پھولوں کا بادشاہ گلاب— گلاب کا شہنشاہ دمشق کا گلاب
بلغاریہ کا گلاب دمشق۔
شوگر کے مرض میں عرق گلاب کے حیرت انگیز فوائد!
ڈپریشن میں گلاب کا عطر شفا بخش!
ہومیوپیتھی میں گلاب دمشق سے تیار شدہ دوا!
Bulgarian Rosa Damascena
گلاب امریکہ کا قومی پھول ہے ، لیکن یہاں پائے جانے والے گلاب کے اکثر پھولوں میں
خوشبو نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں گلاب کے زیادہ تر خوشبودار پھول جنوب مشرقی یورپی ملک بلغاریہ میں اگتے ہیں، جہاں ان سے بڑے پیمانے پر عطر بنایا جاتا ہے۔
دنیا میں گلاب کی تقریباً دس ہزار اقسام پائی جاتی ہیںگلاب کی وہ بنیادی اقسام جنہیں گلاب کے آبائواجداد میں شمار کیا جاتا ہے ان کی تعداد160 ہے۔ اس تعداد میں سے12 اقسام قدرتی طور پر پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ جنگلی گلاب کا پھول عام طور پر پانچ پنکھڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ایک ٹہنی پر پتوں کی تعداد پانچ یا سات ہوتی ہے۔ چین میں پائی جانے والی ایک جنگلی قسم کی پنکھڑیوں کی تعداد چار ہوتی ہے۔
سب سے زیادہ خوشبو دینے والا گلاب ملک شام کے علاقہ دمشق میں پایا جاتا ہے جسے گلاب دمشق کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ گلاب دمشق کو یورپ میں پائی جانے والی بہت سی جدید اقسام کے وجد میںشمار کیا جاتاہے۔ صلیبی جنگوں کے دوران یورپی جنگجو وسط ایشیاء سے جو علم ،ہنر اوردیگر اشیاء یورپ لے کر گئے ان میں سے ایک گلاب دمشق بھی ہے۔ اس زمانہ میں اس گلاب کو مذہبی تقدس حاصل تھا۔
دمشق سے لے جایا جانے والا زیادہ تر گلاب گرجا گھروں میں لگایا گیا اور اس کے پھول عبادت کے وقت گرجا گھروں میں نذر کئے جانے لگے۔
یورپ میں پائی جانے والی خوشبو دار گلاب کی زیادہ تر اقسام کی بنیاد یہی گلاب دمشق ہے۔ فرانس میں کشید کیا جانے والا عرقِ گلاب اور عطر گلاب زیادہ تر اسی قسم سے کشید کیا جاتا ہے۔پانچ ٹن گلاب کی پتیوں سے صرف ایک لِٹر عطر کشید کیا جاتا ہے۔ جبکہ پانچ ایکڑ رقبے پر گلاب کاشت کیا جائے تو اس سے لگ بھگ چھ ٹن گلاب کی پتیاں حاصل ہوتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ دمشق کا گلاب صلیبی جنگجو رابرٹ ڈی برائے 1149 میں دمشق سے لایا تھا جس نے شام کے محاصرے میں حصہ لیا تھا- کچھ تاریخ دان بتاتے ہیں کہ یہ گلاب رومی لوگ دمشق سے انگلینڈ لے گئے تھے- ایک تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ گلاب کنگ ھنری ھشتم کے معالج نے بادشاہ کو 1540 میں بطور تحفہ پیش کیا تھا- لیکن بہرحال یہ بات طے کے کہ یہ دمشق کا گلاب دمشق سے ہی یورپ پہنچا تھا- افغانستان میں بھی قدیم زمانے سے دمشق کے گلاب کا عطر تیار کیا جاتا رہا ہے-
گلاب دمشق عثمانی ترکوں کے ذریعے بلغاریہ پہنچا، گلاب دمشق میں تقریبا ایک سو سے زائد ادویاتی اور کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔دنیا کے بیش ترعلاقوں میں عطر گلاب، عرق گلاب، گل قند اورگلاب کی خشک و تازہ پنکھڑیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ گلاب کا عطر دنیا کی بیش قیمت خوشبوئوں میں شمار ہوتا ہے۔
