**مصنف: ایلن بیری **
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
طلوع آفتاب سے قبل 1995 کی ایک صبح مائیکل اے ۔ کو کس sr سینئر ایک بوسٹن پولیس افسر کے گھر کا فون بجا ۔ اس کی بیوی نے غنودگی کے عالم میں فون اٹھایا ۔ وہ زخمی ہے ۔اس کے دو ساتھی افسران اس کی بیوی کو ایمرجنسی روم لے کر پہنچے ۔وہ پوچھ رہی تھی ،کیا ہوا ہے ؟
ان کا جواب تھا کہ وہ برف کے ٹکڑے پر پھسل گیا اور اس کے سر پر چوٹ لگی ۔
یہ مکمل جھوٹ تھا ۔افسر ،کاکس ،ایک سیاہ فام ،جو اس وقت عام سادہ لباس میں تھا کو قتل عام کے ملزم کے شبہ میں اس وقت جب اس کا تعاقب کیا جارہا تھا پکڑا گیا اور اس کے اپنے کچھ ساتھی افسران نے اسے ظالمانہ طور پر مارا پیٹا ۔اس کے چہرے پر ضربیں لگائیں اور اس کے سر کو کسی سخت چیز سے بار بار ٹکرایا گیا ۔ جب انہوں نے پہچانا کہ وہ کون ہے ، تو اسے ادھر ہی بیہوش بہتے خون کے ساتھ پھینک کر بھاگ گئے ۔
اس رات کے اثرات کو ضابطہ خاموشی کے تحت پی لیا گیا ۔ یہ ایک غیر تحریری قانون تھا کہ پولیس افسران ایک دوسرے کو مواخذہ سے بچائیں گے ۔
افسر ،کاکس چار سال مسلسل تن تنہا اپنے محکمے کے خلاف عدالت میں قانونی لڑائی لڑتا رہا ۔ جب تک اس پر حملہ آور افسران کے خلاف تادیبی کاروائی نہ کی گئی ۔ آخر کار’ شہر ‘نے اسے 1.25 ملین ڈالر ہرجانے اور قانونی فیس کی مد میں ادا کئے ۔ اس دوران اسے مسترد کیے رکھا ۔اس کی کار کے ٹائر کاٹ دئے گئے ۔ اسے دھمکی آمیز فون آتے رہے ۔
اس لئے پچھلے ہفتے اسے بوسٹن کے نئے پولیس کمشنر کے طور پر دیکھنا بہت ہی غیر معمولی بات تھی ۔
ستاون / 57 سالہ مسٹر کا کس ،کبھی کبھار ہی اس پٹائی جس سے اس کے گردوں کو نقصان پہنچا ،دماغی چوٹ اور اس صدمے کے بعد کے دیرپا اثرات کے بارے میں بات کرتا ہے ۔ لیکن اس سے قبل اس نے یہ سب کچھ پورے شہر کو بتایا تھا ،” کہ یہ اس سب سے جو پورے ملک میں سیاہ فام اور براؤن لوگوں کے ساتھ آۓ روز ہوتا ہے ، کسی طرح مختلف نہیں ۔ “
“ اس واقعہ کے بعد میرے پاس دو راہیں تھیں ،یا تو میں سب چھوڑ دوں یا کھڑا رہوں ۔ تو میں نے کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ کیونکہ میں پولیس کو عوامی مفادات کا محافظ سمجھتا ہوں ۔ اور میں جانتا ہوں کے میرے ساتھ کام کرنے والے مرد و خواتین بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں ۔”
مسٹر کا کس کی بطور پولیس کمشنر تعیناتی شہر کی مئیر مائیکل وو کے لئے بہت اہم تھی ۔جو خود پچھلے سال اس منشور پر الیکشن جیتی تھی کہ وہ شہر کے داخلی اور متعلقہ طاقت کے مراکز میں تبدیلی لاۓ گی ۔
بوسٹن پولیس کے محکمے سے زیادہ کوئی اور ناقابل تسخیر نہیں ہے ، جس کی خلاف ورزیوں کو تحفظ دینے اور تحقیقات میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ایک اپنی تاریخ ہے ۔
پچھلے سال انکشاف ہوا کہ پیٹرک ایم ۔ روز سابقہ پولیس یونین کا صدر مسلسل دو دہائیوں تک ترقی پاتا رہا حالانکہ ایک داخلی تحقیق اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ وہ ایک بارہ سالہ کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث رہا ہے ۔ آخر کار مسٹر روز پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے تیس فرد جرم عائد ہوے .
