میکسیکن افسانہ ( ہسپانوی زبان سے )
آگستن کیڈنا ( Agustin Cadena )
کئی سال پہلے کی بات ہے کہ میں ایک اشاعتی ادارے میں ’ فری لانس‘ کام کرنے والوں کا رابطہ کار ( کوآرڈینیٹر) تھا ۔ وہ وقت ملکی معیشت کے لیے بُرا نہ تھا اور کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے تھے ۔ ہمیں زیادہ قاریوں ، پروف ریڈرز اور کمپیوٹر پر ٹائپ کرنے والوں کی ضرورت تھی ؛ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم ٹائپ رائٹروں کے دور سے نکل کر ، نئے نئے ، کمپیوٹروں کے دور میں داخل ہو رہے تھے اور مصنفین کی اکثریت ابھی بھی ہمیں ، اپنی کتابیں ٹائپ شدہ مسودوں کی شکل میں ہی دیتے ۔
ایک روز ہمارے ڈائریکٹر نے یہ فیصلہ کیا کہ دوستوں میں بات پھیلانے سے کام نہیں چل سکتا اور ہمیں اخبار میں ایک اشتہار دینا چاہیے ۔ میں نے اشتہار لکھا اور اخبار میں چھپوا دیا ۔ اس کے نتیجے میں درخواستوں کا ایک سیلاب امڈ آیا ۔ میں نے ان سب کو ایک دو صفحوں پر مشتمل ایک ’ ٹیسٹ ‘ حل کرنے کے لیے دیا ؛ مجھے اب صحیح طوریاد نہیں کہ یہ کیا تھا ۔
لوگ جب بھی سیڑھیاں پھلانگ کر پہلی منزل پر پہنچتے تو انہیں سب سے پہلے ، میری میز کے سامنے ہی رکنا پڑتا : یہ جگہ ایک ایسے بندے کے لیے ، ایک طرح سے ایک رعایت تھی ، جسے نظم و ضبط قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ گپ شپ کی عادت ہو ؛ مجھ میں یہ دونوں باتیں تھیں اس لیے میں خوش تھا ۔ ایک صبح میں نے محبت و خوبصورتی کی دیوی ، زہرہ کو شان سے سمندری جھاگ سے پیدا ہوتے دیکھا ، جو آہستہ آہستہ ، زینہ بہ زینہ ، اوپر ابھر رہی تھی ؛ یہ ایک نفیس اور خوبصورت عورت تھی ۔ اس کا لباس عمدہ اور باذوق تھا لیکن یہ کسی طور بھی پُر نمود نہ تھا ۔ اس کی شخصیت کے گرد تنہائی اور اداسی کا ایک ایسا ہالہ تھا جسے نظرانداز کرنا ممکن نہ تھا ۔ میں نےخوشدلی سے مسکرا تے ہوئے اسے اپنے دفتر آنے پر خوش آمدید کہا ۔ اور پھر مجھے اپنی قسمت پر یقین نہ آیا ، جب اس نے کہا کہ وہ مسٹر آگستن کیڈنا کی تلاش میں تھی ، جس نے اخبار میں اشتہار دیا تھا ۔ میں نے ، فوراً اسے ایک کرسی مہیا کی اور اسے ’ پروف ریڈنگ ‘ کا ٹیسٹ تھما دیا ؛ میں دل سے یہ چاہ رہا تھا کہ وہ اس امتحان میں ناکام نہ ہو ۔ مجھے اس وقت حیرانی ہوئی ، جب اس نے دو صفحوں کے اس ٹیسٹ کو گھر لے جانے کی درخواست کی اور یہ بھی کہا کہ اس نے اسے درست کرکے اگلے روز لا کر دینا تھا ۔
” دیکھیں ، میں یہ نوکری اپنے لیے نہیں چاہ رہی ۔“ ، اس نے بتایا ، ” یہ میرے خاوند کے لیے ہے ۔“
” اچھا ، تو وہ خود کیوں نہیں آیا ؟ “ ، میں نے جل کر پوچھا ۔
” وہ بیمار ہے ۔ وہ چل نہیں سکتا ۔“
میں نے فوری جواب نہ دیا ۔ میں تذبذب میں تھا کہ کیا یہ درست تھا کہ میں اسے ٹیسٹ گھر لے جانے دوں ؛ کیا ایسا کرتے ہوئے ، میں اُسے دوسرے درخواست گزاروں کے مقابلے میں بے جا رعایت تو نہیں دے رہا ! اور یہ بھی تھا کہ یہ بھی پتہ نہ چلنا تھا کہ اصل کام کس نے کیا ۔ لیکن بالآخر میں نے یہ سوچا کہ ہمارے سارے پروف ریڈر بھی تو’ فری لانسر‘ تھے : وہ سب بھی تو مسودے گھر لے جاتے تھے اورآخر میں تو یہ بات وقعت ہی نہیں رکھتی تھی کہ کام کس نے کیا ، اہم تھا تو فقط یہ کہ انہوں نے اچھا کام کیا اور وقت پر پہنچا دیا ۔ میں نے یہ سوچ کر اس سے اتفاق کر لیا ۔
