۔
یاد رہے کہ سلطنت عثمانیہ کے اس وقت کے فرمانروا ’ عثمان دوم‘ نے سیاسی وجوہ کی بنیاد پر کیتھولک طاقتوں کا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ پروٹسٹنٹ فریڈرک پنجم کا ساتھ دیا تھا اور اپنی پچاس ہزار سے زائد کیولری اس کی حمایت میں بھیجی تھی ۔
16488ء میں اس جنگ کا خاتمہ کئی امن معاہدوں کے بعد ہی ممکن ہوا تھا ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153850997121895