( فوٹوگرافر ولیم ایوجین سمتھ کے حوالے سے ایک نوٹ )
آج ہر وہ بندہ جس کے پاس کیمرے والا سیلولر یا سمارٹ فون ہے، خود کو فوٹو گرافر سمجھتا ہے بلکہ وہ ویڈیو میکر بھی ہے۔ اس کی پہنچ فیس بُک، ٹوئیٹر اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا کے مختلف فورمز تک بھی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے لمحات محفوظ کرتا ہے۔ تفریحاً یا ضرورت کے تحت تصویر کھینچتا یا مختصر ویڈیو بناتا ہے اور اس کی سانجھ اپنے گھر والوں، رشتہ داروں اوردوستوں یاروں سے کرنے کی خاطر سوشل میڈیا کے فورمز پر اپنے نجی یا پبلک گروپوں پر چڑھا دیتا ہے۔ سمارٹ فون سے کھینچی گئی ’سیلفیوں‘ ، تصاویر اور ویڈیوز کے اس دور میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ سمارٹ فون رکھنے والوں میں سے کئی لوگ بسااوقات ایسی تصاویر یا ویڈیوز بھی شیئر کرتے ہیں جن کی حیثیت صحافتی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور یہ وائرل ہونے پر کسی واردات، جرم، زیادتی یا ایسے مواد کو بھی آشکار کر دیتی ہے جسے ملک کا پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا، بوجوہ بلیک آؤٹ کر دیتا ہے۔ اس کی تازہ مثال لاہور میں ہونے والی عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقد ہونے والی کانفرنس کی میڈیا کوریج تھی : اس میں اعلیٰ عدلیہ کی تقریباً ساری حاضر سروس و سابقہ قیادت شریک تھی اور پاکستان کے ’علی احمدکرد‘ سمیت ممتاز وکلاء بھی مدعو تھے۔ اس کانفرنس کی بیشتر کاروائی ملک کے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا نے بلیک آؤٹ کر دی، خاص طور پر حاضرین محفل کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے ایم این اے ’علی وزیر‘ کی گرفتاری کے خلاف نعرہ بازی اور ممتاز وکیل علی احمد کرد کی تقریر اس زد میں آئی۔ یاد رہے کہ علی وزیر پشتون تحفظ موومنٹ ( PTM ) کا رہنما ہے اور کئی بار گرفتار ہو چکا ہے اور اس کی حالیہ گرفتاری 3 نومبر 2021 ء کو فتنہ، فساد اور بغاوت کے ایک پرانے کیس کے سلسلے میں کی گئی تھی۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ اسے قومی اسمبلی کے اجلاسوں و پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت سے روکا جائے اور اس میں حکومت کامیاب بھی رہی۔ بلیک آؤٹ کی گئی تقریباً ساری کارروائی شرکائے محفل میں سے کئی ایک نے اپنے اپنے سمارٹ فونز کی مدد سے سوشل میڈیا پر شیئر کرکے اسے وائرل کر دیا۔ یہ بات صرف ہمارے ملک پر ہی صادق نہیں آتی بلکہ بلا تفریق ایسا دیگر ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ یہ ایک طرح کا نیا فوٹو جرنلزم ہے جس پر مقتدر طبقوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے براہ راست قابو پانا ممکن نہیں ہے۔
بات فوٹو جرنلزم کی ہوئی ہے تو آئیے ذرا ماضی میں چلیں اور فوٹو گرافی اور فلم/ویڈیو میکنگ کے ارتقاء ، فوٹو گرافروں ، فوٹو جرنلزم اور اس پر بنی فیچر فلموں پر کچھ بات کریں:
یہ 1826 ء ہے۔ فرانسیسی موجد جوزف نیِسیفور نئیپسے ( Joseph Nicéphore Niépce ) پہلی بار ایک تصویر کامیابی سے کھینچنے میں کامیاب ہوتا ہے اور یہ دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ اس کی کھینچی تصاویر میں سے ’ویو فرام دی ونڈو ایٹ لی گراس‘ (View from the Window at Le Gras) اب بھی فوٹوگرافی کے آرکائیوز میں محفوظ ہے۔ یہ تاثریت پسند (Impressionist) مصوری کا زمانہ تھا ۔ ان میں ایڈگر ڈیگاس (1834ء تا 1917ء)، ایڈورڈ مانے (1832ء تا 1883ء) اور ہنری د ی توُلوُز لوتریک (1864ء تا 1901) جیسے فرانسیسی پینٹر بھی تھے جو دونوں میڈیم بیک وقت برتتے اور شہری زندگی کو کینوس یا کیمرے میں محفوظ کرتے رہے لیکن جلدہی کیمرے کی آنکھ نے فوٹوگرافروں کی اہمیت بڑھائی اور پورٹریٹ وعوامی زندگی کو مصور کرنے والے فنکارکسی حد تک پس ِ پشت چلے گئے کیونکہ کیمرہ روشنی کے سبجیکٹ (subject) پر اثر کو زیادہ بہتر طور پر اور تیزی سے قابو کر سکتا ہے۔ شروع میں کیمرے کو بھی ایک ٹول یا آلے کی طرح لیا گیا جوبرش استعمال کرنے والے کے ہاتھ کا متبادل بنا لیکن جلد ہی کیمرے کی اپنی خصوصیت کہ یہ انسانی آنکھ کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر اور بھرپور فوکس کے ساتھ تصویر کھینچ سکتا تھا، فوٹوگرافی اور پینٹنگ کو دو واضح میڈیمز میں بدل دیا۔ فوٹوگرافی اور آگے بڑھی اور مختلف کاموں کے لیے برتی جانے لگی ، ان میں ’سٹریٹ فوٹو گرافی‘ نے بھی ایک قسم کے طور پر رواج پایا ۔ ابتدائی طور پر یہ کام کرنے والے جو فوٹوگرافر سامنے آئے ان میں فرانسیسی چارلس نیگرے (Charles Nègre) امریکی الفرڈ سٹائلز (Alfred Stieglitz)، برینس ایبٹ (Berenice Abbott) اور ایوجین ایٹگیٹ (Eugene Atget) جیسے لوگ سامنے آئے۔ چارلس نیگرے نے ’کیلٹو ٹائپ‘ (calotype) تکنیک برتی جبکہ ایوجین ایٹگیٹ نے ’albumen prints‘ کا راستہ اختیار کیا۔ الفرڈ نے بیسویں صدی کے آغاز میں نیویارک اور پیرس کی گلیوں اور بازاروں میں عوامی زندگی کو خراب موسم سے متاثر ہوتے ہوئے کیمرے میں محفوظ کیا۔ برینس ایبٹ نے ایک طرف نیویارک کی عمارات کی معماری کو اپنا موضوع بنایا وہیں اس نے جیمز جوائس جیسے اہم لوگوں کے پورٹریٹ کیمرے میں محفوظ کیے۔ اس کی کتاب ’بدلتا نیویارک‘ (Changing New York) اس سلسلے میں اہم گردانی جاتی ہے۔ یہ1939 ء میں سامنے آئی تھی۔
’کھڑکی سے ایک منظر‘ نامی تصویر کے کھینچے جانے کے فقط 22 سال بعد ہی تصاویر کا پرنٹ میڈیا میں چھپنے والی صحافتی رپورٹوں کے ساتھ استعمال شروع ہو گیا تھا۔ ایسی ہی پہلی تصویر ’بیریکیڈز اون ریو سینٹ مور‘(Barricades on rue Saint-Maur) فرانسیسی اخبار ’L’Illustration‘ میں جولائی 1848 ء میں شائع ہوئی۔ یہ تصویر 25 جون 1848 ء کو ’جون بغاوت‘ (June Days Uprising) کے دوران کھینچی گئی تھی؛ یاد رہے کہ یہ بغاوت 22 تا 28 جون تک جاری رہی تھی جس میں فرانسیسی محنت کشوں نے فرانس کی ’سیکنڈ ری۔ پبلک‘ کی طرف سے ’نیشنل ورکشاپس‘ بند کرنے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ اس میں لگ بھگ دس ہزار محنت کش یا تو مارے گئے تھے یا شدید زخمی ہوئے اور تقریباً 4000 محنت کشوں کو جبری طور پر فرانسیسی نو آبادی ’الجیریا‘ جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ کریمین جنگ (1853۔1856) کے دوران روجر فینٹن (:1819-1869 Roger Fenton) وہ پہلا برطانوی فوٹو گرافر تھا جس نے فوجیوں پر جنگ کے اثرات، جنگی مناظر اور فوجی کمانڈروں کی تصاویر کھینچیں۔ اس کی دو تصاویر ’The Valley of the Shadow of Death‘ کے نام سے مشہور ہیں جس میں سے ایک میں سڑک توپ کے گولوں کے بغیر جبکہ دوسری ان کے ساتھ نظر آتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تصویر کھینچنے کے لیے لمبا ’exposure‘ دینا پڑتا تھا اس لیے صرف ساکت مناظر کی ہی تصویریں کھینچی جا سکتی تھیں۔ روجر فینٹن حساس دل کا مالک تھا یا شاید اسے ہدایت تھی، اس نے بہرحال مرے، زخمی فوجیوں اور بے حرمت لاشوں کی تصاویر نہ کھینچیں۔ اس زمانے کے جنگ کی تصاویر کھینچنے والے دیگر فوٹوگرافروں میں سکاٹش ولیم سمپسن اور رومانیہ کا کیرل زاتھماری اہم ہیں۔ اُدھر امریکہ میں امریکی خانہ جنگی کی تصاویر کے حوالے سے میتھیو بریڈی (Mathew Brady:1824-1896) اہم ہے۔ ایسی تصاویر کے ساتھ ساتھ دیگر تصاویر بھی ایک لمبے عرصے تک لکھی گئی صحافتی رپورٹوں کی مدد گار کے طور پر پیش کی جاتی رہیں لیکن 1870کی دہائی میں ان کی آزاد حیثیت ابھرنے لگی اور جان تھامسن نے 1876 ء میں اپنے ہم خیال دوستوں کی مدد سے ایک ماہنامہ ’سٹریٹ لائف اِن لندن‘ شائع کرنا شروع کیا جو ویسے تو دو سال تک ہی نکل سکا لیکن اس نے تصویروں کو ان کے مختصر عنوانات کے ساتھ شائع کرکے انہیں آزاد حیثیت دلائی۔
