فاسفورسی کھاد مہیا کرنے والی جرثوموں کے کام کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آپ دو باتوں کو سمجھ لیں
پہلی بات
پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کی زمینوں میں بجھے ہوئے چونے یعنی کیلشیم کاربونیٹ کی مقدار بہت زیادہ ہے.
یہ بجھا ہوا چونا یعنی کیلشیم کاربونیٹ کیا چیز ہے؟
قدرت نے بجھا ہوا چونا یعنی کیلشیم کاربونیٹ کئی شکلوں میں پیدا کیا ہے.
ہم نے اپنے سکولوں میں دیکھا ہے کہ ہمارے اساتذہ تختہ سیاہ (بلیک بورڈ) پر سفید چاک کی مدد سے لکھا کرتے تھے.
یہ سفید چاک بجھے ہوئے چونے یعنی کیلشیم کاربونیٹ سے ہی بناہوتا ہے. آپ کو معلوم ہے کہ یہ چاک قدرے نرم ہوتا ہے اور بچے بھی اسے آسانی سے توڑ دیتے ہیں. حتی کہ آپ اپنی جوتی کی ایڑھی کی مدد سے، اسے پاوڈر میں بھی تبدیل کر سکتے ہیں. یوں سمجھ لیں کہ اسی طرح کا پاؤڈر پاکستانی زمینیوں کے اندر موجود ہے.
پاکستانی زمینوں میں کیلشیم کاربونیٹ کتنی مقدار میں پایا جاتا ہے؟
آپ کو جان کر شائد حیرت ہو کہ ہماری زمینوں میں یہ بجھا ہوا چونا یعنی کیلشیم کاربونیٹ 25 فیصد تک پایا جاتا ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ 100 کلو گرام مٹی لیں تو اس میں 25 گلوگرام تک بجھا ہوا چونا یعنی کیلشیم کاربونیٹ ہو سکتا ہے.
دوسری بات
دوسری سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب ہم کوئی بھی فاسفورسی کھاد مثلاََ ڈی.اے.پی، ایس. ایس.پی، ٹی.ایس.پی یا این.پی.کے وغیرہ زمین میں ڈالتے ہیں تو یہ بجھا ہوا چونا یعنی کیلشیم کاربونیٹ، کھاد میں پائی جانے والی فاسفورس پر حملہ آور ہوتا ہے اور اسے پکڑ کر اپنے کیلشیم والے سرے کے ساتھ نہائیت مضبوطی سے جکڑ لیتا ہے.
اب یہ جکڑی ہوئی فاسفورس اس قابل نہیں رہتی کہ پودے تک پہنچ سکے. حتی کہ پودا اگر چاہے بھی تو پوری کوشش کے باوجود اس جکڑی ہوئی فاسفورس کو چھڑوا کر اپنے استعمال میں نہیں لا سکتا.
لہذا آپ نے دیکھا کہ وہ فاسفورس کھاد جو آپ نے انتہائی مہنگے داموں خریدی تھی وہ بجھے ہوئے چونے یعنی کیلشیم کاربونیٹ کے شکنجے میں آ چکی ہے. اور اس کو اس شکنجے سے نکلنے کے لئے مدد کی ضرورت ہے.
فاسفورسی جراثیم کرتے کیا ہیں؟
لہذا اس مشکل صورتِ حال میں فاسفورسی جراثیم مدد کو آتے ہیں. وہ حملہ کر کے فاسفورسی کھاد کو بجھے ہوئے چونے یعنی کیلشیم کاربونیٹ کے شکنجے سے آزاد کرواتے ہیں. اور اس طرح فاسفورس آزاد ہو کر اپنی منزلِ مقصود یعنی پودے تک پہنچ جاتی ہے.
لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے!
جیسا کہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ زمین میں بجھے ہوئے چونے کی مقدار بہت زیادہ ہے. اور زمین میں قدرتی طور پر پائے جانے والے فاسفورسی جراثیموں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے. لہذا فاسفورس کی آزادی کے لئے بجھے ہوئے چونے اور فاسفورسی جراثیموں کی لڑائی میں ذیادہ تر جیت بجھے ہوئے چونے کی ہی ہوتی ہے.
البتہ فاسفورسی جراثیم یہ جنگ جیت سکتے ہیں اگر انہیں باہر سے مزید فوج یا کمک پہنچا دی جائے.
اس سے پہلے کہ ہم آپ کو بتائیں کہ سائنس دان فاسفورسی جراثیموں کی فوج کیسے تیار کرتے ہیں؟
پہلے آپ ان جرثوموں کا تعارف حاصل کر لیں!
ہمارے ہاں پاکستانی زمینوں میں دو طرح کے جرثومے پائے جاتے ہیں. جو اس قابل ہیں کہ فاسفورس کو آزاد کروا سکیں.
ان میں ایک جرثومے کا نام ہے – سوڈو-موناس
یہ وہ جرثومے ہیں جنہیں سوڈوموناس کہتے ہیں
اور دوسرے جرثومے کا نام ہے- بیسی- لس
یہ بیسی لس جرثومے ہیں ایک طرف بچے اور دوسری طرف بالغ
ان جرثوموں کے پاس کون کونسے ہتھیار ہیں؟
ان دونوں جرثوں کو اللہ تعالی نے جو قدرتی ہتھیار دئیے ہیں وہ ان کی نامیاتی تیزاب پیدا کرنے کی صلاحیت ہے. جس طرح سانپ اپنے زہر کے ذریعے حملہ کرتا ہے بالکل ایسے ہی یہ جرثومے اپنے تیزاب کے ذریعے حملہ آور ہوتے ہیں. اور فاسفورس کو آزاد کرا لیتے ہیں.
سائنس دان فاسفورسی جراثیموں کی فوج کیسے تیار کرتے ہیں؟
چونکہ یہ دونوں جرثومے مٹی میں ہی پائے جاتے ہیں. لہذا ہمارے سائنس دان انتہائی احتیاط اور باریک بینی سے ان جرثوموں کو مٹی سے الگ کر لیتے ہیں.
اور لیبارٹریوں میں ان کی نشوونما کر کے ان کی نسل آگے بڑھاتے ہیں. لہذا یہ جرثومے دو سے چار، چار سے آٹھ. آٹھ سے سولہ اور پھر دوگنے سے دوگنے ہوتے چلے جاتے ہیں.
لیجئے جرثوموں کی فوج تیار ہے!
سائنس دان ان جرثوموں کو خاص طرح کی مٹی میں ڈال کر محفوظ کر لیتے ہیں. اور پیکٹوں میں پیک کر کے کسانوں کے حوالے کر دیتے ہیں.
ہمارے ہاں ان فاسفورسی جراثیمی پیکٹوں کوفاسفورس کا جراثیمی ٹیکہ بھی کہا جاتا ہے.
یہ جراثیمی ٹیکہ کتنے عرصے تک قابلِ استعمال رہتا ہے؟
نائٹروجنی جراثیمی ٹیکے کی طرح یہ فاسفورسی جراثیمی ٹیکہ بھی کم از کم 3 اور زیادہ سے زیادہ 6 ماہ تک قابلِ استعمال رہتا ہے