پویلئین اینڈ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔9
ایک سفر، اونچے نیچے راستوں کا
ہماری تاریخ کا ایک خونچکاں باب رقم ہوچکا تھا۔ بے داغ سبزے کی بہار والا خطہ گنوا کر قوم پژمردگی اور شکست خوردگی کے عالم میں تھی۔ ہمارے نوے ہزار فوجی اور شہری دشمن کی قید میں تھے۔
بھٹو صاحب نے بچے ہوئے سنگ سمیٹ کر ریزہ ریزہ پاکستان کو تعمیر کرنے کی کوشش کی۔ یحیٰی خان نے اقتدار بھٹو صاحب کے حوالے کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اب چیف مارشل لا ایڈمنسٹریر تھے۔
۲۱ اپریل ۱۹۷۲ کو بھٹو صاحب نے مارشل لا ختم کرکے صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالا۔ اور پھر جیسا کہ دستور چلا آرہا ہے، انہوں نے بھی نئے پاکستان کی تعمیر کا اعلان کیا، ہم نے ایوب دور کی اصلاحات دیکھ لی تھیں، اس دور میں زرعی اصلاحات، صنعتی ترقی، عائلی قوانین، بنیادی جمہوریت اور ترقی کے گن گائے جاتے تھے۔ اب وہ سب کچھ ایک ڈراؤنے خواب کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔
بھٹو صاحب نے عوامی دور کا ڈول ڈالا۔ روٹی کپڑا مکان کا نعرہ تو وہ پہلے ہی دے چکے تھے۔ اب صنعتوں اور بینکوں کو قومیانے کا اعلان ہوا، ساتھ ہی ہر شعبے میں میں اصلاحات شروع ہوگئیں۔ زراعت، صحت، تعلیم، پولیس اور قانونی اصلاحات کا ڈنکا بجنے لگا۔
یہ ایوب کے بعد اصلاحات اور تبدیلی کا پہلا تجربہ تھا۔ اس کے بعد تو قوم عادی ہوگئی اور یہ رواج ہی بن گیا کہ ہر آنے والی فوجی یا جمہوری حکومت پچھلی حکومت کو سراسر شیطانوں کا ٹولہ قرار دے اور نئی حکومت ملک کی نجات دہندہ اور فرشتوں کی جماعت کہلائے۔ الحمدللّٰہ ۔یہ سلسلہ اب تک یوں ہی چلا آرہا ہے۔
یہ قوم ہمیشہ سے سخت جان چلی آرہی ہے۔ ملک ٹوٹنے کا حادثہ ہم نے زیادہ دیر جی سے لگائے نہیں رکھا اور اپنے روزمرہ کے معمولات میں مشغول ہوگئے، اور ہونا بھی یوں ہی چاہئیے تھا۔ جہاں تک کوئی سبق سیکھنے کی بات ہے تو ہم نے تاریخ سے پہلے کون سے سبق سیکھے تھے جو اب سیکھتے۔
سن بہتر کی ابتداءً میں کرکٹ وغیرہ کا زیادہ شور نہیں تھا۔ سال کے آخر میں میونخ میں اولمپک کھیل ہوئے۔ اس وقت تک کھیلوں میں ہمارا اصل افتخار ہاکی اور اسکواش تھے۔ اسکواش اولمپک کا حصہ نہیں تھا البتہ ہاکی ایسا کھیل تھا جس میں دنیا ہمارا لوہا مانتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم سے ہاکی کی شکست ہضم نہیں ہوتی تھی۔
ہوا یوں کہ جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والے اولمپک میں ہم ہندوستان کو سیمی فائنل میں دو صفر کو شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئے لیکن فائنل میں میزبان جرمنی سے ایک صفر سے ہار گئے۔
ہمارے کامینٹیٹرز ایس ایم نقی اور فاروق مظہر کے مطابق ہمارے ساتھ شدید بے ایمانی کی جارہی تھی۔ ارجنٹائن کا امپائر سرویتو جانبدار بنا ہوا تھا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے اس شکست کا شدید ردعمل دیا لیکن ان کا طرز عمل کھیل، سفارت اور شرافت کے اصولوں کے منافی تھا۔
میچ کے بعد جب تمغے تقسیم کئے گئے تو ہمارے کھلاڑیوں نے بطور احتجاج تمغے اپنے ہاتھ میں لئیے جو مہمان خصوصی انہیں گلے میں پہنانا چاہتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ جب فاتح اور میزبان ملک مغربی جرمنی کا پرچم بلند کیا گیا اور قومی ترانہ گایا گیا تو ہمارے کھلاڑی پرچم کی جانب پیٹھ کرکے کھڑے ہوگئے۔ اور سب سے قبیح حرکت یہ تھی کہ ایک کھلاڑی کے ہاتھ سے میڈل نیچے گرگیا تو اس نے اپنے جوتے سے اسے اٹھایا۔
