پنڈی اور مری کا نام اب ساتھ ہی لیا جاتا ہے۔۔ تاریخ میں مری کا نام اس وقت آیا جب سرد ملک سے آنے والے گورے حاکم نے بر صغیر میں طویل عرصہ قیام کی منصوبہ بندی کی۔۔شاید تاریخ اور تہزیب میں کیؑ صدیوں تک اپنی حاکمیت کو دوام دینا وہ خواب تھا جس کی تعبیراسے دست امکاں میں نظر آتی تھی،انتظامی اور سیاسی امور سے الگ ایک مسؑلہ اس ملک میں اپنے لۓؑ زندگی کو آسان بنانا بھی تھا ۔میدانی علاقوں کے موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ اور لو سے بچنے کیلؑے لوٹ کے وطن جانا اور سردیوں کی آمد تک حکومت کا انتظام معطل رکھبا ممکن نہ تھا چنانچہ اپنے ذہن رسا سے اس نے وہ خطے تلاش کۓ جہاں بیٹھ کے آرام کے ساتھ کاروبار سلطنت چلاۓ جا سکیں ا تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر۔۔ ہمارے شاعر مشرق کو یہ پیغام بہت بعد میں دینا تھا۔۔ انگریز نے ایک عارضی دارالحکومت شمال کے پہاڑوں کی بلندیوں پر بنالیا۔۔شملہ۔۔مسوری ۔۔۔ ڈلہوزی۔۔اور مری اسی مقصد کے تحت آباد کۓ گےؑ اور ہل اسٹیشن یا سمر ہیڈ کوارٹرکہلاۓ۔۔ برٹش آرمی کی ناردرن کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر شاید 1853 میں راولپنڈی بنا تو مری کو موسم گرما کے مرکز کی حیثیت دی گیؑ۔حیرت ہے کہ ذاتی عیش وؑعشرت کیلۓ قلعے۔باغ اور محلات تعمیر کرنے اور حرم آباد رکھنے میں نام پیدا کرنے والے مسلمان حکمرانوں کو یہ خیال نہیں ایا۔۔ نہ کسی وزیر باتدبیر نے صلاح دی۔۔ انہوں نے کبھی پہاڑ پر جا نےکی زحمت کی تھی ،،نہ یورپی اقوام کی طرح سمندر میں اتر کے دیکھا تھا کہ ۔۔ کناروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔شاید مورخ اس کی تاویل یوں پیش کرے کہ مغل غکمران دارالحکومت سے دور جاتتے ہوۓ اس اندیشے کا شکار ہوتے تھے کہ ان کی عد موجودگی میں کوٰیؑ اورنگ زیب جیسا فرزند ارجمند تخت پر قابض ہوکے انہیںں شاہجہاں کی طرح مرنے کیلۓؑ کسی قلعے کے مینار میں قید نہ کردے۔۔انگریز حاکم کو یہ ڈر کیوں ہوتا
پنڈی کے بعد مری یوں ایؑ جیسے شریک حیات کے بعد بقول شاعر۔۔ ؎۔ منکوحہ آید بہ تانگہ داشتہ آید بکار۔۔آزادی ملنے کے بعد انگریز کے نقش قدم پر چلنے کو اہنی شان سمجھنے والے کالے صاحب نے بھی یہ چلن قایم رکھا اور مری کو پنجاب حکومت کا سمر ہیڈ کوارٹر رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔ مری میں گورنر ہاوس تھا اورنتھیا گلی میں تو گورنر جنرل ہاوس بھی رہا،،حکمرانون کی منظور نظر ہویؑ تو مری کاروپ نکھرتا گیا اور جب علامہ صاحب نے فرمایا کہ ؎ کیوں حاکم و محکوم میں حایل رہیں ہردے۔۔ تو انار کلی کوٹھے پر آگیؑ۔۔ اگر آپ پہچان لیں تو ایک تصویر میں ایک صدی سے بھی پہلے کی مری اپنے تاریخی پوسٹ آفس کے ساتھ نظر آرہی ہے،یہ تصویر 1912 کی ہے
