بیسویں صدی کے آغاز پر پاولوو نے کتوں پر تجربہ کیا کہ جب انہیں کھانا دیا جاتا تو ساتھ گھنٹی بجائی جاتی۔ کچھ عرصے کے بعد کتوں نے گھنٹی اور کھانے کا تعلق سیکھ لیا اور صرف گھنٹی بجانے پر ہی ان کے منہ میں لعاب زیادہ ہو جاتا۔ یہ کنڈیشنگ، ایسوسی ایٹو لرننگ کی مثال ہے یعنی کتوں نے دو چیزوں کے آپس میں تعلق جوڑنے کا طریقہ سیکھ لیا۔ پچھلے برس یہی تجربہ آسٹریلین سائنسدان مونیکا گیگلیانو نے مٹر کے پودوں پر دہرایا جس سے ملنے والے نتائج پاولوو کی نتائج کی طرح ہی تھے۔
اس تجربے میں دھوپ اور پنکھے کی ہوا کی مدد لی گئی۔ مٹر کے چھوٹے پودوں کو تین گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ ایک وہ جو جنہیں دھوپ پنکھے کی ہوا کی سمت سے آتی تھی، دوسرا وہ جنہیں اس کی مخالف سمت سے جبکہ تیسرا کنٹرول گروپ۔
کچھ روز کی اس 'ٹرینینگ' کے بعد انہیں بڑھنے کے لئے ایک ہی ماحول چھوڑ دیا گیا۔ پہلے گروپ کے زیادہ پودے پنکھے کی ہوا سمت میں بڑھے، دوسرے گروپ کے اس کے مخالف اور تیسرے گروپ کے بڑھنے کا تعلق پنکھے کی ہوا سے نہیں تھا۔ اس تجربے سے ثابت ہوا کہ پودے بھی پاولوو کے کتوں کی طرح ہی ایسوسی ایٹو لرننگ کرتے ہیں۔
پودوں کی یادداشت کا ایک اور تجربہ چھوئی موئی کے پودے پر کیا گیا۔ چھوئی موئی کا پودا خطرے میں اپنے پتے بند کر لیتا ہے۔ ایک اپریٹس میں رکھے پودوں کو اچانک ایک فٹ نیچے گرایا گیا۔ اس سے اس پودے کو کوئی فزیکل نقصان نہیں پہنچتا لیکن اس گرنے کے عمل میں اس نے اپنے پتے فورا بند کر لیے۔ ایسا پانچ یا چھ بار کرنے سے اس نے اپنے پتے بند کرنے روک دئے۔ ایک ہفتے یا ایک مہینے بعد بھی ایسا کرنے سے ان پودوں میں جو سیکھ چکے تھے کہ ایسا ہونا بے ضرر ہے، انہوں نے اپنے پتے بند نہیں کئے لیکن یہ پودے دوسرے سٹیمولس پر اپنے پتے بند کر لیتے تھے۔ اس کی یادداشت بہت سے جانوروں سے زیادہ تھی، مثلا شہد کی مکھی تین دن سے زیادہ یادداشت برقرار نہیں رک سکتی۔
پودوں میں دماغ یا نیورل ٹشو نہیں تو وہ اس طرح کی یادداشت کیسے سکتے ہیں؟ پودے اپنے خلیوں میں کیلشئم بیسڈ سگنلنگ نیٹ ورک رکھتے ہیں جو جانوروں کی یادداشت کے عمل سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ پودوں کی جڑوں کے ہر ایپکس پر ایک چھوٹا سے حصہ ہے جسے ٹرانزیشن زون کہتے ہیں، جہاں پر سگنل جانوروں کے دماغ کے سگنلز سے مطابقت رکھتے ہیں اور مختلف طرح کے پودوں کی سوچ کا طریقہ فرق ہے۔
ان کے علاوہ دوسرے تجربوں میں یہ علم ہوا ہے کہ پودوں کی بڑھتی جڑیں نقصان دہ چیزوں سے دور رہتی ہیں اور فائدہ مند جگہ کی طرف رکاوٹیں عبور کر کے بڑھتی ہیں۔ اپنی دوسری ٹپ کو پہچانتی ہیں اور رشتہ دار اور اجنبی میں تفریق کر سکتی ہیں۔ پودے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف وقتوں میں مختلف بائیوکیمیکلز کا اخراج کرتے ہیں۔ (اسی تنوع کی وجہ سے پودوں سے ادویات کے اجزاء ڈھونڈنے میں کامیابی ملتی رہی ہے)۔
پودوں کی دلچسپ زندگی کے بارے میں سوڈوسائنس بھی خاصی ملے گی اور خاص طور پر سوڈوسائنس کی مشہور کتاب "سیکرٹ لائف آف پلانٹس" نے اس بارے میں نباتات پر ہونے والی اصل تحقیق کو خاصا نقصان پہنچایا لیکن اس کی اصل سائنس لوگوں کی بنائی غلط کہانیوں سے زیادہ دلچسپ ہے۔
نیچر میگیزین میں گیگلیانو کے تجربے کا آرٹیکل یہاں سے
ایک چھوٹی سی دلچسپ ویڈیو یہاں سے