اسی سال ڈینس وائیٹ نیا نیا تعینات شدہ پولیس کمشنر اپنی ملازمت کے دو روز بعد ہی فارغ کر دیا گیا ۔ جب بوسٹن گلوب نے بیس سالہ پرانا خانگی زیادتی کے الزامات کھوج نکالے ۔ شہری تحقیقات نے وسیع پیمانے پر انکوائری میں رکاوٹوں کے بارے میں بتایا ۔ ایک ریٹائرڈ افسر نے کہا کہ اسے پانچ بار دفتری ساتھیوں کی جانب سے انکوائری میں تعاون سے باز رکھنے کے لئے فون کیا گیا ۔
مسٹر کا کس ، جس نے 2019 میں این آربر ،مچ میں بطور چیف آف پولیس بننے سے قبل ،پولیس فورس میں تیس سال کام کیا کا چناؤ بوسٹن میں بہت ساروں کے لئے باعث حیرت تھا ۔
اکیاسی سالہ / 81 کے ،گبز ،طویل عرصے تک سیاسی معاون رہنے والے نے اپنے ابتدائی ردعمل کو بیان کرتے ہوۓ کہا ، “ میں نے کہا مائیکل کا کس —-وہ مائیکل کا کس ؟ “
“ یہ شاعرانہ انصاف کہلاتا ہے ۔” گریٹر لو ٹیبر نیکل/ Greater Love Tabernacle کے سینئر پادری ،ولیم ای ڈکنسن دوئم ، جو تحقیقاتی کمیٹی ، جو اس عہدے کے لئے امیدوار ان کی سفارش کرتی تھی ،میں خدمات سر انجام دیتے رہے ،نے کہا ۔”ہماری پہچان ہمارا ماضی نہیں ،لیکن ہم ماضی کو نظر انداز نہیں کر سکتے ،کیونکہ وہ اس بات سے کہ ہم کون ہیں جڑا ہوا ہے ۔ “
باقیوں نے قسمت کی ستم ظریفی پر سوچا کہ مسٹر کا کس اسی تنظیم کا سربراہ بنے گا جس نے کسی وقت اسے اچھوت بنا دیا تھا ۔
“ جب آپ اس طرح کوئی محکمہ لیتے ہیں جس طرح کاکس نے لیا ،تو آپ تنہا ہو جاتے ہیں ۔ کوئی بھی آپ کے نزدیک آنا نہیں چاہتا ،” یہ بات سراغ رسان ،لیری ا لیسن ،جو میسا چوسٹس / Massachusetts تنظیم براۓ نفاذ اقلیتی قانون افسران کا سابقہ صدر تھا، نے کہی۔
“ اب اس کے زیادہ دوست بن جائیں گے جنہیں وہ گن نہ سکے گا ۔انہی لوگوں میں سے کچھ اسے بتائیں گے کہ وہ اس کے لئے کام کرتے رہے ہیں جب کہ حقیقت میں ایسا ہر گز نہیں ہوا تھا ۔ “
ایمان کے آزمائش
————————-
پولیس کاروں کا ایک دستہ ،1995 کی اس رات میں بوسٹن کے میٹاپان محلے کی بند گلی میں ایک قتل عام کے ملزم کے تعاقب میں چینختی چنگھاڑ تی داخل ہوئیں ۔ مسٹر کاکس جو راہنمائی کر تی کار میں تھا ، نے مشکوک افراد میں سے ایک کے پیچھے جو باڑ پھلانگ چکا تھا ، باہر چھلانگ لگا دی ۔ وہ باڑ کے پاس پہنچ چکا تھا جب اسے محسوس ہوا کہ اس کے پیچھے سے کسی نے اس کے سر پر ضرب لگائی ہے ۔
اس کے بعد وہ زمین پر تھا ،اپنے سر کو اپنے ہاتھوں سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا ،کہ افسران مسلسل اسے ٹھڈے اور ضربیں پہنچا رہے تھے ۔
بوسٹن گلوب کے سابقہ رپورٹر ڈک لہر / Dick Lehr کی طرف سے اس کی کتاب “ دی فینس : بوسٹن کی نسلی تقسیم کے ساتھ پولیس کی نا جائز پردہ پوشی “ ،کے مطابق اس نے گواہیوں ،عدالتی دستاویزات ،اور گواہوں کے انٹرویوز کی بنیاد پر اس رات کی نئی تصویر کشی کی ۔
مسٹر کاکس اکیلا ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا ،تب دو اور پولیس افسر وہاں پہنچ گئے ۔ان میں سے ایک نے اسے ہتھکڑی لگانے کی کوشش کی ،تب اس کی نظر اس کے بیج/ امتیازی نشان پر پڑی ۔ تو وہ حیرت زدہ ہو کر چلایا ،” یا میرے خدایا “ تب تک مسٹر کاکس بے ہوش ہو چکا تھا ۔
