ایٹگر کریٹ (Etgar Keret )
میں جب ساتویں گریڈ میں پہنچا تو انہوں نے ایک ماہر نفسیات کو سکول میں بلایا تاکہ وہ ہمیں کچھ مطابقتی امتحانات کے عمل سے گزار سکے ۔ اس نے مجھے بیس مختلف فلیش کارڈ باری باری دکھائے اور مجھ سے پوچھا کہ ان تصاویر کے ساتھ کیا گڑبڑ تھی ۔ وہ سب مجھے ٹھیک لگ رہی تھیں لیکن وہ مُصر رہا اور اس نے مجھے پہلی تصویر دوبارہ دکھائی ۔ ۔ ۔ جس میں ایک بچہ تھا ۔
” اس تصویر کے ساتھ کیا گڑبڑ ہے ؟ “ ، اس نے تھکی ہوئی آواز میں پوچھا ۔
میں نے اسے بتایا کہ اس میں کچھ بھی غلط نہیں تھا ۔ اس پر وہ غصے میں آیا اور اس نے کہا ؛
” کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ اس تصویر میں بچے کے کان نہیں ہیں ؟ “
سچی بات تو یہ ہے جب میں نے تصویر کو دوبارہ دیکھا تو میں نے دیکھ لیا تھا کہ بچے کے کان نہیں تھے لیکن اس کے باوجود مجھے یہ تصویر ٹھیک ہی لگی تھی ۔ ماہر نفسیات نے مجھے ایسوں میں شمار کیا جو شدید قسم کے ”عارضہ ِادراک ِ علم “ کا شکار ہوتے ہیں ۔ اور اس نے میرا تبادلہ ترکھانوں والے سکول میں کر دیا ۔ میں جب وہاں گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ مجھے لکڑی کے برادے سے الرجی تھی ۔ انہوں نے ، چنانچہ ، مجھے دھات کے کام سیکھنے میں لگا دیا ۔ میں اس کام میں خاصا اچھا تھا لیکن مجھے یہ کرتے ہوئے مزہ نہیں آتا تھا ۔ ویسے تو سچی بات یہ ہے کہ میں کسی طرح کے کام کو کرتے ہوئے اس سے لطف اندوز نہیں ہوتا تھا ۔ میں نے ، جب سکول کی تعلیم مکمل کی تو میں نے ایک ایسی فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا جو پائپ بناتی تھی ۔ میرا باس ایک انجینیئر تھا جس نے ایک اعلیٰ ٹیکنیکل کالج سے ڈپلومہ کر رکھا تھا ۔ وہ ایک ذہین بندہ تھا ۔ اگر آپ اسے اس بچے کی تصویر دکھاتے جس کے کان نہیں تھے یا کچھ ایسا ہی ، تو وہ اسے فوراً ہی پہچان لیتا ۔ میں کام کے اوقات کے بعد بھی فیکٹری میں ہی رہتا اور اپنے لیے عجیب شکلوں والے پائپ بناتا اور انہیں یوں گھماﺅ دیتا جیسے سانپ کنڈلی مار کر بیٹھتے ہیں اور بھر میں ان میں کنچے اور بنٹے لُڑھکاتا رہتا ۔ مجھے یہ پتہ ہے کہ ایسا کرنا فضول حرکت کے مترادف تھا اور یہ کہ مجھے اس میں کوئی لطف بھی نہیں آتا تھا ، لیکن میں یہ کام کرتا رہا ۔
ایک رات میں نے ایک پائپ بنایا جو واقعی میں خاصا پیچیدہ تھا ۔ اس میں کئی گھماﺅ اور موڑ تھے اور جب میں نے اس میں کنچے ڈالے تو یہ پائپ کے دوسرے سرے سے باہر نہ نکلے ۔ میں نے پہلے تو یہ سوچا کہ یہ بیچ میں کہیں اٹک گئے تھے لیکن جب میں نے اس میں لگ بھگ بیس کنچے اور ڈال کر دیکھے تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ سب کے سب بھی اندر جا کر غائب ہو گئے تھے ۔ مجھے معلوم ہے ، کہ میں جو بھی کہہ رہا ہوں وہ احمقانہ بات ہے ۔ میرا مطلب ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ کنچے یا بنٹے یوں غائب نہیں ہو سکتے ، لیکن جب میں نے دیکھا کہ کنچے پائپ کے ایک سرے سے اندر تو جاتے ہیں لیکن دوسرے سرے سے باہر نہیں آتے، تو یہ مجھے عجیب نہ لگا ۔ مجھے یہ بالکل ٹھیک ہی لگا ۔ اور یہ تب ہی ہوا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ، اپنے لیے، اسی شکل کا ایک اتنا بڑا پائپ بناﺅں کہ جس میں میں خود بھی رینگ کر جا سکوں اور تب تک رینگتا رہوں تاوقتیکہ غائب نہ ہو جاﺅں ۔ مجھے جب یہ خیال آیا تو میں اتنا خوش ہوا کہ میں اونچی آواز میں ہنسنے لگا ۔ میرا خیال ہے کہ یہ میری ساری زندگی میں پہلا موقع تھا جب میں نے یوں کھل کر قہقہہ لگایا ۔
