بہت سے صحرائی پرندے کوے گدھ اور چمگادڑیں ایک سمت اڑتے جا رہے تھے۔ آنے والے طوفان کی نوید لیے ریت کے بگولے لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کرتے جا رہے تھے ۔شالو اپنے چھپر میں لالٹین کی مدھم روشنی میں بستر کے اندر دبکی پڑی تھی۔ ساس دوسرے چھپر میں اپنے شوہر کے ساتھ بند ہو بیٹھی تھی۔ ساس سسر کی دن رات کی خدمتوں کے عوض، ساس کےلعن طعن ، کوسنوں اور بانجھ ہونے کے طعنوں کی شالو کی آج کی خوراک پوری ہو چکی تھی۔
شالو کے کنبے کو اس جگہ ڈیرہ ڈالے کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ یہاں قریب ہی گورنمنٹ کی طرف سے بھیجے گئے انجینئرز کے لیے کنواں بنایا گیا تھا۔ اس لیے اس کے کنبے والوں کو یہ جگہ رہائش کے لیے بہت مناسب لگتی تھی۔ پہلے کنویں کے ساتھ ان انجینئرز کے خیمے ہوا کرتے تھے ۔ لیکن چھ مہینے پہلے انہوں نے لال اینٹوں کی چھوٹی سی ایک بلڈنگ بنا لی تھی۔ لیکن پانی کنویں کا ہی استعمال ہوتا تھا۔ شالو کا کنبہ بھی اس کنویں کی وجہ سے مستقل یہیں براجمان ہو گیا تھا۔شالو کا ایک اکیلا گھر نہیں تھا ۔ یہ کوئی پندرہ سولہ گھرانے تھے جو ایک جگہ آباد تھے۔ سب کے اپنے اپنے چھپر تھے۔اس جگہ چند ایک درخت بھی تھے جن کی ہوا اور سایہ جینے کی امید تھا۔ یہ جگہ اس لحاظ سے بہتر تھی کہ طوفان آنے کی صورت میں عموما ہوا کا رخ مخالف سمت ہوتا تھا۔
شالو کی شادی چودہ پندرہ سال کی عمر میں چالیس سالہ تھراج سے ہوئی تھی۔ تھراج کی پہلی بیوی پندرہ سال کی رفاقت کے بعد مر گئی تھی اس سے کوئی بچہ بھی نہیں تھا۔ شالو سے تھراج کی دوسری شادی تھی۔ شالو کی آمد اس کنبے میں ایک خوشگوار تبدیلی تھی۔ سیاہ رنگ کے چھوٹی چھوٹی آنکھوں اور موٹے نقوش والے افراد کے خاندان میں پتلے ناک نقشے اور ہلکے سانولے رنگ کی گویا پری آ گئی تھی جس کی صرف آنکھیں موٹی تھیں۔کالی بڑی بڑی آنکھوں پہ سیاہ گھنیری لانبی پلکیں سایہ فگن تھیں جن کے باعث وہ اور دلفریب اور معصوم لگتی تھی۔لیکن معصوم حسن ناقدری کا شکار ہو چلا تھا۔شادی کو آٹھ سال ہونے کو آئے تھے اب تک کوئی بچہ بھی نہ ہوا تھا کہ اس کے سہارے ہی جی لیتی۔ بچہ نہ ہونے کی پاداش میں ساس ہر وقت بانجھ ہونے کا طعنہ دیتی تھی۔ تھراج ایک ڈیڑھ مہینے کے لیے گھر آتا اور پھر قافلے کے ساتھ چار پانچ مہینے کے لیے چلا جاتا تھا۔قافلہ پورا ریگستان گزار کے سرحد کے پاس جاتا سرحد کے پار کے قافلے والوں سے سامان ادل بدل کیا جاتا جس میں مال برداری کے جانور، اشیائے خردو نوش اور گھریلو ضرورت کا سامان وغیرہ سرِفہرست تھے۔ سرحدی حصے میں ریگستانی علاقہ بہت زیادہ گرم تھا اور اکثر طوفانوں کی زد میں رہتا تھا۔ تھراج اور قافلے والے ان مشکلات کے عادی تھے وہ طوفانوں سے بچ نکلنے کے گُر جانتے تھے۔ لیکن ہر چکر مہینوں پر محیط ہوتا تھا۔قافلہ لوٹتا تو گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ۔ بچوں کے ہاتھ میں رنگ برنگے غبارے اور لڑکیوں کے ہاتھوں میں رنگین چوڑیاں اور نئے سفید براق کڑے نظر آتے۔ تھراج گھر آ کے اپنی ماں کے گھٹنے سے لگ کر بیٹھ جاتا۔ ماں کی لگائی بجھائی اثر کرتی شالو کو دھن کے رکھ دیتا۔ اور پھر رات کو چھپر میں آتے ہی بیوی کو استعمال کی چیز سمجھنے والا بے حس جانور کوئی بات سنے بنا مار کی تکلیف سے کراہتی شالو کو روحانی طور پر بھی ادھ مرا کر دیتا۔ جدائی کا نوحہ سنے بغیر ہر ہجر کی کہانی کو پس پشت ڈال کر صرف اپنی ضرورت پوری کرنا اپنا حق سمجھتا تھا۔ شالو کو لگتا وہ پیاسی ہے۔ محبت کی آرزو، چاہے جانے کی تمنا، ناز نخرے اٹھوانے کی طلب اور اداؤں پہ محبوب کے اظہارِ دلبری کی خواہش سب ادھورے تھے۔ حسن تو تھا ہی، اب عمر کا تقاضا تھا سو جوانی بھی پھوٹی پڑ رہی تھی۔
آج طوفانی ہواوؐں سے بچنے کو چھپر میں پلنگ پر الٹی لیٹی وہ سوچ رہی تھی یہ پیاس کب ختم ہو گی؟ اس کی بَلی کس لیے چڑھائی گئی تاکہ دوسروں کو سیرابی نصیب ہو۔ لیکن پیاس مقدر میں ہو تو اس کے تدارک کا کوئی حل کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ پورا جنم ایک ان دیکھی آگ میں جلتا ہے۔ پانی کی تلاش صحرا کی رِیت ہے۔ لیکن روح کی پیاس کے لیے نیا کنواں نئی راہ ڈھونڈنے کی سعی کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ سماج میں بھی اور مذہب میں بھی۔ وہ نارسائی کی کسک لیے چپ سادھے کاموں میں لگی رہتی ہے مگر کب تک؟ اس بار تھراج آئے گا تو وہ اس سے کہے گی میرا فیصلہ کردے یا مجھے ساتھ لے کر جایا کر۔ اس بار تو حد ہو گئی پانچ چاند چڑھ کے اتر گئے کہیں اس کا پتہ ہی نہیں۔ ہر چار پانچ مہینے کے اندر آ جاتا تھا چاہے مارتا تھا لیکن اتنی پیاسی تو نہ تھی۔ جتنی کہ اب ہو گئی۔تھراج کی ایک رشتے کی پھوپھی کی بیٹی رجو شالو کی دوست تھی ۔ رجو کا بھائی بھی اکثر تھراج کے قافلے کے ساتھ جاتا تھا۔ رجو نے اسے چپکے سے بتایا کہ تھراج رستے میں جہاں نٹوں کی بستیاں پڑتی ہیں وہاں ایک دھندا کرنے والی دسہری نام کی عورت کے پاس جاتا ہے۔ شالو نے یہ زہر بھی خاموشی سے پی لیا۔ ماں باپ کے ڈیرے سے جدا ہوئے سالوں ہو گئے۔ پتہ نہیں زندہ بھی ہیں کہ مر کھپ گئے۔ شالو کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا۔ طوفانی ہوائیں رات بھر سائیں سائیں کرتی رہیں شالو کے اندر کا سناٹا گونج رہا تھا۔جانے رات کے آخری پہر کیسے آنکھ لگ گئی۔ شاید طوفان کی فکر تھی سو سورج نکلنے سے پہلے آنکھ کھل گئی۔ شالو نے چھپر سے باہر نکل کر صورتِ حال کا جائزہ لیا۔ اس نے شکر کیا کہ طوفان کا رخ چھپروں کی طرف نہیں تھا۔ یہ بھی خدا کی قدرت تھی کہ ہر بار طوفان اس حصے کو نہیں چھوتا تھا۔ شالو نے دو مٹکے اٹھائے تاکہ کنوئیں سے پانی بھر لائے اور نہا لے۔ ریت کے طوفان کے بعد ہر چیز پر مٹی اور ریت کی تہہ چڑھ گئی تھی۔ وہ خود بھی مٹی سے بھری تھی
