حادثات و آفات اچانک رونما ہوتے ہیں۔ مگر کچھ آفات طویل مدتی نزول کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی ان ہی میں سے ایک ہے جس کا وجود مٹانے کے لئے گرین ٹرائی بیونل اور گرین بینچ سے لے کر گرین فیول تک کا وجود عمل میں آ چکا ہےمگر اس کے باوجود ہریالی کا وجود خطرے میں ہے۔ حالانکہ ہماری ترکاریاں شروع سے ہی ”آلو“دہ رہی ہیں –– گوشت اور مچھلی میں آلو، پلول اور گوبھی میں آلو،سموسوں میں آلو، پراٹھوں میں آلو۔ کلکتے والوں نے تو حد کر دی۔ یہ بغیر آلو کے، بریانی کا تصور بھی نہیں کر سکتے جب کہ حیدرآبادی حیرت سے ان ”آلودہ“ بریانیوں کے بارے میں سوچتے رہ جاتے ہیں۔بہر کیف، کہتے ہیں کہ انسان جب جاگے وہی سویرا۔ مگر سنا ہے دہلی والے صبح جاگ کر بھی سویرا دیکھنے سے معذور ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ صورتِ حال تقریباً ہر بڑے شہر کی ہے لیکن چوں کہ دہلی کو ہندوستان کا دل کہا جاتا ہے اس لئے اس میں کدورت کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس کدورت کو نکال پھینکنے کی ضرورت کا احساس سب کو ہے۔ مگرچوں کہ اس مسئلے کا بہت قریبی تعلق مذہب سے ہے اس لئے ہم اسے عدالتوں پر نہیں چھوڑ سکتے۔لہٰذا آستھا کا واسطہ دے کر عدالتوں کا راستہ روکنا ہم سب کا فرض ہے۔یہی وجہ تھی کہ گزشتہ سال جب عدالت نے پٹاخوں پر پابندی کی بات کہی تو بہتوں نے حسبِ آستھا اس کی مخالفت کی۔ ملک کے ایک معروف ناول نگار نے اسے اکثریتی طبقے کے مذہب اور ثقافت پر حملہ بتایا۔ ظاہر ہے کوئی ناستک ہی وشواش کرے گا کہ دھارمک پٹاخوں کے پوِتر دھوؤں سے پھیپھڑے خراب ہوں گے۔ اگر ہو بھی گئے تو کیا ہوا، دھرم کے نام پر کھانس کھانس کر مرنا تو گورو کی بات ہے۔اصل مسئلہ تو بے دینوں کا ہے کہ جنہیں نہ تو بھگوان کا آسرا ہے نہ ہی اللہ کا۔ انہیں اپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ لہٰذا جب تک عدالت عقیدت پر حاوی ہو، ان کے پاس ماسک لگا کر چلنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ مرد اور بچے تو خیرماسک لگا بھی لیں گے مگر خواتین کو یہ کبھی گوارا نہیں ہوگا۔ انہیں کچھ ایسا محسوس ہوگا گویا ان کے شوہروں نے ان کے بولنے پر پابندی لگا دی ہو۔اس بےعزّتی سے تو اچھا ہوگا کہ حجاب اپنا لیا جائے۔نتیجتاً نقاب اور حجاب کو خوب فروغ حاصل ہوگا۔ لیکن جلد ہی ”لَو جہادیوں“ اور ”نقاب پوش آتنک وادیوں“ سے سماج اور دیش کو خطرہ لاحق ہو جائےگا اور اس ثقافتی آلودگی کے سدّباب کے لئے ایک نیا قانون پاس کر کے حجاب و نقاب کو غیر قانونی قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن ان کے متبادل ڈھونڈنے کے لئے حکومت سائنس دانوں اور ماہرینِ ماحولیات پر مشتمل ایک ایکسپرٹ کمیٹی کی تشکیل کرے گی جو اس مسئلے سے نپٹنے کی تجاویز پیش کرے گی۔ کمیٹی کی سفارشات کچھ یوں ہوں گی:
