1930 سے پلوٹو نظامِ شمسی کا نواں سیارہ بن کر بڑی رعونت سے گھوم رہا تھا۔ پھر سائنسدانوں نے 2005 میں ایرس دریافت کیا۔ تقریباً پلوٹو کی سائز کا یہ بونا سیارہ نیپچون سے کئی بلین کلومیٹر کے فاصلے پر سورج کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ دریافت کیا کہ اسکا ایک چھوٹا سا چاند بھی ہے۔ یہ بونا سیارہ سورج کے گرد 557 زمین سال اور اپنے محور میں تقریباً 26 گھنٹے میں گھومتا۔ جبکہ اسکا چاند اسکے گرد 16 گھنٹے میں چکر لگاتا۔ ایرس کا سائز پلوٹو کیطرح زمین کے چاند سے کچھ کم تھا۔یہ سورج سے اتنا دور تھا کہ سورج کی روشنی کو یہاں تک پہنچنے میں تقریباً 9 گھنٹے لگتے۔
ایرس کی دریافت نے فلکیات کی کمیونٹی میں بحث چھیڑ دی کہ سیارہ دراصل ہوتا کیا ہے؟ اسکے لئے تین شرائط طے ہوئیں۔
اول اسکی ساخت کم و بیش کروی ہو۔
دوم یہ سورج کے گرد یا اپنے ستارے کے گرد گھومتا ہو۔
سوم اسکا مدار صاف ہو یعنی اسکے مدار میں کوئی اور سیارہ نہ آتا ہو۔
تیسری شرط پر نہ ایرس پورا اترتا نہ ہی پلوٹو ، کہ دونوں نیپچون کے مدار سے گزرتے تھے۔ لہذا ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے کہ مصادق, ایرس نہ خود سیارہ کہلایا اور نہ اس نے پلوٹو کو نظامِ شمسی کا نواں سیارہ رہنے دیا۔ 2006 میں پلوٹو کو نظامِ شمسی کے سیاروں کی فہرست سے بے گھر کر دیا۔
ایرس کی دریافت کے بعد کئی ایسے سیارچے جو اس سے پہلے دریافت ہو چکے تھے اُنہیں بھی پلوٹو سمیت بونے سیاروں کا درجہ دے دیا گیا۔ مثال کے طور پر “سیرس” (Ceres) جو 1801 میں ایک سیارچے کے طور پر دریافت ہوا تھا۔
بعض اندازوں کے مطابق نظامِ شسمی میں 120 کے قریب ایسے اجرام ہیں جنہیں بونے سیارے کہا جاتا ہے مگر ان میں سے دس اتنے بڑے ہیں کہ انکے ماس اور کثافت کے بارے میں معلوم کیا جا سکتا ہے۔
ایرس اور کئی دیگر بونے سیارے نیپچون کے مدار سے آگے ایک خاص علاقے میں پائے جاتے ہیں جہاں کئی اور سیارچے بھی موجود ہیں۔ اس علاقے کو Kuiper Belt کہا جاتا ہے۔
ایرس پر حد درجہ حرارت منفی 243 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہے اور یہاں شاید زندگی کا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔
ایرس کا قدرے واضح مشاہدہ ناسا کے نیو ہورائزن سپیس کرافٹ نے مئی 2020 میں کیا۔ یہ سپیسکرافٹ دراصل پلوٹو کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لئے 2006 میں بھیجا گیا تھا جو 2015 میں نو سال کی مسافت طے کر کے پلوٹو کے قریب سے گزرا اور اب یہ Kuiper Belt میں مزید سیارچوں کا تجزیہ کرے گا۔ اس علاقے میں موجود سیارچے دراصل بے حد اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ بھی تب ہی بنے جب نظامِ شمسی وجود میں آیا یعنی آج سے تقریباً 4.5 ارب سال پہلے۔ سو یہ ایک طرح سے ہمارے نظامِ شمسی کا ماضی محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ جنکا مشاہدہ کر کے ہم سورج ، زمین اور اس پر موجود زندگی کے ماخذ کے بارے میں زیادہ بہتر طور پر جان سکیں۔کائنات عجائبات سے بھری پڑی ہے اور یہ صرف انہیں جواب دیتی ہے جو سوال کرنے اور جستجو کا ہنر جانتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...