دنیا میں اگنے والا ہر پودے کی جڑ زمین کے مرکز کی طرف اور تنا مخالف سمت کی طرف نکلتا ہے۔ بیج کسی بھی سمت میں بویا جائے، اس سے پھوٹنے والی جڑ اور شوٹ ہمیشہ صحیح سمت کو جائیں گی۔ اس ننھے سے بیج میں اتنی عقل کہاں؟ آئیں، بیج میں چھپی اس عقلمندی کا راز سمجھتے ہیں۔
آپ نے کھیلنے کے لئے اس طرح کے سنوگلوب دیکھے ہوں گے جس طرح کا تصویر میں لگا ہے۔ اسے ہلایا اور اس میں ہر طرف ذرات بکھر گئے۔ آہستہ آہستہ یہ نیچے کی طرف کو بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کا سائز چھوٹا ہے اس لئے گریویٹی کا مقابلہ زیادہ دیر تک کر لیتے ہیں لیکن ان ذرات کی ڈینسیٹی باقی فلوئیڈ سے زیادہ ہے تو ان کی ایکویلیبرئیم کی حالت یہی ہے کہ یہ بالآخر نیچے بیٹھ جائیں۔ بیج میں بھی یہی سنوگلوبز لگی ہیں۔
بیج کے درمیان میں خاص قسم کےخلیے ہیں۔ ان کو سٹیٹوسائیٹس کہا جاتا ہے۔ یہ خلیے وہ ننھی منی سی سنو گلوبز ہیں۔ ان میں سے ہر خلیے کے بیچ میں ایک خاص سٹارچ کے دانے ہیں۔ ان دانوں کی ڈینسیٹی باقی خلیے سے زیادہ ہے۔ گریوٹی کی وجہ سے یہ نیچے کی سمت کو کھسک جاتے ہیں، ویسے ہی جیسے کھلونا سنوگلوب کے ذرات۔ جس بھی سمت میں بیج ہو، ان کی اپنی جگہ خلیے میں نیچے کی طرف ہو گی۔ بیج میں پائے جانے والے پروٹین کے نیٹورک ان کی پوزیشن کو سینس کر لیتے ہیں اور نکلنے والی جڑ اور شوٹ اس کے مطابق راستہ لیتے ہیں۔ یقین نہیں تو کئی بیج لے کر مختلف سمتوں میں بوئیں اور کچھ روز کے بعد نکلنے والی جڑ کی سمت چیک کر کے دیکھ لیں۔
آخر میں سوچنے کے لئے ایک سوال۔
درخت کی زیادہ سے زیادہ اونچائی فزکس کے قوانین کے تحت کتنی ہونا ممکن ہے؟
جواب۔ چار سو فٹ۔
وجہ۔ گریویٹی۔
کیسے۔ اشارہ یہ موٹا تولیہ پتلے کی نسبت بہتر پانی جذب کرتا ہے لیکن ایک خاص موٹائی کے بعد مزید موٹائی کا فائدہ نہیں۔ یہی اصول درختوں کی اونچائی کی حد طے کرتا ہے۔ اس سے آگے آپ خود ڈھونڈیں یا پھر اس بارے میں کبھی کی گئی پوسٹ کا انتظار کریں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