“اگر میں غلط نہیں تو میری ایجاد مستقبل میں بہت اہم ثابت ہو گی” گیارہ جولائی 1907 کو لیو بیک لینڈ نے اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے۔ وہ خوشگوار موڈ میں تھے اور کیوں نہ ہوتے۔ تینتالیس سالہ بیک لینڈ کی زندگی کامیابی کی تھی۔
وہ بلجیم میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد موچی تھے اور لکھنا پڑھنا نہیں جاتے تھے۔ اور ان کی اپنے بیٹے کو پڑھانے کی بھی خواہش نہیں تھی۔ بیک لینڈ تیرہ سال کی عمر میں والد کے ساتھ جوتے مرمت کرنا شروع ہو گئے تھے۔ لیکن ان کی والدہ، جو ایک گھریلو ملازمہ تھیں، کے ذہن میں کچھ اور تھا۔ وہ انہیں شام کے سکول میں پڑھنے کے لئے بھیجتی تھیں۔ یہاں سے انہیں گینٹ یونیورسٹی میں سکالرشپ مل گیا اور پھر کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کر لی۔ اپنے استاد کی بیٹی سے شادی کی اور نیو یارک چلے گئے۔ یہاں پر فوٹوگرافک پیپر پرنٹر ایجاد کیا جس سے اتنا زیادہ کمایا جس کے بعد انہیں کام کرنی کی ضرورت نہیں تھی۔ دریا کے کنارے گھر خریدا۔ لیکن اس گھر میں لیبارٹری بنائی جس میں وہ کیمیکلز کے ساتھ کھیلنے کا اپنا شوق پورا کر سکیں۔
جولائی 1907 میں انہوں نے ریکارڈ کیا کہ وہ فینول اور فارملڈی ہائیڈ کے ساتھ تجربہ کر رہے تھے۔ اٹھارہ جولائی کو درج ہے، “ایک اور گرم دن ہے۔ لیکن مجھے پرواہ نہیں۔ اس وقت میں گھر میں بغیر کالر کی قمیض کے گھر میں ہوں۔ یہ کروڑپتی جو وال سٹریٹ پر کام کرتے ہیں، سارا دل لیبارٹری میں گزارنے کا مزا کیا جانیں۔” اس سے اگلے روز درج ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ کو پیسے بھجوائے اور اس سے چار روز بعد، “مجھے یونیورسٹی سے فارغ ہوئے تئیس سال گزر گئے۔ پتا بھی نہیں لگا۔ اب میں پھر طالب علم ہوں اور مرتے دم تک رہوں گا”۔
بیک لینڈ کی یہ پیشگوئی درست نہیں تھی۔ جب ان کا اسی برس کی عمر میں انتقال ہوا تو ان کی ذہنی صحت اچھی نہیں رہی تھی۔ لیکن انہوں نے کیا ہی زندگی گزاری تھی۔ اس میں انہوں نے ایک اور ایجاد کی تھی جس نے انہیں سوچ سے بھی زیادہ شہرت اور امارت دی تھی۔ وہ اتنے مشہور تھے کہ جب ٹائم میگیزین نے سرورق پر ان کی تصویر لگائی تو اس پر نام لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف یہ لکھا تھا کہ “نہ جلے گا، نہ پگھلے گا”۔
لیو بیک لینڈ نے اس جولائی میں جو چیز ایجاد کی تھی، وہ پہلا سنتھیٹک پلاسٹک تھا۔ انہوں نے اس کو بیکیائیٹ کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیک لینڈ کی پیشگوئی کہ یہ اہم ایجاد ہو گی، بالکل درست نکلی۔ سوزن فرائنکل نے ایک تجربہ کیا۔ ایک روز انہوں نے ہر چیز کو لکھنا شروع کیا، جس کو بھی ان کا ہاتھ لگا۔ بجلی کا سوئچ، ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب، ٹوائلٹ سیٹ، نلکا، فرش ۔۔۔۔ دن کے آخر تک ان کا ہاتھ جتنی چیزوں کو لگا، ان میں سے 102 ایسی تھیں جو پلاسٹک سے نہیں بنی تھیں جبکہ 196 ایسی تھیں جو پلاسٹک سے بنائی گئی تھیں۔ دنیا میں اس قدر زیادہ پلاسٹک ہے کہ تیل کی پروڈکشن کا آٹھ فیصد پلاسٹک بنانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں سے نصف اس کے خام مال کے طور پر۔ باقی نصف اس توانائی کو پورا کرنے کے لئے جو اس سے اشیا بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔
بیکیلائٹ کارپویشن کے اشتہار میں کہا گیا تھا کہ جمادات، نباتات اور حیوانات کے بعد یہ چوتھی دنیا ہے جس کی حدود وسیع ہیں۔ یہ بلندوبانگ دعویٰ لگے لیکن زیادہ غلط نہیں تھا۔ اس سے پہلے قدرتی دنیا سے حاصل کردہ سائنسدان نئے میٹیریلز پر کام کرنے کا سوچتے رہے تھے۔ سیلولائیڈ پودوں کی بنیاد پر تھا۔ بیک لینڈ خود کیڑے کی رال سے میٹیریل لے کر انسولیشن بنانے کی کوشش کرتے رہے تھے۔ لیکن بیکیلائیٹ کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ یہ نیا میٹیریل اس سے بہت زیادہ کر سکتا ہے۔ بیکیلائیٹ کارپوریشن نے اسے “ہزار فائدوں والا میٹیرئل” کہا اور یہ بھی غلط نہیں تھا۔ ٹیلی فون سے لے کر گن تک، سنوکر کے گیند سے کافی کے برتن تک۔ زیور سے برقی سامان تک اس نے اپنی جگہ بنائی۔ یہاں تک کہ یہ پہلے ایٹم بم میں بھی استعمال ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیکیلائیٹ کی کامیابی نے سوچ کو بھی تبدیل کیا۔ یہ نہ جلتا تھا نہ پگھلتا تھا۔ کسی شکل میں بھی ڈھل جاتا تھا۔ دیکھنے میں جاذب نظر تھا۔ اور سب سے بڑھ کر سستا بھی تھا۔ 1920 اور 1930 کی دہائی میں دنیا کی لیبارٹریوں سے پلاسٹک امڈنے لگا۔ پولیسٹرین جو پیکنگ میں استعمال ہوتا ہے۔ نائیلون جس نے لباسوں میں جگہ بنائی۔ پولیتھین جس کے بیگ دنیا بھر میں بکھرے پڑے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد پلاسٹک کے برتن آئے۔
یہ معجزاتی میٹیریل زیادہ نیک نام نہیں لیکن اس کے باوجود پچھلی نصف صدی میں اس کی پیداوار بیس گنا بڑھ چکی ہے۔ اور ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے اس کی حوصلہ شکنی کے باوجود یہ بڑھ رہی ہے۔ خیال ہے کہ اس میں شامل کیمیکل جانوروں کی نشوونما پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ یہ کچرے کے ڈھیروں میں جاتا ہے۔ وہاں سے یہ کیمیکل رِس کر زیرِ زمین پانی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ سمندر میں جاتا ہے۔ آبی مخلوقات اس کو کھا لیتی ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ اگلے تیس برس میں سمندر میں موجود پلاسٹک کا وزن سمندری مچھلیوں سے زیادہ ہو چکا ہو گا۔ (ظاہر ہے کہ یہ اعتماد سے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان دونوں مقداروں کا اچھا اندازہ لگانا آسان نہیں)۔ آبی خوراک ہو، پلاسٹک کی پیکنگ یا آلودہ پانی، ہم اس کے ہزاروں مائیکروذرات کو اپنے جسم کا حصہ بنا رہے ہیں۔ اس کے طویل مدتی اثرات ہمیں معلوم نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کھاتے کے دوسری طرف پلاسٹک کے فوائد بے تحاشا رہے ہیں۔ اور یہ ماحولیاتی فوائد بھی ہیں۔ گاڑیاں، موٹرسائکل اور ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کو کم وزن بنایا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ سے ایندھن کم خرچ ہوتا ہے۔ پلاسٹک کی پیکنگ خوراک کو طویل عرصے تک محفوظ رکھ کر ضائع ہونے سے بچاتی ہیں۔ پلاسٹک سے پہلے بننے والی شیشے کی بوتلیں نہ صرف بھاری تھیں بلکہ ان کو لاپرواہی سے پھینکنا کئی قسم کے نقصان پہنچاتا تھا۔
آخر میں ہمیں پلاسٹک ری سائیکل کرنے کے بارے میں بہتر ہونا پڑے گا۔ اس کا خام مال، یعنی کہ تیل ہمیشہ باقی نہیں رہنا۔ لیکن یہ آسان نہیں۔ بیکیلائیٹ سمیت کئی اقسام کے پلاسٹک ری سائکل نہیں ہو سکتے۔ کئی قسم کے ہو سکتے ہیں لیکن ہوتے ہیں۔ صرف نو فیصد کے قریب پلاسٹک ری سائیکل ہوتا ہے۔ اسے بہتر کرنے کے لئے کچھ ہوشیار سوچ درکار ہو گی۔ اس میں تائیوان سب سے کامیاب ہے جہاں پر نہ صرف اس کو اکٹھا کرنے کی اچھی سہولت موجود ہے بلکہ اس کے بارے میں ہدایات پر عمل نہ کرنے پر جرمانہ بھی ہے۔
ٹیکنالوجی میں کچھ حل تلاش کئے جا رہے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہر استعمال کے بعد اس کی کوالٹی پر فرق آتا ہے۔ اسے لامحدود بار ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا۔
بیکیلائیٹ جب ایجاد ہوا تھا تو یہ کسی سائنس فکشن کی طرح جادوئی ایجاد تھی۔ سادہ، سستی، مصنوعی پراڈکٹ جو اتنی مضبوط ہے کہ برتنوں سے لے کر کرسیوں تک سب کچھ بنا سکتی ہے۔ اتنی خوبصورت ہے کہ اس سے آرائش اور سجاوٹ کی اشیا اور زیور بن سکتے ہیں۔ یہ ہاتھی دانت کی جگہ لے کر جنگلی حیات کے اس شاندار جانور کو بچا سکتی ہے۔ میٹیریل سائنس میں اتنا بڑا معجزاتی میٹیریل اور کوئی ایجاد نہیں ہوا۔ یہ اتنا عام ہے کہ ہم اسے توجہ بھی نہیں دیتے اور اپنی انہی خاصیتیوں کی بنا پر یہ آلودگی کی بڑی وجہ ہے۔
اس میں سب سے بڑا انقلاب اس کو “اپ سائیکل” کئے جانے کا کوئی بریک تھرو ہو گا۔ مینوفیکچررز اس تکنیک پر کام کر رہے ہیں۔ پلاسٹک کی بوتلوں سے کاربن فائبر بنا لینا جو اتنا ہلکا اور مضبوط ہو کہ جہاز کے پر بھی بنائے جا سکیں۔ پھینکے گئے پلاسٹک کو نینوپارٹیکل سے ملا کر نئی خاصیتوں والے نئے میٹیریل بنائے جا سکتے ہیں؟
ہمارے تمدن اور مستقبل کے لئے یہ اہم ترین سوالات میں سے ہے۔