اس دن سے میں نے اپنے اس دیو قامت پائپ پر کام شروع کر دیا ۔ میں ہر شام اس پر کام شروع کر دیتا اوراور صبح ہوتے ہی میں اس کے ٹکڑے گودام میں چھپا دیتا ۔ مجھے اسے مکمل کرنے میں بیس دن لگے ۔ آخری رات میں نے اسے پانچ گھنٹے لگا کر جوڑا تو اس نے ورکشاپ کا آدھا حصہ گھیر لیا ۔
اور جب میں نے اسے مکمل حالت میں اپنا منتظر دیکھا تو مجھے ۔ سماجی علوم کا اپنا وہ استاد یاد آیا جس نے ایک بار کہا تھا کہ دنیا میں جس انسان نے سب سے پہلے لٹھ استعمال کیا تھا وہ اپنے قبیلے کا سب سے طاقتور یا ہوشیار بندہ نہیں تھا ۔ بس ایسا تھا کہ باقیوں کو اس کی ضرورت نہیں تھی ، جبکہ اس کو تھی ۔ اسے اپنی بقاء کے لیے لٹھ کی ضرورت سب سے زیادہ تھی تاکہ اپنے کمزور ہونے کا مداوا کر سکے ۔ میرا خیال ہے کہ دنُیا میں میرے علاوہ کوئی اور نہیں ہوگا جسے مجھ سے بڑھ کر یہ چاہ ہو کہ وہ غائب ہو جائے ۔ اور یہی وجہ تھی کہ یہ میں ہی تھا جس نے یہ پائپ ایجاد کیا ۔ میں نے ، اس ذہین انجینیئر نے نہیں جس کے پاس کالج کی ٹیکنیکل ڈگری تھی اور جو فیکٹری چلاتا ہے ۔
میں نے پائپ میں رینگنا شروع کیا ۔ مجھے کوئی اندازہ نہ تھا کہ دوسرے سرے تک پہنچنے کے حوالے سے میں کیا توقع کرتا ۔ شاید وہاں ایسے بچے ہوتے جن کے کان نہ ہوتے اور وہ کنچوں اور بنٹوں کے ڈھیروں پر بیٹھے ہوتے ۔ یہ ہو سکتا تھا ۔ مجھے صحیح طور پر معلوم نہیں ہے کہ جب میں پائپ کے اندر ایک خاص جگہ سے آگے بڑھا تو میرے ساتھ کیا واردات پیش آئی تھی لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ میں اب یہاں ہوں ۔
میرا خیال ہے کہ میں اب ایک فرشتہ ہوں ۔ میرا مطلب ہے کہ اب میرے پر ہیں اور میرے سر پر ایک دائرہ ہے اور یہ بھی کہ یہاں میرے جیسے سینکڑوں اور بھی ہیں ۔ اور جب میں یہاں پہنچا ہوں تو وہ پہلے سے ہی یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور کنچوں اور بنٹوں سے کھیل رہے ہیں ، حالانکہ میں اس پائپ میں کچھ ہفتے پہلے گھسا تھا ۔
میں نے ہمیشہ ہی یہ سوچا ہے کہ جنت ایک ایسی جگہ ہے جس میں لوگ ہمیشہ کے لیے نیک زندگی گزارتے ہوں گے ، لیکن ایسا نہیں ہے ۔ خدا بہت ہی رحیم اور شفیق ہے جس نے یہ فیصلہ کیا ۔ جنت تو بس ایک ایسی سیدھی سادھی جگہ ہے ، ان لوگوں کے لیے ، جو واقعی میں زمین پر خوش نہیں رہ سکے ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں کچھ لوگ ہیں جوخود کو مار کر یہاں آئے انہیں واپس بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ پھر سے واپس جا کر اپنی زندگی دوبارہ جی سکیں ۔ درحقیقت وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں پہلی بار اپنی زندگی پسند نہیں آئی تھی تو یہ ضروری نہیں کہ وہ دوسری بار بھی ا سے ناپسند کریں ۔ لیکن وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا میں کہیں بھی فِٹ نہیں ہو سکتے ، انہیں تو یہیں رہنا ہے ۔ اور ان کے پاس جنت تک پہنچنے کے لیے اپنے اپنے راستے ہیں ۔