1880ء میں نیویارک کے اخبار ’دی ڈیلی گرافکس‘ نے پہلی ہاف ٹون تصویر شائع کی جس نے تصاویر کی چھپائی مزید سہل ہو گئی جبکہ 1887 ء میں فلیش پاؤڈر (فلیش گن کی ابتدائی شکل:میگنیشیم؍ پوٹاشیم کلوریٹ اور پائرو ایلومینیم کا مِکسچر ) نے یہ آسانی بھی پیدا کر دی کہ تاریکی اور نیم تاریکی میں بھی تصاویر بنانا ممکن ہو گیا۔ اس حوالے سے امریکی فوٹوگرافر جیکب رِس کی تصاویر پر مبنی کتاب ’How the Other Half Lives‘ (1890 ء) اہم ہے، جس میں پہلی بار نیویارک کے جھونپڑ پٹی کے علاقوں میں زندگی کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اسی دہائی کے آخر تک اکثر چھاپہ خانوں میں یہ بھی ممکن ہو گیا کہ تصاویر ’ہاف ٹون‘ میں شائع ہو سکیں۔ بیسویں صدی کی تیسری صدی کے آغاز میں ’وائر فوٹو‘ کا استعمال ممکن ہوا تو خبروں کی طرح تصاویر کی تیز ترسیل بھی ممکن بنا دی۔ وائر فوٹو ( ٹیلی فوٹوگرافی یا ریڈیو فوٹوگرافی )کاموجد فرانسیسی ایڈورڈ بیلِن تھا جس نے ’فوٹو سیل‘ کی مدد سے تصاویر کو سکین (scan) کرکے عام ٹیلی فون کے ذریعے تصاویر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کا کامیاب تجربہ 1913 ء میں کیا تھا لیکن امریکہ کی ’ویسٹرن یونین کمپنی‘ اسے 1921ء میں ہی کمرشل بنیادوں پر استعمال کرنے میں کامیاب ہوئی۔ وائر فوٹو کا یہ سفر مخصوص تصاویر تک ہی محدود رہا لیکن امریکہ کی نیوز ایجنسی ’ایسوسی ایٹڈپریس (AP) نے اسی تکنیک کو برتتے ہوئے اپنی وائر فوٹو سروس 1935 ء میں شروع کرکے اسے عام کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر اس مشین کا استعمال امریکہ نے جاپان پر پمفلٹ گرائے جانے والی مہم میں بھی کیا۔
فوٹو جرنلزم کے مورخ 1930 ۔ 1950 کی دہائیوں کو فوٹو جرنلزم کی تاریخ کا سنہری دور قرار دیتے ہیں۔ اس میں دو اشیاء نے اہم کردار ادا کیا تھا، اولاً جرمن کیمرے ’Leica‘ نے جس نے 35 ایم ایم کے کیمرے کو عام کیا اور دوم فلیش پاؤڈر کی جگہ فلیش بلب نے لے لی تھی : یہ بھی جرمنی نے 1929 ء میں ایجاد ہوا تھا جس میں میگنیشیم اور آکسیجن کا استعمال کیا گیا تھا، بعدازاں اس میں ’زِرکونیم‘ برتا جانے لگا جو میگنیشیم کے مقابلے میں زیادہ تیز روشنی کا کوند اور جھپک پیدا کرتا تھا۔ انہی دنوں میں ’فوٹو ایسے‘ (Photo-Essay) نے جرنلزم میں اپنی بنیاد کھڑی کی۔ اس زمانے کے دو فوٹوگرافر اہم گردانے جاتے ہیں: جرمن ایرچ سالومن اور ہنگری کا مارٹن منکاسی؛ مارٹن اپنی کھیلوں کی تصاویر کے لیے بھی مشہور ہے۔
فوٹو جرنلزم کے سنہری دور کے چند اہم فوٹوگرافر یہ ہیں: ہنگیرین رابرٹ کیپا (Robert Capa)، جرمن گرڈا تارو (Gerda Taro) ، اطالوی رومانو کیگنونی (Romano Cagnoni)، جرمن الفرڈ (Alfred Eisenstaedt)، ہسپانوی آگستی کینٹیلیس (Agustí Centelles)، فرانسیسی ہنری کارٹیئر۔بریسن (Henri Cartier-Bresson) امریکی جولین برائن (Julian Bryan)، امریکی ولیم وانڈیورٹ (William Vandivert)، امریکی مارگریٹ بروک۔وائٹ (Margaret Bourke-White)، ٹونی ویکیورو(Tony Vaccaro) اور امریکی ولیم ایوجین سمتھ (W. Eugene Smith) اور اگر ہم برصغیر ہند و پاک و بنگلہ دیش کی بات کریں تو کئی انگریز فوٹو گرافروں کے علاوہ میرٹھ کے راجہ دین دیال (1844ء تا 1905 ء) اور لاہور کے ایف ای چودھری (1909ء تا 2013 ء) کے نام لیے بغیر بات نہیں بنے گی ۔ حالیہ زمانے کی بات کریں تو مجید میر اور اظہر جعفری کے نام اہم ہیں ۔
1960 کی دہائی میں فوٹو جرنلزم کی ایک اور شکل سامنے آئی۔ یہ پاپارازی (Paparazzi) تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لفظ پاپارازی کا تعلق اطالوی فلم میکر ’ فلینی ‘ (Federico Fellini) کی فلم ’La Dolce Vita‘ سے ہے جو 1960ء میں ریلیز ہوئی تھی اور جس میں ایک فوٹوگرافر کا کردار بھی ہے جس کا نام ’پاپارازی‘ ہے۔ پاپارازی ایسے فوٹوگرافر ہیں جو کسی بھی ادارے سے منسلک نہیں ہوتے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ ہائی پروفائل رکھنے والے لوگوں (سیاست دان، کھلاڑی، اداکار و دیگر اہم شخصیات) کی ایسی تصاویر اتاریں جو ہیجان انگیز ہوں ، سنسنی پیدا کر سکیں اور جنہیں وہ مہنگے داموں بیچ سکیں۔ ان کا گاہک عام طور پر ایسا میڈیا ہوتا ہے جنہیں صحافت کی اصطلاح میں ٹیبیلائڈز (tabloids) یا سنسنی پھیلانے والے اخبارات و رسائل کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ 1997ء میں لیڈی ڈیانا ایسے ہی فوٹوگرافروں سے بچتے ہوئے کار کے حادثے میں ہلاک ہوئی تھی۔