مسٹر کاکس نے بعد میں اپنی قانونی چارہ جوئی کے دوران بتایا کہ یہ چوتھی بار تھی کہ اس کے ساتھیوں نے جاۓ وقوعہ پر سادے کپڑوں میں موجود ہونے پر اس پر حملہ کیا ۔
چھپن سالہ /56 جیمز برگیو جو زائد از ضرورت طاقت استعمال کرنے کا زمہ دار ٹھہرایا گیا اور اس واقعے میں ملوث ہونے کی وجہ سے پولیس فورس سے نکال دیا گیا نے کہا ، کہ اسے غلط طور پر مسٹر کاکس کے حملہ آور کے طور پر شناخت کیا گیا جبکہ دوسرے افسران زمہ دار تھے ۔اس پر فرد جرم عائد نہ کی گئی اور اس نے نیا پیشہ تلاش کر لیا ۔
مسٹر برگیو نے اس رات کے منظر کو خاص افراتفری قرار دیا ،جب بیس سے زیادہ افسران ایک تیز رفتار تعاقب کے دوران ایک بند گلی میں جمع ہو گئے ۔ ان حالات میں ، اس نے کہا ،یہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی کہ ایک سادہ کپڑوں میں ملبوس سیاہ فام افسر کو مشکوک تصور کر لیا گیا ۔
“ غیر معیاری بیان دیے بغیر ،جب آپ ایک ایسے محلے میں کام کر رہے ہوں جہاں نوے فیصد اقلیت ہو تو آپ بعض اوقات پہچان نہیں پاتے کہ کون کون ہے ۔ “
اس نے کہا اس کا مسٹر کاکس کے بارے میں تاثر بہت اچھا تھا اس نے سن رکھا تھا کہ وہ خود میری طرح محنتی افسر تھا ۔
مسٹر کاکس نے روکسبری میں پرورش ہائی ۔ جو بوسٹن کے قلب میں سیاہ فام علاقہ ہے ،وہ زمین کی سجاوٹ کا کاروبار کرنے والے کا نرم گفتار بیٹا، تھا جس کی تعلیم کے لئے باپ نے محنت کی اسے پرائیویٹ سکول میں بھیجا ۔
حملے کے وقت وہ سادہ لوح نوجوان تھا ۔چھ مہینے بعد جب وہ اپنے زخموں سے صحت یاب ہوا تو اسے معافی مانگے جانے کی توقع تھی ۔ لیکن کچھ بھی نہیں ہوا ۔ اسے یہ دیکھ کر بہت صدمہ پہنچا کہ موقعہ پر موجود کسی بھی افسر نے حملہ دیکھنے کی رپورٹ درج نہیں کروائی تھی ۔
کارکنوں کا خیال تھا کہ وہ ڈیپارٹمنٹ پر کھلے عام تنقید کرے گا ۔اس کے ساتھی افسران کو امید تھی کہ وہ معاملہ رفع دفع کر دے گا ۔ایک تیسرا رستہ بھی تھا کہ کھڑے ہو جاؤ اور لڑو ۔
اس کی بہن پچھتر سالہ / 75 کورا ڈیوس نے یاد کرتے ہوے بتایا ،” میں نے اسے کہا ، سخت ترین لڑائی جو اسے لڑنی ہے وہ اس کے اپنے اندر کی ہے اور اگر یہ اس کا انتخاب ہے تو ہم اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔میرے خیال میں یہ سب سے مشکل ترین انتخاب تھا ،جو کوئی کر سکتا تھا ۔
حملے کے ایک سال بعد مسٹر کاکس نے شہر اور بہت سارے افسران کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کی ۔اور دلیل دی کہ میرے شہری حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور ڈیپارٹمنٹ نے سیاہ فاموں کے خلاف ضرورت سے زائد طاقت کے استعمال کو برداشت کیا ہے ۔
چار سال بعد تین افسران بشمول مسٹر برگیو کو پولیس فورس سے فارغ کر دیا گیا اور انہیں حملے کے لئیے دیوانی نوعیت کا زمہ دار قرار دیا گیا ۔ ان میں سے ایک ڈیوڈ ،سی، ولیمز کو 2005 میں دیوانی مصالحاتی سروس کے بعد بحال کر دیا گیا ۔
ایک انٹرویو میں مسٹر ولیمز نے کسی بھی غلطی سے انکار کر دیا اور کہا ،اگر میں نے وہ کیا ہوتا جس کا مجھ پر وہ الزام لگاتے ہیں تو میں جیل میں ہوتا ۔