یہاں وہ پائلٹ بھی ہیں جو ’ برمودا تکون ‘ پر پھندوں کی شکل میں اڑان بھرتے ایک خاص مقام پر پہنچ کر غائب ہوئے اور یہاں پہنچے ۔ یہاں ایسی گھریلو خواتین بھی ہیں جو اپنے باورچی خانوں کی الماریوں میں سے گزر کر پار ہوئیں اور یہاں پہنچ گئیں ۔ اور تو اور یہاں ایسے ریاضی دان بھی ہیں جنہوں نے خلاء میں ’ مقاماتی بگاڑ ‘ دیکھے اور ان میں سے گزرتے ہوئے یہاں آن پہنچے ۔ اور اگر آپ ، نیچے ، دنیا میں واقعی ناخوش ہیں اور آپ کو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ شدید قسم کے ” عارضہ ِادراک ِ علم “ کا شکار ہیں ، تو یہاں پہنچنے کے لیے اپنا راستہ ڈھونڈیں اور جب یہ آپ کو مل جائے تو مہربانی کریں ، اپنے ہمراہ تاش کی کچھ گڈیاں ضرور لائیں کیونکہ ہم کنچوں اور بنٹوں سے کھیل کھیل کر خاصے اُکتا چکے ہیں ۔ #
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایٹگر کیرٹ (Etgar Keret ) پر ایک نوٹ
کیا آپ حالیہ سالوں میں کبھی پولینڈ گئے ہیں ؟ اگر گئے ہیں تو وارسا ضرور گئے ہوں گے اور اگر آپ کو فن تعمیر ’ آرکیٹیکچر ‘ میں ذرا سی بھی دلچسپی ہے تو اس شہر کے قدیمی حصے نےآپ کی توجہ اپنی طرف ضرور مبذول کرائی ہو گی جہاں 16 ویں صدی سے بھی پہلے کی عمارات ، دیگر کے ساتھ موجود ہیں ۔ لیکن اگر آپ میرے ساتھ اس شہر کی 22 Chłodna سٹریٹ اور 74 Żelazna سٹریٹ پر چہل قدمی کریں تو آپ جان لیں کہ ہم اس علاقے میں گھوم رہے ہیں جہاں دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی کا قبضہ تھا ، بلکہ اس وقت تو پورا پولینڈ ہی اس کے چنگل میں تھا ۔ وارسا کی ان دو گلیوں کے درمیان آپ کو دنیا کا سب سے چھوٹا اور تنگ ترین گھر بنا نظر آئے گا جس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی لگ بھگ پانچ فٹ اور کم سے کم چوڑائی لگ بھگ تین فٹ ہے ۔ اس گھر کا آہنی ڈھانچہ دو منزلہ ہے اور اس میں ایک بیڈ روم ، ایک باورچی خانہ ، ایک باتھ روم اور بیٹھنے کے کچھ جگہ ( لیونگ سپیس ) ہے ۔ اسے آرکیٹکٹ جیکب ’ Jakub Szczęsny ‘ نے 2012 ء میں ڈئیزائن کیا اور بنایا تھا ۔ یہ وارسا کے ” تعمیراتی کوڈ “ کے مطابق نہیں ہے البتہ اسےآرٹ کے ایک نمونے ” art installation “ کا درجہ حاصل ہے ۔ اسے 2019 ء میں ” کیرٹ ہائوس “ کا نام دیا گیا کیونکہ اس کے بننے کے بعد اس میں رہنے والا سب سے پہلا کرایہ دار اسرائیلی ادیب ( افسانہ نگار ، گرافک ناول نگار اور فلم سکرپٹ رائیٹر ) ایٹگر کیرٹ تھا ۔