اوپر امریکی فوٹوگرافر ولیم ایوجین سمتھ کا ذکر ہوا ہے تو یہاں یہ بات کرنا بھی اہم ہے کہ اس کی زندگی کے آخری سالوں پر بنی فلم ’مِناماتا‘ (Minamata)، 2020 ء ہی میرے اس مضمون کا محرک بنی ہے۔ ہم اس فلم اور سمتھ و فوٹو گرافروں کے ایکٹیوازم (activism) کا ذکر بعد میں کریں گے پہلے کچھ بات رسائل و اخبارات کی ہو جائے ۔
فوٹو جرنلزم کے حوالے سے اس زمانے کے کئی جرمن، برطانوی، فرانسیسی اور امریکی رسالے اور اخبار اہم رہے جن میں ’اے آئی زیڈ‘ (Arbeiter-Illustrierte-Zeitung)، ’پکچر پوسٹ‘،’ڈیلی مرر‘، ’وُو‘ (Vu)، ’لُک‘،’نیویارک ڈیلی نیوز‘ اور ’لائف‘ شامل ہیں۔ میں ان سب کے بارے میں تو بات نہیں کروں گا البتہ ’لائف‘ کا ذکر غیر اہم نہیں ہے۔
یہ جنوری 1883ء کے آغاز سے بطور مصور ہفت روزہ شائع ہوا تھا اور یہ عمومی دلچسپی اور ہلکے پھلکے تفریحی مواد اور تصاویر کو53 برس تک شائع کرتارہا۔ اس کا پہلا موٹو ’جب تک زندگی ہے، امید قائم ہے‘ تھا۔ 1936 ء میں اسے ’ٹائمز‘ کے مالک ہنری لیوس نے خرید لیا اور اسے مکمل طور پر فوٹوگرافک رسالہ بنا ڈالا ۔ اس کی کوشش ہوتی کہ وہ اس میں بہترین تصاویر شائع کرے۔ اس نے ’ کولیئر ‘ رسالے کے فوٹو گرافر روبرٹ کیپا کو بھی رسالے سے جوڑا ، جس کی بعد میں دوسری جنگ عظیم میں نارمنڈی کی تصاویر لائف میں شائع ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اس میں جرمن نژاد امریکی الفرڈ ( Alfred Eisenstaedt ) کی تصویر ’نرس اِن اے سیلر’ ز آرمز ‘ یا ’V-J Day in Times Square‘ شائع ہوئی۔ اس جیسی مشہور تصاویر کے ساتھ ساتھ اس میں امریکی صدر ہیری ٹرومین، ونسٹن چرچل اور جنرل ڈگلس میکارتھر کی یادداشتیں ان کے بہترین پورٹریٹس کے ساتھ بھی قسط وار شائع ہوئیں۔ 1952ء میں اس رسالے نے ارنسٹ ہیمنگوئے کا ناولٹ ’بوڑھا اور سمندر‘ چھاپا اور بعدازاں اس کی مزید تحاریر بھی چھاپیں۔ 1954 ء میں اس رسالے کے سرورق پر افریقی۔ امریکن اداکارہ ’ڈورتھی ڈینڈرج‘ کی تصویر چھاپی گئی جو اپنی نوعیت کی پہلی تصویر تھی۔ 1958ء میں اس میں روسی انقلاب پر بہت سی سٹوریز چھپیں۔ اس وقت تک ’لائف‘ کا موٹو بدل چکا تھا : ’’ زندگی دیکھنی ہو تو دنیا دیکھو ‘‘ ۔ 1950 کی دہائی کے اختتام تک ٹیلی ویژن مقبول ہو چکا تھا اور اس نے رسالوں کی اہمیت کم کر دی تھی۔ لائف پر بھی اس کا اثر پڑا اور اسے اپنی قیمت 25 سینٹ سے کم کرکے 20سینٹ کرنا پڑی۔ 1960 کی دہائی میں لائف میں رنگین تصاویر چھپنا شروع ہوئیں اور اس دہائی کے اہم مضوعات ویت نام کی جنگ، خلاء کا اپالو پروگرام، جان ایف کینیڈی، چاند پر انسان کا اترنا، منشیات خصوصاً ’ ایل ایس ڈی ‘ (LSD)، ہم جنس پرستی اور سائنس فکشن رہے۔ فلمی ستاروں کی ذاتی زندگی کی اچھوتی تصاویر تو تھیں ہی، ایسے میں 1964ء کا اداکارہ الزبتھ ٹیلر کا ایک طویل فیچر خاصا مشہور ہوا جو اس کے رچرڈ برٹن کے ساتھ تعلق کے بارے میں تھا۔ اس دہائی میں افریقی۔ امریکن فوٹو گرافر گورڈن پارکس (Gordon Parks) کی تصاویر اس رسالے کے لیے اہم رہیں۔ ان سب کے باوجود رسالے کی بِکری کم ہوتی گئی اور 1972 ء میں اس کا تواتر سے چھپنے والا آخری شمارہ 29 دسمبر کو شائع ہوا ۔ اس کے بعد 1978 ء تک اس کے صرف دس خصوصی شمارے ہی شائع ہو سکے۔