فوجداری دفعات کبھی بھی نہ لگائی گئیں اور سال 2000 میں وفاقی پراسیکیوٹر نے وضاحت کی کہ “ وہ نیلی دیوار سے ٹکرا رہا ہے ۔ ( جب پولیس افسران اپنے کسی ساتھی کو بچانے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں ) ۔
مسٹر کاکس نے پندرہ سال ڈیپارٹمنٹ کے کمانڈ سٹاف میں کام کیا جس میں داخلی امور اور آپریشنز میں تفویض کے ساتھ بوسٹن پولیس اکیڈیمی کی نگرانی بھی تھی ۔
جمرال کر افورڈ / Jamarhl Crawford ,ایک کمیونٹی کارکن جو اس کے ساتھ پولیس معاملات میں رابطے میں رہتا تھا نے بتایا ، کہ اس نے کبھی پولیس کی بربریت پر اپنا مؤقف عوام کے سامنے بیان نہیں کیا وہ سنجیدہ شخص تھا ,کوئی فریب نہیں تھا ۔بلکل پیشہ ور بندہ تھا ۔
مسٹر کر افورڈ نے مزید بتایا کہ اتنے سارے سال وہ اپنی حالت کے بارے میں بھی بلکل خاموش رہا ۔ “ یہ حقیقت کہ اس سارے معاملے پر اس نے خاموش رہنے کو پسند کیا اور آئندہ بھی خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ، بذات خود بہت کچھ کہہ رہا ہے “ ۔
مسٹر کاکس اس سارے تجربے کے بارے میں وضاحت کرتا ہے کہ اس سے اس کے اندر یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی کہ پولیس کا محکمہ کیوں اس طرح کام کرتا ہے ۔اس سے اس کی دو مزید ڈگریاں ،فوجداری انصاف اور بزنس ایڈمنسٹریشن حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔
مسٹر کاکس کا کہنا ہے کہ “ اس وقت جب مجھے علم نہیں تھا کہ میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا تو میں نے حق تلفی محسوس کی ۔میں اپنے آپ سے لڑتا رہا کہ کیسے ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتا ہے ؟ اور اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کا اصل محرک میری یہ سوچ تھی کہ میرا جواب شاید یہ سب بدل سکے “
ایک بات جس پر اسے پختہ یقین تھا کہ اس پر خاموش بیٹھ جانا اور کچھ نہ کرنے ،سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔” میری یہاں موجودگی ہی کچھ لوگوں کو یہ یاد دلانے کے لئے کافی ہے کہ ایسا سب کچھ ہوتا ہے ۔ “
مئیر سے ایک ملاقات
——————————-
پولیس کمشنر کی اسامی پر چار حتمی سفارشات میں مسٹر کاکس کا نام آنے تک مئیر کبھی اس سے نہیں ملی تھی ۔جانچ پڑتال کے عمل کے دوران اس نے ( مئیر ) نے اس کی پٹائی اور قانونی لڑائی کی ہر وہ دستاویز دیکھی جو موجود تھی
محترمہ وو کا کہنا تھا ،” بہت سے حوالوں سے یہ بوسٹن کی تاریخ کا اہم ترین تجربہ تھا ۔جس میں شہر کو تقابل پیش کیا گیا ،کہ نظام کتنا بوسیدہ ہے اور یہ تجربہ کتنا عام ہو سکتا ہے “
دونوں کی ملاقات انٹرویو کے وقت ہوئی ۔” ہماری گفتگو کے کچھ ہی لمحات میں میں جان گئی کہ کاکس ہی کمشنر ہے۔ اس نے کہا ، ڈیپارٹمنٹ کے اندر کے ایک شخص کی معلومات اور ایک باہر کے شخص کی سوج بوجھ ملا کر، جب سسٹم ہر کسی کو نہیں دیکھتا تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے “ کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
**Police brutality victim now runs department **
**By :Ellen Barry **
Published in
The New York Times international Edition
Pakistan Edition July 22, 2022
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...