پائپ (اسرائیلی کہانی) ایٹگر کیرٹ/منور آکاش
جب میں سکول کے ساتویں درجے میں پہنچا، سکول والوں نے ایک ماہر نفسیات کو بلایا اور ہمیں ایک طرح کی ترتیب وار ذہنی مشقوں سے گزارا۔ اس نے مجھے تاش کے بیس مختلف پتے باری باری دکھائے اور کہا بتا
ؤ ان تصویروں میں کیا غلط ہے؟ مجھے وہ سب ٹھیک دکھائے دئیے مگر وہ مُصر رہا اور پہلی تصویر دوبارہ دکھائی۔ اس میں ایک بچہ تھا ”اس تصویر میں کیا خرابی ہے؟“ اس نے ایک تھکی ہوئی آواز میں کہا۔ میں نے اسے بتایا مجھے یہ تصویر ٹھیک لگ رہی ہے۔
وہ غصہ ہو گیا اور کہا ”کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا اس تصویر میں جو لڑکا ہے اس کے کان نہیں ہیں“۔ سچ یہ ہے کہ جب میں نے تصویر کو دوبارہ دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ واقعی لڑکے کے کان نہیں ہیں لیکن تصویر اب بھی ٹھیک معلوم ہو رہی تھی۔ ماہر نفسیات نے مجھے نفسیاتی عارضے والے بچوں کی اس قسم میں تقسیم کیا جو چیزوں کی ٹھیک سے پہچان نہیں کر سکتے۔ اور مجھے ہاتھ سے کام سیکھنے والے سکول میں تبادلہ کر دیا گیا۔ جب میں یہاں پہنچا تو میں نے شکایت کی کہ مجھے لکڑی کٹنے سے پیدا ہونے والے برادے سے الرجی ہو رہی ہے تو انہوں نے میرا تبادلہ دھاتی کام والی جماعت میں کر دیا۔ میں اس میں کافی اچھا رہا مگر میں اس سے زیادہ لطف اندوز نہ ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ خاص طور پر میں کسی بھی چیز سے لطف اندوز نہ ہوا۔ جب میرا سکول ختم ہوا۔ میں نے ایک کارخانے میں کام شروع کر دیا۔ جہاں پائپ بنائے جاتے تھے۔میرا باس ایک انجینئر تھا جس نے تکنیکی مہارت کے ایک اعلیٰ کالج سے ڈپلومہ حاصل کیا ہوا تھا۔ ایک ذہین آدمی اگر آپ اسے کسی ایسے بچے کی تصویر دکھا دو جس کے کان نہ ہوں یا کچھ اسی طرح کا وہ ایک لمحے میں اس کی نشاندہی کر دے گا۔
کام کے بعد میں کارخانے میں ہی رہتا اور اپنے لیے ٹیڑھے میڑھے پائپ بناتا رہتا۔ وہ پڑے رہتے اور ہوا سے ہلتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے سانپ رینگ رہے ہوں۔ میں چھوٹی چھوٹی پتھر کی گولیاں ان پائپوں میں سے گزارتا رہتا۔ میں جانتا ہوں ایسا کرنا ایک بے کار عمل تھا اور میں اس سے لطف اندوز نہیں ہوتا تھا مگر کسی نہ کسی طرح میں ایسا کرتا رہا۔
ایک رات میں نے ایک پائپ بنایا جو بہت پیچیدہ تھا۔ وہ بہت ساری جگہوں سے دوہرا اور مڑا ہوا تھا۔ اور جب میں نے اس میں پتھر کی گولی لڑھکائی وہ دوسری طرف سے باہر نہ آئی۔ پہلے تو میں نے سوچا شاید وہ درمیان میں کہیں پھنس گئی ہے مگر اس کے بعد میں نے بیس کے قریب گولیاں اور ڈالیں تو مجھے احساس ہوا کہ گولیاں غائب ہو رہی ہیں۔ مجھے معلوم ہے جو کچھ میں نے کہا بڑا احمقانہ بات لگتی ہے۔ میرا مطلب ہے ہر کوئی جانتا ہے کہ گولیاں غائب نہیں ہو سکتیں مگر جب میں نے گولیوں کو ایک طرف سے اندر جاتے دیکھا اور وہ دوسری طرف کے سوراخ سے باہر نہیں آئیں تو مجھے یہ زیادہ عجیب نہ لگا۔
دراصل مجھے یہ بالکل ٹھیک لگا۔ پہلی وجہ یہ تھی میں نے اسی شکل کا ایک بڑا پائپ بنانے کا فیصلہ کیا اور سوچا میں رینگتا ہوا اس پائپ میں داخل ہوں گا جب تک کہ میں غائب نہ ہو جا
ؤں۔ جب یہ خیال مجھے سوجھا میں اتنا خوش ہوا کہ میں نے زور زور سے قہقہے لگانا شروع کر دئیے اور شاید میری تمام زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے قہقہ لگایا۔