ترکی اور بلغاریہ اس گلاب سے عطر بنانے کے سب سے بڑے مراکز ہیں- بلغاریہ کا عطر گلاب پوری دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا- فرانس اور اٹلی کی پرفیوم بنانے والی کمپنیاں اپنی خوشبویات میں عطر گلاب شامل کرنے کے لئے بلغاریہ سے ہی یہ روز آئل خریدنا پسند کرتے ہیں-
بلغاریہ میں گذشتہ تین سو برسوں سے گلاب کی ایک ’ دمشق ‘ نامی قسم کاشت کی جارہی ہے۔ جس میں بہت زیادہ خوشبو ہوتی ہے۔ گلاب کی اس قسم کو دنیا بھر میں عطر بنانے کے لیے سب سے بہتر گلاب سمجھا جاتا ہے۔
مگر گلاب کا عطر بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سورج نکلنے سے بھی پہلے ہاتھوں سے پھول توڑنے کا کام شروع کردیاجاتا ہے۔تاکہ انہیں مرجھانے سے پہلے عطر بنانے والی فیکٹری میں پہنچا دیا جائے۔ کیونکہ مرجھانے سے اس کی خوشبو کم ہوجاتی ہے۔
جس طرح پاکستان میں خواتین کھیتوں میں کپاس چنتی ہیں یا بنگلہ دیش اور بھارت میں عورتیں چائے کی پتیاں چنتی ہیں اسی طرح بلغاریہ میں خواتین گلاب کے پھول چنتی ہیں- پھول چننے کا یہ کام صبح پانچ بجے شروع کیا جاتا ہے اور دن کے دس بجے تک جاری رہتا ہے- ٹوکریاں کی ٹوکریاں گلاب چن کر عطر بنانے والی فیکٹری کو سپلائ کئے جاتے ہیں-
فلپ عطربنانے والی ایک کمپنی اینوی چلاتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ بلغاریہ کا گلاب کا عطر دنیا بھر میں اپنی اعلیٰ کوالٹی کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ عطر زیادہ تر پرفیومز، کاسمیٹیکس اور فوڈ انڈسٹری اور ادویہ سازی میں بھی استعمال ہورہاہے۔
ایک کلوگرام سو فیصد خالص گلاب کا عطر بنانے کے لیے چار ہزار کلو گرام گلاب کی پتیاں استعمال ہوتی ہیں ۔ اور دنیا کے مقبول ترین پرفیومز میں استعمال ہونے والا بلغارین روز آئل یا عطر سات ہزار امریکی ڈالرز فی کلوگرام تک میں فروخت کیا جاتا ہے ۔ اس سال بلغاریہ کے گلاب کے عطر کی پراڈکشن میں 25 فیصد اضافے کا امکان ہے ۔
یوروپ اور امریکہ کے معاشی بحران کے منڈیوں پر اثرات کے باوجود عطر گلاب اور اس سے بننے والی دوسری مصنوعات کی فروخت زیادہ متاثر نہیں ہوئی ہے کیونکہ ابھی تک اس کا کوئی نعم البدل دریافت نہیں کیا جاسکاہے۔
Rosa Damascena Homeopathic
ہومیوپیتھی طریقہ علاج میں بھی دمشق کے گلاب سے مدر ٹنکچر تیار کیا جاتا ہے جسے مختلف بیماریوں و علامات میں استعمال کیا جاتا ہے- خاص طور پر موسم بہار میں پولن سے ہونے والی الرجی سے ہونے والے بخار ( Hay Fever) کے لئے یہ بہت مفید مانا جاتا ہے- اس کے علاوہ کانوں کی ایک بیماری جس میں کانوں میں گھنٹیاں یا سیٹیاں بجنے کی آواز سنائ دیتی ہے جس کو ( Tinnitus) کہا جاتا ہے یا اونچا سننے کی بیماری میں بھی مفید ہے-
عرق گلاب دل ودماغ کیلئے مقوی دوا
ہمارے یہاں ڈپیریشن اور اعصابی دباؤ کی وجہ سے اکثر لوگ سکون آور ادویات استعمال کرتے ہیں۔زندگی کی گہما گہمی کاشکاریہ لوگ عرق گلاب شہد اور اسپغول کواپنی خوراک کاحصہ بنالیں تو انہیں ان تمام عوارض سے نجات مل سکتی ہے۔دنیا میں خوشبویات کے ذریعے علاج کاطریقہ نہایت مقبول ہورہا ہے۔
عرق گلاب ذیابیطس کے لئے!