م مری کا جو حال آج ہے پہلے نہ تھا۔۔۔۔ آج مری تک ریلوے لاین تو بچھایؑ جا رہی ہے لیکن اس ٹمبر مافیا کو روکنے کی تدبیر کویؑ نہیں جو اس کی ہزار رنگ رکھنے والی ہریالی کا ملبوس تار تار کر کے اپنے خزانے بھرنے میں شب و روز سرگرم ہے ۔مری جاتے ہوۓ آپ کو جگہ جگہ اس کا پیرھن یوں چاک چاک دکھایؑ دے گا جیسے کسی لاوارث نازنیں کے بے رحمی سے نوچے جانے والے ملبوس میں سے بدن کے زخم فریاد کناں نظر آییؑں مری تک دو رویہ سڑک پر اتنا زیادہ ٹریفک جام رھنے لگا تھا کہ بین الاقوامیعیار کی ایک موٹر وے بنادی گیؑ جس پر جدید گاڑیاں سو ڈیڑھ سو میؒل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی جھیکا گلی پہننچ سکتی ہیں۔مری میں اب سردی گرمی اس سے کہیںں زیادہ سیاح اجاتے ہیں جتنے یہان سما نہیں سکتے
مجھے اندازہ نہیں کہ مری کو "ملکہؑ کوہسار" کا نام کس نے کب دیا تھا۔پنڈی سے آغاز ہونے واکے راستے گلیات کا آغاز گھوڑا گلی سے ہوتا ہے جہاں کا لارنس لالج اج بھی اپنی تاریخی نیک نامی کی روایات کا امین ہے،اس کے بعد ایبٹ اباد تک ایک اندازے کے مطابق 22 گلیات ہیں مثلا" جھیکا گلی۔۔نتھیا گلی۔۔ڈونگا گلی وغیرہ۔۔ اب بھی اکثریت مری سے 30 کلومیٹر دور نتھیا گلی کو مقابلہؑ حسن میں پہلے نمبر پر رکھتی ہے تو شاید غلط نہیں کرتی۔ ایک بار میں نے مری کے نواح میں "باڑیاں" سے نتھیا گلی تک تقریبا" 30 کلومیٹر کا نشیب وفراز والا راست ایک دوست کے ساتھ پیدل طے کیا۔۔وقت پیری شباب کی باتیں۔۔ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
جب آپ راولپنڈی سے کشمیر ھایؑ وے پر سفر کا آغاز کرتے ہیں تو آپ کوآج بھی پہلے سنگ میؒل پر "مری 62 کلومیٹر" کے ساتھ "سرینگر 231 کلومیٹر" بھی لکھا ہوا نظرآتا ہے ۔ اردو کے نامور ناول نگار مرحوم عزیزاحمد کے ناول "گریز" کو دس بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ان کا ناول "آگ" کشمیر کے کلچر کی تاریخ پر مستند ترین دستاویز ہے ۔اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ "سری نگر" سے عاولپنڈی تک "دھن بھایؑ جی" کے مسافر بردار تانگے براستہ کوہالہ مری چلتے تھے اور تین دن میں یہ فاصلہ طے کرتے تھے،راستے میں رات کومسافروں کے قیام کی جگہ تھی صبح گھوڑے بھی بدلے جاتے تھے تو سفر پھر شروع ہوتا تھا۔۔نیچے کی تصاویر میں آپ ایک تانگے کو سرنگ سے برآمد ہوتا دیکھ سکتے ہیں دریاۓ جہلم پرکوہالہ کا نیا پل آج پاکستان اور آزاد ریاست جموں و کشمیر کے درمیا حد فاصل ہے۔۔یہ پل اس سے قبل تیں بار طغیانی میں بہہ چکا ہے
