اگر میں نے آج تک کسی ادبی شخصیت پر نہیں لکھا تو اس کی ہرگز یہ وجہ نہیں کہ کسی ادبی شخصیت یا اس کے کام نے مجھے متاثر نہیں کیا ۔ بے شمار ادبی شخصیات بالخصوص شعرا سے میں متاثر ہوا اور ان کے بیسیوں اشعار میں نے حفظ کیے ۔ محسن نقوی کو تو میں نے خوب خوب حفظ کیا اور ان کے اشعار ورد کرتا رہا ۔ محسن کی پسندیدگی کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ وہ غزل کے شاعر ہیں اور ان کی کسی بھی کتاب کو اٹھا لیں آپ کو سو سے زائد غزلیات مل جائیں گی اور آپ پڑھتے اور سر دھنتے جائیں گے ۔ ان کے کلام کی اثر پذیری سے بچ پانا محال ہے ۔ کم از کم میں تو بالکل بھی نہیں بچ پایا ۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ میں نے کبھی کسی ادبی شخصیت خصوصا کسی شاعر پر کبھی کوئی کالم نہیں لکھا حتی کہ محسن پر بھی نہیں جس کے ہزاروں شعر مجھے ازبر ہیں۔
آج پہلی بار کسی شاعر پر لکھنا شروع کیا ہے تو وہ کوئی اور نہیں میرے پسندیدہ شاعر اور استاد افتخار شاہد صاحب ہیں ۔
ان سے میرے تعارف کا قصہ بھی کچھ کم دل چسپ نہیں ۔یاد پڑتا ہے کہ آج سے کوئی سات سال قبل میں آٹھویں کلاس کو پڑھا رہا تھا کہ میری نظر ایک لڑکے پر جا پڑی جس کے پاس مجھے زرد رنگ کی ایک کتاب دکھائی دی ۔ میں نے کتاب دکھانے کا اشارہ کیا تو معلوم پڑا کہ کتاب کا نام
" پھول کھلتے مرے اشاروں پر"
اور شاعر کا نام افتخار شاہد ہے ۔ میں نے وہ کتاب بحق سرکار ضبط کی اور چھٹی کے بعد گھر ساتھ لے گیا۔ کتاب کے پچھلے صفحے پر شاعر صاحب کی تصویر کے نیچے یہ دو شعر لکھے ہوئے پائے
بارشوں میں گھر سے باہر آ گئیں
تتلیوں کی خیر مانگو دوستو
قاتلوں کے ہاتھ میں انصاف ہے
اب سروں کی خیر مانگو دوستو
دونوں شعر خاصے پسند آئے تو میں نے کتاب کھول کر ورق گردانی شروع کر دی ۔
سعد کے نام انتساب دیکھتے ہوئے میں حرف آغاز تک پہنچا ۔سچ پوچھیں تو کسی کتاب کے پیش لفظ نے مجھے اتنا متاثر نہیں کیا جتنا زیر تبصرہ کتاب کے پیش لفظ نے متاثر کیا۔ میں کافی دیر یہ تحریر پڑھ کے روتا رہا ۔ سعد اور ابو سعد کے ساتھ یہ میرا پہلا تعارف تھا ۔ میری یہ پرانی عادت ہے کہ میں فون پر کسی سے رابطہ قائم نہیں کرتا ۔ شاید اس لیے کہ کہیں کوئی مجھ سے تنگ اور عاجز ہی نہ آ جائے ۔
لیکن اس دن ناجانے کیا جی میں آئی کہ میں کتاب پر درج نمبر دیکھ کر کال ملا دی۔ دوسری جانب جس نے کال پک کی وہ ایک کار میں سوار اسلام آباد سے گھر (ڈسکہ) واپس جا رہا تھا ۔ وہ بولے کہ فی الحال ٹریفک میں پھنسا ہوں گھر پہنچ کر آپ سے خود رابطہ کرتا ہوں ۔