اکتوبر 1978 ء سے یہ ہفت روزے کی بجائے ماہنامے کے طور پر نکلنا شروع ہوا اور مئی 2000 ء تک نکلتا رہا لیکن اس سے پہلے ہی یہ’ پاتھ فائنڈر ڈاٹ کوم ‘ کے اشتراک سے آن لائن ہو چکا تھا۔ مارچ 2009 ء میں اس کی اپنی ویب سائٹ ’لائف ڈاٹ کوم‘ بھی بنائی گئی لیکن یہ تین سال بھی نہ چل سکی، تب سے یہ’گیٹی امیجز‘ ( Getty Images) کے اشتراک سے نیٹ پر موجود ہے۔ اکتوبر 2004 ء میں اسے چھاپنے کی ایک اور سعی کی گئی۔ اس بار یہ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ڈیلی نیوز کے ساتھ بطور سپلیمنٹ پیش کیا گیا لیکن یہ سلسلہ بھی مارچ 2007 ء کے ساتھ ہی ختم کر دیا گیا۔ تب سے اس کی فوٹو آرکائیو گوگل کے اشتراک سے نیٹ پر موجود ہے البتہ کبھی کبھار اس کے خصوصی شمارے ابھی بھی شائع ہوتے ہیں۔
2013ء میں ایک امریکی فلم ’والٹر مِٹی کی خفیہ زندگی (The Secret Life of Walter Mitty) سامنے آئی۔ یہ ویسے تو جیمز تھربر کی اسی نام کی کہانی(1939 ء) سے ماخوذ تھی ۔ یہ اس سے پہلے بھی 1947 ء میں فلمائی جا چکی تھی لیکن اِس بار والٹر مِٹی کو ’لائف‘ سے جُڑا دکھایا گیا اور یہ بھی کہ اپنے وقت کا یہ اہم رسالہ کیسے اور کیونکر چھپائی کی دُنیا سے غائب ہوا اور انٹرنیٹ پر منتقل ہوا اور اب یہ ’ ٹائمز ڈاٹ کوم ‘ پر ایک چھوٹا سا فوٹو چینل ہے اور اس کے اکاؤنٹ ’انسٹاگرام‘، ’ٹویئٹر‘ اور ’ٹمبلر“ پر موجود ہیں۔
بات اگر فلم پر آ ہی گئی ہے تو آیئے دیکھتے ہیں کہ فوٹو جرنلزم اور فوٹو جرنلسٹوں کی عام/ پُر خطر زندگی فیچر فلموں کے لیے کتنی اہم رہی۔ ایسے میں آپ کو ’انٹرنیٹ مووی ڈیٹا بیس‘(IMDb) پر ہر قسم (genre) ، بشمعول ’سپرمین‘ وغیرہ ، کی بیسیوں ایسی فلمیں مل جائیں گی جن کا مرکزی خیال کسی نہ کسی طور پر فوٹوگرافر/کیمرہ مین کے گرد گھومتا ہے اور اس کی پہلی مثال ’دی کیمرہ مین‘، (1928ء) ہے: یہ ایک مرد کیمرہ مین کے گرد گھومتی ایک مزاحیہ فلم ہے۔ اسی طرح کی ایک اور مزاحیہ فلم ’محبت کے لیے وقت نہیں ‘ (No Time for Love) ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ کی کہانی ہے۔ یہ 1943 ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس سے قبل 1933 ء میں ’ ہیڈ لائن شوٹر‘ (Headline Shooter) سامنے آ چکی تھی جس میں کہانی ایک نیوز ریل کیمرہ مین کی مہم جوئی پر مبنی ہے۔ 1980 ء اور 1990 ء کی دہائیاں ایسی فلموں کے لیے خاصی اہم رہیں لیکن اس سے پہلے 1969 ء کی فرانسیسی فلم ’زی‘ (Z) کا ذکر ضروری ہے ۔ یہ فلم میکر کوسٹا گیورس ( Costa-Gavras) کی دیگر فلموں کی طرح ایک سیاسی فلم ہے اور ایک جمہوریت پسند یونانی سیاست دان کے قتل اور اس کی تفتیش اس کا موضوع ہے جس کی تہیں ایک فوٹو جرنلسٹ کی ہی مدد سے ہی کھلتی ہیں۔ ’زندگی کے پُر خطر سال (The Year of Living Dangerously) 1982 ء میں سامنے آئی جس کا محور آسٹریلین جرنلسٹ ’گے ہیملٹن‘ اور اس کا رومانس ہے جو انڈونیشیا میں تب شروع ہوتا ہے جب سوہارتو انڈونیشیا کے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے صدر سوئیکارنو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرتا ہے اور سی آئی اے کی مدد سے ملک سے کمیونسٹوں کا قتلام کرتا ہے۔’گے ہیملٹن‘ ان پُر آشام دنوں میں اپنی ایک آنکھ کی بینائی سے بھی محروم ہوتا ہے اور اسے اسی حالت میں اپنے دیس لوٹنا پڑتا ہے۔ اگلے برس (1983 ء) ہی میں فلم ’انڈر فائر‘ سامنے آئی۔ یہ نکاراگوا کے پس منظر میں بنی ایک فلم تھی۔ 1978/9 ء کا زمانہ ہے، سوموزا حکومت کے آخری دن ہیں۔ ایسے میں امریکی فوٹو جرنلسٹ رسل پرائس چاڈ سے نکاراگوا کے حالات کی کوریج کے لیے وہاں جاتا ہے اور تب تک وہاں رہتا ہے جب تک سوموزا ملک سے بھاگ نہیں جاتا اور اقتدار انقلابیوں کے ہاتھ میں نہیں آ جاتا۔ 1984 ء کی ’کِلنگ فیلڈز‘ کمبوڈیا کے پس منظر میں دو صحافیوں کے تجربات پر مبنی ہے۔ 1986 ء کی ’سیلواڈور‘ فوٹو جرنلسٹ رچرڈ بوائل (Richard David Boyle) کی زندگی کے اس حصے پر مبنی ہے جو اس نے وسطی امریکہ اور سیلواڈور کی خانہ جنگی کے دوران وہاں گزارے۔ رچرڈ بوائل 2016 ء میں 74 برس کی عمر میں اس وقت فوت ہوا جب وہ فلپائن میں صدر روڈریگو ڈیوٹرٹی (Rodrigo Duterte) کی حکومت کے ابتدائی دنوں کی کوریج کر رہا تھا۔ اس کے بعد بھی بہت سی فلمیں بنیں جن میں ’چائنہ سِنڈروم‘ (The China Syndrome) اور ’میڈ سٹی‘ (Mad City) بھی شامل ہیں ۔
