ٹھوس، مائع اور گیس۔ مادے کی یہ تین حالتیں آپس میں خاصی ملتی جلتی ہیں۔ ان میں فرق صرف ان کے پارٹیکلز کی آپس میں فورس میں ہے ورنہ پارٹیکل خود الگ الگ ہیں اور اچھی طرح ان کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ زیادہ یا کم درجہ حرارت پر یہ بدل جاتا ہے۔ زیادہ درجہ حرارت پر ایٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر پلازما بن جاتے ہیں اور کم درجہ حرارت پر یہ ایک دوسرے کیساتھ مل کر اجتماعی شکل اختیار کرنا شروع کرتے ہیں اور نئے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ان میں سے ایک سپر کنڈکٹر ہے۔ بجلی سرکٹ میں الیکٹران کا بہاؤ ہے۔ تانبے کی تار میں الیکٹران تانبے کے ایٹمز کے درمیان اور قریب سے گزرتے ہیں۔ جب یہ ان ایٹمز سے ٹکراتے ہیں تو توانائی حرارت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ یہ اس تار کی ریززٹنس ہے۔ سپر کنڈکٹر میں یہ الیکٹران کبھی سست نہیں پڑتے۔ یہ عمل رک جاتا ہے اور ایک بار جاری ہونے والا کرنٹ ہمیشہ بہتا رہتا ہے۔ یہ خاصیت سب سے پہلے ۱۹۱۱ میں مرکری میں معلوم کی گئی جب اس کو منفی ساڑھے چار سو ڈگری فارن ہائیٹ تک ٹھنڈا کیا گیا۔کئی دہائیوں تک خیال یہ رہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکٹرانز کے پاس جگہ زیادہ ہوتی ہے کیونکہ نیوکلئیس کا ارتعاش بہت کم ہو چکا ہوتا ہے۔ کم توانائی کی وجہ سے نیوکلئیس کے پاس ہلنے جلنے کیلئے جگہ نہیں ہوتی اور الیکٹران کو دوڑنے بھاگنے کیلئے کھلا راستہ مل جاتا ہے۔ یہ ٹھیک تھا لیکن پھر تین سائنسدانوں نے ۱۹۵۷ میں معلوم کیا کہ کم درجہ حرارت پر الیکٹرانز میں خود ایک تبدیلی آ جاتی ہے۔
سپر کنڈکٹر میں ایٹم کے قریب بھاگتے الیکٹران نیوکلئیس کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ مثبت چارج رکھنے والا نیوکلئیس خود ان منفی چارج رکھنے والے الیکٹران کی طرف معمولی سی حرکت کرتا ہے۔ اس وجہ سے اس راستے پر مثبت چارج کی ڈینسیٹی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ زیادہ ڈینسیٹی دوسرے الیکٹرانز کو اس طرف متوجہ کر دیتی ہے۔ جو ایک طرح سے پہلے الیکٹران کے ساتھ جوڑا بنا لیتے ہیں۔ یہ انتہائی کمزور سا بانڈ ہے جو صرف اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب درجہ حرارت بہت کم ہو۔ اور ہلتے جلتے ایٹم الیکٹران کو ٹکریں نہ مار رہے ہوں۔ اس حالت میں الیکٹران تنہا نہیں بلکہ ٹیم کی شکل میں کام کرتے ہیں۔ اس بہاؤ کے دوران اگر کسی الیکٹران کی مڈبھیڑ کسی ایٹم سے ہو جائے تو اس کے ساتھی اس الیکٹران کے سست پڑنے سے پہلے ہی اس کو چھڑوا لیتے ہیں اور برقی بہاؤ بغیر تبدیلی کے جاری رہتا ہے۔ جب ارب ہا ارب جوڑے مل کر ایسا کریں تو یہ ہمیں سپرکنڈکٹویٹی کی شکل میں نظر آتا ہے۔
یہ بی سی ایس تھیوری ہے جس پر فزکس میں ۱۹۷۲ میں نوبل انعام دیا گیا۔
اور اگر درجہ حرارت اس سے بھی کم ہو تو کچھ عناصر کے لئے اگلی سٹیٹ عجیب تر ہے جہاں ایٹم ایک دوسرے کو نگلنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کوہیرنس کی حالت ہے جہاں پر ماس اور توانائی کی تفریق ختم ہو جاتی ہے۔ برصغیر کے ایک سائنسدان بوس اور آئن سٹائن نے کوانٹم مکینکس کی مساوات سے کھیلتے ہوئے اس کو دریافت کیا تھا۔ لیکن یہ حالت اس قدر عجیب تھی کہ انہیں زیادہ یقین نہیں تھا کہ اس کو بنایا جا سکے گا۔ کولوراڈو یونیورسٹی میں دو سائنسدانوں نے روبیڈئیم کے ایٹمز کو اس حالت میں پہنچا کر ۲۰۰۱ میں فزکس کا نوبل انعام حاصل کیا۔