ہمارے ایک دوست اپنا تجربہ اصلی عرق گلاب کے بارے میں اس طرح بتاتے ہیں-
“مجھے کسی دوست نے بتایا کہ صبح نہار منہ بہترین عرقِ گلاب دو چمچ پانی کہ ایک گلاس میں ملا کر پینے سے شوگر کنٹرول رہتی ہے 2 یا 3 ہفتے ہو گئے ہیں پیتے ہوئے کافی افاقہ ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے
بھائی میری شوگر سخت پرہیز اور ایکسرسائز و والک اور صبح دوپہر رات 2500 ملی گرام نیوڈیپار ٹیبلیٹ کھانے باوجود فاسٹنگ 160 ، سے اوپر ہی رہتی تھی کبھی کبھار ہی کچھ کم ہو جاتی تھی مگر میں حیران ہوں کہ عرق گلاب نے میری شوگر 112 سے 113 تک لے آیا ہے میں ہر دوسرے دن چیک کرتا ہوں فاسٹنگ میں،
کھانے والے دو چمچ عرق گلاب بھر کر صبح نہار منہ ایک گلاس پانی میں ملا کر-میں نے فی الحال تیبلیٹس بند کر دی ہیں 20 مارچ سے باقی پرہیز، صبح میں 20 منٹ بسک والک 15 منٹ ایکسرسائز شام میں 20 منٹ بسک والک اور رات کو کھانا کھانے کے 2 گھنٹے بعد والک کرتا ہوں کبھی آدھا کبھی کچھ زیادہ، اللہ کا کرم ہے بہت فی الحال شوگر کنٹرول ہے، پہلی ہی بوتل میں، مگر عرق اصل ہو بڑی بوتل لے لیں میں نے دتُو کوئٹہ کی لی تھی-
اس کے کوئی سائیڈ افیکٹس بھی نہیں ہیں دوست آزمائیں ہو سکتا ہے اللہ فائدہ عطا فرمائے-“
“عرق گلاب کے بارے ایک اور انکشاف آج مجھ پر اسوقت ہوا جب 11 بجے میں ابھی نیند سے بیدار ہوا ہی تھا کہ موبائیل فون نے چلانا شروع کر دیا نہ چاہتے ہوئے بھی کان سے لگا کر ہیلو کیا تو دوسری جانب میرا دوست پولیس افسر تھا اور بڑے پر جوش انداز میں بلا سلام دعا کہنے لگا یار راجا کمال ہو گیا، تیری بھابی کی شوگر ٹھیک ہو گئی ہے، میں نے پوچھا کیسے، بتایا کہ عرق گلاب کی تیسری بوتل پی رہی ہے اور کبھی کبھار گلوکوفیچ کی ایک گولی صبح کھا لیتی ہے مگر شوگر نارمل یعنی فاسٹنگ میں 80 سے بھی نیچے جانے لگ گئی ہے حالانکہ میٹھے کے علاوہ سارا دن کھاتی رہتی ہے، پہلے تین قسم کی گولیاں کھانے کے باوجود بھی فاسٹنگ شوگر 140 سے کم نہیں ہوا کرتی تھی، پھر مجھ سے پوچھا تم پی رہے ہو، میں نے کہا ہاں پی رہا ہوں تو کہنے لگا بس یار چھوڑنا مت پیتے رہنا اور پھر ادھر ادھر کی دو چار باتیں کرنے بعد فون بند کردیا، یاد رہے کہ مجھے میرے اسی جانی دشمن اوہ سوری جانی دوست نے عرق گلاب والا نسخہ بتایا تھا، کل میں نے خوب کھانا کھایا فروٹ بھی کھایا اور رات کو 45۔2 پر کالے چنے کھائے صبح شوگر چیک کی حالانکہ فاسٹنگ کوئی چھ یا ساڑھے چھ گھنٹے کی تھی مگر شوگر گلوکومیٹر پر 134 تھی جبکہ گلوکومیٹر اکثر 11 پرسنٹ زیادہ شوگر بتاتا ہے، عرق گلاب سے پہلے ٹیبلیٹس کھانے کے باوجود اتنا کھانے کے بعد میری فاسٹنگ عمومن 170 سے 180 ہوتی تھی، اللہ سب کو اس موزی مرض سے شفا دے۔
بھائیو میری فطرت میں شامل ہے کہ میں کبھی سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرتا، میرے جاننے والے ایسے 2 لوگ ہیں جن کو ایک حکیم کی دوا سے شوگر نے چھوڑ دیا اور اب وہ سب کچھ کھاتے ہیں اور کوئی سائیڈ افیکٹ بھی نہیں ہوئے۔ اسکے علاوہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عرق گلاب ویسے بھی دل، جگر، دماغ ، آنکھوں اور سکن کے لیئے بہترین ٹانک ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے کوئی سائیڈ افیکٹس بھی نہیں ہونگے، سو آزما کر دیکھیں میں تو خود اپنا تجربہ بتا رہا ہوں کہ میں نے ایلوپیتھک ادویات ترک کر دی ہیں، ہاں یہ ایک الگ بات ہیکہ کہ کس کو کون سی دوا فائدہ دیتی ہے کیوں کہ ہر انسان کی طبیعت اور مزاج الگ ہوتا ہے، جس حکیم کی دوا سے میرے دو جاننے والے بالکل ٹھیک ہو گئے اور ڈاکٹر ماننے کو تیار نہیں اس سے مجھے 10 فیصد سے زیادہ افاقہ نہ ہوا تین ماہ تک جبکہ گلاب پانی سے مجھے اللہ نے بہت فائدہ دیا اب دیکھتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہوتا ہے-“
معروف اسٹرو ہومیو معالج جناب انور فراز کہتے ہیں۔
“خالص عرق گلاب یک آتشہ اعصاب کے لیے بهی ٹانک کا کام دیتا ہے،میرے ایک دوست جو خود بهی حکیم ہیں ،عرق گلاب سے شوگر کا علاج کرتے ہیں،انهیں بهی شوگر ہو گئی تهی جو عرق گلاب نہار منہ استعمال کرنے سے بالکل ختم ہو گئی.چمن سے آنے والا "دتتو"کا عرق گلاب سب سے بہتر ہے،اشرف لبارٹری فیصل آباد کا بهی معیاری ہے”
.
