ریل گاڑی بہت دیر سے کسی سٹیشن پر نہیں رکی تھی۔ گرمیوں کے دن تھے اور مسافروں کی پیاس بڑھتی جا رہی تھی۔ گاڑی کے ڈبوں کے اندر جن مسافروں کے پاس صراحیاں تھیں وہ اب مسافروں کی پیاس بجھاتے بجھاتے خالی ہو چکی تھیں۔ چلتی ریل گاڑی میں کھلی کھڑکیوں سے آتی ہوا نے مسافروں کی پیاس کو کسی قدر سنبھال رکھا تھا۔ لیکن آخر کب تک۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جمنے لگیں۔ بچوں نے پیاس سے تنگ آ کر چیخنا چلانا شروع کیا۔ صراحیوں کے مالکان کی روا روی پر رفتہ رفتہ غصہ غالب آنے لگا۔ اگر لوگ ان سے بار بار پانی نہ مانگتے تو ان کے پاس اب بھی پینے کو پانی ہوتا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ وہ بچوں کو کیسے انکار کرتے۔ ابھی بچوں تو کیا بڑوں کو بھی بد لحاظ انکار کا وقت نہیں آیا تھا۔ گاڑی چلتی رہی، کسی لمبی کہانی کی طرح کھیتوں، کھلیانوں کو پیچھے چھوڑتی، کوکتی، آگے بڑھتی رہی ۔۔۔۔ حتی کہ اس کی رفتار کم ہوئی۔ ڈبے کے دروازے کے ساتھ مردوں کا جمگھٹا بڑھنے لگا۔
گاڑی جب ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر رکی تو دروازے کے قریب کھڑے مرد پہلے تھے جو بھاگ کر پلیٹ فارم پر لگے پانی کے نلکے کو منہ لگانے بھاگے۔ عورتوں اور بچوں کی باری بعد میں آئی۔ مسافروں میں صادقہ بی بی کا قدرے فربہ جسم شاید آخری تھا جو نلکے تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ ابھی اس کا ایلومینیم کا گلاس پورا طرح بھرا بھی نہیں تھا کہ انجن کی کوک سنائی دی۔ اس نے جلدی جلدی اپنا خشک حلق تر کیا۔ اب گاڑی کے پہیے پٹریوں پر رینگنے لگے تھے۔ پلیٹ فارم پر موجود مسافروں نے اپنے اپنے ڈبوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ صادقہ بی بی اپنی پیاس پوری طرح بجھائے بنا ہی بدحواس ہو کر اپنے ڈبے کی طرف بھاگی۔ ادھر گاڑی کی رفتار بڑھ رہی تھی، اِدھر صادقہ بی بی کو اپنے اونچی ہیل کے سینڈلز کے ساتھ تیز بھاگنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ یہ چمکدار سینڈلز اس نے خاص طور سے اس سفر کے لیے اپنے شہر کے موتی بازار سے خریدے تھے۔ وہ کئی برس کے بعد اپنے میکے جا رہی تھی۔ بہت سے لوگوں نے گاڑی کی کھڑکیوں سے پلیٹ فارم پر بھاگتی اس ادھیڑ عمر عورت کے خوبصورت سینڈلز سے جھانکتے گورے گورے پاوں دیکھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اس اجنبی عورت کی زندگی اور موت کے کھیل سے پہلے کا یہ آخری لمحہ تھا جس میں وہ زندگی کی لپک بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے حافظوں میں محفوظ کر رہے تھے۔ وہ اپنے ڈبے کے دروازے تک پہنچ چکی تھی، کئی ہاتھ اس کی مدد کو آگے بڑھے، اس نے ایک ہاتھ تھام کر گاڑی میں چڑھنے کو جست لگائی۔ لیکن جانے کس منصوبہ بندی کے تحت اس کا ایک سینڈل شلوار کے پائنچے میں اٹکا اور مڑ گیا۔ بےپناہ تکلیف سے کراہ کر اس نے تھاما ہوا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اب ہونی اپنی پیاس بجھا رہی تھی۔