بیس مئی 1965 کو جب جلال الکریمی کراچی میں اپنے گھر سے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے تو ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہو گا کہ آج کی رات اُن کی آئندہ زندگی بھر کے لیے انمٹ نقوش چھوڑ جائے گی۔ جلال الکریمی پی آئی اے میں ملازمت کرتے تھے اور ایئرلائن کی طرف سے دھران سعودی عرب میں اسٹیشن مینیجر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ آج وہ ایک ہوائی سفر پر روانہ ہو رہے تھے جس کی آخری منزل دھران نہیں بلکہ لندن تھی۔
1965 کا زمانہ پی آئی اے کے عروج کا زمانہ تھا۔ پی آئی اے کو سب سے بڑی امریکی ایئر لائن "پین امریکن" کی تیکنیکی اور تربیتی مدد سے 1955 میں بنایا گیا تھا۔ پی آئی اے کی ٹیکنیکل مینیجمنٹ میں "پین ایم" 1965 تک شامل رہی تھی، پھر یہ مینیجمنٹ مکمل طور پر اسی برس یعنی مارچ 1965 میں پاکستانی انتظامیہ کے حوالے کر دی گئی تھی اور اتفاق کی بات ہے کہ مئی کے مہینے میں ہی یہ حادثہ رونما ہوا۔
مئی 1965 میں پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں ایک نیا اور جدید بوئنگ طیارہ شامل ہوا تھا جو بوئنگ 720 کہلاتا تھا۔ آج اس کی پہلی افتتاحی پرواز تھی جو کراچی سے لندن براستہ دھران، قاہرہ، جینیوا اور پھر لندن پہنچنا تھی۔ جلال کریمی بھی اس پرواز کے ایک مسافر تھے۔ عجب اتفاق یہ بھی ہے کہ جلال الكریمی کے والدین اپنی جوانی میں مصر سے ہجرت کر کے غیر منقسم ہندوستان کے صوبے بنگال کے ایک ساحلی شہر چٹاگانگ میں آن بسے تھے جب ہندوستان آزاد ہوا تو یہ شہر پاکستان کے مشرقی صوبہ کا حصّہ بنا۔اب یہ شہر بنگلا دیش میں شامل ہے۔
بیس مئی 1965 کو قاہرہ کے لیے اڑان بھرنے والی پرواز میں پاکستان کے چوٹی کے صحافی اور پاکستان کی ٹریول انڈسٹری کے سرکردہ اراکین حکومتِ پاکستان کی خصوصی دعوت پر شامل کیے گئے تھے۔ یہ پرواز مقررہ وقت پر کراچی سے روانہ ہوئی اور اپنی پہلی منزل دھران پہنچ گئی۔ طیارے نے پھر اڑان بھری اور قاہرہ کی جانب روانہ ہو گیا۔ تقریباً پونے تین بجے کے قریب طیارہ قاہرہ کی فضائی حدود میں داخل ہو گیا۔ فضائی عملے میں شامل پی آئی اے کی سب سے حسین سمجھی جانے والی فضائی میزبان مومی گل نے تھوڑی دیر میں طیارے کے رن وے پر لینڈ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مسافروں سے سیٹ بیلٹ باندھ لینے کی بھی درخواست کر دی تھی۔ طیارے کے تمام مسافر اور عملہ اپنی اپنی نشستوں پر سیٹ بیلٹ باندھ کر بیٹھ گئے تھے اور اس لمحے کا بےچینی سے انتظار کر رہے تھے کہ جب طیارہ کو زمین چُھو لے، لیکن اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا اور طیارہ زمین سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔ طیارے کے زمین پر بکھر جانے والے ٹکڑوں میں جا بجا آگ بھی لگ گئی چند لمحوں میں سو سے زیادہ زندہ افراد مسخ شدہ لاشوں کی شکل اختیار کر گئے۔
معجزاتی طور پر چشم زدن میں جلال الکریمی زمین سے اٹھ کھڑے ہوئے حالانکہ وہ خود بھی بری طرح زخمی تھے۔ سب سے پہلے ان کی نظر ایک دوسرے مسافر شوکت مکلائی پر پڑی جو زور زور سے چلّا رہے تھے، جلال کریمی نے ان کو جلتے ہوئے ملبے سے گھسیٹ کر نکالا اور پھر یکے بعد دیگرے مزید چار زخمی مسافروں کو جلتے ہوئے ملبے پر سے زندہ سلامت نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔
تفصیلات کے مطابق اس پرواز میں 113 مسافر اور عملے کے 14 ارکان سوار تھے جن میں پاکستان کے صف اول کے 22صحافی بھی شامل تھے۔ اس حادثے میں 121 افراد ہلاک ہوئے اور صرف چھ افراد (جلال کریمی‘ عارف رضا‘ ظہور الحق‘ صلاح الدین صدیقی‘ شوکت مکلائی اور امان اللہ خان) زندہ بچ سکے۔ ہلاک شدگان میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین میجر جنرل حیاء الدین‘ اے پی پی کے اے کے قریشی‘ روزنامہ جنگ کے ناصر محمود‘ روزنامہ حریت کے جعفر منصور‘ روزنامہ امروز کے حمید ہاشمی‘ روزنامہ مشرق کے ابو صالح اصلاحی‘ بزنس ریکارڈر کے ایم بی خالد‘ ڈان کے صغیر الدین احمد‘ مارننگ نیوز کے سبط فاروق فریدی‘ لیڈر کے علیم اللہ‘ فلائیر کے ممتاز طارق‘ نوائے وقت کے عرفان چغتائی اور پی پی اے کے شاہ ممتاز سمیت کئی دوسرے صحافی شامل تھے۔ اس حادثے میں طیارے کے عملے کے جو افراد ہلاک ہوئے ان میں طیارے کا پائلٹ اے اے خان‘ نیوی گیشن افسر خالد لودھی‘ ایئر ہوسٹس پنتھکی اور مومی گل درانی‘ فلائٹ اسٹیورڈ اے جی علوی اور فلائٹ پرسر مسعود خان شامل تھے۔ اس حادثے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں بری طرح جھلس گئی تھیں کہ 17 افراد کے علاوہ کسی کی لاش کو شناخت نہ کیا جا سکا۔ ان لاشوں کو قاہرہ کے ایک خصوصی قبرستان میں اجتماعی طور پر دفن کر دیا گیا جہاں بعد ازاں ایک یادگار تعمیر کی گئی۔ پی آئی اے کے طیارے کے اس المناک حادثے کی وجہ سے ملک بھر میں صف ماتم بچھ گئی۔
“