یہ کائنات ایک بے رحم اور خطرناک جگہ ہے۔ ایسے خطروں سے بھری جو نہ صرف پورے علاقوں بلکہ تہذیبوں اور ہماری نوع کو بھی مٹا سکتی ہیں۔ ہم اس کائنات میں وقت اور سپیس کے حیرت انگیز اتفاقات کی لڑی سے نکلے بلبلے میں رہتے ہیں جس نے زندگی، ہماری نوع اور پھر ہماری ٹیکنالوجیکل تہذیب کو ممکن بنایا۔ اس پرخطر کائنات میں زمین ہمارا سپیس شپ ہے لیکن خطروں میں گھری اس سپیش شپ پر رہنے والے ان حالات کا برقرار رہنا ایک معمول کی بات سمجھتے ہیں حالانکہ فزکس کے عفریت ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔
گاما رے برسٹس کہکشاوں کے بڑے حصوں سے زندگی کا صفایا کر سکتے ہیں، سپرنووا دور تک تباہی مچا دیتے ہیں۔ شہابئے اور دمدار ستارے (مشتری سے ہر سال ایک سے دو بڑے شہابئے ٹکراتے ہیں)، ییلوسٹون جیسے آتش فشاں۔ سورج سے نکلنے والی کرونل ماس ایجکشن جو تہذیبوں کو تباہ کر سکتی ہیں۔ ۳۱ اگست ۱۸۵۹ کو سورج نے چارچڈ ذرات کا ایک شعلہ اگلا تھا جو اٹھارہ گھنٹوں بعد زمین تک پہچا تھا اور اس نے اتنے بڑے ارورا بنا دئے تھے کہ رات ایک بجے لوگ سمجھے تھے کہ صبح ہو گئی ہے اور پرندنے چہچہانے لگے تھے۔ ٹیلی گراف کی تاروں میں کرنٹ سے پیغام بھیجنا ناممکن ہو گیا تھا اور ان سے نکلنے والے شعلوں نے کاغذوں میں آگ لگا دی تھی۔ (برف سے لئے گئے ریکارڈ بتاتے ہیں کہ اس طرح کا ایونت اوسطا پانچ سو سال میں ایک بار ہوتا ہے اور اگر آج ہو تو کئی مہینے تک بجلی کی سپلائی ختم کر دے گا، جی پی ایس روک دے گا، موبائل فون ختم کر دے گا اور ہوائی سفر ناممکن کر دے گا)۔ اس کے علاوہ بھی فزکس کے عفریت ہمارے اردگرد پھیلے ہیں جن کا ذکر عام طور پر نہیں ہوتا۔ ایک مثال یہ کہ سورج ایک جی سٹار ہے۔ یہ اپنی ایکٹیویٹی کی جتنی ویری ایشن دکھا سکتا ہے، ابھی اس نے اس کا صرف چالیسواں حصہ دکھایا ہے۔ اس کی زیادہ ویری ایشن زمین پر بہت کچھ بدل سکتی ہے۔ (سورج کی طرف بھیجا گیا مشن اسی خطرے کو ٹھیک طریقے سے جاننے کے لئے ہے)۔
سائنس ہمیں آہستہ آہستہ ان فزکس کے عفریتیوں کی موجودگی سے بیدار کر رہی ہے۔ ایک شہابیے کی آمد قدرت کا ہم سے پوچھنے کا طریقہ ہے کہ آپ لوگوں کا خلائی پروگرام کہاں تک پہنچا۔ ان فزکس کے عفریتوں کا مقابلہ فزکس کی تلواروں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ ایک دوڑ جاری ہے کہ کیا ہم ان خطروں کا سامنا کرنے کے قابل ہوں گے؟
لیکن اس وقت ہمارا اس سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ہمیں بھوتوں کا سامنا ہے۔ ہم سب اپنی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ مذہبی، قومی، سیاسی اور درجنوں دوسری طرح کی شناختیں۔ یہ سب ہمارے لئے اہم بھی ہیں اور ضروری بھی۔ اگرچہ ہم ان سے ابھر کر بھی سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن عام طور پر ہم ان شناختوں کے قیدی ہیں۔ یہ ہمارے بھوت ہیں جن کی وجہ سے ہماری توجہ بڑے عفریتوں کی طرف نہیں۔ ہم اپنی تلواریں فزکس کے عفریتوں کے لئے بلکہ شناخت کے بھوتوں کے لئے بناتے ہیں اور یہی ہماری توجہ کے مرکز ہیں۔ دنیا میں کسی بھی جگہ کا کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس وقت ہمارا اجتماعی شعور ہماری اجتماعی خود فریبی نظر آتا ہے۔ حقیقت کا سامنا کرنے اور اپنی گروہی شناخت سے وفاداری کے درمیان مقابلہ یکطرفہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ انٹلکچوئل جنہیں بہتر جاننا چاہیے تھا، وہ اپنے اونچے گھوڑوں پر سوار اس حقیقت سے بالکل کٹے نظر آتے ہیں کہ لوگ آخر سوچنے اور سمجھتے کیسے ہیں۔ ان میں سے کئی خود ان شناختوں کو ہوا دیتے نظر آتے ہیں۔
اس کا نقصان کیا ہے؟ سائنس تو مل جل کر آگے بڑھتی رہے گی۔ ہمیں اپنی شناخت کے جتنی بھی قیدی ہوں، علم کے جتنے بھی دشمن ہوں، آخر میں ہمیں تیز انٹرنیٹ چاہئے، جدید ترین ٹیکنالوجی اور موثر ادویات، خواہ جہاں سے بھی آئیں۔ اس بارے میں ہم شناخت کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتے۔ ہمارا یہ رویہ عالمی تعاون ممکن بناتا ہے۔ لیکن دوسری طرف بڑے پیمانے پر پھیلی لاعلمی کی وجہ سے اس وقت دنیا کی سیاست پر ہر جگہ قبائلیت پسند راہنما ابھر رہے ہیں جن کی طاقت کا ذریعہ ہی شناخت کے بھوت ہیں۔
سائنس سے ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ ہمارا مستقبل پتھر پر نہیں لکھا اور ہم اس کو تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کیا ہم ان بھوتوں اور عفریتوں کا مقابلہ کر سکیں گے؟
نوٹ: یہ جان ٹوبی کے لیکچر سے ہے۔ جان ٹوبی ارتقائی نفسیات کے صفِ اول کے ماہرین میں سے ہیں اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سانٹا باربرا میں ایتھروپولوجی کے پروفیسر ہیں،۔