رچرڈ فائنمین
“میرا ایک مصور دوست ہے، کبھی کبھی وہ ایک بات کرتا ہے جس سے مجھے اتفاق نہیں۔ وہ ایک پھول اُٹھاتا ہے اور کہتا ہے: “دیکھو یہ کتنا خوبصورت ہے” اور میں اُسکی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ “میں ایک آرٹسٹ کی نظر سے دیکھ سکتا ہوں کہ یہ کتنا خوبصورت ہے مگر تم ایک سائنسدان کے طور پر اسکی بال کی کھال اُتارتے ہو اور اسے غیر دلچسپ شے بنا دیتے ہو۔” میرے خیال سے وہ شرارتاً یہ کہتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ وہ جس خوبصورتی کی بات کرتا ہے وہ باقی لوگوں کو بھی نظر آتی ہے اور میرے خیال سے شاید مجھے بھی۔ ممکن ہے کہ اُتنی باریک بینی سے مجھے پھول کی خوبصورتی نظر نہ آئے جتنی میرے آرٹسٹ دوست کو۔مگر ساتھ ہی ساتھ میں اُس پھول میں وہ سب بھی دیکھ سکتا ہوں جو وہ نہیں دیکھ سکتا۔ میں تصور کر سکتا ہوں کہ اُس پھول میں خلیے ہیں، اس پھول کے اندر کیا پیچیدہ عوامل ہو رہے ہیں، ان سب میں بھی تو ایک خوبصورتی ہے۔ میرا مطلب ہے کہ خوبصورتی صرف اس سطح تک محدود نہیں جو نظر آتی ہے بلکہ اسکی باریک تہوں میں بھی خوبصورتی ہے جو آنکھ سے نظر نہیں آ رہی یعنی اس پھول کی اندرونی ساخت میں یا اس میں ہونے والے عوامل میں۔
پھر یہ سائنسی حقیقت بھی تو دلچسپ ہے کہ پھول میں رنگ اس لئے ارتقاء پذیر ہوئے تاکہ وہ کیڑوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکیں جن سے کیڑے انکے بیجوں کو جگہ جگہ پھیلا سکیں۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ کیڑے بھی رنگ دیکھ سکتے ہیں۔تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سادہ جانداروں میں بھی خوبصورتی کی حس پائی جاتی ہے؟ تو یہ خوبصورتی کی حس کیوں ہے؟ اس طرح کے تمام سوالات جو سائنس اس پھول کی خوبصورتی اور پراسراریت میں اضافہ کرتی ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ یہ اسکی خوبصورتی میں کمی کیسے کرتی ہے؟ ( بلکہ اُلٹا یہ اسکی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے).”
رچرڈ فائنمین (مشہور امریکی سائنسدان جنہیں 1965 میں فزکس میں نوبل انعام سے نوازا گیا)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...