موجودہ حالات کے باعث میں بھی کچھ تنگدستی کا شکار تھا سو اوپر والا پورشن کرائے پر دے دیا تاکہ کرائے کی مد میں کچھ اضافی رقم آسکے ۔۔۔ ایک دوست نے بتایا کے کرائے داروں سے معاہدے کی کاپی تھانے میں بھی جمع کروادیں تاکہ مستقبل بعید میں آنے والی ممکنہ پریشانی سے بچ سکیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں سو سرشام ہی اپنے علاقے کے تھانے میں پہنچ گیا تاکہ کرائے داروں کی تفصیلات جمع کروا سکوں۔۔
معلوم کرنے پر پتہ چلا کے صاحب ابھی راؤنڈ پر نکلے ہیں۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں آتے ہوں گے۔
("وہ تو بعد میں پتا چلا کہ ایس ایچ او صاحب سرکاری موبائل اور سرکاری پروٹوکول میں اپنی بیگم کو شاپنگ کرانے گئے تھے" )
کام تو تھا نہیں سو وہیں ایک مناسب جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا کے صاحب آجائیں تو جمع کروا کر اپنی راہ لوں،،،۔۔ اسی اثناء میں ایک صاحب جو نا تو حلیہ سے نا شکل سے کسی معزز گھرانے کے لگ رہے تھے۔۔ گیٹ پر کھڑے سنتری سے حال احوال پوچھنے کے ساتھ ساتھ بے تکلفانہ گفتگو شروع کر دی جیسے برسوں کی آشنانی ہو۔۔۔ سنتری تذبذب کا شکار تھا کیونکہ وہ نا تو اس شخص کو جانتا تھا اور نا کہیں ملاقات ہوئی تھی۔۔۔ موصوف نے اپنا تعارف ایک ہفت روزہ میگزین سے کرایا اور بتایا کے وہ ایک سینئر صحافی ہونے کے ساتھ ایک سوشل ایکٹیویسٹ بھی ہیں (یہ الگ بات تھی محلے کے چار لوگ بھی نا جانتے ہوں،،) بہرحال سنتری نے کہا کے میں رنگروٹ ہوں اور یقینآ نا تو آپ مجھے جانتے ہوں گے اور نا میں آپ کو کیونکہ یہ میرا پہلا تھانہ اور پہلی ڈیوٹی ہے۔۔۔ سامنے اپنی تشریف کا ٹوکرا رکھیں صاحب آجائیں تو ملاقات کروا دونگا،،، میں ان دونوں کے درمیان ہونے والے دلچسپ مکالمے سُننے میں انہماک تھا کے وہ صاحب جنہوں نے اپنے آپ کو سینئر صحافی سے تعارف کرایا تھا اور لفظ "سینئر" میں اتنا زور دیا تھا کے جیسے کسی شہر کے میئر ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کر چکے ہوں میرے ہی پہلو میں براجمان ہوگئے۔ وقت گزاری کے لئے سوال جڑ ڈالا کے آپ کے ہفت روزہ میں "منٹو" کے افسانے چھپتے ہیں؟؟؟ یہ سُننا تھا کہ موصوف نے لاحُول پڑھنا شروع کر دی قدرے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کے قبلہ کیسی باتیں کر رہے ہیں ہمارے رسالے میں چھپنے کی تو دُور کی بات منٹّو کے افسانے کوئی باشرع ، دین دار گھرانے یا معاشرے کا کوئی فرد نہیں پڑھ سکتا،،، میں نے قطعہ کلامی کرتے ہوئے کہا کے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں،،،، "قاضی وقت نے ایک بار منٹو کو عدالت میں طلب کیا اور انتہائی برحمی سے کہا کے تم معاشرے کے ناسور ہو اتنی گندی اورغلالت سے بھرپور تحاریر لکھتے ہو کے ہر فرد تم سے نالاں نظر آتا ہے سینکڑوں درخواستیں تمہارے خلاف پڑی ہوئی ہیں کے اس شخص کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے" "منٹّو" نے عرض کی جناب میں جو دیکھتا ہوں وہ ہی لکھتا ہوں مجھے معاشرے کے ہر طرف گند ہی گند نظر آتی ہے تو ویسی ہی تحاریر لکھتا ہوں آپ میری نظروں کے سامنے سے یہ سارا گند ہٹا دیں میں لکھنا بھی چھوڑ دونگا۔۔ میرا جملہ مکمل ہونا تھا کے دروازے سے آٹھ، دس افراد مذید آگئے پتا چلا وہ بھی کسی روزنامہ، ہفت روزہ، سہہ نامہ ، ماہنامہ، ششماہی، اور سالنامہ کے کوئی رپورٹرز یا ایڈیٹرز وغیرہ تھے۔ وہ سب ایک دوسرے کو ایسے خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے کے جیسے وہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے اس پیشے سے منسلک نہیں ہوئے بلکہ اپنے اپنے علاقے کے بے تاج بادشاہ بننے کے لئے اور ان کی حدود میں کسی دوسرے صحافی کی رخنہ اندازی قطعآ پسند نہیں آئی۔۔ میں اتنےسارے صحافیوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا کے اچانک ایک خاتون گود میں بچہ اٹھائے گھستی چلی آئیں،،،،، ان کا طور طریقہ دیکھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کے وہ بھی یقینآ ان کا تعلق بھی کسی ایسے اخبار سے ہوگا جسے ڈھونڈنے جاوّ تو ملتا نہیں بیچنے جاوّ جو بکتا نہیں۔۔ اسی کشمکش کا شکار تھا کہ سیٹی بجی ساری کی ساری نفری اٹھ کھڑی ہوئی چونکہ تھانے دار صاحب کی اس علاقہ میں تازہ تازہ پوسٹنگ ہوئی تھِی اسی لئے سائیلوں سے زیادہ صحافیوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔۔ ان درجن بھر صحافیوں کے درمیان سے جگہ بناتا باآخر ایس ایچ او صاحب تک رسائی حاصل کر لی مدعا سُننے کے بعد منشی صاحب کے آگے پیش کر دیا،،، جنہوں نے مجھ سے جو سوالات کئے اس کی نشت بعد میں رکھیں گے بہرحال میں درخواست اور کرائے نامہ کی کاپی جمع کروانے میں کامیاب ہوکر جیسے ہی باہر نکلا وہاں بھی ایک جم عفیر سجا ہوا تھا،،، ہر طرف سے "میرا پلاٹ" "میرا پلاٹ" "میرا پلاٹ" کی آوازیں آرہی تھیں استسفار پر پتا چلا کے ساٹھ گز کے ایک پلاٹ کے درجنوں الاٹیز تھے اور بلڈر نے ایک پلاٹ کی کئی فائلیں بنا کر درجنوں افراد کو فروخت کر دیں تھی۔۔ یقینآ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کس تھانے میں تھا۔۔