اس راہ پر خطر پر سفر کو وسلہؑ طٖر بنانے والے مختلف وقتوں میں ہر قسم کی ٹرانسپورٹ پرانتہایؑ پر صعوبت حالات مٰں سفر کرتے رہے ہیں۔کبھی چھت پر تو کبھی اس دور کی جیپ سے مکھیوں کی طرح چمٹ کر۔ اس کا اندازہ آپ مختلف تصاویر سے کر سکتے ہیں۔ راستہ کتنا خطرناک تھا اور حادثات اکثر ہوتے تھے۔چند حادثات کی لرزہ خیز تصاویر بھی دیکھۓ
اس راستے پر پہلی بس سروس تقسیم سے قبل شروع ہونے والی"الاییڈ چراغ دین اینڈ سنز" جس کی 1930 ماڈل کی بسوں کو اب محض تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔۔جب ملک تقسیم ہوا اور کشمیر بھی دو لخت ہوگیا تو ان کی 8 بسوں کو سرینگر مٰں ضبط کرلیا گیا کیونکہ یہ ایک پاکستانی کمپنی تھی، ان کی بسیں راجا بازار سے چلتی تھیں۔۔ اس کے بعد "پنڈی مری ٹرانسپورٹ" نے سروس شروع کی ،ان کا سفر بھی راجا بازار سے شروع ہوتا تھا۔گورنمنٹ ٹرانسہورٹ سروس غالبا" 1960 سے قبل ہی شروع ہوچکی تھی ۔اپ کی دلچسہی کیلۓ ان کا کرایہ نامہ جو ہر بس میں آویزاں ہوتا تھا پیش ہے۔۔۔آج اس روٹ پر "ڈاییؑوو" کی جدید ترین بسوں کے ساتھ نۓ ماڈل کی ہایؑ ایس ویگنوں۔۔پراییؤیٹ تیکسیون اور "کیری ڈبہ" یعنی ہایؑ روف گاڑیوں کا اژدھام ہے۔پراییؑویٹ کاروں کا جم غفیر الگ ہے اور دسمبر جنوری کی برفانی سردی میں بھی رات رات بھر کا ٹریفک جام معمول کی بات ہے
جب انگریز کی عسکری قیادت نے پنڈی کو "شمالی ہایؑ کمان" کا مرکز بنایا تو رفتہ رفتہ سطح مرتفع پوٹھوہار کے اس چھوٹے سے شہر کی اہمیت ڑھ گیؑ اوراس کا مزاج کالونیل ہونے لگا۔آج 70 سال بعد بھی اس کے آثار معدوم نہیں ہوۓ لیکن مجھے پاکستان بننے کے فورا" بعد کا پنڈی یاد ہے جو اپنی معاشرت میں ایک چھوٹے ولایت کا نمونہ تھا۔نہ صرف چھاونی کی عمارات کے طرز تعمیر میں بلکہ انداز زندگی میں بھی۔۔میں نے کلب ٹایپ ریسٹورنٹ "سلور گرل" کا ذکر کیا تھا جہاں مخصوص لوگ نظر اتے تھے،ایک کونے میں خاصا بڑا پیانو تھا جو کویؑ برطانوی دور کا ریٹایرڈ پاکستانی افسر بڑی مہارت سے بجاتا تھا۔ریک پر 'ٹایم" لایف اور "پلے بواۓ" قسم کے رسالے موجود رہتے تھے اور ایک "جیوک باکس" تھا۔۔ریکارڈ بجانے کی جدید ترین ایجاد۔۔ شیشے کے ایک کیبنٹ میں سو کے قریب ریکارڈ ساتھ ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ اوپر لگے کیٹلاگ میں دیکھ کر اپنی پسند کا ریکارڈ منتخب کیجۓؑ۔۔ ایک درز یا 'سلاٹ' میں آٹھ انے کا سکہ ڈالۓ۔ اور دیکھےؑ کس طرح مشینی ہاتھ اس ریکارڈ کوقطار میں سے اٹھا کے 'ٹرن ٹیبل' پر رکھتا ہے اور دوسرا نازک سا ہاتھ ریکارڈ پر آتے ہی ھیت بجنے لگتا ہے۔۔اس کے ختم ہوتے ہی پہلا ہاتھ پھر حرکت میں اتا ہے اور اس ریکارڈ کو واپس اپنی جگہ رکھ دیتا ہے؟ کیا آپ میں سے کسی نےیاد ماضی ہوجانے والی اس مشین کو دیکھا؟ افسوس یہ ہے کہ میرے پاس اس پرانے 'سلور گرل' کی کویؑ تصویر نہیں اجو میں آپ کو دکھا سکوں
