یاران مہربان۔۔ اسلام اباد سے کراچی تک کی مسافرت کا سلسلہ اگرفاصلہ طے کرنے کی بات ہوتی تویہ دو گھنٹے سے بھی کم کی پرواز تھی لیکن اس بار کرنا خدا کا یوں ہوا کہ مسافر نےاور عزیزم رمضان نے ایک ساتھ ہی اس شہر بے اماں میں نزول فرمایا اور تب سے ع ایک چکر ہے مرے پاوں میں رمضان نہیں ۔ ۔بیشتر میزبانوں نے روزہ داری کے اصول "نظریہ ضرورت" کا استعمال کرتے ہوۓ کچھ یوں بدلے کہ روزہ آسان ہومگر ثواب میں کمی نہ ہوا۔۔بلکہ دن سوکے گزارنے اور رات جاگنے سے مکہ مدینہ کے معمول کی مقدس خوشی بونس میں مل جاۓ۔۔ جون کی گرمی کی آزمایش کو قوم کے نونہالوں نے آسان کیا کہ مکتب سے فراغت ہے ورنہ ماوں کیلۓ نہار منہ ان کی رخصتی کو ممکن بنانا بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے۔اب وہ محاورے کے مطابق تو گھوڑے بیچ کے سوتی ہیں ۔۔ عملا" خاندان میں کسی کا گھوڑے سے تعلق شکوہ جواب شکوہ والے بحر ظلمات میں دوڑاۓ جانے والے گھوڑوں تک ہی رہ گیا ہے۔۔
یوں بھی بفضل خدا ۔۔ ہم ایسی مستقل مزاج قوم ہیں کہ شرم کسی شاندار نادیدہ ماضی میں آتی ہو تویہ ہم جیسے آثار قدیمہ سے بھی پہلے کی بات ہوگی ۔۔ع اب کسی بات پر نہیں آتی ۔ مثلا" کوشش ناکام کرنے والے دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ کافر ملک جرمنی کی خلاف شرع منتخب ہونے والی زنانہ امیریعنی چانسلراینجلا مرکل نے۔۔( جو بار دگر دنیا کی سب سے با اثر شخصیت کا اعزاز حاصل کر چکی ہے ) ۔۔ احکام صادر فرمادۓ ہیں کہ مومنوں کو دوران رمضان تمام اشیاۓ خوردونوش تیس فیصد کم پر فراہم ہوں۔ ولایت انگلستان میں بھی یہ ہوا اور کچھ ایسا ہی "پروپیگنڈا" دایمی دشمن سرحد پار سے کرتا ہے۔اس پر یقین کریں توہم پر "بھارتی ایجنٹ" کا لیبل بہ آسانی لگ جاۓ چنانچہ عافیت اسی میں کہ دروغ بر گردن راوی کہہ دیں۔۔لیکن جناب مجال ہے جو ہمارے گراں فروشی کے عزم مصمم میں ذرہ برابر فرق پڑے۔ہر سال گراںفروشی کا جذبہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا محسوس ہوتا ہے
رمضان کے ' تازہ بہ تازہ نو بہ نو' لطایف بھی خوب گردش میں ہیں لیکن ان کو دہرانے سے بھی گریز لازم ہے کہ ہم کسی فتوے کےڈرون کی زد میں نہ آجاییںؑ ۔ یہاں امجد صابری جیسے مرجاں مرنج شخص کی جاۓ شہادت کو دو گھنٹے بعد گزرتے ہوۓ دیکھا توعبرت کے ساتھ ایمان کی تجدید ہویؑ کہ آدمی بلبلہ ہے پانی کا۔۔ ،،، خصوصا" اس عروس البلاد کی تہمت رکھنے والے شہر میں جہاں پانی کمیاب ہے اور خون ارزاں۔اس کی پیاس بہت
یاد آیا کہ بات تھی ہمارے اس شھر میں نزول اجلال کی اور ہم بتانا یہ چاہتے تھے فیس بک سے دوری کے اسباب لیکن بقل شاعر؎ ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا۔۔۔ بات پہنچی تری جوانی تک۔،،، احباب سے تجدید تعلق ہم ہر شب بعد از طعام کرنے کے عادی تھے ۔اب روزہ کشایؑ اور بعد ازیں طعام کا سلسلہ ۔۔ جسے "افطارکم بوفے ڈنر" کا فیشن ایبل نام دیا گیا ہے۔ مغرب سے شروع ہوتا ہے تونصف شب تک چلتا ہے۔ اب میزبانی کا جبر مسلسل جس حد تک یہ ناچیز مہمان خصوصی برداشت کر سکتا ہے کرنا پڑتا ہے ؎کیال خاطر احباب چاہۓ ہر دم۔۔خواہ اس میں دم ہی کیون نہ نکلتا ہو۔آج صبح دم ہمت کی کہ کچھ تو کہۓ۔۔ لوگ کہتے نہ ہوں کہ ؎آج غالب غزل سرا نہ ہوا
خوش گمانی بھی اچھی چیز ہے
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1042855112463173