جینیٹک انجینئرز کی مدد سے ایسے پودوں کی تشکیل اوران کے فروغ پر کام کیا جائے جو ویکیوم کلینر (Vacuum Cleaner) سے بھی زیادہ طاقت سے فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسیں اپنے اندر کھینچ سکیں۔لیکن چوں کہ یہ ایک وقت طلب کام ہے، لہٰذا اس دوران روایتی پودوں کی تعداد میں بےتحاشہ اضافہ کیا جائے جوپٹاخوں اور آٹو موبائل گاڑیوں نیز کارخانوں سے نکلنے والے دھوؤں کو اپنے اندر جذب کرنے کے علاوہ کھیتوں میں جلائی جانے والی گھاس کے دھوئیں بھی چوس کر فضائی آلودگی کو کسی قدر کم کر سکیں۔اس کے لیے کارخانوں کے مالکان کو مجبور کیا جائے کہ فی چمنی پانچ پودے گملوں میں اگا کر ہر چمنی کے دہانے پر باندھ کر رکھیں۔ آٹو موبائل گاڑیوں کے ایگزاسٹ پائپ سے بھی کم از کم دو پودے بندھے ہونے چاہئیں۔دو ایک اضافی پودے فاضل پہیوں کی طرح ہر گاڑی کے اندر ہونے چاہئیں تاکہ بکریوں کے ذریعہ چٹ کر لیے جانے پر انہیں استعمال کیا جا سکے۔
لیکن فضائی آلودگی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، بہت جلد ایسا وقت آنے والا ہے جب آکسیجن سیلنڈر مریضوں کے ساتھ تندرست لوگوں کے لیے بھی لازمی قرار دیا جائے گا۔ حکومت کی طرف سے مہیا چھوٹی اور ہلکی آکسیجن سیلنڈرس کو لوگ سوتے وقت اپنے سرہانے اور باہر نکلتے وقت اپنی پیٹھ پر باندھ کر نلکی منہ سے لگائے رکھیں گے۔بچے اپنا اسکولی بستہ سامنے جھلا لیں گے تا کہ پیٹھ پر آکسیجن سیلنڈر کی جگہ نکل سکے۔ آکسیجن سیلنڈر کی سپلائی کے لئے حکومت ٹینڈر بھی جاری کر سکتی ہے۔
بہت جلد ملک کے بڑے بڑے تاجروں میں ٹنڈر حاصل کرنے کے لئے سخت مقابلہ آرائی شروع ہو جائے گی۔ رشوتوں اور گھوٹالوں کا دَور بھی شروع ہوگا۔ ”بائی وَن، گٹ وَن فری“ جیسے آفربھی دئیے جائیں گے۔مختلف کمپنیوں کے اشتہارات کچھ یوں ہوں گے:
خالص آکسیجن کےلئے یاد رکھیں …خالصہ آکسیجن سپلائرس … خالص بھی اور خلوص بھی؛
کیا آپ مہینے کے آخر میں دم پھولنے کا شکار ہوتے ہیں؟ آج ہی گھر لائیں ، لانگ لاسٹنگ ،میجک آکسیجن، جو دے تیس دنوں سے بھی زیادہ آرام دہ سانسیں؛
مون آکسیجن …صرف نام ہی کافی ہے …ہمارے آکسیجن خلاباز بھی استعمال کرتے ہیں؛
غوطہ خوروں کی من پسند …اسٹار آکسیجن؛
راکسی آکسی جن…ہر سانس کا ساتھی، لمبی سانس کا ساتھی؛