کنوئیں سے پانی بھرنے گئی تو صبح صبح پراجیکٹ والے انجینئروں کو کام میں لگے دیکھا ۔ روزانہ تو پتہ نہیں کہاں دور جا جا کے کھدائی کرتے رہتے تھے لیکن آج سب جوان دو دو چار چار کرکے الگ الگ صفائی کررہے تھے اور کنویں کے پاس سے ریت ہٹا رہے تھے۔ وہ ان جوانوں کو کام کرتے دیکھ رہی تھی اور کنوئیں سے پانی بھر رہی تھی۔ کنوئیں سے پانی کھینچنا آسان نہیں ہوتا۔ ان انجینئروں میں سے ایک اس کے پاس آیا اور اسے پانی نکالنے میں مدد دی۔ اس جوان کے دوسرے ساتھی اسے فواد فواد کہہ کر بلا رہے تھے لیکن اس نے کنوئیں سے پانی نکال کر اس کے دونوں مٹکے بھرے۔ جب شالو نے مٹکے اٹھانے کے لیے مٹکے پر ہاتھ رکھا تو ایکدم فواد نے اپنا گرم ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اور ہلکے سے اس کے کان میں سرگوشی کی تو کتنی خوبصورت ہے۔ ہرنی جیسی آنکھوں والی۔ کیا نام ہے تیرا۔ شالو نے گھبرا کر جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ کسی غیر مرد نے چھوا یہ سوچ کر برا لگا لیکن پہلی بار کسی مرد کے منہ سے تعریف سن کر ایک شانتی سی دل میں اتری ۔میں خوبصورت ہوں اسے اچھی لگی۔فواد نے پانی سر پر رکھوانے میں مدد کی تو اس نے انکار نہیں کیا۔ لیکن اس کی اپنے چہرے پہ جمی نظریں دل کو اتھل پتھل کر رہی تھیں۔ پانی لے کر گھر پہنچی اچھی طرح نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے۔ خود کو خوب سنوارا۔ ہونٹوں پہ لالی لگائی۔ آنکھوں میں کاجل لگایا۔اور چنری کا لہنگا سیٹ نکال کر پہنا جب تیار ہو کر باہر نکلی تو سورج کافی نکل آیا تھا۔شالو چھپر سے جیسے ہی باہر آئی تو ایک دم ساس نے چلانا اور سٹیل کا گلاس زور زور سے گھڑونچی پر مارنا شروع کر دیا۔ "اتنی دیر سے کس کے لیے بن سنور رہی تھی۔ گھڑے میں پینے کا پانی بالکل نہیں ہے۔ پانی لا کے سارا پانی نہانے میں لگا دیا۔ جب میاں یہاں نہیں ہے تو کم بخت کہیں کی اتنا سنورنے کی کیا ضرورت ہے۔ آنے دے تھراج کو وہ ہی تیری لگامیں کھینچے گا۔ پتہ نہیں کس کے لیے سنورتی ہے"۔ شالو ایک دم سہم گئی۔ "تھراج تو پہلے ہی اتنا مارتا ہے۔ آوارگی کا الزام سن کر تو اس کو جان سے ہی مار ڈالے گا"۔ اس نے جلدی سے پینے کے پانی کے دو خالی مٹکے گھڑونچی پہ اوپر تلے رکھے اور پھر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر پر رکھ لیے اور ساس سے بولی "اماں میں جا کے پانی لے آتی ہوں۔ میں نے گھڑے میں دیکھا نہیں تھا کہ پانی نہیں ہے"۔ "ہاں تجھے کچھ نظر ہی نہیں آتا تیرا دھیان اب گھر کے کاموں میں ہے ہی نہیں" ۔ شالو نے جلدی سے جوتے پہنے اور گھڑے اٹھائے گھر سے نکل گئی۔ تاکہ اماں کی مزید باتیں نہ سننا پڑیں۔ کنوئیں کے راستے میں بڑا نالا پڑتا تھا۔ کہتے ہیں کبھی اس علاقے میں اتنی بارش ہوتی تھی کہ یہ نالہ بھرا رہتا تھا اور پورا سال لوگ اس کا پانی استعمال کرتے تھے لیکن اب تو یہ نالہ سوکھ گیا تھا۔