پویلئین اینڈ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7
ایک سفر، اونچے نیچے راستوں کا
یوں لگتا ہے کہ ہمارے لئے چین اور سکون صرف اب تک کے لئے تھا۔۔۔1969 کے بعد سے پھر اس قوم کو کبھی بھی حقیقی سکون میسر نہیں ہوا۔
فوجی حکومت نے ۱۹۷۰ کے آخر میں عام انتخابات کا اعلان کیا۔ سیاسی سرگرمیاں تیز تر ہوگئیں۔ بھٹو صاحب مغربی پاکستان میں مقبول ہوتے گئے۔ ادھر مشرقی پاکستان میں اور ہی طرح کی کھچڑیاں پک رہی تھیں۔ مجیب اپنے چھ نکات کو لئے بیٹھا تھا تو مولانا بھاشانی جلاؤ گھیراؤ کے زریعے بنگالیوں کا خون گرما رہے تھے۔
انہی دنوں بھٹو صاحب کراچی آئے اور ان کا جلوس چار گھنٹے تک شہر میں گھومتا رہا۔۔لیکن پھر یہ جادو آہستہ آہستہ دم تؤڑنے لگا۔ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی اپوزیشن دائیں اور بائیں میں بٹتی چلی گئی۔ اس سیاسی گرما گرمی میں ایک طرف اسلام پسند قوتیں تھیں تو دوسری جانب ترقی پسند اور سوشلزم کے پرستار۔
ہمیں نئی نئی باتیں معلوم ہونے لگیں۔ ہم ہمیشہ سے جذباتی قوم رہے ہیں۔ ہم یا تو اِس طرف ہوتے ہیں یا اُس طرف۔ اعتدال کیا ہے، اس سے ہماری آشنائی بہت کم ہے۔ یہ شدت پسندی ہی تھی کہ اسلام اور کفر کی جنگ سے متاثر پی آئی اے کے ایک بس ڈرائیور نے آئے ہوئے مہمان یعنی پولینڈ کی نائب وزیر خارجہ پر بس چلا دی کہ میں نے ٹیپو سلطان کابدلہ لے لیا.
مجھے تاریخ کا علم نہیں کہ پولینڈ والوں نے ٹیپو سلطان کے ساتھ کیا کیا تھا.
بھٹو، مجیب اور یحیٰی اب اس کہانی کے مرکزی کردار تھے۔ دسمبر میں الیکشن ہوئے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے دو چھوڑ کر ساری نشستیں جیت لیں۔ ان دو میں میں سے ایک اقلیتی فرقے کے راجہ تری دیو رائے تھے دوسرے نورالامین۔
ادھر مغربی پاکستان میں بھٹو کو مجیب جیسی کامیابی تو نہیں ملی لیکن پیپلزپارٹی ۸۰ نشستوں کے ساتھ سرفہرست تھی۔
پھر پتہ نہیں کیا کیا ہوتا رہا۔ اسمبلی کا اجلاس ہونے یا نہ ہونے کا شور شرابہ مچتا رہا۔ اُدھر تم اِدھر ہم کی باتیں ہونے لگیں۔
انہی دنوں میں دو کشمیری نوجوان ہاشم اور اشرف ، گنگا نام کا ایک بھارتی طیارہ اغوا کرکے لاہور لے آئے۔ کچھ دنوں بعد یہ ڈرامہ ختم ہوا تو مشرقی پاکستان کو تاریخ کے بدترین سمندری طوفان نے آلیا۔
اس قیامت خیز طوفان میں تیرہ جزیرے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔چھ لاکھ کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔ غرض یہ قیامت صغرٰی نہیں بلکہ قیامت کبریٰ تھی۔
اور انہی دنوں میں طوفان زدگان کے لئے امدادی میچ کھیلنے کے لئے ورلڈ الیون پاکستان آگئی۔
اور ہم ایسی بھلکڑ قوم ہیں کہ بڑے سے بڑا حادثہ بھولتے ہمیں دیر نہیں لگتی۔ یا شاید ہم واقعی سخت جان واقع ہوئے ہیں۔
بہرحال ورلڈ الیون کی ٹیم کی زبردست پذیرائی ہوئی جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ گار فیلڈ سو برز اس ٹیم کے کپتان تھے جنہوں نے اس سے پہلے اپنے پچھلے دورہ پاکستان میں کسی ناخوشگوار واقعہ کی وجہ سے پاکستان کا دورہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
گیری سو برز اپنے وقت کے سب سے بڑے سپر اسٹار تھے۔ اس کے علاوہ اس ٹیم میں میرے پسندیدہ بیٹسمین روہن کنہائی، کلائیولائیڈ، ہمارے اپنے سپر اسٹار حنیف محمد، ہندوستان کے فرخ انجینئر، آل راؤنڈر عابد علی، انگلستان کے ڈینس ایمس ، ڈیوڈ براؤن اور اس دور کے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے اسپنر لانس گبز بھی شامل تھے۔
اس طرح کے میچز میں عام طور پر توازن نہیں ہوتا یا اس درجہ کی سنجیدگی نہیں ہوتی جو دو ممالک کے درمیان میچز میں ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان 226رنز سے جیت گیا۔ پاکستان کی جانب سے مشتاق محمد، شفقت رانا اور دوسری اننگز میں سعید احمد نے سنچریاں بنائیں۔
تماشائیوں نے البتہ میچ میں پوری دلچسپی لی۔ سو برز مرکز نگاہ تھے لیکن وہ کوئی خاص کھیل نہیں پیش کرسکے۔ میرے لئے یہ میچ البتہ ایک خاص وجہ سے یادگار ہے۔
اس میچ میں آپ کے خادم نے سر گار فیلڈ سو برز سے تھپڑ کھانے کا اعزاز حاصل کیا۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ آپ کا خادم اس وقت ہر اس حرکت کا مرتکب ہوتا تھا جو کراچی کے لونڈے لپاڑیوں کا خاصہ تھی۔ کراچی میں کوئی میچ ہنگامہ آرائی کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ ملک میں ویسے بھی عوامی آزادی کا غلغلہ اٹھا ہوا تھا اور ہم اپنے آپ کو بڑا باغی اور ہیرو سمجھتے تھے اور ہر طرح کی پابندی اور قدغن کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے۔ الحمدللّٰہ آج بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں بلکہ پہلے سے کہیں بدتر ہے۔
تو ہوا کچھ یوں کہ ہم میدان میں جاکر سو برز کو قریب سے دیکھنا اور ان کا آٹوگراف لینا چاہتے تھے۔ دو روپے والے اسٹوڈنٹس انکلوژر سے یہ سب کچھ ممکن نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ہمارے اسٹینڈ میں پینے کا پانی ختم ہوگیا تھا اور سخت پیاس لگی ہوئی تھی۔ لیکن وہ کراچی والے ہی کیا جو کسی قسم کی جگاڑ نہ لگا سکیں۔ اس زمانے میں میدان کے ساتھ باڑھ کوئی خاص اونچی نہیں ہوتی تھی۔ شفقت رانا اور آصف اقبال بیٹنگ کررہے تھے اور شفقت کی سنچری ہونے والی تھی۔
میں نسبتا شریف الطبع تھا لیکن میرے ایک کزن ان معاملات میں خاصی مہارت رکھتے تھے اور اچھے خاصے بدنام تھے۔ آج ہم دونوں ایک دوسرے کے ہم زلف بھی ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ جیسے ہی شفقت رانا کی سنچری بنے گی ہم میدان میں انہیں مبارکباد دینے جائینگے، جو ان دنوں کا معمول تھا کہ کچھ تماشائی میدان میں داخل ہوکر بنفس نفیس کھلاڑیوں کو مبارکباد دیا کرتے تھے۔ ہمارا ارادہ ہرگز شفقت کی جانب جانے کا نہیں تھا۔ پلان یہ تھا کہ سو برز سے آٹوگراف لے کر ہم پریس یا ڈیفینس انکلوژر کے طرف دوڑ لگائیں گے تاکہ وہاں اپنی پیاس بجھا سکیں۔
اور یہی ہوا۔ جیسے ہی شفقت رانا کی سنچری ہوئی ہم دوڑتے ہوئے سو برز کی جانب روانہ ہوئے۔ دوڑتے ہوئے جب ایک سیاہ فام کھلاڑی کے نزدیک پہنچے تو پہلے ان کے جوتوں پر نظر پڑی ، یوں لگا جیسے کشتی میں پیر رکھا ہوا ہے۔ اس قدر بڑا پیر اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اب ذرا سراپا پر نظر ڈالنے کی کوشش کی تو ان صاحب کا جسم ختم ہی ہونے میں نہ آتا تھا۔