ایٹگر کیرٹ ، 20 ، اگست 1967 ء کو ، تل ابیب کے علاقے ’ رمت گین‘ میں پیدا ہوا ۔ اس کے پولش والدین ’ افریم کیرٹ ، اورنا کیرٹ ‘ جرمن ’ ہولوکوسٹ‘ سے بچ نکلے اور اسرائیل کے بننے کے بعد اس میں آ کر آباد ہوئے تھے ۔ وہ ان کا تیسرا بچہ ہے اور سیزیرین ہے ، بقول اس کے اپنے ، اس کے نام کا مطلب ’ اربن چیلنج ‘ ہے ؛ کیرٹ مطلب شہر اور ایٹگر مطلب چیلنج ۔ اور ایسا بتاتے ہوئے وہ قہقہہ لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نام کے ساتھ اسرائیل میں ، جہاں بینجمن نیتن یاہو کی حکومت ہے ، رہنا ایک مشکل کام ہے ۔ کیرٹ کا خاندان اسرائیلی سوسائٹی کے اس امتزاج کا مظہر ہے جس میں دائیں اور بائیں بازو کی انتہا پسندیوں کے علاوہ روشن خیالی بھی موجود ہے ۔ اس کا سب سے بڑا بھائی ایک بائیں بازو کا انتہا پسند انارکسٹ ہے اور اس تحریک کا ایک بڑا آگو ہے جو ’ ماریجوانا ‘ کو اسرائیل میں قانونی قرار دینے کے لیے چل رہی ہے ۔ اس کی بہن ایک انتہا درجے کی آرتھوڈوکس یہودن ہے جس کے گیارہ بچے ہیں اور وہ یروشلم میں رہتی ہے ۔ اِس سب کے بارے میں کیرٹ کا یہ کہنا ہے کہ وہ تینوں بہن بھائی مِل کر ایک خوش باش اسرائیلی خاندان کی طرح رہتے ہیں ۔
وہ تل ابیب یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہے اور تل ابیب یونیورسٹی اور بن ۔ گروین یونیورسٹی میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہے ۔ اس کے پاس اسرائیل کے علاوہ پولینڈ کی بھی شہریت ہے ۔ اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ” Tzinorot “ ( پائپ لائنز ) کے نام سے 1992 ء میں سامنے آیا لیکن اس کی اصل پہچان اس کی کہانیوں کے دوسرے مجموعے ” Ga'agu'ai le-Kissinger “ ( مِسنگ کیسنجر ) سے قائم ہوئی ۔ یہ 1994 ء میں شائع ہوا تھا ۔ 1998 ء میں اس کا ایک اور مجموعہ ” Hakaytana Shel Kneller “ ( نیلر کی خوش باش خیمہ زنیاں ) سامنے آیا ۔ اور تب سے اب تک اس کی کہانیوں کے لگ بھگ دس مجموعے شائع ہو چکے ہیں ہیں جن میں آخری 2019 ء میں ” Fly Already“ (תקלה בקצה הגלקסיה ؛ کہکشاں کے کنارے پر موجود نقص ) ہے ۔ اس کتاب کے انگریزی ترجمے نے نیشنل جیوئش ایوارڈ برائے فکشن بھی حاصل کیا ۔ اس کے گرافک ناول ، فلموں کے سکرپٹ ، بچوں کے لیے لکھے گئے کومکس اور کہانیاں ان کے علاوہ ہیں ۔ اس کی یادداشتوں مبنی ایک کتاب ' سات اچھے سال ' ( The Seven Good Years ) بھی 2015 ء میں سامنے آ چکی ہے ۔
وہ ادب میں ڈگلس ایڈمز ، کافکا ، کرٹ وونیگٹ ، ولیم فالکنر سے متاثر ہے جبکہ فلموں کے حوالے سے ’ کوین برادرز‘ اور ٹیری گیلیئم نے اسے متاثر کیا ۔ وہ مختصر لکھتا ہے ، روزمرہ کی زبان ، سلینگ اور مقامی لہجے استعمال کرتا ہے اور اس کی زیادہ تر کہانیاں ’ سررئیل ‘ (surreal ) ہیں اور یہ قارئین کو تجسس میں مبتلا کرتی ہیں کہ اپنے اردگرد کی دنیائوں کو غور سے دیکھیں اور ان میں اور ان کے کناروں پر ہونے والی تبدیلوں کے امکانات اور مضمرات پر غور کریں ۔ کافکا کا اثر اس کی آخری کتاب ” Fly Already“ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں ایک باپ خرگوش میں بدل جانے کے بعد نئی زندگیوں کے سفر پر نکلتا ہے شاید ویسے ہی جیسے کافکا کا ’ گریگور سمسا ‘ یا شاید کسی اور انداز میں ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے آپس کی بات ہے ایٹگر کیرٹ نے خرگوش بھی پال رکھے ہیں ، کافکا نے بیٹل پالے تھے یا نہیں یہ بات کھوج طلب ہے ۔ نقاد کیرٹ کی کہانیوں کو ” Parables of Anarchy “ کا بھی نام دیتے ہیں ۔