ٹی وی اشتہارات کے لئے مشہور خلابازوں اور غوطہ خوروں کو برانڈ امبیسڈر بنایا جائے گا جنہیں سمندری سرنگوں میں پکنک مناتے اور چاند پر کرکٹ کھیلتے ہوئے دکھایا جائے گا۔میراتھن دوڑ میں اوّل پوزیشن پانے والا اسپرنٹر اپنےبرانڈڈ سیلنڈر کی طرف اشارہ کر کے کہے گا:
”لمبی ریس کا ساتھی، پورے دیس کا ساتھی“۔
شہر اور گاؤں میں جگہ جگہ آکسیجن ری فیلنگ مراکز بھی قائم کئے جائیں گے۔ ڈبل سیلنڈر کی سہولیات بھی مہیا کی جائیں گی۔ لیکن آکسیجن ری فیلنگ مراکز میں مزدوروں کے ذریعہ ہڑتال، تکنیکی خرابی، حادثات یا پھر ہورڈنگ (ذخیرہ اندوزی) کے نتیجے میں آکسیجن کی سپلائی میں رخنہ کے سبب لوگوں کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔مثلاً …
کام والی بائی ہاتھ جوڑ کر مالکن سے کہے گی: ”باجی، میرے چھوٹے بچے کا گیس ختم ہونے والا ہے۔ تھوڑی سی مدد ہو جاتی تو …“
پڑوس کے شرما جی بھاگتے ہوئے آئیں گے: ”بھائی صاحب، میری بیوی کو بچا لیجئے۔ اس کا آکسیجن آج رات ختم ہونے والا ہے۔ میں نے پرسوں بکنگ کرائی تھی مگر اب تک کوئی خبر نہیں ہے۔ آپ اپنا ریزرو سیلنڈر مجھے دے دیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں نیا سیلنڈر آتے ہی آپ کو لوٹا دوں گا۔“
چائے خانوں میں چرچے ہوں گے:
”آکسیجن سیلنڈروں کی قیمتیں دن بہ دن بڑھتی جارہی ہیں۔ اب تو سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے۔“
”درست کہا…بی پی ایل والوں کو تو ابھی بھی بہت کم قیمت پر سیلنڈر ملتا ہے۔ لیکن سنا ہے ہمارے سیلنڈروں سے سبسیڈی بھی ختم ہونے والی ہے۔“
”میری فیملی میں کل نو افراد ہیں۔ہر ایک کے نام ڈبل سیلنڈر کروا رکھے ہیں میں نے۔ اخراجات کافی بڑھ گئے ہیں۔“
”میری ساس دمّہ کی مریضہ ہیں۔ انہیں مہینے میں تین سیلنڈر بھی کبھی کبھی کم پڑ جاتا ہے۔“
میرا چھوٹا بیٹا سارا دن کھیلتا رہتا ہے۔کبھی کرکٹ تو کبھی فٹ بال۔ نتیجتاً اپنا سیلنڈر تیس دنوں کی بجائےبیس بائیس دنوں میں ہی ختم کر ڈالتا ہے۔ جب کہ اس کی بہن ما شاء اللہ اپنا سیلنڈر پینتیس چالیس دن چلا لیتی ہے۔ میں نے بارہا کہا کھیلنا ہی ہے تو گھر بیٹھے لوڈو، شطرنج یا کیرم کھیلو۔ مگر مانتا ہی نہیں۔لہٰذا پچھلے دنوں میں نے اس کی ممی کے موبائل میں کرکٹ اور فٹ بال کے علاوہ ہاکی اور والی بال گیمس بھی ڈاؤن لوڈ کر دئیے ہیں۔اب وہ اسکول سے آنے کے بعد گھر سے نکلتا ہی نہیں۔ بھائی، بچت کے لئے نت نئے طریقے تو اپنانے ہی پڑیں گے ورنہ زندگی مشکل ہو جائے گی۔“
”میں نے بلیک سے دس آکسیجن سیلنڈر خرید کر رکھے ہیں۔ دو نئے آکسیجن اکاؤنٹ بھی کھلوانے پڑے ہیں۔“
”وہ کیو ں بھلا؟“
”اگلے ہفتے میری بیٹی کی شادی ہے، اور اس کے سسرال والوں کی طرف سے اتنے کا مطالبہ ہوا ہے۔“
