پھولوں کی ٹوکریاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جب بھی مذہبی دہشت گردی پہ کچھ لکھ کر فیس بک پہ لگاتا ہوں تو دو قسم کے پیغامات مجھے ان بکس میں موصول ہوتے ہیں
ایک تو وہ ہوتے ہیں ہیں جو بمع ترجمے کے مجھے گالیاں دیتے ہیں،، دوزخ میں میری خوراک کا مینو( جس میں پیپ زدہ خون بطور خوراک ضرور شامل کرتے ہیں) مجھے دیکھا تے ہیں ۔۔۔ میں نے جن کیڑوں مکوڑؤں کا نام تک نہیں سُنا یہ لوگ ان کیڑوں مکوڑوں کو میرا جسم کھاتے دیکھاتے ہیں ، مگر پتہ نہیں میرا جسم کس چیز کا بنا ہے کہ ان کیڑوں مکوڑوں سے ختم ہی نہیں ہو پاتا اس کے لیے مجھے یہ چوبیس گھنٹے کسی آگ میں ڈالے رکھتے ہیں مگر سکنڈے نیویا میں اتنے سال رپنے کی وجہ سے میرے جسم اور میری ہڈیوں میں اتنی برف جم چُکی ہے کہ یہ آگ بھی مجھے پگھلا نہیں سکتی اس کا علاج یہ لوگ کسی بہت ہی طاقتور فرشتے سے دن رات مجھے بھاری بھاری سلاخون سےمیری ہڈیاں توڑنے کی اطلاعات دیتے ہیں مگر یہ طاقتور فرشتے اپنی نا تجربہ کاری کی وجہ سے میرا دماغ توڑ نہیں پاتے اور میں ان سے آنکھ بچا کر وہاں سے بھاگ نکلتا ہوں اور اگلے ہی لمحے میں مذہبی دہشت گردہ پہ کچھ اور لکھ کر فیس بک پہ لگ دیتا ہوں
اب ایک دوسرے گروہ کے مجھے ان بکس میں پیغا مات موصول ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ میں نےآوارہ گردیاں کی ہیں ، جن کے ساتھ میں نے ساری ساری رات لمبی لمبی سڑکوں پہ چاند کے ساتھ ساتھ سفر کیا ہے ،جن کے ساتھ میں نے کسیلی چائے کے کپ بانٹے ہیں۔۔۔ جن کی جیبوں سے میں نے اور انھوں نے میری جیب سے ان بجھے سگریٹوں کے ٹوٹے نکال کر سُگائے ہیں ۔۔ان میں وہ لوگ بھی ہیں جن سے میں اور انھوں نے مجھ سے تختی پوچنے کے لیے گاچنیاں ادھار لی ہیں یا چوری کی ہیں مگر جب یہ لوگ مجھے مذہبی دہشت گروں کے شکنجے میں گھرا دیکھتے ہیں تو سڑکوں میں کی گی آوارہ گردیوں ، کسیلی چائے ، اور گاچنیوں کا حوالہ دے کر اور مجھ سےمحبت کرتے مجھے ان تحریروں سے کنارہ کش ہونے کے مشورے دیتے ہیں
اور ۔۔۔۔ پھر جب میں ان کو کہتا ہوں کہ اگر ہم اہنے ہونٹوں پہ زیپ لگائے رکھیں گئے تو یہ مذہبی دہشت گرد ایک ایک کر کے ہمارے پر خچے اُڑا دیں گے تو وہ غصے میں اور مجھ سے محبت میں ایک مہذب گالی دیتے مجھ ے ربطہ ختم کر دیتےہیں کہ،، بھاڑ میں جاو تم اور تمھاری یہ مذہبی دیشت گردی کے خلاف جنگ ۔۔۔۔۔ مگر کسی بھی واقعہ ، اپنی نظم یا اپنی تحریر میں ہمارا ذکر نہ کرنا،اور میں ان سے عہد کرتا ہوں کہ یہ صلیب میں اپنے ہی کندھوں پہ اُٹھاؤں گا
مگر کل ایک خواب نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے،
میں نے ان بکس میں آنے والے دونوں قسموں کے پیغامات کو کبھی اتنی ایمیت نہیں دی کیونکہ میں سمجھتا ہوں یہ انیس بیس کے فرق کے ساتھ ایک جیسے ہی پیغامات ہیں مگر کل کے خواب نے مجھے ہلادیا ہے
خواب میں لوگ ہاتھوں میں پھولوں کی ٹوکریاں لیے ہوئے مذہبی دہشت گرد ممتاز قادری کی قبر کی طرف بڑ رہے ہیں اور یہ پھولوں کی ٹوکریاں ممتاز قادری کی قبر پہ ڈھیر کرتے جاتے ہیں ۔۔ مجھے ان ٹوکریوں میں پھول نہیں پشاور کے پھول سے بچے ، ہزاراہ کے جنازے اور ساٹھ ہزار پاکستنانیوں کی لاشیں نظر آ رہی ہیں، ان لوگوں کے گھروں میں اور بھی پھولوں کی ٹوکریاں ہیں جن میں پشاور کے پھول سے بچے ہزاراہ کے جنازے اور پاکستانیوں کی لاشیں ہیں جن کو یہ لوگ کسی اور مذہبی دہشت گرد پہ نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں اگر ہم اپنے ہونٹوں پہ زیپ لگائے رکھیں گے
میں کل سے سوچ رہا ہوں کہ کیا اس معاشرے نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے گلے کاٹ کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں
کیا اجمل کمال ، مرزا یاسین بیگ ،عفاف اظہر امیں مغل، جمیل خان، عمائول کرسیچن۔حسین عابد ( معافی چاہتاہوں آپ لوگوں کے نام لکھ رہا ہوں مگر مجبور ہوں ) اور بہت سے دوسروں کے الفاظ سب بیکار گئے ہیں۔۔ کیا ہماری لکلھت میں کوئی گرائیمر کی غلطی تھی کہ لوگوں کو ہماری بات سمجھ نہ آسکی ۔۔کیا کوئی تصنیف حیدر ان مذہبی دیشت گردوں سے ،، دس سوال،، پوچھے گا ۔۔ کیا ہم اپنے الفاظوں سے دستبردار ہو جائیں ، کیا یہ ٹوکریاں ہی اس معاشرے کی اصل تصویر ہیں ،
مجھے میرے ان بکس میں آئے پیغامات نے اتنا سوچھنے ہی مجبور نہی کیا جتنا کل کے خواب نے ہلا کر رکھ دیا ہےاوروں سے بھی مگر خاص طور پہ جن کے نام لکھیں ہیں میری ان سے گزارش ہے میری مدد کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“