رچرڈ بوائل کا ذکر آیا ہے تو یہاں ہنگرین نژاد امریکی فوٹو جرنلسٹ روبرٹ کیپا (1913ء تا 1954ء)کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی جس کی زندگی پر کوئی فیچر فلم تو نہیں بنی لیکن اس پر کئی دستاویزی فلمیں ضرور بنیں۔ وہ 40 برس کی عمر میں اپنے ایکٹوازم کی وجہ سے اس وقت فوت ہوا جب رسالے ’لائف‘ کے لیے پہلی ’ انڈو۔ چائنہ‘ جنگ کی کوریج کرنے شمالی ویت نام کے صوبے ’تھائی بنہ‘ (Thai Binh) گیا اور وہاں اس کا پاؤں ایک بارودی سرنگ پر آ گیا تھا۔
ولیم ایوجین سمتھ (پیدائش: وچیتا، کنساس ، 1918 ء) بھی ایک ایسا ہی اہم فوٹو جرنلسٹ تھا۔ وہ اپنے دیگر کام کے علاوہ پہلے امریکی رسالے ’ نیوز ویک‘ اور پھر رسالے ’لائف‘ کے لیے کام کرتا رہا اور وہ اپنی ’ادارتی فوٹو سٹوریز‘ کے لیے مشہور رہا ہے: اس کی ایسی ہی ایک فوٹو سٹوری ’کنڑی ڈاکٹر‘ پہلی ادارتی فوٹو سٹوری مانی جاتی ہے۔ یہ 1948 ء میں ’لائف‘ رسالے میں شائع ہوئی تھی۔ سمتھ نے اس فوٹو سٹوری کو مکمل کرنے کے لیے کلوریڈو کے مضافاتی علاقے کریملین میں کام کرنے والے ڈاکٹر ارنسٹ کریانی کے ساتھ 23 روز گزارے۔ اس نے اسے مریضوں کا معائنہ کرتے، سرجری کرتے، آرام کرتے غرضیکہ ہر حال میں اس کی سینکڑوں تصاویر بنائیں جن میں سے 30 پر مبنی فوٹو سٹوری رسالے میں شائع ہوئی۔ اس نے ایسی ہی ایک اور فوٹو سٹوری 1951ء میں کی تھی : یہ ایک سیاہ فام ’نرس۔مڈ وائف‘ (نرس ۔ دائی)موڈی ای کیلن (Maude E. Callen) پر تھی جو ساؤتھ کیرولینا کی سب سے غریب بستی میں اپنا کلینک چلا رہی تھی۔ اس نے پچاس کی دہائی میں ایسی اور بہت سی فوٹو سٹوریز کیں جن کا تعلق انسانیت، غربت، انسانیت کی خدمت کے ساتھ تھا۔ ان تمام سٹوریز کے حوالے سے کئی بار اس کی جان کو خطرے بھی لاحق ہوئے ۔ ایسی ہی ایک پُرخطر مثال کا ذکر آگے آئے گا ۔
بچپن میں اڑتے جہازوں کی تصاویر میں دلچسپی لینے والا سمتھ اپنی ماں کی حوصلہ افزائی کے باعث نوجوانی میں ہی ایک اچھا فوٹوگرافر بن چکا تھا اور اس کی کھیلوں کے حوالے سے کھینچی تصاویر مقامی ’وچیتا پریس‘ میں چھپ چکی تھیں۔ 1934ء کا سال اس کی زندگی میں اہم تھا، ایک تو اس کی ایک تصویر نیویارک ٹائمز نے شائع کی، دوسرے اس کے والد ، جو دیوالیہ ہورہا تھا، نے خودکشی کر لی۔ اخبار میں چھپنے والی تصویر اور اس کے والد کی خودکشی آپس میں براہ راست نتھی تھیں۔ یہ تصویر آرکانسس دریا کی تھی جو کیچڑ بھری ایک تھالی کا منظر پیش کرتے ہوئے اس بات کا ثبوت تھا کہ امریکہ کا وسطی مغربی حصہ خشک سالی کا شکار ہو رہا تھا اس پر طُرہ یہ کہ اس کا والد اجناس کا کاروبار کرتا تھا۔ غالباً اسی سال اس نے ان دو واقعات کی بنیاد پر فوٹوگرافی کو اپنا کیرئیر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس نے1937 ء میں ناٹراڈیم یونیورسٹی میں فوٹوگرافی کی تعلیم ادھوری چھوڑی اور نیویارک چلا گیا۔ اس نے 1938 ء میں ’نیوز ویک‘ کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی وہ اپنے ساتھیوں میں دو وجوہات کی بنا پر جانا جانے لگا: وہ فوٹوگرافی میں کمالیت پسندی کا قائل تھا، دوسرے کھردرا اور اکھڑ پن اس کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ وہ نیوز ویک میں زیادہ دیر نہ ٹِک سکا: اسے کہا گیا تھا کہ وہ بڑے نیگیٹو والے کیمرے استعمال کرے لیکن وہ 35 ایم ایم کے ’کونٹیکس‘کیمرے سے کام لینے پر اَڑا رہا۔ 1939 ء میں اس نے ’لائف‘ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا اور جلد ہی اس کے فوٹو ایڈیٹر وِلسن ہِکس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں اس نے لائف کے ساتھ ساتھ ’زَف۔ڈیوس‘ (Ziff-Davis) کے لیے بھی جنگی تصاویر کھینچنا شروع کر دیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں اور جنگی قیدیوں کی زبوں حالی نے اس کی تصاویر کو ایک نئی جہت عطا کی اور اس کے شعور کو بھی جِلا بخشی۔ وہ اس بارے میں خود کہتا ہے:
