پلاسٹک کا لفظ میٹیریل کی وسیع رینج کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، جو تمام آرگینک ہیں (کاربن کی بنیاد پر ہیں)، ٹھوس ہیں اور ان کو شکل دی جا سکتی ہے۔ اس میں انقلاب سنتھیٹک پلاسٹک کی ایجاد کے بعد آیا۔ یہ ایجاد جان ویسلے ہائیٹ اور ان کے بھائی نے کی تھی۔ اس کی ایک وجہ دس ہزار ڈالر کا انعام جیتنے کی کوشش تھی جو بلئیرڈ کی گیند بنا سکے۔ ان کا ایجاد کردہ پلاسٹک سیلولائیڈ تھا جو ان گیندوں میں تو زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ آج اس پلاسٹک سے ٹیبل ٹینس کی گیندیں بنائی جاتی ہیں۔
سیلولائیڈ پہلا کمرشل پلاسٹک تھا۔1870 کی دہائی میں اس کو کئی شکلوں، رنگوں اور ساخت میں ڈھالا گیا۔ سب سے اہم یہ کہ یہ مہنگے میٹیریل جیسا کہ ہاتھی دانت، آبنوس، کچھوے کے خول، موتی جیسے میٹیریل جیسا بنایا جا سکتا تھا۔ اس کا استعمال ان کا متبادل دینے کے لئے ہوا۔ نہ صرف اس نے جنگلی اور آبی حیات کو بچایا بلکہ سستا ہونے کی وجہ سے بزنس کے لئے منافع بخش رہا۔ پلاسٹک کی کنگھیاں اور نیکلس جیسی چیزیں اب امراء کیلئے نہیں رہی تھیں۔ بڑھتی مڈل کلاس کی پہنچ میں آ گئی تھیں، جو ان کی خواہش تو رکھتے تھے مگر اس کو افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائیٹ نے نائیٹروسیلولوز پلاسٹک کا ایک اور استعمال نکالنے کی کوشش کی جو بتیسی بنانے کا تھا۔ دندان سازی کا یہ تجربہ بہت کامیاب نہیں رہا۔ نقلی دانت گرم ہو کر شکل برقرار نہیں رکھ پاتے تھے اور بے ذائقہ نہیں تھے۔ ان کے مقابلے میں ربڑ کے دانت تھے، جن کا ذائقہ گندھک جیسا تھا۔ بیسویں صدی تک انتظار کرنا پڑا کہ ایکریلک پلاسٹک کی ایجاد کے بعد بغیر ذائقے اور قدرتی لگنے والی بتیسی بنائی جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیشہ فوٹوگرافک پلیٹ بنانے کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ شفاف بھی تھا اور کیمیائی طور پر تعامل بھی نہیں کرتا تھا۔ لیکن یہ بھاری اور مہنگا تھا۔ فوٹوگرافی صرف پیشہ ور یا بہت امیر لوگ کر سکتے تھے۔ جارج ایسٹ مین نے شیشے کی پلیٹ کے متبادل سیلولائیڈ فلم بنائی، جس نے فوٹوگرافی کا انقلاب برپا کیا۔ شیشے کے بجائے سیلولائیڈ کی فلم لچکدار تھی اور اس کو لپیٹ کر اس کا رول بنایا جا سکتا تھا۔ ان کے ایجاد کردہ کوڈاک کے کیمرے میں ڈالا جا سکتا تھا۔ اس سے کیمرے چھوٹے، سستے اور ہلکے بن سکتے تھے۔ فوٹوگرافی عوام تک پہنچ گئی۔ اس کے نئے استعمال نکل آئے۔ فیملی جو اپنی یادیں البم میں محفوظ کر سکے۔ اب تو ہم اس دور میں رہتے ہیں جہاں پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے آ جانے کے سبب فلم کے یہ رول نہیں خریدے جاتے لیکن سیلولائیڈ فوٹوگرافک فلم ویژویل کلچر کی طرف سب سے بڑا قدم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلولائیڈ پلاسٹک کی وجہ سے فلم کے رول کی ایجاد نے ایک اور چیز کو ممکن کر دیا۔ یہ حرکت کرتی تصاویر یا موشن پکچرز تھیں۔ اگر ایک تصویر میں معمولی سی تبدیل کر کے اس کو ایک سیریز میں تبدیل کیا جائے کہ یوں محسوس ہو کہ تصویر حرکت کر رہی ہے ۔۔ یہ تصور تو پرانا تھا لیکن بغیر اس لچکدار اور شفاف میٹیریل کے اس کو زوٹروپ کے گھومتے سلنڈر میں دکھایا جا سکتا تھا۔ سیلولائیڈ نے یہ سب بدل دیا۔ تصاویر کی ایک سیریز کو کھینچ کر اس طریقے سے پراجیکٹر پر چلایا جا سکتا تھا اور اس کو بہت سے ناظرین اکٹھا دیکھ سکتے تھے۔ یہ لومئیر برادرز کا آئیڈیا تھا اور اس سے سینیما کی بنیاد پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلولائیڈ کے بعد دوسرے پلاسٹک آئے۔ بیکیلائیٹ، نائیلون، وینائل، سلیکون۔ نہ صرف انہوں نے نت نئی تخلیقات ممکن کی بلکہ کلچر پر گہرا اثر ڈالا۔ بیکیلائیٹ اس دور میں لکڑی کا متبادل بن گیا جب ٹیلی فون، ریڈیو اور ٹی وی ایجاد ہو رہے تھے۔ یہ جدیدیت کا نشان بن گیا۔ نائیلون کی ساخت نے اس کو فیشن انڈسٹری کا اہم جزو بنا دیا اور ریشم کا متبادل فراہم کر دیا۔ اس سے فیبرکس میں مزید نئی جدتیں آئیں۔ لائکرا اور پی وی سی۔ اور میٹیریلز کا وہ گروپ جس کو الاسٹومر کہا جاتا ہے جس کے بغیر کپڑے صرف ڈھیلے ڈھالے بنائے جا سکتے تھے۔ جدید فیشن کے فٹنگ والے کپڑے اس کے بغیر نہیں بن سکتے تھے۔
وینائل نے میوزک کو بدل دیا۔ اس کو ریکارڈ کیا جا سکتا تھا، دوبارہ سنا جا سکتا تھا۔ اس نے راک سٹارز بنائے۔ سیلیکون نے ہوابازی سے لے کر ہمارے کچن اور پلاسٹک سرجری تک بہت کچھ نیا شروع کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سستا اور مفید ہونے کی وجہ سے پلاسٹک کا پیکنگ میں بے جا استعمال بڑے ماحولیاتی مسئل کا باعث بن رہا ہے۔ لیکن ماحول کو بچانے میں، ہمارا معیارِ زندگی بلند کرنے میں، سستا ہونے کی وجہ سے امراء کی چیزیں عوام تک پہنچانے میں، ہمارے لباس، تفریح اور رہن سہن کے طریقے بنانے میں اور جدید دنیا تشکیل کرنے میں اس میٹیریل کا ایک بڑا کلیدی کردار ہے۔