ضمیر اس کا بہت اچھا دوست تھا۔ وہ ہر معاملے میں بڑے بھائیوں کی طرح اس کی اصلاح کرتا تھا۔ ضمیر کی عقابی نظروں سے وہ کبھی بھی اوجھل نہ ہوا۔ ایک وقت آیا کہ ضمیر سے وہ یوں تنگ آ گیا جیسے غریب شوہر سے بیوی۔ لہذا، اس نے اپنے لیے ایک نیا پُل تعمیر کِیا۔ اسے ضمیر کی صحبت میں گھٹن ہونے لگی۔ آخر کب تک وہ اس حبس خانے میں کڑھتا۔ ضمیر کا اس کی پرواہ کرنا اس کے لیے دردِ سر بن گیا تھا۔ وہ خود کو قفس میں قید طوطے کی طرح سمجھنے لگا۔ جسے کھانے کے لیے عمدہ چُوری بھی دی جائے لیکن اس کی بھوک آزادی ہی ہوتی ہے۔
پس؛ وہ فیصلے کا دن آ گیا جب اس نے قفس توڑ دیا؛ ضمیر کو نیند کی گولی دے کر وہ صراط مستقیم سے بھٹک گیا اور اپنے بنائے پُل پر چلتے ہوئے اپنے دوست کی بہن کے ساتھ پینگ جھول لی۔ پینگ جھولتے ہوئے تھکاوٹ نے اسے اپنی گود میں لے لیا۔ اس نے سوچا اب گھر کی راہ لوں۔ گھر واپسی پر اس کے حواس جاتے رہے۔ جانے کیا سوچ کر وہ واپس ضمیر کے پاس لوٹا۔ جب گھر پہنچا تو تب تک ضمیر جاگ چکا تھا۔ نیند کی گولیوں کا جتنا اثر تھا وہ اب زائل ہو چکا تھا۔
اب اسے ضمیر کے کچوکوں سے بچانے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ ضمیر نے اس کے ہاتھوں، ٹانگوں اور پیٹھ پر درز مارا تو اسے احساس ہوا کہ واقعی ایک گناہِ کبیرہ سر زد ہو گیا ہے۔ تکلیف سے اس کی آہیں فضا کو چھلنی کر رہی تھیں۔ ضمیر نے اس سے وعدہ لیا کہ آئندہ وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا۔ کبھی بھی تاریک راہوں کا مسافر نہیں بنے گا۔ اس نے بھی وعدہ نبھانے کے لیے ہاتھ ملا لیا۔
آج اس واقعے کو مدتیں گزر چکی ہیں۔ اس کی ایک لمبی داڑھی ہے اور پنجگانہ نماز کا پابند ہے۔ ہاتھ میں ہر وقت تسبیح پھیرتا رہتا ہے۔ اور سوتے وقت بھی سر ننگا نہیں رکھتا۔ اور وہ دوست کی بہن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مختلف لڑکوں کے ساتھ پینگ جھولتی ہے۔
“