” آپ ایک قوم کو قتل کرنے اور دوسروں کو مارنے کے لیے تیار کریں اور اس سے اس قوم کے لوگوں کے دماغ چوٹ نہ کھائیں، یہ ممکن نہیں۔“ اس نے آگے چل کر اور کہا:
”۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ میری تصاویر اس لالچ، احمقانہ پن اور عدم برداشت کے خلاف کوئی نہ کوئی پیغام دیتی ہیں جو جنگوں کو جنم دیتی ہیں اور انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہیں۔“
سمتھ اپریل 1945ء میں 82 روزہ ’جنگ ِ اوکی ناوا ‘ میں فوٹوگرافی کرتے وقت ایک مارٹر گولہ لگنے سے شدید زخمی بھی ہوا۔
امریکی دستاویزی فلم میکر اور سکرین رائٹر ’بِن میڈو‘ کادوسری جنگ عظیم کے حوالے سے سمتھ کی فوٹو گرافی کے بارے میں کہنا تھا:
”۔ ۔ ۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے سمتھ کی ذہانت بتدریج اسے ایک فوٹو جینیئس بنا رہی ہو۔ ۔ ۔ “
اپریل 1951ء میں چھپی اس کی فوٹو سٹوری ’ایک ہسپانوی دیہات‘ اور اس کا ’جاز لوفٹ پراجیکٹ‘ اپنی جگہ خاصے اہم ہیں۔
سمتھ 1971 ء میں اپنی جاپانی نژاد امریکی بیوی ’ایلین مائیوکو ‘ کے ہمراہ جاپان گیا اور 1973 ء تک مِناماتا میں رہا۔ مناماتا جاپان کا ایسا علاقہ تھا جہاں لوگ ماہی گیر تھے اور وہاں چیسو نامی ایک کیمیکل پلانٹ بھی تھا جو صنعتی فضلے کے طور پر بھاری دھاتوں، جن میں ’ میتھائل مرکری ‘ کے ذرات بھی شامل تھے، اُن ندی نالوں میں پھینکتا جو مناماتا کے گرد و نواح میں موجود تھے اور سمندر سے جا ملتے۔ سمتھ اور اس کی بیوی نے مقامی ٹریڈ یونین کے سرگرم کارکنوں کی مدد سے پارے کے زہر سے متاثر اس آبادی کی لاتعداد تصاویر اتاریں اور ان پر مبنی کتاب ’مناماتا، الفاظ اور تصاویر‘ (Minamata, Words and Photographs)1975 ء میں شائع کی۔ اس کتاب کے وسطی صفحات پر ایک تصویر ہے جس کا عنوان ہے: ’غسل لیتی توموکو‘ (Tomoko Uemura in Her Bath)۔ یہ تصویر جب 1974 ء میں ٹوکیو میں منعقدہ عالمی تصویری نمائش میں پیش ہوئی تو اس نے دُنیا بھر کی توجہ ’مِناماتا بیماری‘ کی طرف مبذول کروائی۔ بعدازاں کتاب کے سامنے آنے پر اس بیماری کا پھر سے غوغا اٹھا اور جاپان کی حکومت کو اس حوالے سے کچھ اقدامات اٹھانے پڑے گو یہ مسئلہ پوری طرح حل نہ کیا گیا۔
سمتھ نومبر 1974 ء میں امریکہ لوٹا، کتاب مکمل کرتے کے بعد ایلین سے الگ ہوا اور ایک اور عورت شیری سُورس کے ہمراہ نیویارک کے ایک سٹوڈیو اپارٹمنٹ میں رہنے لگا۔ بعد ازاں اس نے یونیورسٹی آف ایریزونا میں پڑھانا شروع کر دیا۔ دسمبر1977 ء میں اس پر فالج کا پہلا حملہ ہوا لیکن دوسرا حملہ جان لیوا ثابت ہوا اور وہ 15 اکتوبر 1978ء کو فوت ہو گیا۔
’بِن میڈو‘ سمتھ کے کام کے بارے میں کہتا ہے:
”اس کا کام تصاویر اور الفاظ کے ذریعے انسان کی زبوں حالی کو ریکارڈ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسا کرنے میں اور کوئی فوٹوگرافر کامیاب نہ ہوا لیکن سمتھ نے اپنی نسبتاً مختصر پُرخطر اور الم بھری زندگی میں کم از کم پچاس ایسی تصاویر ضرور پیش کی ہیں جنہوں نے ہمارے دور کی تاریخ کے بارے میں ہمارے ادراک کو بدل کر رکھ دیا ہے۔“
حال ہی میں امریکی فلم میکر اینڈریو لیویتاس (Andrew Levitas) نے فلم ’مِناماتا‘ (Minamata) بنائی ہے۔ یہ ایک بائیوگرافیکل ڈرامہ فلم ہے اور فروری2020 ء میں ریلیز ہوئی۔ یہ ’ولیم ایوجین سمتھ‘ (William Eugene Smith) کی زندگی کے آخری سالوں پر مبنی ہے۔ اس کی زندگی کا آخری اہم کام’کُوماموٹو‘، جاپان کی بستی ’مناماتا‘ میں مرکری پوائزنگ (Mercury Poisoning) جسے ’مِناماتا بیماری‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پر تھا۔ اس فلم کا ماخذ سمتھ اور ایلین کی وہی کتاب ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اس فلم میں سمتھ کا کردار امریکی اداکار ’جانی ڈیپ‘ نے جبکہ اس کی بیوی ایلین کا کردار جاپانی اداکارہ ’مینامی‘ ادا کیا ہے۔ اس فلم کی موسیقی جاپانی موسیقار ’ساکا موٹو ( The Last Emperor فیم ) نے ترتیب دی ہے۔ لگ بھگ115 منٹ کی یہ فلم اچھی بنی ہے یا نہیں، یہ سوال الگ ہے لیکن اس فلم نے 1978ء میں فالج کے ہاتھوں فوت ہوئے، 59 سالہ اس فوٹوگرافر کو پھر سے دُنیا کے سامنے لا کھڑا کیا ہے جس کی 1971ء میں کھینچی تصویر ’غسل لیتی توموکو‘ (Tomoko Uemura in Her Bath) ولیم ایوجین سمتھ کی شاہکار مانی جاتی ہے۔
