پولیوشن کا سولوشن
لاہور میں سائیکل رکشہ چلنے شروع ہوگئے
یہ بہت اچھا ہوا۔ کبھی بہاول پور میں چلتے تھے۔ سیکڑوں۔۔۔ بلکہ شاید دو تین ہزار۔۔۔ نواز شریف نے اپنی پہلی حکومت میں بند کرادئیے کہ یہ انسان پر انسان سوار ہے۔ انسانیت کی تذلیل ہے ۔ رکشہ پُلر کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سائیکل رکشہ چلانا قریباََ ایسا ہی ہے جیسے کوئی سائیکل پر آگے یا پیچھے کسی کو بٹھا لیتا ہے۔
جی ہاں مسلسل چلانے سے صحت پر اثر تو پڑتا ہوگا لیکن اتنا نہیں ، جتنا لاہور اور دوسرے شہر کی منڈیوں اور اردو بازار میں مزدوروں کے کئی کئی من کی بوریاں اپنے سر یا کمر پر اٹھانے، قلیوں کے ریلوے سٹیشن پر دس دس نگ اور سینے سے بچہ چپکائے مزدور عورتوں کے اٹھارہ اٹھارہ اینٹیں اٹھانے اور بارہ بارہ گھنٹے تنور اور کڑاہیوں پر جُھکے رہنے سے پڑتا ہے ۔
انسان کی انسان پر سواری والے رکشے بھارت، نیپال وغیرہ میں چلتے ہیں جو کندھوں سے کھینچے جاتے ہیں۔
بہاول پور میں بہت بڑی معیشت سائیکل رکشہ سے وابستہ تھی جو ایک اندھا دھند نمائشی فیصلے نے ختم کردی۔ طالب علم، کسان تک فارغ وقت میں رکشہ چلاکر کمالیتے تھے۔بہت سی بیوائوں کا خرچ ایک دو رکشوں کے کرائے سے نکلتا تھا ۔ کم ازکم سو جگہوں پر پنکچر لگانے اور ہوا بھرنے والے سیکڑوں لوگ روزی کماتے تھے۔ جہاں پنکچر والا ہوتا تھا، ساتھہ ہی ایک چائے والا بھی ضرور ہوتا تھا کہ پنکچر میں جو وقت لگتا تھا، رکشہ پلر(puller)اتنی دیر میں چائے پی کر تازہ دم ہوجاتا تھا۔
سائیکل رکشہ کی سب سے بڑی خوبی تو یہ ہے کہ اس سے ماحول میں آلودگی (pollution) پیدا نہیں ہوتی دوسرے یہ کہ یہ کھلا اور سب کے سامنے ہوتا ہے، اس لئے والدین بچیوں کو اکیلے بھی بے فکری اور اطمینان سے سکول یا کہیں بھیج دیتے تھے۔
بہاول پور ڈویژن کے دوسرے شہروں قصبوں کے علاوہ لودھراں ، ڈیرہ اسماعیل خاں اور دوسرے مقامات پر بھی سائیکل رکشے چلتے تھے۔ سائیکل رکشا ضبط کئے گئے تو موٹر رکشہ کیللئے معاوضہ صرف مالکان کو ملا۔ چلانے والے بیروزگار ہوگئے۔
ضبط ہونے والے رکشوں کے بارے میں پہلے کہا گیا کہ یہ بنگلہ دیش کو برامد کئے جائیں گے۔ پھر بہاولپور میں ہی انہیں پریس کر دیا گیا۔ کوئی فائونڈری ان کا آخری ٹھکانہ بنی۔
بنگلہ دیش، بھارت تو خیر سنگاپور، ہانگ کانگ جیسے خوشحال ملکوں میں بھی سائیکل رکشہ اب تک چل رہے ہیں۔
کیمبرج اور آکسفرڈ یونیورسٹیوں کے طویل وعریض کیمپسز کے اندر اساتذہ کے ادھر ادھر جانے کیلئے سائیکل رکشائوں کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ کسی موٹر وہیکل سے پیدا ہونے والی آلودگی سے بھی بچا جاسکے۔ باہر سے یونیورسٹی دیکھنے آنے والوں کو گھمانے کیلئے بھی یہ سروس مہیا ہے۔
برادرم ناصر محمود نے بتایا ہے کہ اب تو نیویارک میں بھی سائیکل رکشہ چلنے شروع ہوگئے ہیں۔ دوستوں نے بتایا ہے کہ روم اور پیرس میں بھی چلتے ہیں۔
دوست بتائیں یہ اور کہاں کہاں چل رہے ہیں ؟
وکی پیڈیا کے مطابق مختلف ملکوں میں سائیکل رکشہ کے یہ نام ہیں:
velotaxi (used in Germany)
bikecab
cyclo (used in Vietnam and Cambodia)
pedicab (used in the United Kingdom, United States) and Canada
bike taxi (used in Buffalo, New York)
bicitaxi (used in Mexico)
taxi ecologico (used in Mexico)
trishaw
beca (used in Malaysia)
becak (used in Indonesia)
traysikad, trisikad, sikad or padyak (used in Philippines
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