"شیزان" ریسٹورنٹ" آج کے جی پی آو کے عین مقابل تھا اور یہاں جو چاۓ اور کنفیکشنری ملتی تھی وہ کہیں نہ تھی لیکن اس سے لطف اٹانے والوں پر لازم تھا کہ وہ پتلوں یا سوٹ اور بوٹ میں ہوں۔۔شلوار یا پشاوری چپل میں آپ اندر نہیں جا سکتے تھے 1962 کے بعد ایوب خان کی اسمبلی کا اجلاس لال کڑتی کے قریب جی ایچ کیو اسٹدی سنٹر ہال میں ہوا تو چند معزز اراکین اسمبلی کو شیزان میں داخل ہونے سے روکا گیا کیونکہ وہ 'ڈریس' میں نہیں تھے۔۔اس پر استحقاق مجروح ہونے کا شور مچا تو یہ روایت ختم کی گیؑ
لیکن ایک اور خالص یورپ کی روایت موٹل کی تھی جس کا اب کوٰیؑ وجود ہے نہ سراغ۔بیشتر ہم وطن جن کو بیرون ملک جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔مو ٹل سے واقف نہیں ہوں گے ہوٹل ہی کی ایک صورت )ہے۔ جنرل صبیح قمرالزماں سابق چییؑرمیں اسٹیل مل کے والد کا کے ۔۔تھا۔انہوں نے مجھے "جسٹس امیر علی" GateMall" گیٹ میل موٹل" کی تاریخ سلام پڑھنے کو دی تھی اور ان کے بھایؑ ملیح قمرالزماں کا سوات میں ہوٹل تھا۔۔۔دوسرا تھا "کشمیر موٹل" اب 40 سال بعد میں واپس آیا ہوں تو کچھ یاد نہیں آتا کہ یہ کہاں تھے لیکن تھے کہیں مال روڈ کے قریب۔۔۔موٹل میں ایک دو اور تین کمروں کے رہایشی یونٹ تھے جہان کچھ صاحب ثروت لوگ اپنی فیملی کے ساتھ مستقل رہایش رکھتے تھے۔۔نہ جانے کیوں۔۔ ایساہی کرکٹر اینکر "پی جے میر" کے والد کا ریلوے اسٹیشن کے سامنے "میٹروپول" ۔۔ مال پر "فلیش مین" اور صدر میں مسز ڈیوس کا"پراییویٹ ہوٹل"تھے۔ ۔۔ہماری عدالتی تاریخ کا سب سے روشن ستارہ ضسٹس "اے آر کارنیلیس" مرتے وقت تک لاہور کے" فلیٹیز ہوٹل" میں رہے سنا ہے اس جگہ کو تاریخی قرار دے دیا گیا ہے۔ان کی کار بھی سپریم کورٹ میں قومی یادگار کے طور پر محفوظ کر لی گیؑ ہے ا'
اسلام آباد کو آج پنڈی کا جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔ جغرافیایؑ منطق سے ایسا کہنا جایز سہی تاریخی حقایق کی بنیاد پر ایسا کہنا کچھ یوں لگتا ہے کہ ایک باپ اپنے بالغ اور نومولود بیٹوں کو جڑوان کہنے لگے۔۔اسلام آباد کی پید ایش کو 1960 سے اب تک 55 سال بنتے ہیں جب کہ پندی کی تاریخ کیؑ صدیوں پر محیط ہے۔میرے میٹرک کرنے تک پندی کی شہری حدود کچہری چوک پر وہاں ختم ہوتی تھیں جہاں اب مال روڈ ختم ہوتی ہے،اس چوک سے آگے صرف اڈیالہ جیل تھی۔۔وہ تاریخی جیل جہاں پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دینے کی خونی روایت قایم کی گیؑ۔۔ اسے اب جناح پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے
