میرا ایک دوست ہے جو کہ ایک آرٹسٹ ہے۔ وہ ایک پھول اٹھاتا ہے اور کہتا ہے “دیکھو، یہ کس قدر خوب صورت ہے۔” میں بھی اس کی بات کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں۔ پھر وہ کہتا ہے، “ایک آرٹسٹ کے طور پر میں اس کی خوبصورتی کو دیکھتا ہوں، اسے محسوس کرتا ہوں، اس کی تعریف کرتا ہوں لیکن تم لوگ جو سائنس دان ہو، اس کو الگ الگ کر دیتے ہو اور اس کو ایک بیکار سی شے بنا دیتے ہو۔” لیکن مجھے اپنے دوست کی اس بات سے اتفاق نہیں۔
جو خوبصورتی وہ دیکھ رہا ہے وہ تو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے اور میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ اگرچہ میری جمالیاتی حس اتنی اچھی نہیں ہے جتنی میرے دوست کی لیکن میں بھی تو خوب صورتی کو محسوس کرتا ہوں۔ لیکن پھر اس پھول کی خوبصورتی کو اس سے کہیں زیادہ گہرائی میں دیکھ لیتا ہوں۔ خوبصورتی صرف ایک جہت میں تو نہیں۔ ایک سینٹی میٹر والی جہت جو آنکھ سے نظر آ جاتی ہے، خوبصورتی تو اس سے چھوٹی جہتوں میں بھی موجود ہے ۔اس کے اندر کے سٹرکچر میں۔ اس کے اندر چلنے والے پراسس میں۔
مثلا، یہ حقیقت معلوم کر لینا کہ اس کے رنگوں کا ارتقا کیڑوں کو لبھانے کیلئے ہوا، ان کے ساتھ ہوا، یہ دلچسپ نہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کیڑے بھی ان رنگوں کو دیکھ لیتے ہیں۔ اس سے ایک اور نیا سوال جنم لیتا ہے۔ کیا یہ جمالیاتی حس زندگی کے ان نچلے سمجھے جانے والے درجوں میں بھی ہے؟ اور یہ جمالیاتی حس ہے ہی کیوں؟ یہ سب اور اس طرح کے جنم لیتے ہر طرح کے سوالات، جو ہمارا سائنس کا علم ہے، اس پھول کے اسرار میں، اس کے حسن میں، اس سے دیکھ کر ہونے والی خوشی میں مزید اضافہ کرتے ہیں، کمی تو نہیں۔
(یہ رچرڈ فائنمین کے مونولاک کا ترجمہ ہے)