میں ان کی کال کے انتظار میں کتاب پڑھتا اور محظوظ ہوتا رہا ۔کوئی دو گھنٹے بعد ان کی کال آئی اور تعارف کا مرحلہ طے ہوا۔ پھر تعارف اور بات چیت کا سلسلہ چل نکلا اور ہر دوسرے چوتھے رابطے ہونے لگے ۔ کتاب بھی پڑھی جاتی رہی اور فون پر گپ شپ کا سلسلہ بھی برابر چلتا رہا ۔ میں نے یہ کتاب اکیلے نہیں پڑھی ۔ میرے ماموں سئیں منظر اچوی صاحب جو خود بھی کمال کے شاعر ہیں ' ان کے ساتھ بیٹھ کر کلام پڑھتا اور ان کو سنا کر داد پاتا رہا ۔
کتاب پڑھنے کے کچھ ہی عرصہ بعد میں نے صاحب کتاب کو کہا کہ میں ان پر اور ان کی کتاب پر ایک آرٹیکل لکھنے لگا ہوں ۔ چھ سال پہلے کہی بات پر آج عمل ہو رہا ہے ۔
شاعری کیا ہے ؟
میری نظر میں منتشر جذبات کے منظم اظہار کا نام شاعری ہے ۔ اور اشعار کے مطالعے سے انسان کے قلب و نظر پر جو اثر پڑتا ہے اس پر کچھ لکھنا کچھ ایسا ضروری بھی نہیں کہ یہ بات محتاج بیاں ہی کب ہے ۔ شعر پڑھ کر متاثر ہونا کوئی ایسی انہونی بات بھی نہیں کہ جس پر کسی کو حیرت ہو ۔ میں صاحب کتاب کے فن سے کیوں کر متاثر ہوا اس پر جب جب غور کیا تو پرت در پرت وجوہات کھلتی چلی گئیں ۔ کتاب کی اولین خوبی یہ ہے کہ اس کا بیشتر حصہ غزلیات پر مشتمل ہے ۔
دوسری یہ ہے اکثر غزلیں چھوٹی بحر میں ہیں ۔
تیسری یہ ہے کہ زبان اتنی سادہ ہے کہ نیم خواندہ شخص بھی پڑھ کر حظ اٹھا سکتا ہے ۔ بنا کسی دشواری کے بات کو سمجھ سکتا ہے ۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ شاعر کا ابلاغ غضب کا ہے اور عمدہ سے عمدہ بات کا آسان الفاظ میں قاری تک پہنچا دینا ان کے بائیں کا کام ۔
میرا چونکہ لکھنے لکھانے سے تعلق ہے سو مجھے نصیحت کرتے ہوئے یہ دو شعر ہدیہ کیے ۔آپ شاعر کے حسن بیاں کی تحسین کیے بنا رہ نہیں پائیں گے
کچھ رانجھوں کو ہیریں راس نہیں آتیں
کچھ ہیروں کو رانجھے سہنے پڑتے ہیں
جسموں کو ملبوس اٹھانے پڑتے ہیں
لفظوں کو تحریریں سہنی پڑتی ہیں
آپ کتاب کو کہیں سے بھی اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیں آپ کو لگے گا کہ یہی کلام ان کی کتاب کا حاصل ہے ۔ کسی بھی کتاب میں دو چار اچھی غزلیں اور پانچ سات شعر مل جائیں تو آپ کہیں گے کتاب کی قیمت وصول ہوئی ۔ لیکن یہاں تو یہ انتخاب ہی مشکل لگتا ہے کہ کس غزل کا ذکر کیا جائے اور کسے رہنے دیا جائے ۔ محسن نقوی کی طرح ان کی کتاب اول تا آخر قابل ذکر ہے ۔
حمد کا ایک شعر دیکھیے
تیری بے عیب ذات ہے مالک
میرے شیشے میں بال ہے سائیاں
۔۔۔
ایک شعر نعت کا ملاحظہ ہو
کہی جو نعت محمد تو یوں لگا شاہد
کہ جیسے قرض کوئی جان کا اتارا ہو
۔۔۔
غزل کا ایک شعر دیکھتے ہیں
ساتھ رہنا ہے عمر بھر لیکن
فاصلہ درمیان رکھنا ہے
۔۔۔
ایک اور شعر
باغباں ہے بے خبر اور آج پھر
سارا گلشن بجلیوں کی زد میں ہے
۔۔۔
ان کے کلام سے نمونے کے چند شعر
اگرچہ زور بڑا ظلم کی ہوا کا ہے
دیا خدا نے مجھے حوصلہ بلا کا ہے
۔۔۔
میں آگے بڑھ کے اسے کیسے روک لوں شاہد
سوال دل کا نہیں مسئلہ آنا کا ہے
۔۔۔
تجھ کو میرا غم ہے شاہد
