کبوتروں کو دو الگ الگ پنجروں میں آمنے سامنے رکھا گیا تھا ۔ ایک پنجرے میں سفید کبوتر دوسرے پنجرے میں سرمئی کبوتر تھے۔
بے چین سفید کبوتر سرمئی کبوتر سے مخاطب ہوا ۔
” بھائی آپ لوگ کیسے پھنس گئے؟”
“پھنس نہیں گئے پھنسا لیے گئے ۔ سرمئی کبوتر اداس ہو کر بولا تھا۔
“وہ کیسے ؟ ”
سفید کبوتر پر تجسس لہجے میں سوال کر بیٹھا.
بات جاری رکھتے ہوئے سرمئی کبوتر نے کہا۔
” ویسے میں سمجھتا ہوں اس پھنسنے میں ہمارا زیادہ اور بنیادی قصور شامل تھا. ہمارے اوپر جوانی کی بے قابو مستی کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا .خیر میرے دوست! اپنا حال سناؤ. ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کر کے جی ہلکا کر لیتے ہیں.”
سفید کبوتر۔۔۔۔۔
” ہم نے بھی ہمارے بابا کی بات نہیں مانی کہا تھا انہوں نے۔ اپنے دائروں سے باہر مت نکلنا۔
سرمئی کبوتر۔۔۔” شروع سے بتاؤ. یہ سب کیسے ہوا ؟…..
سفید کبوتر خلا میں گھورتے ہوئے ماضی کے دھندلکوں میں کھونے لگا ۔
” وہ ایک حسین سرد کہر آلود صبح تھی. جب شب کی تاریکی میں ہولے ہولے نورانی ذرات لہر نما لکیروں میں تبدیل ہو رہے تھے۔ ہم سب اپنے گھونسلوں سے نکل کر غول کی صورت میں فضاؤں میں اڑتے ہوئے شرارتوں میں مشغول تھے۔ اڑتے اڑتے ہم اپنے دائروں سے باہر نکل گئے۔ اگتے ہوئے سورج کی چمکتی دھوپ کی طرح ہماری بھوک بھی روشن ہو چکی تھی۔ ہم نے دیکھا زمین پر ہیرے موتی کی طرح دانے جھلملا رہے تھے۔ میں نے تصور کیا کہ وہ دانے میرے جسم میں لہو بن کر گردش کر رہے ہیں۔ ساتھیوں سے کہا ۔
” آؤ میرے پیچھے۔”
” اور زمین کی طرف لپک گیا ہم سب دانوں پر بھوک کے مارے ٹوٹ پڑے. مگر چند لمحوں میں یہ انکشاف ہو گیا. کہ ہم فریبی ظالم جال میں پھنس چکے تھے.
سرمئی کبوتر کی اداس جذباتی آنکھوں میں ماضی کی نورانی دھاگے نما چمک نمودار ہوئی۔ وہ کہنے لگا۔
” وہ بھی کیا دن تھے ؟کیا آزادی تھی؟ کیا نخلستان تھا ؟ دراصل ہم لالچی ہو گئے تھے۔ ہمیں لگا کہیں اپنے نخلستان سے دور چلتے ہیں۔ الگ ماحول میں مٹرگشتی کر کے شام تک لوٹ آئیں گے۔ ہم بہت دور نکل گئے تھے۔ اپنی رینج سے دور۔۔۔ ہم نے پیڑوں کی شاخوں پر لٹکتے ہوئے پھلوں پر خوب چونچیں ماریں ۔ جی بھر کر کھایا ۔آوارہ گردی کرتے رہے۔ شدت کی پیاس کے مارے ہمارے گلے خشک ہو رہے تھے۔ میں نے دیکھا سونے جیسی دھوپ میں چاندی کی طرح چمکتا ہوا جھلملاتا روشن پانی ۔۔۔۔۔۔ میں نے خیالی دنیا میں جی بھر پانی پیا اور پروں کو پھڑپھڑایا تو جسم سے نکلنے والے چھینٹے بارش کی سرد بوندوں سا ملائم احساس دلانے لگے ۔
ساتھیوں سے کہا ,
“آؤ لپکو پانی پیتے ہیں۔”
مگر ۔۔۔مگر۔۔۔ اس کی روہانسی آواز اٹک اٹک کر گلے سے نکلی۔۔۔۔
” اگلے ہی لمحے ہمیں جال کے قیدی بننے کا احساس ہو چکا تھا .اتنا پھڑپھڑاۓ, کہ بے ہوشی طاری ہو گئی.
” آنکھیں کھلی تو ان پنجروں میں خود کو پائے ۔”
دونوں کبوتروں کی آنکھوں میں غم اور پچھتاوے کی نمی صاف دیکھی جا سکتی تھی.
کہانی کار علیم طاہر
___________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...