کنویں کے راستے میں نالے کی پلیا کے پاس راستے کے کنارے پر اسے وہی جوان کھڑا نظر آیا ۔ جس نے صبح پانی بھرنے میں شالو کی مدد کی تھی۔ صبح جسے اس کے دوست فواد کہہ کر بلا رہے تھے۔ فواد کتھئی شلوار قمیص میں تھا بہت ہی وجیہہ نوجوان تھا۔ ایسا گبھرو جوان اس کی برداری کیا جان پہچان کے لوگوں میں بھی کوئی نہ تھا۔ وہ اپنی سیاہ بھنورا سی آنکھوں سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔وہ اسے نظر انداز کرکے جانے لگی۔ تو وہ بول اٹھا۔
"سنو-"
وہ ٹھٹھک کر رکی۔
"کیا کسی نے تمہیں کبھی بتایا ہے کہ تم کتنی سندر ہو۔ پریوں جیسی"۔
اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اندازہ نہیں ہو پارہا تھا تعریف سن کر حیا سے، جذبات سے یا اس کی بے تکلفی پر غصے سے۔ اس نے شالو اور اس کےسر پر رکھے مٹکوں کو نظر بھر کر دیکھا۔
" پانی چاہئیے؟ پیاسی ہو؟" فواد نے مسکراتے ہوئے معنی خیز انداز میں سوال پوچھا۔
"ہاں"۔
"کتنی"- وہ بہت گہرے لہجے میں بولا۔ سینے میں نجانے کیوں ایک ہوک سی اٹھی۔ ایک تپش کچھ خلش۔
" بہت"۔ کہتے ہوئے اس نے آہستگی سے گھڑے زمین پر رکھے اور سیدھی کھڑی ہو گئی۔ فواد نے غور سے اس کے جثے پر نظر ڈالی۔ لال کڑھائی والے بلاوز پہ نظر پڑی۔ جسم کے بڑھتے تناؤ نے پیاس کی پول کھول دی۔ فواد نے باہیں کھول دیں وہ جیسے بھاگ کر سینے سے جا لگی۔فواد نے اپنے سے الگ کرکے اس کی کلائی کو مضبوطی سے تھاما اور اسے لیے لیے نالے میں اتر کر پلیا کی دیوار کی اوٹ لے لی۔ سیرابی کے سفر میں مان مریادا ، پتی ورتا ہر شے بہہ گئی۔ دریا کا چڑھاؤ اترا تو اسے ایک دم فکر ہوئی "اماں انتظار کر رہی ہو گی۔ دیر پر آنے پہ غصہ کرے گی"۔ فواد نے ماتھا چومتے ہوئے کہا ۔
"آؤ میں تمہاری پانی بھرنے میں مدد کروں۔ تمہارا ٹائم بچ جائے گا"۔وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ پانی بھر کر تیز قدموں سے گھر پہنچی تو اماں نے پوچھا کہ "پانی لانے میں دیر کاہے ہوئی"۔ تو پہلی بار اماں کا استفسار برا نہیں لگا۔ "اماں وہاں کوئی تھا نہیں۔ اکیلے پانی کھینچنے میں دیر تو لگتی ہے"
"ہاں یہ تو ہے، چل چولہے پہ ہانڈی رکھی ہے اسے دیکھ لے"۔ اماں کی ہر بات طنز لگا کرتی تھی۔ آج پتہ چلا اسی کو طنز لگتی تھی شاید اماں اتنی بری بھی نہیں تھی۔ روح کی سیرابی مزاج کی شادابی بن گئی تھی۔ وہ ہر کام مسکرا مسکرا کے کئے جا رہی تھی۔لیکن کہیں تھراج جلدی نہ آ جائے۔ اس نے اماں سے پوچھا "اماں تھراج کب آئے گا"۔اماں تو یہ سوال سن کر نہال ہو گئی "لگتا ہے تجھے تھراج کی فکر ہوئی ہے۔ بیس ایک دن تو اور لگیں گے پتری فکر نہ کر"۔ اماں خوش ، گھر میں سکون اور تھراج کا انتظار آسان ہو گیا تھا۔اور پھر بانجھ پن کا ٹھپا ہٹنے کا امکان بھی تو بڑھ گیا تھا۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1750491431884223/