اس فلم کی وجہ سے یہ تصویر اور اسی سے متعلقہ دیگر کئی تصاویر بھی دوبارہ منظر عام پر آئی ہیں۔ یاد رہے کہ1997 ء میں تصویر ’غسل لیتی توموکو‘ کی سرکولیشن کو، توکومو کے والدین کی خواہش پر، ایلین سمتھ نے روک دیا تھا۔ اس نے اس تصویر کے کاپی رائٹس، جو ایوجین سمتھ کی وفات کے بعد اس کے پاس تھے، 1998 ء میں ’توموکو‘ کے خاندان کو دے دئیے تھے۔ ’توموکو کامی مورا‘ 1977ء میں 21 سال کی عمر میں فوت ہو گئی تھی۔ ایوجین سمتھ کی فوٹو گرافی کو بالعموم اور مِناماتا میں کی گئی فوٹوگرافی کو اس کے ایکٹِوزم (Activism) سے بھی جوڑا جاتا ہے، جس کے دوران پارے کی زہر آلودگی کی ذمہ دار ’چیسو‘ ( Chisso) کیمیکل کارپوریشن کے غنڈوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آنکھ کی بینائی سے بھی محروم ہو گیا تھا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا فنون لطیفہ سے جڑا کوئی بھی شخص، خواہ وہ ادیب ہو، شاعر ہو، مصور ہو، مجسمہ ساز ہو، صحافی ہو، فوٹوگرافر ہو یا پھر فلم میکر ، خود کو معاشرے سے الگ تھلگ رکھ کر اپنے فن کو زندہ و جاوداں کر سکتا ہے؟
مجھے اوروں کا تو پتہ نہیں لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ پکاسو گورنیکا، سپین میں ہوئی اپریل 1937 ء کی نازی جرمنی کی بمباری سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہاں ہوئی تباہی ، عورتوں و بچوں اور حیاتیات کی ہلاکتوں کو اپنی پینٹنگ ’گورنیکا‘ میں ایسے پیش کرتا ہے کہ یہ پینٹنگ اپنے زمانے کی قید سے نکل کر آفاقی بن جاتی ہے۔ صادقین کا منگلا ڈیم کی عمارت میں لگا میورل ’ساگا آف لیبر‘ محنت کشوں کی عظمت کا نشان بن جاتا ہے۔ گورکی کا ناول ’ماں‘ ایک اور پیرائے میں اپنی حیثیت منواتا ہے۔ گابو کا ناول ’تنہائی کے سو سال‘ کولمبیا، جنوبی امریکہ کی حدوں کو پار کرتا پورے جگ پر چھا جاتا ہے۔ منٹو کی ’ٹیٹوال کا کتا‘ اور ’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘ جیسی کہانیاں اسے ہندوستان کے بٹوارے کے پس منظر سے آزاد کرتے ہوئے ہر اس خطے میں لے جاتی ہیں جہاں تقسیم کے بعد نئی سرحدیں قائم ہوتی ہیں اور انسانیت حیوانیت میں بدلتی نظر آتی ہے۔ روبرٹ کیپا کی تصویر’قرطبہ، سپین میں وفادار ملیشیا مین کی موت‘ صرف ایک سپاہی کی موت کو ہی نہیں دکھاتی بلکہ اس بربریت کو آشکار کرتی ہے جو ہر جنگ کا لازمی جزو ہے۔
سمتھ کی زنبیل میں موجود تصویر ’غسل لیتی توموکو‘ بھی ایک ایسی ہی تصویر ہے جوسرمایہ داری نظام، صنعتی استحصال اور انسانی قدروں کی پامالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہ یوں تو 1971ء میں کھینچی گئی تھی لیکن یہ آپ کو مائیکل اینجلو کے زمانے میں بھی لے جاتی ہے اور آپ کو اس کے مجسمے ’The Pietà‘، جو غالباً اس نے اکیس برس کی عمر میں لگ بھگ 1498/99 ء میں بنایا تھا، کی یاد دلاتی ہے اور اگر آپ مزید غور کریں گے تو یہ آپ کو قبل از مسیح زمانے میں بھی لے جائے گی جب ’Eros Sleeping‘ جیسے فن پارے تخلیق ہوئے تھے۔ یہ تصویر زمانہ حال و مستقبل میں تب تک اہم رہے گی جب تک سرمایہ داری نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور اس کے تحت چلنے والی صنعتیں اپنے زہریلے فضلے سے کسی نہ کسی طور ماحول میں آلودگی پھیلاتی اور ’مناماتا بیماری‘ جیسی دیگر کئی بیماریوں کا سبب بنتی رہیں گی۔
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...