سترہ دسمبر 1928 شام کے چار بج کر بیس منٹ پر لاہور کے ڈسٹرکٹ پولیس آفس کا بیرونی احاطہ پستول کے ایک فائر کی بازگشت سے گونج اُٹھا۔ اور پھر گولیوں کی ایک تڑتڑاہٹ جو زمین پر گرے فرنگی کی چھاتی اور جسم کے پار ہوئیں اور کالوں کے دیس میں ایک گورےحکمران جسم کو سرُخ خون میں نہلا گئیں۔ کچھ ہی دیر میں لاہور کے دروبام پر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی کا ایک انقلابی پوسٹر ابھرا
جےپی سانڈرز مارا گیا
ہم نے لالہ لاجپت رائے کا بدلہ لے لیا!
کیا واقعی ایسا تھا؟
اسلامیہ کالج سےاگرآپکا منہ اورنیت داتادربار کی طرف ہوتوتھوڑا آگے گنج بخش ٹاؤن کی بھول بھلیوں میں ایک سالخوردہ عمارت بمشکل اپنےڈھانچےپرکھڑی ہے۔ پہلی نظر میں گمان گزرتاہےاس کی اینٹوں کو جیسےزنگ لگ گیاہو۔ ریٹیگن روڈ پرخستہ حال، آج ہے کل نہیں کے مصداق یہ گئے دنوں کا بریڈ لا ہال ہے۔
انقلاب کےنعروں سےگونجتی اس عمارت سےہماراایک بہت محبوب نام جڑاہے، بھگت سنگھ۔
وہ 1905 کی پگڑی سنبھال جٹاہویا 1929میں کانگریس کی پورنا سَوراج، بریڈلاہال مزاحمتی تحریکوں کاگڑھ تھا۔ یہیں لالہ لاجپت رائے نےنیشنل کالج کی بنیاد ڈالی جس کےفارغ التحصیل انقلابیوں میں ایک نام بھگت سنگھ کاہے۔
لوئر مال سے جڑے آج کے ناصر باغ میں تقسیم سے پہلے جب یہ ابھی گول باغ ہوا کرتا تھا، جوش تقریر میں ایک انگلی آسمان کی طرف اٹھائے ایک مجسمہ لالہ لاجپت رائے کی یاد تازہ کرتا تھا۔
اگر آپ شملہ میں ہیں اورغروبِ آفتاب کےوقت سکینڈل پوائنٹ کا چکرلگائیں تو ڈوبتے سورج کی منعکس ہوتی کرنوں میں سنہری ہوتا ایک مجسمہ نظر پڑتا ہے جو دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت بلند کیے ایک تیقن کے عالم میں ہے جیسے کہ کچھ ذہن نشین کروانا چاہ رہا ہو۔ ایک لارجر دین لائف مجسمے کا وزن اٹھائے چبوترے پر درج ہے پنجاب کا محبِ وطن، لالہ لاجپت رائے۔
ایک آزاد اسلامی مملکت کو لالہ جی راس نہ آئے اور ہم نے بقیہ مہاجرین کی طرح اس مجسمے کو بھی انڈیا کی راہ دکھا دی۔ لاہور کے اس گم گشتہ سپوت کو جسکا لقب شیرِ پنجاب تھا بالآخر شملہ کے سکینڈل پوائنٹ میں ایک سنگ مرمری چبوترے پر جگہ مِل گئی۔
وہ نومبر 1928 کا ایک روشن دن تھا جب سائمن کمیشن کے خلاف موچی گیٹ سے نکلی احتجاجی ریلی پر پولیس نے وحشیانہ لاٹھی چارج کیا۔ جلوس کے شرکاء ہماری تحریک آزادی کے دنوں کا وہ جانا پہچانا نعرہ لگا رہے تھے ’سائمن گو بیک‘۔ پولیس کمشنر جیمز اے سکاٹ کے حکم پر برسائی گئی لاٹھیوں کی ضربوں کی زد پر آنے والوں میں لالہ لاجپت رائے بھی تھے جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں چل بسے۔
یہ تب کی بات ہے کہ بھگت سنگھ اور اس کے انقلابی ساتھیوں نے قسم کھائی کہ لالہ لاجپت رائے کے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔
ہمارے پڑھنے والوں میں سے جنہوں نے راکیش اوم پرکاش مہرا کی رنگ دے بسنتی دیکھی ہے انہیں شاید وہ منظر یاد ہوگا جب چندر شیکھر آزاد نے کہا ’ہمیں کچھ ایسا کرنا ہوگا جو انہیں جڑ سے ہلا دے‘ جس پر درگا بھابھی نے بے دھڑک کہا تھا ’مار ڈالو اسے‘۔
ویڈیو لنک
گورنمنٹ کالج سے لوئرمال کے پار اتریں تو ڈی سی آفس کے بالکل ساتھ لاہور کے چیف آف ٹریفک پولیس کا دفتر ہے۔ بغداد کے پیرانِ پیر کے نام پر رکھی دو رویہ شیخ عبدالقادرجیلانی روڈ ٹریفک پولیس آفس کو گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز سے جدا کرتی ہے۔
بہت سال نہیں گزرےکہ ٹریفک پولیس کی جگہ یہاں ڈسٹرکٹ پولیس آفس ہوا کرتاتھا، اسلامیہ کالج کلمہ پڑھ کےمسلمان نہیں ہواتھا اور ابھی ڈی اےوی (دیانند اینگلو ویدک) کالج کہلاتاتھا۔
یہاں سترہ دسمبر 1928 کی ایک سرخ سہ پہرڈسٹرکٹ پولیس آفس کے احاطے میں بھگت سنگھ نے راج گرو اورچندر شیکھر آزاد کے ساتھ ملکر ایک فرنگی پولیس افسر کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ جائے وقوعہ سےکورٹ سٹریٹ اور پھر اسلامیہ کالج کے ہوسٹلوں کی دیواریں اور چھتیں پھلانگتے انقلابیوں کی یہ ٹولی دیو سماج روڈ کے راستے فرار ہوگئی۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جیمز سکاٹ کے مغالطے میں بھگت سنگھ اور ساتھیوں نے ایک نو آموز پروبیشن پر آئے جان سانڈرز کو مار ڈالا تھا۔ اکیس برس کا نوخیز جان پوئنٹزسانڈرز، لاہور میں پروبیشن یعنی ابھی کچی نوکری پر تھا اور غلط موقعے پر غلط جگہ موجود ہونے کی پاداش میں جیمز سکاٹ کے مغالطے میں انقلابیوں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی کے پمفلٹوں پر ایک نام تبدیل ہوا مگر نفس مضمون وہی رہا۔
جے پی سانڈرز مارا گیا۔ ہم نے لالہ لاجپت رائےکا بدلہ لےلیا
لاہور کی سڑکوں پر دن دہاڑے ایک فرنگی کے قتل کی بازگشت بہت دور تک سنی گئی۔ آنے والے دنوں میں نو آبادیاتی نظام عدل نے آزادی مانگنے والے ان جانبازوں کو موت کی سزا سنانی تھی۔ آزاد منش روحوں کو سیاسی قیدیوں کا درجہ پانے کے لیے ابھی بھوک ہڑتال کرنی تھی اور بھگت سنگھ نے ابھی پھانسی کے مقابلے میں فائرنگ سکواڈ کے انتخاب کی ناکام عرضی دینی تھی مگر اس میں ابھی دیر تھی۔
یہاں سے بم واپس دیو سماج روڈ کو پلٹتےہیں جہاں ہمارے انقلابی جےپی سانڈرز کے قتل کے بعد فرار ہوئے تھے۔ اب یہاں پرانے لاہور کے کہانی کار مجید شیخ بتاتے ہیں کہ فراریوں کی یہ ٹولی پہلے تو کرشن نگر پہنچی، پھر اگلی رات یہ لکشمی چوک آئے جہاں سے یہ لوگ نسبت روڈ پر بھاگوتی چرن کے گھر آگئے۔
بھاگوتی چرن ایک اورانقلابی جو اپنی بیوی درگاوتی دیوی کےساتھ لاہور میں ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن آرمی کےلیےکام کررہاتھا۔ درگاوتی دیوی ہماری وہی درگا بھابھی ہیں جنہوں نےاپنےتین سالہ بچےکےساتھ بھگت سنگھ کی بیوی ہونےکاسوانگ رچاتےہوئےجےپی سانڈرز کےقتل کےبعدلاہورسےفرارہونے میں مدد دی۔