اس دن میرے ذہن میں اس عورت کا عکس کئی بار ابھرا جس کے ساتھ کئی سوال جُڑے ہوئے تھے : اس کے خاوند کو کیا بیماری تھی ؟ کیا وہ مفلوج تھا یا کیا ؟ کیا وہ بوڑھا تھا ؟ کیا وہ بعد میں بیمار ہوا یا تب سے ہی بیمار تھا جب ان کی شادی ہوئی تھی ؟ کیا وہ اس کے ساتھ خوش تھی ؟ اس رات جب میں بستر پر لیٹا تب بھی یہی سوالات میرے دماغ میں گھوم رہے تھے ۔
اگلے روز ، جب ہم دوپہر کا کھانا کھا کر لوٹے اور ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوا نیند کی گولی کی طرح ہم پر اثر کر رہی تھی ، اس عورت کی اچانک آمد نے مجھے نیم خوابی سے جگا دیا ۔ دن کی گرمی کے باوجود ، وہ تر و تازہ اور اچھی لگ رہی تھی ۔ اس نے مجھے درست کیا ٹیسٹ پکڑایا ۔ مجھے اس کو سارا دیکھنے کی ضرورت پیش نہ آئی کیونکہ اسے خوش اسلوبی سے ٹھیک کیا گیا تھا ۔ اس کا خاوند ، اگر وہ تھا ، کیونکہ اس نے ایسا ہی کہا تھا ، ایک زبردست پروف ریڈر اور ایڈیٹر تھا ؛ وہ باریک بین ، چوکنا اور تخلیقی صلاحیت کا حامل تھا ۔
یوں میرے اور اس کے درمیان ایک ایسا کاروباری تعلق بنا جو کبھی دوستی میں نہ بدل سکا ۔ اس نے مجھے اس کی اجازت ہی نہ دی تھی ۔ وہ دفتر آتی ، محتاط اور باعزت فاصلہ برقرار رکھتی ، چند لمحوں کے لیے بیٹھتی ، پچھلا مسودہ واپس کرتی ، نیا والا لیتی ، اور بعض اوقات کسی بات کی وضاحت بھی کرتی ۔ مجھے ، اپنے سوالوں کے جواب کبھی نہ ملے ۔ ایک بار ، البتہ ، ایسا ضرور ہوا کہ مجھے اس کو فون کرنا پڑگیا ؛ ہوا یہ تھا کہ ہمارے پاس ایک مشہور ادیب کا ایک ناول آیا جسے محتاط ادارت کی ضرورت تھی اور یہ کام جلدی بھی کرنا تھا ۔ ایک کھردری آواز نے جواب دیا ، یہ ایک سگریٹ نوش کی آواز تھی جس کا تلفظ قدرے بدیسی تھا ۔ میں اس کے علاوہ اور کچھ نہ جان سکا کہ وہ بندہ جوان نہ تھا ۔
ایک روز وہ واپس نہ آئی ۔اس کے گھر کے فون سے بھی کسی نے جواب نہ دیا ۔ وہ میری زندگی سے اسی طرح غائب ہو گئی جس طرح وہ اچانک میری زندگی میں پراسرار طورداخل ہوئی تھی اور مجھے جذباتی طور پر الجھا بھی دیا تھا ۔ کیا وہ الگ ہو گئے تھے ؟ کیا وہ بیوہ ہو گئی تھی ؟ کیا وہ مر گئی تھی ؟
”افسوس“ ، میں نے جب ڈائریکٹر کو بتایا تو اس نے کہا ، ” وہ ہماری بہترین پروف ریڈر تھی اور سب سے زیادہ خوش شکل بھی ۔“
میں نے اسے کبھی نہ بتایا ۔ ۔ ۔ دفتر میں کسی اور کو بھی نہیں ۔ ۔ ۔ کہ یہ وہ نہیں تھی جو کام کرتی تھی ۔ میں نے انہیں بیمار ، مفلوج یا سودائی خاوند کے بارے میں بھی کبھی نہ بتایا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
* یہ افسانہ مصنف کی اجازت سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔
** بینر میں اطالوی مصور سینڈرو بوٹیسیلی ( 1445ء تا1510 ء ) کی پینٹنگ ' The Birth of Venus ' سے وینس ( زہرہ ) کا چہرہ استعمال کیا گیا ہے ۔