یہ بلند دیواروں کی ایسی دہشت رکھنے والی جگہ تھی کہ میرا کبھی گزرہوا تو تصور میں پابہ زنجیر مجرم اور تختہؑ دار پر جھولتی لاشیں ہی آییں جن کی زبانیں باہر نکلی ہویؑ تھیں۔اس سے آگے ویرانہ تھا اور پھر کہیں چکلالہ کینٹ۔۔۔۔ جناح پارک میں اب کیا نھیں ہے۔۔میکڈانلڈ۔۔۔ کوسمو ڈیپا رٹمینٹل اسٹور۔۔روف ٹاپ گارڈن ریسٹورنٹ۔۔۔ پاپا سیلیز۔۔ اورپانچ اسکرین والا سینی پیکس۔باغ۔۔لان۔۔ فوارے۔۔ اس پرانی دہشتناک جگہ کا تصور بھی یہاں ناممکن ہے جو جیل تھی۔۔ ہاں یادگار عہد رفتہ برگد کا واحد بوڑھا پیڑ ہے جس کے چوڑے تنے سے اس کی "داڑھی" لٹکتی ہے اور اس کی گھنی پھیلی ہوی شاخوں میں سر شام سینکڑوں ہزاروں چڑیاں بسیرا کرنے لوٹ کر آتی ہیں تو ان کے شور سے ماحول گونجتا ہے ۔اس کے عین سامنے ایک ماربل کے پلیٹ فارم پر مختلف اونچایؑ کے چار ستون چار صوبوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔۔انہی میں کویؑ ایک اس پھانسی گھاٹ کی جگہ ہے جہاں بھٹو کو پھانسی دی گیؑ تھی۔۔دس سال قبل میں لوٹ کے پنڈی آیا تو ایک صبح میں نے عجیب منظر دیکھا۔۔ کثیر تعداد میں لوگ اسی جگہ بیٹھے قرآن خوانی کر رہے تھے،کچھ رو بھی رہے تھے اور چند جیالوں نے جناح پارک پر سیاہی پھیر کر بھٹو پارک لکھ دیا تھا (جو شام تک مٹادیا گیا) پھر مجھے یاد آیا کہ وہ 4 اپریل کی تاریخ تھی اس سے مماثل ایبٹ اباد میں وہ جگہ ہے جہاں اسامہ بن لادن کو مارا گیا تھا۔۔عرصۃؑ دراز تک لوگ تجسس یا عقیدت میں اتے تھے لیکن ان کو احاطے کے باہر ہی روک دیا جاتا تھا۔۔ پھر بھی کچھ باہرھی کھڑے رہ کر قراں خوانی کرتے رہے۔۔اب انتظامیہ نے وہان قبرستان بنانے کا فیصلہ کیا ہے کہ جو قراں خوانی کرے صرف اسامہ بن لادن کیلۓ نہ ہو وہ جگہ جو اب اسلام آباد ہے سرسبز پہاڑیوں اور قدرتی چشموں کی سرزمین تھی جس میں ایک جگہ سید پور تھی جہاں ہم بھی پکنک منانے جاتے تھے لیکن جو راہ ادھر کو جاتی تھی۔۔ ؎ کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں ہے اس کا سراغ۔۔۔سیدپوری پوری روڈ جب شہر کی حدود سے نکلتی تھی تو ایک پتلی سئ سڑک رہ جاتی تھی جس پر ہم سایکل سوار دوطرفہ پھل دار درختون کے ساۓ میں سے گزرتے تھے تو ہاتھ بڑھا کے رس دار آلو بخارے یا شیریں خوبانی توڑنے کیلۓ کسی کی اجازت درکار نہیں ہوتی تھی