جی ہاں ، یہ حضرت کلائیولائیڈ تھے جو قریب سے خاصے دیو نما نظر آرہے تھے۔ ان کی قریب ہی سو برز کھڑے نظر آئے۔ میں سیدھا ان کی جانب دوڑا اور آٹو گراف بک ان کی جانب بڑھائی۔
" ناٹ ناؤ۔۔۔کم آفٹر پلے" سو برز کی غصیلی آواز آئی۔
" پلیز سر، پلیز،پلیز" میں گڑگڑایا۔۔اس وقت اتنی ہی انگریزی آتی تھی۔
" گوا وے" کہ کر سو برز نے میرے چہرے پر ہلکا سا تھپڑ لگاتے ہوئے پیچھے کی جانب دھکا دیا۔ ان تلوں میں تیل نہ دیکھ کر میں ایک گورے کھلاڑی ڈیوڈ براؤن کی جانب گیا۔ جس نے اپنی جانب آتا دیکھ کر پہلے ہی اشارے سے منع کردیا۔ دوسرے تماشائی اس وقت شفقت کو گھیرے شاباش اور 'نوٹ 'دے رہے تھے۔
ڈیوڈ براؤن کی بے رخی دیکھ کر میں کچھ غیر پارلیمانی الفاظ بڑبڑا رہا تھا جو قریب کھڑے آصف اقبال نے سن لئیے جو وکٹ کیپر کے قریب کھڑے تھے۔
" غلط بات ۔ ایسا نہیں کرتے" انہوں نے سرزنش کی۔
" ارے تو کیا ہے، سئی (سائن) دے گا تو کیا ہوگا۔ " یہ فرخ انجینئر تھے۔
" آپ دے دیں" مجھ پر ان دنوں آٹوگراف جمع کرنے کا جنوں تھا
فرخ نے اپنے کیپنگ گلوز کی طرف اشارہ کیا کہ ان میں ممکن نہیں.
اس دوران تماشائی واپس جا چکے تھے اور بچے کھچے تماشائیوں کو پولیس والے لاٹھیوں سے باہر ہانک رہے تھے۔ میری بھی پیٹھ پر لاٹھی پڑی لیکن یہ کسی پولیس والے کی نہیں بلکہ میدان میں کام کرنے والے رضاکاروں کی تھی۔ میں نے اضطراری طور پر پلٹ کر دیکھا۔ یہ ایک نوجوان تھا جیسے کے سینے پر پیپلز پارٹی کا بیج لگا ہوا تھا۔ ان دنوں ہم جماعت اسلامی کے حامی تھے اور پیپلز پارٹی سے ویسے ہی خار میں تھے۔ زبان پر بے تحاشا ناقابل فہم قسم کے الفاظ آئے لیکن یہ حالات اس قسم کے اظہار رائے کے لئے سازگار نہیں تھی۔ دوسری لاٹھی پیٹھ پر پڑنے سے پہلے ہی میں نے باہر کی جانب دوڑ لگائی۔ لڑکپن کے دن تھے، اور اپنے مذکورہ کزن کے ساتھ ان دنوں ایسے معاملات سے اکثر وبیشتر واسطہ پڑتا رہتا تھا چنانچہ دوسری لاٹھی کی نوبت نہیں آئی۔ لیکن میرا رخ اب کسی اور ہی اسٹینڈ کی جانب تھا۔
دوسری جانب کی باڑھ پھلانگ کر پہلا کام تو یہ کیا کہ پانی کی تلاش میں نکل گئے لیکن وہاں قریب میں کہیں پانی نہیں تھا۔ کزن صاحب کا بھی کہیں پتہ نہیں تھا۔
اس دوران مائیک پر اعلان ہورہا تھا کہ کچھ لوگ دوسرے انکلوژر سے ڈیفینس انکلوژر میں گھس آئے ہیں۔ وہ خود واپس چلے جائیں ورنہ انہیں پولیس کے حوالے کردیا جائے گا۔ اسی وقت کزن صاحب بھی نظر آئے اور دونوں نے ایک آنکھوں ہی آنکھوں میں طے کیا کہ بہتری اسی میں ہے کہ خاموشی سے باہر نکلا جائے۔
بہرحال کسی طرح خیروعافیت سے باہر نکل ہی آئے۔
اس کے اگلے سال ہماری ٹیم انگلستان کے دورے پر بھی گئی لیکن اسی سال ہماری تاریخ کے بدترین دن بھی ہمیں دیکھنے تھے۔ آج کی کہانی کچھ طویل ہوگئی۔ باقی باتیں بشرط زندگی اگلی قسط میں۔،
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