عرق گلاب شوگر کے مرض میں استعمال کر کے تجربہ کرنے میں کوئ حرج نہیں کہ یہ کوئ نقصان نہیں کرے گا- لیکن شرط یہ ہے کہ عرق گلاب خالص ہونا چاہئے- یوں تو بازاروں میں بہت سے عرقِ گلاب دستیاب ہیں مگر خریدنے سے پہلے یہ تسلی ضرور کر لیں کہ کہیں آپ ناقص اور ملاوٹی عرقِ گلاب تو نہیں خرید رہے ۔خالص عرقِ گلاب اپنی خوشبو سے پہچان لیا جاتا ہے جب کہ ملاوٹی عرقِ گلاب کی خوشبو تلخ محسوس ہو گی اور وہ چکھنے پر بھی بد مزہ ہو گا ۔واللہ اعلم!
دوائی کے طور پر صرف دیسی گلاب ہی فائدہ مند ہے۔ خواص کے لحاظ سے قبض کشا ہے‘ پٹھوں اور ٹشوز کو مضبوط کرتا ہے‘ دل کی اکثر بیماریوں میں مفید ہے۔ دل و دماغ کو فرحت دیتا ہے۔ حکماء نے اس کے مزاج کو گرم تر کسی نے سرد خشک اور کسی نے متعدل بتایا ہے۔
گلقند:
دیسی گلاب کے پھولوں کی پتیاں ایک کلو‘ شکر (چینی) ایک کلو دونوں کو کھلے برتن میں ڈال کر ہاتھوں سے خوب مل کر مکس کریں پھر اس کو صاف جگہ پر دھوپ میں تین چار گھنٹوں کیلئے رکھ دیں۔ چینی اس میں اچھی طرح گھل جائے گی۔ اس کو شیشے یا اچھے پلاسٹک کے مرتبان میں محفوظ رکھیں۔ خوراک: دو تولہ پانی یا دودھ کے ساتھ لے سکتے ہیں۔ فوائد: قبض کشا ہے‘ معدہ کی فالتو رطوبتوں کو ختم کرتا ہے۔ معدہ کو طاقت دیتا ہے دل و دماغ کو فرحت دیتا ہے۔
شہد والی گلقند:
دیسی گلاب کی پتیاں ایک کلو‘ شہد 500گرام‘ دونوں کو کھلے برتن میں ڈال کر اچھی طرح ہاتھوں سے ملیں جب دونوں اچھی طرح سے مل جائیں تو اس کو پانچ چھ گھنٹہ کیلئے دھوپ میں رکھ دیں اور صاف مرتبان میں محفوظ کرلیں۔
عرق گلاب: پھول کی پتیاں اور پانی ملا کر عرق کشید کیا جاتا ہے۔ یہ دل ودماغ کو طاقت اور فرحت دیتا ہے‘ دل کی دھڑکن اور بے چینی کو دور کرتاہے‘ اگر سردرد ہو تو عرق گلاب میں لونگ گھس کر ماتھے پر لیپ کرنے سے سردرد دور ہوجاتا ہے۔ گلاب کا عطر بنانے کے بہت سے طریقے ہیں جو کافی پیچیدہ ہیں اس لیے اچھی کمپنیوں کا تیار کردہ عطر استعمال کریں۔
اگر آپ کو دیسی گلاب کے پھول میسر ہیں تو آپ گھر میں بھی خالص عرق گلاب تیار کرسکتے ہیں- حکیم لوگ عرق گلاب بنانے کے لئے بھبکا ( قرع انبیق) استعمال کرتے ہیں جو شیشے یا دھات کا بنا ہوتا ہے- لیکن آپ گھر میں دیگچی اور پیالے کی مدد سے بھی خالص عرق گلاب تیار کرسکتے ہیں- گھر پر عرق گلاب بنانے کے لئے یو ٹیوب کا مندرجہ ذیل لنک دیکھئے-
( اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب, بلاگز، طبی صفحات، اردو ڈائجسٹ اور وکیپیڈیا سے مدد لی گئ ہے-)