12 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سید پور آتا تھا جس کو اب ایک مکروہ طریقے سے یوں "سید پور ماڈل ولیج" کا ماڈرن نام دیا گیا ہے تو یوں لگتا ہے کہ گاوں کی گوری کو پنگھٹ پر اسکرٹ اور بلاوز پہنا کے کھڑا کر دیا گیا ہو،،اصل سید پورکا گاوں جہاں سے شروع ہوتا تھا ہہں اب کارپارکنگ ایریا ہے اور "دیس پردیس" جیسے برگر کلاس کے مادرن ریسٹورنٹس ہیں جہاں سید پور کا باسی اور عام آدمی اند یک حسرت کی نظر تو ڈال سکتا ہے قدم نہیں رکھ سکتا۔۔ یہ کار پارکنگ ایریا بھی ایک مدفن ہے جہاں تاریخ کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے۔اس کے نیچے "اشنان گھاٹ" تھے۔پہاڑی چشموں کا پانی بلندی سے نیچے کی طرف آتا تھا تو ڈھلوان پر مردوں عورتوں کے الگ الگ نہانےکے تالاب کو بھرتا تھا ۔یہ وہ سویمنگ پول نہیں تھے جس میں مغربی جل پریاں اس مخصوص لباس میں غوطہ زن نظر اتی ہیں جسے ؎ ہر چند کہیں کہ ہےنہیں ہے۔۔ جی نہیں۔۔صبح دم اشنان ہندو مت میں ایک مذہبی فریضے کی حیثیت رکھتا تھا اور معاشرتی اقدار کے مطابق خواتیں کیلۓسخت پردہ تھا اب ان تالابوں پر چھت ڈال کے ان کا نام ونشاں یوں متایا گیا ہے کہ وہ میرے جیسے معدودے چند پرانے بڈھوں کے صرف تصور میں باقی ہیں۔۔ فرمودہ اقبال بھی تو یہی تھا۔۔ جو نقش کہن تم کو نظر آےؑ مٹادو۔۔۔ جزاک اللہ
ان تالابوں کے بعد وہ مندر تھا جو اب کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا شو روم ہے اس میں سے مورتیاں ہٹالی گیؑ ہیں اور دیواروں کو اسلام آباد کی تشکیل و تعمیر کے مناظر دکھانے والی تساویر سے بھر دیا گیا ہے ہیاں انے والے جوتوں سمیت اندر پھرتے ہیں تو نجھے بھارت سے اسراییل تک ان مساجد کا خیال اتا ہے جن کی بے حرمتی پر ہمارئ غیرت ایمانی جاگ اٹھتی ہے حالانکہ تمام مزاہب کی عبادت گاہوں کا احترام اسلام کی تعلیمات میں شامل ہے۔۔خیر یہ موضوع سے ہٹ کے ایک جملہؑ معترضہ تھا۔۔ سید پور گاون کے کچے مکانوں والی گلیاں تھیں جن سے گزر کے پکنک منانے کےلۓ آنے والے بلندی کا سفر کچے پتھریلے راستے پر کرتے تھے اور بالاخر ایک ایسی جگئ پہیچ جاتے تھے جہاں اوپر سے انے والے چشمے کا شفاف پانی آبشار کی صورت گر کے ایک قدرتی تالاب کو بھرتا تھا اور تالاب سے چھلکتا تھا تو گاوں اور اشنان گھاٹ کا رخ کرتا تھا۔۔پکنک منانے والے اس آبشار کے نیچے نہاتے تھے۔ قدرت کا وہ آب رواں اب "واٹر سپلایؑ" اسکیم کا حصہ ہے اور نیچھے اشنان گھاٹ کی طرف اورسید پور کی گلیوں میں سیوریج کا گندا بدبو دار پانی بہتا ہے۔۔ ایک دلچسپ حقیقت آج بھی نور پور سید پور شاہدرہ اور شاہ اللہ دتا جیسے مضافات کے پہاڑوں سے اترنے والے قدرتی پانی کے چشمے ہیں جہان لوگ پکنک مناتے ہیں اور چند مقامات پر پن چکیاں اج بھی کام کرتی ہیں
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1075976152484402