اس کا اپنی کہانیوں کے بارے میں یہ کہنا ہے ؛
" ۔ ۔ ۔ ۔ یہ میرے لاشعور کی گہرائیوں سے ابھرتی ہیں ۔ میں انہیں پہلے سے نہیں سوچتا ۔ مجھے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان میں کیا ہو گا ۔ اور پھر جب کہانیاں لکھی جا چکی ہوتی ہیں اور میں ان کا مجموعہ ترتیب دینے کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں یہ کہانیاں لکھتے سمے کہاں تھا ، کونسی شے میرے لیے الجھن کا باعث تھی اور اس کے بارے میں میرا تجربہ کیا تھا ۔ ۔ ۔ یہ کہانیاں جو میں برس ہا برس سے لکھ رہا ہوں کا میرے ادیب بننے کے فیصلے سے بالکل نہیں ہے ۔ یہ میرا reflex ہے جس پر میں قابو نہیں پا سکتا ۔ ۔ ۔ ۔ "
کیرٹ نے شیرا گیفن سے شادی کی اور ان کا ایک بیٹا ہے ۔ شیرا گیفن فلم سازی میں بھی اس کی ہمسفر ہے ۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ہمراہ تل ابیب میں رہتا ہے ۔ وہ اس وقت 53 برس کا ہے ۔ صہونیت کا سخت مخالف ہے اور دائیں بازو کے انتہا پسند یہودی سیاست دانوں کی تنقید کا نشانہ بنا رہتا ہے ۔ اور تو اور جب اس کی کہانیاں ہائی سکولوں کے نصاب کا حصہ بنائیں گئیں تو اسے دائیں بازو کے انتہا پسند یہودی اساتذہ کے مظاہروں کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا ۔
میں نے بات شروع کی تھی ” کیرٹ ہائوس “ سے تو اسی پر بات ختم بھی کرتے ہیں ۔ ایٹگر کریٹ اس ” art installation “ کے بارے میں کہتا ہے ؛
" ۔ ۔ ۔ میں نے اس میں رہنا اس لیے چُنا تھا کیونکہ مجھے لگا کہ یہ میرے لیے ایک ایسی یادگار ( میموریل ) ہے جو میرے خاندان کے لیے ہی بنائی تھی ۔ ۔ ۔ میرے والدین کے خاندان کے لیے ، جو دوسری جنگ ِ عظیم میں ، پولینڈ پر نازی قبضے ، کے دوران مارے گئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ "
اور ایٹگر کریٹ کی کہانیاں/ افسانے/ افسانچے بھی اختصار میں ” کیرٹ ہائوس “ کی طرح ہی کم حجم رکھتے ہیں لیکن ان کا ڈھانچہ دو منزلہ نہیں کئی منزلہ ہوتا ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
درج بالا افسانچہ ایٹگر کریٹ ( Etgar Keret ) کی پہلی تحریر تھی جو اس نے 19 سال کی عمر میں تب لکھی ، جب وہ اسرائیل کی لازمی فوجی سروس کے تحت ایک فوجی آپریشن کوڈ نیم ” Quasimodo“ کے دوران ، اٹیمی بم کے دھماکے سے بچاﺅ کے لیے زیر زمین بنے ایک قدیمی پناہ گاہ ، جس میں کوئی کھڑکی نہ تھی ، میں 48 گھنٹے کی ایک لمبی شِفٹ میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا ڈیوٹی دے رہا تھا ۔
یہ افسانچہ 1992ء میں پہلی بار اس کی کہانیوں / افسانوں کے مجموعے، جس کا نام بھی اسی افسانچے کے نام پر تھا ، میں شائع ہوا تھا ۔ یہ اس کتاب کے علاوہ ایٹگر کریٹ کی کہانیوں کے انگریزی مجموعے ’ The Bus Driver Who Wanted To Be God & Other Stories ‘ میں بھی شامل ہے یہاں یہ ’ Pipes ‘ کے نام سے ہے ۔ یہ مجموعہ 2004 ء میں شائع ہوا تھا ۔
نیا ہندوستان پرانا مسلمان
نیا ہندوستان پرانا مسلمان تاثرات: شہرام سرمدی (پیش لفظ: شہرام سرمدی کے اس تبصرے کا یہ خطرناک اور عبرت ناک...