دوسرا مصرعہ قطعی بے محل نہیں لگے گا کہ ؎ ہم رھنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔۔آج کے باسی اس تصویر کو دیکھیں گے تو اسے ایک اجاڑ شہر قرار دیں گے۔شاید شہر بھی نہ کہیں ایک قصبہ کا نام دے دیں۔اپنی وسعت۔ آبادی اور گہما گہمی کے تناظر میں یہ تاثر کچھ اتنا غلط بھی محسوس نہ ہوگا۔۔لیکن حقیقت کا چہرہ بہت مختلف ہے
لاہور کے بعد پنڈی اس وقت پاکستاں کا دوسرا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور تہزیبی روایات کا حامل جدید شہر تھا۔یہ ڈبل ڈیکر تو بہت بعد کی بات ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ راولپنڈی میں سب سے پھلے پبلک ٹرانسپورٹ کا آغاز کس نے کیا تھا؟ شہریوں کو یہ سہولت انگریز کی قایم کردہ اس کمپنی نے فراہم کی تھی جو"راوالپنڈی الیکٹرک پاور کمپنی" کہلاتی تھی۔یہ کمپنی آج بھی چوک مریڈ حسن سے کچہری کی طرف آتے ہوۓ الٹے ہاتھ پر موجود ۔اس کی ظاہری صورت بھی نہیں بدلی۔صرف نام بدل گیا ہے۔اس کی سرخ رنگ کی بس کو میں نے 1948 میں 22 نمبر چونگی پر دیکھا جہاں اس کا اخری اسٹاپ تھا۔یہاں شہر ختم ہوجاتا تھا، بہت آگے دھمیال کا ایر فیلڈ تھا لیکن آبادی نہ تھی
اس بس میں خاکی وردی والے ایک کنڈکٹر کے گلے میں پرانے تیلی فون جیسی ایک مشین لٹکی نظر آتی تھی۔راجا بازار جانے کا ٹکٹ دو آنے اور صدر کیلۓ ایک آنہ تھا۔اس وقت ایک آنے اور دو آنے کے سکے بھی چلتے تھے۔ایک آنہ آج کے پانچ روپے والے سکے سے کچھ بڑا چمکتے سلور کا تھا اور اسکے کنارے بالکل گول نہ تھے بلکہ کٹاو والے تھے دو آنے کا سکہ ذرا بڑا گولڈن اور چوکور تھا جس کے کناروں کو کچھ گول کر دیا جاتا تھ۔ا۔ اس کی تصویریقینا کہیں مل جاۓ گی لیکن کچھ لوگوں کی یاد داشت میں بھی محفوظ ہوگی
اس بس میں خاکی وردی والے ایک کنڈکٹر کے گلے میں پرانے تیلی فون جیسی ایک مشین لٹکی نظر آتی تھی۔راجا بازار جانے کا ٹکٹ دو آنے اور صدر کیلۓ ایک آنہ تھا
اب خیال اتا ہے کہ 69 سال پہلے کی وہ مشین کتنی مڈرن اور کار آمد ایجاد تھی
ڈبل ڈیکر 1954 کے لگ بھگ متعارف کرایؑ گٰؑیؑ اور یہ "راولپنڈی اومنی بس سروس" کہلاتی تھی بس کے پچھلے دروازے سے زینہ اوپر جاتا تھا ۔ موڑ پرایک آیینہ ایسے زاویہ سے لگا ہوا تھا کہ نیچے کھڑا کنڈ کٹردیکھ سکتا تھا کہ اوپر کی منزل پرسے کویؑ مسافر اترنے کیلۓ اٹھا ہے ،دیگر روٹس تھے تو میرے علم میں نہیں لیکن ٹنچ بھاٹہ کے آخر میں مغل آباد سے دوبس روٹ شروع ہوتے تھے ۔4 نمبربس لیاقت باغ پر8 نمبر سے جدا ہوکے سیدھی مری روڈ پر چوک بنی تک جاتی تھی اور 8 نمبر فوارہ چوک راجا بازار کی طرف مڑ جاتی تھی۔ ۔میں اس وقت پنڈی میں نہیں تھا جب یہ بس سروس نامعلوم وجوہ کی بنا پر ختم کی گیؑ۔یہ نامعلوم وجوہ ہمیشہ زاتی مفادات ہوتے ہیں
عمر کا ایک طویل حصۃ۔ ؎ نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا۔۔ پھر گردش دوراں نے اسے وہیں پہنچادیا جہاں سے معاش کے سفر کا آغاز ہوا تھا ۔۔ بار دگر یادوں کے نگر کو دیکھاتو ۔ ؎ ۔نہ شاخ تھی نہ چمن تھا نہ آشیانہ تھا۔۔ کہیں کچھ بھی پہلے جیسا نہ تھا۔ ان گلیوں کی یاد نے بے کل کیا تو قدم از خود ٹنچ بھاٹہ کی طرف اٹھے۔ میں نے ایک اجنبی راستے کو اور اس راستے نے ایک اجنبی کو دیکھا تو کویؑ کسی کو پہچان نہ پایا۔کیا بتاتا اور کس کو بتاتا کہ میرے بچپن کا ہر دن ہنوز اسی بستی میں زندہ ہے ۔نیلام گھر والے طارق عزیز کے مطابق ٹنچ بھاٹہ ایشیا کا سب سے طویل بازار بن گیا ہے۔یہ انھوں نے نہیں بتایا تھا کہ اسے تنگ ترین بازار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے
مجھے احساس ہوا کہ یہان گاڑی لاکے میں نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔۔ چھوٹی چھوٹی دکانوں کا ایک گنجان سلسلہ تھا جس میں تمام پرانی نشانیاں گم ہوگیؑ تھیں اور اجنبی لوگوں کا ایک جم غفیر ہر طرف رواں دوان تھا آتی جاتی ٹریفک جگہ کی تنگی کے باعث پھنسی ہویؑ تھی، بری مشکل سے کسی نے راہنماٰیؑ کی تو میں ایک گلی میں گھس گیا جس کا اختتام کچی دیوار والے ایک قبرستان میں ہوا۔ یہاں سے کار کو واپس مورا جا سکتا تھا۔سانس لے کر غور کیا تو یاد آیا کہ اس مختصر شہر کموشاں کی باقی رہ جانے والی گنی چنی قبروں میں ہی میری ایک بہن کو بھی 1950 میں دفن کیا گیا تھا۔۔یہ 2003 تھا۔ کچھ عجب نہیں کہ اس وقت 53 سال بعد آنے والے بھایؑ نے اپنی گاڑی اسی کے مدفن پر کھڑی کردی ہو
واپسی کا سفرنیرنگیؑ مسافت دوران پر غور کرنے سے زیادہ یہ سوچتے گزرا کہ یا اللہ ۔۔۔ وہ کیا طلسم تھا کہ جس راہ پر اب دو گاڑیاں امنے سامنے سے گزر نہیں پارہیں اس پر سے دومنزلہ بس ایک دوسرے کو کیسے کراس کر جاتی تھیں۔۔ یہ ناجایز تجاوزات کا شاخسانہ تھا۔۔غیر قانونی طور پر اپنے لےؑ جگہ گھیرنے کی سزا تھی کہ ایک کشادہ سڑک سمٹ کر۔ایشیا کا سب سے طویل بازار بن گیؑ تھی۔۔ہا ہا ہا۔۔ ہمارے پردادا کا پودینے کا باغ تھا۔۔تین میل لمبا۔۔۔اچھا؟اور چوڑا کتنا تھا؟۔۔یہی کویؑ۔۔۔چھ انچ۔۔
شہر میں ویگنوں کا راج تھا جن کیلۓ قانون ایک کھلونا تھا اورمسافر وہ یرغمالی جن کے لۓ سفر ایک سزاتھی۔صدر میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کا شاندار ہیڈ افس"واران" بس سروس" کی ملکیت ہو گیا تھا جس کی مالک جنرل حمید گل اف آیؑ ایس آیؑ فیم کی بیٹی عظمیٰ گل بتای جاتی تھیں۔ ایک واقعہ اخباروں کی زینت بنا کہ واران کی بس نے پولی ٹیکنک کے کسی طالب علم کو روند دیا ۔مشتعل طلبا نے بس پر پتھراو کیا اور سے نقصان پہنچایا۔مالکان کے اشارے پر دوسری بس میں "واران" کا عملہ اورمبینہ طور پر کچھ غنڈے سوار ہوکے پولی ٹیکنک پہینچے اورظلباؑ پر وحشیانہ تشدد کیا پولیس نے مالکان کے اشارے پر بہٹ سے طلبا کو تھانے میں بند کرکے ان کے خلاف مقدمات بنادۓ۔جب اس پر وکلا طلبا اور پریس کا احتجاج سامنے آیا توعظمیٰ گل نے یہ کہہ کے مقدمات واپس لےؑ کہ مجھے ان پر رحم آگیا ہے ان کا کیریر تباہ ہو جاتا،کہا جاتا ہے کہ یہ سروس اس وقت بند ہویؑ جب "واران" نے اجارہ داری کیلۓ ویگنوں کو روٹ سے ہٹانے کی کوشش کی۔اس کوشش کو عدالت نے ناکام کیا لیکں اس کی سزا شہریوں کو ملی۔واران بند کردی گیؑ۔کسی کو معلعم نہیں کہ کروڑوں روپے کی لاگت اور قرض سے آنت والی بسیں کہاں گییں۔ صدر کے مرکز میں عہد رفتہ کی داستان عبرت سنانے کیلۓ سابق گورنمنٹ سروس کی شاندار عمارت ویران پڑی کھنڈر ہو رہی ھے۔۔باقی ہے اللہ کا نام
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1062660517149299