فزکس میں سائز اور وقت کا معکوس تناسب ہے۔ اس کی دونوں اطراف زیادہ گلیمر رکھتی ہیں۔ ایک جانب بہت چھوٹی چیزیں اور بہت چھوٹا وقت جو سب ایٹمک پارٹیکلز کی سٹڈی ہے۔ یہاں کوانٹم فزکس کے اصولوں کا راج ہے۔ سرن لیب اور اس طرح کی دوسری درجنوں مشہور لیبارٹیز۔ دوسری جانب کاسمولوجی جہاں وقت اور سائز کے سکیل بہت بڑے ہیں۔ یہاں پر ہبل یا جیمز ویب ٹیلی سکوپ جیسے پراجیکٹ۔ یہاں جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی سب سے اہم ہے۔
ان کے بیچ میں میگنیچوڈ کے تیس آرڈر ہیں لیکن بہت سی اور فزکس انہیں دو کے بیچ میں ہے۔ یہاں پر بلبلے، باجے، چائے کے کپ، دودھ کی ملائی، بادل، ہوائی چکی، آتش فشاں، سمندری طوفان جیسی چیزوں کے پیچھے کام کرتی فزکس آتی ہیں۔ اس میں نیوٹن کے حرکت کے قوانین، تھرموڈائنمکس، روٹیشنل ڈائنمکس، وسکوسٹی، سرفس ٹنشن جیسے فزکس کے پیٹرن مل کر کام کرتے ہیں۔ فزکس کی دونوں ایکسٹریمز یعنی کاسمولوجی اور کوانٹم فزکس آسان اس لئے ہیں کہ یہاں پر قوانین انتہائی سادہ ہیں۔ درمیان والے حصے کی فزکس کے مسائل کی پیچیدگی ان بہت سے قوانین کا آپس میں مل کر عمل کرنا ہے اور اسی وجہ سے فزکس کے سب سے زیادہ غیر حل شدہ مسائل، فزکس میں ہونے والی سب سے زیادہ ریسرچ اور اس کی سب سے زیادہ فنڈنگ اس درمیان والے حصے کے متعلق ہے، اگرچہ کہ یہاں کا گلیمر اتنا نہیں اور یہاں ہونے والی ریسرچ خبروں میں اتنی زیادہ نہیں آتی۔
فزکس کے قوانین تمام کائنات میں یکساں ہیں۔ چاہے اس زمین پر ہوں یا پھر اربوں نوری سال دور کسی کہکشاں میں۔ لیکن کب، کہاں اور کس عمل میں کونسے قوانین زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، اس کا تعلق وقت اور سائز کے ان ٹائم سکیلز اور زیرِ مطالعہ سسٹم کی اپنی خاصیت سے ہے۔
نوٹ: ساتھ لگی تصویر ہیلن چرسکی کی کتاب سے ہے۔