یہ سارے مناظر ٹیلیویژن اسکرین پر ہم دیکھتے رہے اور آپ کو سچ بتاؤں کہ ہم اس وقت جذبات کے دھارے میں یوں بہہ رہے تھے کہ ہمیں اپنے روئیے کی بدصورتی ذرا بھی نظر نہ آئی۔ یہاں تک کہ ہمارے جذباتی وزیراعظم اسی وقت ارجنٹائن سے اپنے سفیر کو واپس بلانے کا سوچ رہے تھے۔
شاید سن اکہتر کے سانحے کی تذلیل ہمارے لئے کوئی سبق نہیں لئے ہوئے تھی۔ ہمارا پانی یوں اترا کہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے ہمارے گیارہ کے گیارہ کھلاڑیوں پر تازندگی پابندی لگادی۔ اب ہمیں بھی ہوش آیا اور ہمارے ہاکی بورڈ نے نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ کمینٹیٹرز پر بھی پابندی لگادی جنہوں نے اس جنون کو ہوا دی تھی۔
یہ شورشرابا کم ہوا اور دسمبر میں ہماری ٹیم آسٹریلیا جا پہنچی۔ اب یہ طویل داستان ہے۔ مختصراً یہ کہ ہم تین ٹسٹ میچوں کی سیریز تین ۔صفر سے ہار گئے۔
لیکن یہ اس لحاظ سے تاریخی سیریز تھی کہ پاکستان ٹیلیویژن نے پہلی مرتبہ براہ راست آسٹریلیا سے یہ میچ دکھائے۔ ابتدا میں یہ صرف چند گھنٹوں کے لئے تھا بعد میں پورے میچز دکھائے جانے لگے۔
یہ سیریز سعید احمد کے تنازعے اور پابندی کی وجہ سے بھی یاد رکھی جائے گی۔ پہلا ٹسٹ ہم بری طرح سے ہارے یعنی اننگز کی شکست ہمارا مقدر بنی۔ دوسرے اور خصوصًا تیسرے میچ میں ہم نے سخت مقابلہ کیا اور آخری میچ میں تو ہم فتح کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ دوسرے میچ کو تو ایک لاکھ سے زیادہ تماشائیوں نے دیکھا۔
دوسرے ٹسٹ میں ہمیں دوسری اننگز میں جیتنے کے لئے ۲۹۲ رنز درکار تھے لیکن ہم دوسو رنز پر ہی ہمّت ہار گئے۔ ماجد خان نے اس میچ میں ۱۵۸ رنز کی شاندار باری کھیلی۔
سڈنی کے تیسرے اور آخری ٹسٹ کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ میرے چچا میرے لئے بحرین سے سات بینڈ والا فلپس کا چھوٹا ٹرانزسٹر لائے تھے۔ آخری دن پاکستان کو جیتنے کے لئے صرف ڈیڑھ سو کے قریب رنز درکار تھے۔
کرکٹ میرا بچپن سے جنون تھا۔۔ہوش سنبھالنے کے بعد سے میں نے اپنی ٹیم کو کبھی آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم سے جیتتے نہیں دیکھا تھا۔ٹرانزسٹر کو سینے سے لگائے رات بھر بار بار اٹھ کر وقت دیکھتا۔ میںچ شاید صبح ساڑھے چار بجے شروع ہونے والا تھا۔ بس نہیں چلتا تھا کہ وقت گذرے اور میں اپنی ٹیم کی یقینی فتح کا حال سنوں۔
خدا خدا کرکے کھیل شروع ہوا۔ لیکن یہ کیا؟… ہماری وکٹیں یکے بعد دیگرے گرتی چلی جارہی تھیں۔ آسٹریلیا کے میکس واکر کا بیڑہ غرق ہو، اس نے صرف پندرہ رنز پر ہمارے سات کھلاڑیوں کو گھر کا راستہ دکھایا۔ صرف ظہیر عباس نے ۴۷ رنز کے ساتھ کچھ مزاحمت کی لیکن ہماری پوری ٹیم ایک سو چھ رنز پر ڈھیر ہوگئی۔
اور اس کے ساتھ ہی سر سے کرکٹ کا بھوت کچھ عرصہ کے لئے اتر گیا ساتھ ہی اپنی ٹیم کی نالائقی پر بھی یقین ہوگیا چنانچہ آئندہ ان سے کوئی بڑی امید لگانے سے پرہیز کیا،
فروری میں ہم نیوزی لینڈ پہنچے وہاں تین میچوں کی سیریز ایک صفر سے جیت لی ۔ سیریز کا دوسرا ٹسٹ پاکستان نے اننگز اور ۱۶۶رنز کے بھاری فرق سے جیتا۔ مشتاق محمد نے اس میچ میں نہ صرف ڈبل سنچری بنائی بلکہ اننگز میں پانچ وکٹیں لے کر آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
اسی دورے میں ہم نے اپنا پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلا جس میں ماجد خان کی سنچری کے باوجود ہم ہار گئے۔
اب ہارنے والے میچ کا قصّہ بھی کوئی قصّہ ہے جسے بیان کیا جائے۔۔آج کے لئے اتنا کافی ہے
انشاء اللہ اگلی قسط میں انگلستان کے دورہ پاکستان اور اس زمانے کے کچھ اور واقعات کے ساتھ حاضر ہوں گا۔۔۔تب تک کے لئے ۔۔اللہ حافظ وناصر
شکور پٹھان ۔۔۱ ستمبر ۲۰۱۸
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