مجھ کو تیرے غم کا دکھ ہے
۔۔۔
میرے من کی ساری کالک
وہ چاہے تو دھو سکتا ہے
۔۔۔
جو ہو سکے چراغ محبت جلائیے
مر بھی گئے تو ان کا اجالا نہ جائے گا
۔۔۔
تو بھی سچ بولنے کا عادی ہے
تو بھی زیر عتاب آئے گا
۔۔۔۔
ان کا پھر نام کون لیتا ہے
راستوں میں جو مر گئے ہوں گے
۔۔۔
میری انکھیں جو خوبصورت ہیں
میری انکھوں میں خواب تیرے ہیں
۔۔۔۔
باقی رہوں گا دوستو مرنے کے بعد بھی
جیسے میرا وجود تھا ہونے سے پیشتر
۔۔۔۔
جن لوگوں سے دل کا رشتہ ہوتا ہے
ان کی سب تقصیریں سہنی پڑتی ہیں
۔۔۔۔
زور چلتا اگر بہاروں پر
پھول کھلتے مرے اشاروں پر
۔۔۔۔
مجبوری کی سولی اوپر
ارمانوں کی لاش پڑی تھی
۔۔۔
درپیش اس کو تخت سے تختے کا ہے سفر
عبرت کا یہ مقام ہے اس کو خبر کرو
۔۔۔
یہ اپنی آنا تھی کہ تہی دست رہا ہوں
ورنہ یہ زمانہ میرے قدموں میں پڑا تھا
۔۔۔۔۔
اک تو یہ درد نہاں تھا پہلے
اور پھر اتنا کہاں تھا پہلے
یا تو یہ چوٹ بہت گہری ہے
یا مرا عزم جواں تھا پہلے
۔۔۔۔
سچ جھوٹ کی پہچان یہاں کون کرے گا
دکھ درد کا سامان یہاں کون کرے گا
احساس کی کربل میں تمناؤں کے لاشے
دفنانے کا سامان یہاں کون کرے گا
۔۔۔۔۔
جیسے موم تھیں میری آنکھیں
جیسے دل میں آگ لگی تھی
——————
جوانی کے گھنے جنگل میں شاھد
تمہاری یاد کا اونچا شجر ہے
——————
جگر کے پار تک اتروں گا شاھد
نظر کو تیر کرنا چاہتا ہوں
——————-
مجھ کو ملا تو تھا مرا ہمزاد ایک دن
مجھ سے مجھی کو چھین کر جانے کدھر گیا
بیٹھے گا کس کے سر پہ ہما اب کے دیکھئے
پھر بادشاہِ شہرِ خداداد مر گیا
—————–
پھر یوں ہوا کہ میری بصارت ہی کھو گئی
آنکھوں میں تیری دید کا منظر ٹھہر گیا
مہمان بن کے آئے تھے اور مستقل رہے
رنج و الم کو گھر مرا اتنا بھلا لگا
—————–
ظلم و ستم کے سامنے سر تو نہیں جھکا
ان آندھیوں سے ایک دیا بھی نہیں بجھا
——————
کب غلامی کی رات گزرے گی
دھوپ اترے گی کب چناروں پر
——————
لکھتا ہوں تری یاد کی تختی بھی میں گاہے
یہ شوق مگر حد سے زیادہ بھی نہیں ہے
—————-
دل ہمارا مر گیا تھا ہجر کے پہلے ہی روز
جسم زندہ ہے سزائے موت پانے کے لئے
—————-
درد کی اس آگ کو مدہم نہیں ہونے دیا
زخم کو شرمندہء مرہم نہیں ہونے دیا
گاہے گاہے دل کی باتوں پر عمل کرتے رہے
ہاں مگر اس بات کو پیہم نہیں ہونے دیا
————–
ایک مختصر سی نظم ملاحظہ ہو
ان جانے
اور ان دیکھے
اندیشوں می جو گھر جاتے ہیں
موت سے پہلے مر جاتے ہیں
۔۔۔۔۔
میں نے یہاں شعر درج کیے ہیں حالانکہ کئی ایسی غزلیں ایسی تھیں کی پوری کی پوری لکھی جا سکتی تھیں ۔
آخر میں میں یہ کہے بنا رہ نہیں سکتا کہ محترم افتخار شاہد جتنے اچھے شاعر ہیں اس سے بڑے کہی بڑے انسان بھی ہیں
میں سعد کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جس کی محبت نے افتخار شاہد کو انسانیت سے محبت سکھائی ۔