جب اس عالم مادہ میں نور اول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدہو ئی تو نگاہوں کو خیرہ کردینے والے بہت سے واقعات رونما ہوئے جو فطرت انسانی سے بالاتر تھے ۔قصر کسریٰ کے چودہ کنگوروں کازمیں بوس ہوجانا ،آتش کدہ فارس کاگل ہوجانااوردریائے ساوہ کاخشک ہوجاناوغیرہ۔
اس ذات مقدس نےایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں جہاں جہالت کا دور دورہ تھا ،بتوں کی پرستش کی جاتی ،ذرا ذراسی باتوں پر چالیس چالیس برس جنگ ہواکرتی ،جگر کے ٹکڑوں کوزندہ در گور کیاجاتا،اپنے علاوہ سب کوعجم (گونگا)سمجھاجاتااور ایسے غیر انسانی افعال انجام دئے جاتے کہ اللہ کی پناہ !
مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام بعثت سے پہلے عرب کےحالات کویوں بیان فرماتے ہیں:۔۔۔لوگ ایسے فتنوں میں مبتلاتھے جہاں دین کے بندھن شکستہ ،یقین کے ستون متزلزل ،اصول مختلف اور حالات پراکندہ تھے،نکلنےکی راہیں تنگ اورتاریک تھیں۔ہدایت گمنام اورضلالت ہمہ گیر تھی ۔(کھلے خزانوں )اللہ کی مخالفت اور شیطان کی مدد کی جاتی تھی ۔ایمان بےسہارا تھا ۔چنانچہ اس کے ستون گر گئے ۔اس کےنشان تک پہچاننے میں نہ آتے تھے ۔اس کے راستہ مٹ گئے اورشاہراہیں اجڑ گئیں تھیں ۔وہ شیطان کے پیچھے لگ کر اس کی راہوں پر چلنے لگے اور اس کے گھاٹ پر اتر پڑے ۔انہیں کی وجہ سےان کے پھریرے ہر جگہ لہرانے لگے تھے ایسے فتنوں میں جو انہیں اپنے سمو روندتے اور اپنے کھروں کچلتے تھے اور اپنے پنجوں کے بل مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھےتو لوگ ان میں حیران و سرگرداں ،جاہل وفریب خوردہ تھے ۔ایک ایساگھر جو اچھا مگر اس کے بسنے والے برے تھے ۔جہاں نیند کے بجائے بیداری اورسرمہ کی جگہ آنسو تھے ۔اس سرزمین پر عالم کےمنھ میں لگام تھی اور جاہل معزز اور سرفراز تھا۔۔۔(نہج البلاغہ خطبہ 2 ترجمہ مفتی جعفر حسین (
ایسے ناگفتہ حالات میں آپ نے دین الٰہی کی عملی تبلیغ کرنا شروع کی ،لوگوں کو دعوت حق دی اور اعلان نبوت بھی کیا۔یہ خبر بجلی کی رفتار سے اور جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اورگردو نواح میں بسنے والے افراد کے کا نوں سے جاٹکرائی ۔پہلے پہل تولوگ آپ کی دعوت سے کتراتے لیکن جب آپ کوحقیقی نجات دہند ہ پایا تو پہلے تھوڑے تھوڑے اور پھر فوج در فوج دائرہ اسلام میں پناہ لینے لگے اور کارواں بنتاگیا ۔
میں اکیلا ہی چلاتھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتاگیا
ادھر وحدانیت کےمنکرین کے دلوں میں آگ بھڑک اٹھی ۔وہ قریش کے سردار جناب ابوطالب علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا:اے ابوطالب ! آپ محمد کومنع کر دیجئے کہ وہ ہمارے خداؤں