میں نے کل ایک فلم دیکھی۔ نام تھا، Pompeii۔
دراصل یہ فلم عہد قدیم کے ایک پہاڑی علاقہ Pompeii پر مبنی تھی جو سلطنت روم کے زیر اثر تھا۔ اس فلم میں بھی جبر و استبداد کی وہی کہانی تھی جو عموماً اس عہد کے جابر حکمرانوں پر مبنی کہانیوں کی ہوتی ہے۔ تشدد کے کم و بیش وہی مناظر تھے جو عموماً ایسی تاریخی فلموں میں نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا منظر جو نصف فلم میں حاوی ہے اور کلائمکس تک جاری رہتا ہے، وہ آتش فشاں پہاڑوں کا پھٹ پڑنا تھا۔ آگ اور گرم پتھروں کی مسلسل بارش کے ہولناک منظر نے ایسی دہشت دکھائی جس سے ریڑھ کی ہڈیوں میں بھی سہرن دوڑ جاتی ہے۔ پورا شہر گرم لاوے کے تعاقب سے بھاگتا پھر رہا تھا، چیخ و پکار اور موت سے جیتنے کے لیے شہر کے باشندے راہیں تلاش کرتے کرتے تھک گئے تھے لیکن ہر جگہ موت ان سے پہلے پہنچ جاتی۔ میں نے اس کہانی کا اختتام سنانے کے لیے یہ سطور لکھے ہیں۔ اس فلم کے ہیرو اور ہیروئن جو بمشکل مل پائے تھے، انھوں نے آخری لمحے میں، جب سارے جائے مفر بند ہوچکے تھے، بھاگنے دوڑنے کی بجائے ایک جگہ ٹھہر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ بچے ہوئے لمحوں کو یاد گار بنا دیا جائے اور بچی کھچی زندگی کو ضائع نہ کیا جائے۔ اپنی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی، اپنے سرخ زبان کو لپلپاتی موت کو نظر انداز کردیا اور ایک دوسرے میں پیوست ہوگئے۔ فلم کے پوسٹ کلائمکس میں جلی ہوئی ہزاروں لاشوں کے درمیان سیاہ چٹان کی طرح ایک جوڑا کھڑا نظر آتا ہے جو ایک دوسرے کی بانہوں میں ہیں اور ان کے ہونٹ ایک دوسرے میں جذب ہیں۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم جو لاش شماری میں اپنا پورا دن، اپنا پورا وقت، اپنے تمام مشاغل، اپنی تمام دلچسپیاں اور اپنی زندگی کی ترجیحات فراموش کرچکے ہیں، انھیں از سر نو زندہ کریں۔ موت اپنی سرخ زبان لپلپاتی ہوئی ہماری طرف لپک رہی ہے، ہم اس پر آہ اور ہائے کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے، البتہ ایک کام ضرور کرسکتے ہیں کہ اسے نظر انداز کردیں اور آنے والے وقت کی فکر مندی کو جھٹک کر یہ سوچیں کہ اس پل کو ہم کتنی زندگی دے سکتے ہیں۔ ہم موت کی بات کرنے کی بجائے عالمی ادب اور آرٹ کے شاہکار وں کی گرماہٹ کو اپنے جسم میں کیسے اتار سکتے ہیں۔ ادب اور کس دن کام آئے گا؟ جب ہم زندگی کی تمام بازیاں ہار جاتے ہیں تو اسی وقت، جی ہاں ٹھیک اسی وقت ہمیں یہی ادب روح پھونکتا ہے، وہ ادب جس نے ہزاروں سال سے یہ خدمت انجام دی ہے، آج سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے۔ جو لوگ گلا پھاڑ پھاڑ کر ادب کو زندگی کا نمائندہ کہتے چلے آئے ہیں، وہ اس کی گرماہٹ سرد پڑتے اعصاب میں منتقل کیوں نہیں کرتے؟ اپنا مطالعہ شیئر کریں، کوئی اچھی فلم دیکھی ہو تو اس پرتبصرہ لکھیں۔ کتابوں پر تبصرے کریں۔ وہ سب کچھ کریں جو اس موذی مرض کی آمد سے پہلے آپ کیا کرتے تھے۔ گالی بکیں، بے بحر اشعار ہی کہیں، سیاسی شگوفے چھوڑیں، آن لائن مشاعرے اور سمپوزیم زیادہ سے زیادہ منعقد کریں۔ کچھ بھی کریں لیکن موت کے ہیجان میں اضافہ نہ کریں، لاشوں کی نمبر شماری نہ کریں، زندہ لوگوں کو زندہ درگور نہ کریں۔ آئیے ہم زندگی کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ پیوست کردیں کیوں کہ ہائے ہائے کرنے سے موت متاثر نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف اور صرف بھرپور زندگی سے ڈرتی ہے۔
“