نِت نئے جرائم کا بھی اضافہ ہوگا اور اخبارات کی سرخیاں کچھ اس طرح ہوں گی:
دم گھٹنے سے جوان عورت جاں بحق،شوہر نے سوئی ہوئی بیوی کے آکسیجن سیلنڈر کی نوب بند کردی …سسرال والوں کا الزام؛
ایک ہی خاندان کے سات افراد کی ایک ساتھ موت … آکسیجن سیلنڈرمیں آکسیجن کی جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا انکشاف… فارنسک رپورٹ؛
پنچایت ادھیکاری گرفتار …بی پی ایل کارڈ والے غریبوں کا آکسیجن سیلنڈر بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنے کے ثبوت؛
سنار پور بی ڈی او کے گھر پر چھاپا …دو سو غیر قانونی آکسیجن سیلنڈر برآمد؛
کچھ انسان دوستی اور قربانی کی خبریں بھی ہوں گی جیسے:
کلاس میں بچے کا آکسیجن ختم … استانی نے ”وائی ٹیوب“ کی مدد سے اپنا آکسیجن شیئر کیا اوراسے گھر تک چھوڑ آئی؛
معشوقہ کے آکسیجن سیلنڈر کا نوب جام …عاشق نے اپنا آکسیجن سیلنڈر دے کر اس کی جان بچائی، خود ”ہانپ ہانپ“ کر دم توڑ دیا؛
اسکول میں کلاس ٹیچر ایک طالب علم سے پوچھے گا:
”کل تم اسکول کیوں نہیں آئے؟“
”سر، میں کل اسکول آیا تھا مگر کلاس میں نہیں آ سکا۔“
”وہ کیوں؟“ ٹیچر آنکھیں نکالے گا۔
”اسکول گیٹ پر ہی میرے سیلنڈر کا آکسیجن ختم ہوگیاتھا۔ میں نے وائی ٹیوب کی مدد سے بھائی جان کا آکسیجن شیئر کیا۔ ان کا کلاس زیادہ ضروری تھا اس لئے مجھے ان کے ساتھ ہی ان کے کلاس میں بیٹھنا پڑا۔“
فلم ”شعلے ٹو“ میں گبّر سنگھ دونوں ہاتھوں میں تلوار لئے ہوئے ٹھاکر کی طرف لپکے گا ”یہ ہاتھ دے دے ٹھاکر، یہ ہاتھ مجھے دے دے …“
مگر اچانک اس کا دم پھولنے لگے گا۔ وہ گھبرا کر اپنے آکسیجن سیلنڈر کے انڈیکیٹر کی طرف دیکھے گا۔ پھر دونوں تلواریں پھینک کر ٹھاکر پر جھپٹ پڑے گا: ”فی الحال یہ سیلنڈر ہی دے دے!“
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی سنگین مسئلے کا بہت ہی آسان حل بالکل سامنے کی چیز ہوتی ہے مگر دیر تک ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔یہ سنگین مسئلہ بھی چٹکی بجاتے حل ہو جائے گا، اگر حکومت پھیپھڑے کی بیماریوں کی تحقیق اور ان کے علاج نیز آلودگی کنٹرول کرنے کے اقدامات پر خرچ کرنے کی بجائے وہی رقم ملک کے تمام پٹرول پمپس اور دیگر مقامات پر آلودگی کی جانچ کرنے والی مشینیں بٹھانے اور پولیوشن انڈر کنٹرول سرٹیفکیٹ (PUC) جاری کرنے والے عملہ کو تعینات کرنے میں لگا دے جو بیس سے پچاس روپے اضافی ادائیگی کرنے پر کاربن مونو آکسائیڈ اور دیگر نقصاندہ گیسوں کو بآسانی مقررہ حد کے اندر کر دیتے ہیں، اور سو روپئے میں اتنا کم کر دیتے ہیں جیسے گاڑی دس سال پرانی نہ ہو بلکہ ابھی ابھی شو روم سے نکلی ہو!