اسی دن سے میں نے اپنے بڑے پائپ کی تیاری شروع کر دی۔ صبح کو میں سٹور روم سے ٹکڑے اٹھا کر چھپا دیتا اور ہر شام اس پر کام کرتا۔ اس کام کو مکمل کرنے میں مجھے بیس دن لگے اور آخری رات اس کو جوڑنے میں مجھے پانچ گھنٹے لگے اور اس نے دکان کے صحن کا آدھا حصہ گھیرا ہوا تھا۔ جب میں نے اسے یکتائی میں دیکھا ۔ میں نے دیکھا کہ یہ اب مکمل ہے اور میرے انتظار میں ہے مجھے میری سماجی علوم کی استانی یاد آئی جس نے ایک بار کہا تھا۔ وہ پہلا انسان جس نے اجتماع کا لفظ استعمال کیا۔ قبیلے کا طاقتور ترین انسان نہیں تھا، مگر چالاک تھا۔ انہیں اس وقت اجتماع کی ضرورت نہیں تھی جب انہوں نے اس کا استعمال سیکھا۔ انہیں کسی اور کے لئے اس کی ضرورت تھی۔ ان کی بقاءکے لئے اور جو کمزور ہیں، انہیں اوپر اٹھانے کے لئے۔ میرا نہیں خیال کہ پوری دنیا میں کوئی بھی ایسا انسان ہو گا جو غائب ہونے کے لئے اتنا پرجوش ہو گا جتنا کہ اس وقت میں۔ اور اسی لئے میں نے یہ پائپ ایجاد کیا۔ اور میں کوئی ذہین انجینئر نہیں ہوں جس نے تکنیکی مہارت کے کالج سے ڈپلومہ حاصل کیا ہوا ہو اور جو ایک کارخانہ چلاتا ہو۔
میں نے پائپ میں رینگنا شروع کر دیا۔ اس خیال کے ساتھ کہ دیکھیں دوسرے سرے تک کیا متوقع ہے۔ شاید یہاں بغیر کانوں والے بچے ہوں جو گولیوں کے ڈھیر پر بیٹھے ہوں۔ ایسا ہو سکتا ہے مگر میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہو گا۔ جب میں پائپ کے اس خاص حصے سے گزروں گا، مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ میں اس وقت یہاں ہوں۔اس پائپ کے اندر۔
میرے خیال میں میں کوئی فرشتہ ہوں میرا مطلب ہے میرے پر نکل آئے ہیں اور اس دائرے میں جو اب میرے سر کے اوپر ہیں اور یہاں میرے جیسے سینکڑوں ہیں۔ جب میں یہاں پہنچا، میں نے دیکھا وہ دائرے میں بیٹھے ہیں اور گولیوں سے کھیل رہے ہیں۔ جنہیں میں نے کچھ ہفتے پہلے پائپ میں لڑھکایا تھا۔
میں سوچا کرتا تھا جنت وہ جگہ ہے اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی تمام عمر اچھائی کے ساتھ گزارتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔خدا اتنا مہربان اور رحم دل ہے۔ ایسا فیصلہ لینے میں، میرے خیال میں جنت وہ جگہ ہے ان لوگوں کے لئے جو حقیقی طورپر اس دھرتی پر ناخوش رہے۔ یہاں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ لوگ جنہوں نے خود کو قتل کر لیا تھا اپنی زندگیوں کی طرف پھر سے مکمل طور پر لوٹ آئے ہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ اس زندگی کو انہوں نے پہلی باری میں پسند نہیں کیا مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ انہیں دوسری بار بھی راس نہ آئے۔ مگر وہ لوگ جنہیں کبھی بھی دنیا راس نہیں آتی وہ اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ یعنی یہاں آ گئے۔ ہر کسی کا جنت پہنچنے کا اپنا اپنا راستہ ہے۔
یہاں آنے والے جہازوں کے پائلٹ ہیں جنہوں نے برمودا ٹرائیکون کے ایک خاص مقام پر اپنی صلاحیت میں سستی دکھائی، یہاں آنے والی گھریلو خواتین ہیں جو اپنے گھروں کے باورچی خانوں کی الماریوں سے ہو کر یہاں تک پہنچی ہیں اور وہ ریاضی دان ہیں جنہوں نے علم کی مدد سے بگاڑ تلاش کیا اور اس میں سے نچڑتے پھسلتے ہوئے یہاں پہنچ گئے۔ پس اگر آپ دھرتی پر ناخوش ہوں اور ہر طرح کے لوگ آپ کو کہتے ہیں کہ آپ چیزوں کو ٹھیک سے نہیں پہچان سکتے اور یہ ایک نفسیاتی مرض ہے، تو یہاں پہنچنے کے لئے اپنا راستہ ڈھونڈو اور اگر جب آپ اسے تلاش کر لو کیا آپ آتے ہوئے تاش کے پتے لا سکتے ہو کیونکہ ہم یہاں گولیوں سے خاصے اکتا چکے ہیں۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=649713331897049&id=619696841565365
“