فرنگی سپاہ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے یہ جوڑا لاہورسے کلکتہ جا پہنچا تھا۔
بھاگوتی چرن کی اور واپس پلٹتے ہیں۔ ہمارا انقلابی ایک شعلہ بیان مقرر تو تھا ہی مگر اس کی اصل مہارت بم بنانے میں تھی۔
لاہور کے انقلابیوں کے سیمابی مزاج اور جذبات کی صحیح ترجمانی ’بم کا فلسفہ‘ کےعنوان کا یہ مضمون کرتا ہے جو بھاگوتی چرن نے ووہرہ کے ساتھ ملکر گاندھی جی کے ’بمبار فرقہ‘ کے جواب میں لکھا تھا۔
بھگت سنگھ اپنےساتھیوں کےساتھ پکڑلیا گیا تھا اور اب پولیس کی قید میں تھا۔ ادھر لاہور میں بھاگوتی چرن ایک اور منصوبےپر کام کررہا تھا۔ پلان یہ تھاکہ بھگت سنگھ اورساتھیوں کی ٹولی جس دن عدالت پیشی کےلیےجیل سےباہرآئےتب بم دھماکہ کرکےپیداکی گئی افراتفری میں انہیں فرار میں مدددی جائے۔
لیکن یہاں قسمت بھی ایک اور منصوبہ سازی میں مصروف تھی۔
بنائے گئے بم کی افادیت آزمائشی بنیادوں پر جانچنے کے لیے بھاگوتی اور ساتھیوں نے راوی کے پانیوں کے بیچ ایک غیر آباد ٹاپو کا انتخاب کیا تھا۔ اب مجید شیخ بتاتے ہیں کہ آزمائشی دھماکے والے دن راوی کے پانیوں پر ڈولتی کشتی میں ٹاپوکا سفرکرتے انقلابیوں میں درگا بھابھی بھی موجود تھیں۔ ایک ڈھیلے ٹریگر کی وجہ سے بم وقت سے پہلے ہی پھٹ گیا اور اس کی زد میں آکر بھاگوتی شدید زخمی اورساتھی سکھدیو گھائل ہوگیا۔ درگاوتی دیوی نے ایک بے چارگی کے عالم میں خون میں لت پت اپنے شوہر کو دیکھا جو پولیس کے آنے سےپہلے اپنے ساتھیوں کووہاں سےنکل جانےکاکہہ رہا تھا۔ کہنےوالےکہتےہیں کہ خودکو پولیس کےہاتھوں میں جانےسےبچانےکوقریب المرگ بھاگوتی چرن نے خود کو راوی کی لہروں کے حوالے کردیا تھا۔ کہنے والےیہ بھی کہتےہیں کہ یہیں راوی کے پانیوں کی قربت میں جب اس کی چتا کو آگ دکھائی گئی تو اس کے ساتھی وہاں سے جاچکے تھے۔
انقلاب کے نعرے لگانے والوں کو قیمت بھی بھاری ادا کرنی پڑتی ہے۔
بھاگوتی کا بم اس کے ساتھ ہی راوی برد ہوگیا اور آنے والے دنوں میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے قصور کے خیشگی سرداروں میں سے ایک اعزازی مجسٹریٹ نواب محمد احمد خان کی موجودگی میں دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہن کر آزادی کا جھونٹا جھول گئے۔
ہمارے انقلابیوں میں سے درگاوتی دیوی نے ایک لمبی عمر پائی۔ راوی کنارے شوہر کی موت کےبعد وہ سوشلسٹ ریپبلکن آرمی میں سرگرم رہیں۔ 1930 میں وہ لکھنئو آگئی تھیں۔ بعد کی زندگی انہوں نے درس وتدریس سے وابستہ ہوکر گزاری اکتوبر 1999 کو غازی آباد میں انکا انتقال ہوا
ـــ
عزیز قارئین، اس کے ساتھ ہی ہمارے لاہور کے انقلابیوں کی کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