موسموں میں سب سے گرمی کا وقت دوپہر کا سمجھا جاتا ہے جب سورج کی دھوپ اپنے جوبن پر ہوتی ہے چرند پرند ساۓ کی تلاش میں ادھر ادھر پھرتے رہتے ہیں اور پانی کی خواہش شدت پکڑ جاتی ہے مگر دھوپ کی شدت دوپہر میں قابل برداشت ہوتی ہے کیونکہ ابھی صبح کی تازگی کا دم خم باقی ہوتا ہے ، برداشت کی طاقت جسم کے پوروں میں بس رہی ہوتی ہے اور لگتا ہے کہ دوپہر کٹے گی گی تو شام کی ٹھنڈی ہوا میں سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا ،
مگر ایک بات ذہین سے نکل جاتی ہے کہ دوپہر سے شام کی ٹھنڈی ہوا کے درمیان سہ پہر کا ایک دور بھی آتا ہے جب نہ صبح کے بعد کی تازگی موجود ہوتی ہے اور نہ دم خم، پہلے سے جسم میں موجود پانی بھی دوپہر کی گرمی میں پسنہ بن کر بہہ جا تا ہے اور اس وقت کاٸنات کی سب چیزیں گرمی کی لہروں کو خود میں سمو کر تھکی ہوٸ ہوتی ہیں کیا زمین کیا چھتیں کیا ہری بھری گھاس سب ہی پچھلے پہر تک پہنچتے پہنچتے تھک چکے ہوتے ہیں اسی لیۓ پچھلے پہر کی تپش سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے